گلوبلائزیشن نے دُنیا کو کیا دیا؟ میڈیا، معاشرت، صنعت و تجارت، سیاست سب کچھ گلوبل ہوتا جارہا ہے، لیکن سوال یہ کہ انسان کو اس نے کیا دیا؟
گلوبل میڈیا، پوری دُنیا کی میڈیا چار پانچ لوگوں کی گرفت میں ہے، کہنے کو ہمارے ملک میں ڈیڑھ سو چینل ہیں اور سب کے سب آزاد نظر آتے ہیں، لیکن یہ آزادی بھی جھوٹ، بے حیائی اور چند بڑی کمپنیوں کی مصنوعات کو پھیلانے کی پابند ہیں۔
ایک عام آدمی کو میڈیا سے کیا ملتا ہے؟ عام آدمی سے متعلق چند خبریں اور دُنیا بھرکی غیر متعلق خبریں، بے نتیجہ ٹاک شوز، ایک عام آدمی کا ذہن اوراعصاب اتنے مضبوط نہیں ہوتے کہ وہ دُنیا کے کونے کونے میں ہونے والی خرابیوں کی خبروں کا بوجھ اُٹھا سکے۔ نیوریاک میں جنونی نے اسکول میں گُھس کر فائرنگ کردی، جس سے بے گُناہ مارے گئے، اس خبر سے پاکستان کے گاؤں دیہات یا شہر میں رہنے والے کے لیے کیا افادیت ہے؟
بڑی اور اہم خبریں جلد یا بدیر پہلے بھی ہم تک پہنچ ہی جاتی تھیں، آج کے برق رفتار میڈیا کی وجہ سے ہمیں اور امریکہ کی عوام کو ایک ہی وقت میں یہ معلوم ہوگیا کہ ٹرمپ صدارتی انتخاب میں کام یاب ہو گئے ہیں۔ اگر موجودہ برق رفتار برقی میڈیا نہ ہوتا تو ہم ایک دن بعد یہ جان جاتے کہ ٹرمپ الیکشن جیت گئے ہیں، ممکن ہے حکم رانوں کو ٹرمپ کی کام یابی کی فوری اطلاع کی ضرورت ہوتی تو انہیں معلومات موجودہ برق رفتار میڈیا کے وجود میں آنے سے پہلے بھی مل جاتیں۔ ان کے سیکرٹریٹ میں اس کا انتظام ہوتا ہے۔ میرے جیسے عام آدمی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کی خبر مجھے آج ملے یا کل ملے، لیکن فوری خبر کی اس دوڑ نے دُنیا میں جھوٹ کو فروغ دیا ہے، خصوصاً ہمارے جیسے ملک کا میڈیا، جو سب سے پہلے، فوری خبر، ہمارا چینل بازی لے گیا، تیز ترین، سب سے بڑا گروپ، سب سے بڑے اینکر، سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کی دوڑ میں خبر، افواہ، مصدقہ غیر مصدقہ، سچ اور جھوٹ جیسے الفاظ کے معنوں سے ناواقف ہوگیا ہے، حد یہ کہ ہمارے میڈیا کے اینکر شادی کے موقع پر دلہن کے ماں باپ سے پوچھتے ہیں کہ ’’آپ کوذمّے داری ادا کرنے پرکیسا لگ رہا ہے؟‘‘ اور اسی طرح یہ لوگ اپنا مائیک مرنے والے کی ماں کے منہ میں گُھسا کر پوچھتے ہیں کہ ’’آپ کو اپنے بیٹے کے مرنے پر کیسا لگ رہا ہے؟‘‘
آرمی اسکول پشارو میں دہشت گردوں نے ھلہ بول دیا۔ ڈیرھ سو کے قریب بچے جاں بحق ہوگئے، بچے اسکول پڑھنے گئے تھے اور ہمارے میڈیا نے اس طرح اُنہیں پیش کیا، جیسے وہ بستہ باندھ کر محاذ پر گئے تھے، یہ واقعہ کیوں ہوا ،آئندہ ایسے واقعات سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ سب کچھ ہمارے میڈیا نے جنگی ترانوں میں گُم کردیا۔
ہر معاشرے کے رسم و رواج، بود وباش، شرم و حیا کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں، گلوبل میڈیا نے ان سب کو اُلٹ پُلٹ کر رکھ دیا ہے، چند دھائیوں پہلے بعض مصنوعات کے اشتہارات دگُنا پیسا دینے پر بھی اخبارات و رسائل میں شائع نہیں ہوتے تھے، لیکن اب ہماری ٹین ایجر لڑکیاں ’’ویٹ گرل‘‘ کے ٹائیٹل کو پاکر فخریہ انداز میں کیمرے کے سامنے چہل قدمی کرتی ہیں، ممکن ہے امریکہ اور یورپ میں اس کی کوئی اہمیت نہ ہو کہ کوئی راہ چلتا کسی لڑکی کو دیکھ اُس کے حُسن کی تعریف کرے اور لڑکی تھینکس کہہ کر مسکراتی ہوئی آگے بڑھ جائے یا کوئی لڑکی راہ چلتے کسی اجنبی سے پوچھ لے کہ میرے فیگر کیسے ہیں اور اپنی تعریف پر خوش ہوکر آگے بڑھ جائے، لیکن ہمارا معاشرہ اور ہمارا فرد ان باتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہمارے معاشرے کی ساخت اور اُٹھان مختلف ہے، ہم اگر اوروں کی نقل کرنے کی کوشش کریں گے تو اپنی اصل بھی گُم کردیں گے، جب کہ گلوبل میڈیا ہمیں ہمارے رسم ورواج اقدار سے ہٹا رہا ہے میڈیا بے حیائی پھیلانے پر مُصر ہے وہ عریانی فحاشی کو فخر اور حیا کو عیب، جھوٹ کو سچ، غیر اہم کو اہم بنانا چاہتا ہے، ہمارا اختیار صرف اتنا ہے کہ بے حیائی پھیلانے کا کام ہم چاہیں تو مائرہ خان سے لے لیں یا اس کے لیے کرینہ کپور کا انتخاب کرلیں، گلوبل میڈیا نے اس کا راستہ کھول دیا ہے کہ فلم لالی وڈ کی ہوسکتی ہے اور بالی وڈ کی بھی ہوسکتی ہے اورہالی وڈ کی بھی ہوسکتی ہے، یہ نقد نتیجہ ہے گلوبل میڈیا کا۔
میرے جیسے عام آدمی کی معاش، معیشت، صنعت و تجارت کو اس گلوبلائزیشن نے کیا دیا؟ ہری پور، ہزارہ میں محکمہ ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف کے تحت ٹیلی فون انڈسڑی آف پاکستان(TIP)،سیکڑوں لوگوں کا یہاں روزگار لگا ہوا تھا، اس فیکڑی کے آثار آثارِِ قدیمہ کی شکل میں آج بھی موجود ہیں، یہ فیکڑی فون سیٹ بناتی تھی، یہ سیٹ آج ملنے والے فون سیٹ سے زیادہ قیمت کا تھا، لیکن دادا کے خریدے ہوئے فون سیٹ پوتے بھی استعمال کرتے تھے، ہمارے عظیم دوست چائنا نے کم قیمت اور کم معیار رنگ برنگے فون سیٹ بنا کر دُنیا میں پھیلا دیے، اب ہم ہر دوسرے مہینے سیٹ خراب ہونے پر نیا سیٹ لے آتے ہیں، کم قیمت جو ہوا، لیکن دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے، یعنی ٹی آئی پی کے روزگار سے چلنے والے سیکڑوں لوگ کوئی خطا کیے بغیر بے روزگار ہوکر روڈ پر آگئے، ایسے بے شمار کارخانوں، ملز، فیکڑیوں کو تالا لگ گیا اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے، کروڑوں گھروں کا چولہا ٹھنڈا ہوگیا، یہ نقد نتیجہ ہے گلوبل صنعت اور تجارت کا، آج چین کے ساتھ سی پیک کا چرچا ہے، ہمارا معاش، معیشت، سیاست، ریل، روڈ سب اس سے متعلق ہوگئے ہیں۔ برطانیہ روس، ایران اس میں دل چسپی لے رہے ہیں، جس منصوبے کے بینی فشری یہ دیو قامت ممالک ہوں، وہاں ہمارے جیسے ملک کا کیا بنے گا، جس کے حکم ران اپنی چھوٹی چھوٹی نفسانی خواہشوں کے لیے اپنی اور اپنے ملک کی عزّت کو بیچ دیتے ہیں۔ یہ ہے نقد نتیجہ گلوبل صنعت و تجارت کا۔
پہلے دشمن اپنے گھر میں بیٹھ کر ایجنٹوں کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرتا تھا، اب گلوبلائزیشن نے پوری دُنیا کی فوج کو کھنڈر افغانستان میں لاکر بٹھا دیا ہے، روس اور امریکہ بظاہر ایک دوسرے کے دشمن بن کر اپنے مشترکہ دشمن مسلمانوں کو حلب میں تیع تیغ کررہے ہیں، یہ ہے نقد نتجہ دفاعی گلوبلائزیشن کا۔
بلاشبہ، دُنیا میں ہونے والی تبدیلوں اور نت نئی فارمیشن کو روکا نہیں جاسکتا اور نہ ان ان تبدیلوں سے لا تعلق رہا جاسکتا ہے، اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے، جو ہمارے بس میں ہے۔ ہم اپنے حکمرانو ں کا انتخاب لسانی، ذاتی معاشی مفادات، لسانی و مسلکی عصبیت سے بالاتر ہوکر کریں اور ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو ذلوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہوں، جو آخرت میں جواب دہی سے ڈرتے ہوں، جو ذاتی، خاندانی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچ سکتے ہوں، جو بانٹنے والا ہاتھ بن کر خود محروم رہ جانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔
چند برس پہلے میں نے یہ مشورہ اپنے مضمون میں دیا تھا کہ جماعت اسلامی کے تنظیمی انتخاب کو ملکی طرز انتخاب سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے، مرحوم سراج منیر کے مطابق ’’ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی‘‘ کے مصداق چند دن پہلے امیر جماعتِ اسلامی پاکستان جناب سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں کروائے جائیں۔
سیاسی جماعتیں اجتماعی مفاد اور مقاصد کے حصول کے لیے بنتی ہیں، انتخابی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا مقبول ہونا ضروری ہے، ویسے تو انتخابی سیاست میں کسی مستقل نظریے کی گنجائش نہیں ہوتی، لیکن جن جماعتوں کی بنیاد ہی نظریہ ہو، وہ بدلتے حالات یا اکثریت کے مزاج کے تابع ہوکر اپنی اساسی نوعیت کو تبدیل نہیں کرسکتیں، لیکن ایسے معاملات پر ضرور نظرثانی ہوتی رہنی چاہیے، جو مقصد کی راہ میں رُکاٹ ہوں اور اُن کی رومانس سے زیادہ کوئی اور اہمیت نہ ہو!!
nn