(اگر جواں ہو میری قوم کے جسور وغیو ر(آمنہ نسیم

776

علم رنگ وبو میں اقوام وملت کی ترقی و کامرانی کا راز کسں بات میں پنہاں ہے ۔اگرہم تھوڑی دیرسوچ و بچار اور فکروتدبر سے کام لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کی ترقی و کامیابی کا بھید افراد کی اجتماعی کاوش میں پوشیدہ ہے۔قومیں چونکہ افراد سے مل کر بنتی ہیں اس لیے جب قوم کا ہر فرد محنت و مشقت کو اپنا شعار بنالے تو ترقی ان کے لیے قدم چومنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دنیا میں کامیابی حاصل کرنا مقصود ہو تو سکون اور تساہل کو چھوڑ دینا چاہیے۔زمین میں مہکتے گلاب پیدا کرنا مقصود ہو توپھر انسان کو اپنا لہو بھی بہانا پڑ جائے تو تعجب کی بات نئیں ہے۔مسلمان نوجوان قوم کی امیدوں کا سہارا ہوتاہے۔اس کا چباب برق کی طرح ہے اور وہ بلند پرواز ہے مسلمان موت سے نئیں ڈرتا ہے بلکہ موت مسلمان سے ڈرتی ہے دراصل جذبہ صادق ہو تو نوجوان میں بے پناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہ قوت انسان کو نئی دنیاوں کی دریافت کے لیے اکساتی ہے ۔ جذبہ صادق انسان میں اتنی قوت پیدا کردیتا ہے کہ فرہاد کی طرح پہاڑ کاٹنے کی بجائے پورے سلسلہ کوہ ہی کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔وہ ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے اور نئے جہاں دریافت کرتا ہے۔ مجاز نوجوان کو امیرانہ طریق کا شائق نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ قوت اور تیز رفتاری کو پسند کرتا ہے۔
اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں
خوش قسمتی محنت کی اولاد ہے اپنی تعمیر آپ کرنے والا اپنے خالق کی پرستشں کرتا ہے۔ قسمت خوشحالی کے وعدوں پر ہی ٹال دیتی ہے۔ لیکن محنت سے آسود حالی آتی ہے۔ وہی انسان کامیاب ہوتا ہے جو محنت اور استقلال کو اپنا شعار بناتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئلوں کی سیاہی اسی وقت دور ہوتی ہے جب وہ آگ میں داخل ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب خون پسینہ ایک ہوتا ہے ۔تب کہیں گوہر مقصودہاتھ آتا ہے ۔جوشں ایمانی کے ساتھ ساتھ محنت و استقلال کادرس دیتا ہے اور انسان کو عملی طور پر محنت کے لیے ابھارتا ہے۔
کامیابی کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ قوم کو اپنے نوجوان پر فخر ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس عالم رنگ و بو میں اقوام عالم کی کامیابی کا راز جرات اور حوصلہ مندی میں ہی پنہاں ہے ۔ تھوڑی دیر سوچ و بچار اور فکرو غور سے کام لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی ترقی اور کامیابی کا بھید نوجوانوں کی اجتماعی محنت اور کوششں میں پوشیدہ ہے۔ جب قوم کا نوجوان محنت کو اپنا شعار بنالے تو ترقی اس کے قدم چومنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔ جسں قوم وملت کے نوجوان محنت کے عادی ہوں وہ قوم کبھی نامراد نئیں ہوسکتی۔ ملت اسلامیہ میں جب تک فرد شان اسلام موجود رہے یہ قوم بلندی سرفرازی کی اعلی منازل طے کرتی رہی اور ہر سو عالم میں اس کی شان و شوکت کے ڈنکے بجتے رہے ۔ تاریخ اسلام کی ورق گردانی سے ہمیں سینکڑوں جاں نثار ان اسلام ستاروں کی طرح جگمگاتے نظر آئے جنہوں نے اسلام کے لیے قربانیاں دیں۔
تاریخ زبان حال سے پکارپکار کر کہہ رہی ہے کہ جس قوم نے محنت کو چھوڑ کر عیش کوشی کو اپنا شعار بنایا اور تیغ و سناں کو چھوڑ کر طاوس ورباب کو اپنی زندگی بنالیا وہ قوم صحفہ ہستی سے مٹ گئی۔ہمارے نوجوان کو قرن اولی کے نوجوانوں کے نقش قدم پرچلتے ہوئے اپنے اندر اسلاف کی دائمی عزت بحال کرنی چائیے۔نوجوان کی جوانی قوم کی امانت ہے۔قوم کی نظریں نوجوانوں پر لگی ہوئی ہیں۔وہی اس کی امیدوں کا سہارا ہے لہذا ضروری ہے کہ ملت کی سرفرازی کے لیے اس خارزار جہاں میں گلاب پیدا کرنے چاہئیں۔ اسی سے قوم مسلم کا وقار بلند ہوسکتا ہے۔نوجوان کامیابی وکامرانی کے لیے اپنی جوانی کو ایسا اچھوتا بنالے کہ ستارے اس کے راستے کی دھول بن جائیں۔ وہ ستاروں پر کمندیں ڈالیں بلکہ ستاروں سے آگے کی بلندیوں کو بھی چھولے اور دنیا پر واضح کردے کہ مسلمان نوجوان ان بلندیوں کا حامل ہواکرتاہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ طاغوتی طاقتیں اسلام کو مٹانے کے لیے ہمیشہ برسر پیکارہی ہیں اور ان باطل طاقتوں نے اسلام کو مٹانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن مسلمان نوجوان نے ہمیشہ جرات،اصول پرستی،دوستی،فرضی شناسی،سیاسی بصیرت،رجائیت پسندی،مستقل مزاجی،ایثارنفسں اور حق گوئی و بے پاکی سے کام لیا۔
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
اگر باطل کی قوتوں کو ختم کرنے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بطور نذرانہ دینا پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسی قربانی رائیگاں نہیں جاتی۔ مسلمان ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ اللہ کے دوست کبھی خوف وحزن کا شکار نہیں ہوئے بلکہ وہ موت کاخندہ پیشانی سے خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ فنا دراصل ان کے لیے بقائے دوام کا پیغام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’خدا کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت کہو وہ تو زندہ ہیں مگر تمہیں اس کاشعور نہیں۔‘‘
اے میرے وطن کے نوجوانوں اگر تیرے لہو کی بوندیں حق و صداقت کی پاسداری کے لیے زمین پر گر پڑیں تو تجھے اس وقت کا غم نہیں کرنا چاہیے۔حق طلبی،نصرت دین،استقلال،صبرو رضا،توکل اور جوش و جذبے کے ساتھ باطل کی قوتوں سے ٹکرا جانا چاہیے یقیناًتیرے لہو کی بدولت خارزار جہاں میں بھی گلاب پیدا ہوں گے۔ تیری قربانیاں رنگ لائیں گی۔ خون کا نذرانہ دے کر ہی گلشن ہستی کو سینچا جاسکتا ہے کیونکہ اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت ہوچکی ہے ۔

حصہ