’’آخر میں اتنا ہی کہوں گی کہ:
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لٹا دیا
میرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا‘‘
عافیہ حریم اپنی تقریر ختم کرکے روسٹرم سے ہٹی تو پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا، مگر عافیہ بے نیازی سے اپنا اسکارف درست کرتی ستائش کا جواب سر ہلا کر دیتی اپنی نشست کی جانب بڑھی اگلے مقرر کی بات سنتی رہی جو کہہ رہا تھا ’’اُف یہ محترمہ اس قدر گرج برس کر گئی ہیں کہ مائیک سے ابھی تک چنگاریاں نکلتی محسوس ہورہی ہیں۔‘‘
پُرجوش طلبہ و طالبات زور زور سے نعرہ زن تھے ’’عافیہ، عافیہ، عافیہ‘‘۔۔۔ مگر ان صداؤں سے بے نیاز عافیہ اپنی فائل پر جھکی ردِ دلائل لکھتی رہی۔
۔۔۔*۔۔۔
’’امی! امی! ابو جی! کہاں ہیں آپ۔۔۔‘‘ عافیہ کی چہکتی ہوئی آواز دروازے سے ہی امی ابو کو پتا دے گئی کہ آج پھر ان کی لاڈلی تقریری مقابلہ جیت کر آئی ہے۔
’’کیا ہے، کیوں شور مچا رکھا ہے، کیا ہوا؟‘‘ امی نے قدرے بے زاری دکھائی۔
’’آپ کی بیٹی حسب معمول تقریری مقابلے کا اوّل انعام لے کر آئی ہے۔‘‘ عافیہ ناز سے ماں کے گلے سے جھول گئی۔
’’ارے واہ میری شہزادی، مجھے پتا تھا کہ اوّل انعام تو میری بیٹی ہی لے گی، مبارک ہو بہت۔‘‘ ابو جان اپنے کمرے سے چشمہ صاف کرتے ہوئے نکلے اور آگے بڑھ کر عافیہ کے ماتھے پر بوسہ دے کر بولے۔
عافیہ، جسے ماں نے بے زاری سے پرے دھکیل دیا تھا، باپ کی ستائش پر کھل اٹھی اور لگی تواتر سے تقریب کی تفصیلات بتانے، اور ابو جان بھی حسب معمول دل چسپی سے سنتے اور حوصلہ افزا جملے کہتے رہے کہ امی طنطنا کر بیچ میں بول اٹھیں ’’ہاں باپ بیٹی سارا دن بیٹھ کر یہی راگ الاپتے رہیں، ادھر پانی سر سے گزرتا چلا جارہا ہے۔‘‘
’’کون سا پانی۔۔۔ کیسا پانی! آج تو پانی کی باری ہماری طرف کی نہیں تھی، پھر پانی کیسے اتنا آگیا کہ سر سے بھی گزر گیا اور ہمیں پتا بھی نہ چلا‘‘! ابو جان نہایت تجاہل عارفہ سے بولے تو امی کا غصہ گویا ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔
’’ہر وقت کا مذاق بھی اچھا نہیں ہوتا، آپ کی انہی باتوں نے بنو رانی کو شہہ دے رکھی ہے۔‘‘ امی جان بھی کھری کھری سنا گئیں۔
’’ارے بتایئے تو کس نے جرأت کی پانی آپ کے سر سے گزارنے کی! آپ کے سر کی قسم ہم آج اس کی جان لے لیں گے یا آپ کی جان دے دیں گے، آپ بتایئے تو سہی۔‘‘ ابو جان مسکین سی صورت بنا کر بولے۔ امی نے تو غصے میں جملوں پر دھیان نہیں دیا البتہ عافیہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی۔ امی کو اور غصہ آیا۔
’’ہاں ہنس لو بی بنو، ہنس لو، یہی دن ہیں ہنسنے کے، تم ہنسے جاؤ ابا ہنساتے جائیں، جب سدھارو گی سسرال تو ساری ہنسی چولہے میں جھونکی جائے گی، تب سر پکڑ کر روؤ گی کہ کاش اماں جب سمجھاتی تھیں تو کچھ سمجھ جاتے۔‘‘
’’ارے بیگم اچھی باتیں منہ سے نکالیے، روئیں میری بیٹی کے دشمن۔ میری بیٹی کیوں روئے!‘‘ ان کے الفاظ نے ابو جان کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا اور وہ ڈپٹ کر بولے۔
’’باتیں منہ سے نکالوں یا نہ نکالوں، آپ کو کہے دیتی ہوں کہ جلدی بٹیا کو پیا کے دیس بھیجیں، عمر گزر گئی تو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آج مریم آپا آئی تھیں، ان کو جلدی ہے، کہہ رہی تھیں کہ اگلے ماہ کی تاریخ دے دو، گھر کی بات ہے سادگی سے بیاہ کریں گے، نہ کچھ لینا ہے نہ دینا ہے، بس تاریخ طے کرو اور ہماری امانت ہمارے حوالے کرو۔ اور یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ اب جوڑوں کے درد سے ہلا بھی نہیں جاتا، عافیہ آجائے تو گھر کی فکروں سے آزاد ہوجاؤں۔۔۔ اور اِدھر باپ بیٹی ہیں کہ ان کا ہنسنا ہنسانا اور سننا سنانا ہی ختم نہیں ہوتا، ہر وقت ہنسی ٹھٹھول، کوئی حد ہوتی ہے کسی بات کی۔‘‘ امی شروع ہوئیں تو نان اسٹاپ بولتی چلی گئیں۔ عافیہ نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ کمرے سے کھسک جائے۔
۔۔۔*۔۔۔
صبح کے چار بج رہے تھے کہ عافیہ کی آنکھ کچن میں برتنوں کی آواز سے کھل گئی۔ وہ سرخ انگارہ آنکھوں کو مسلتی فوراً دوپٹہ درست کرتی کمرے سے نکلی اور کچن میں جاکر شرمندگی سے بولی ’’ہٹیے ابو جان، میں ناشتا بنائے دیتی ہوں، مجھے ذرا دیر ہوگئی اٹھنے میں، شاید الارم نہیں بجا تھا۔۔۔ سوری۔‘‘
مگر یہ ابو جان اس کے اپنے والدِ گرامی نہ تھے بلکہ شوہر نامدار کے والدِ بزرگوار تھے، سو رعونت سے بولے ’’رہنے دو، ہم خود بنانا جانتے ہیں ناشتا۔۔۔ جب سے مریم بیمار ہیں ہم خود ہی بناتے ہیں، جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تمہیں آئے، ابھی کہاں تمہیں عادت ہوگی جلدی اٹھنے کی، اور 5 بجے ہماری گاڑی ہمیں لینے آجاتی ہے، جاؤ سوجاؤ جاکر، ہم نے کہا تھا بیگم سے کہ یہ تقریریں کرنے والی بچیاں گھروں کو بھی سیاست کا میدان سمجھتی ہیں، یہاں بھی تقریریں کروالو، کام کا کیا ہے ہم ہیں ناں، کرتے رہیں گے۔‘‘ سسر صاحب معافی کا موقع دیے بغیر بولتے چلے گئے اور ٹرے میں دودھ کا گلاس اور پاپے لے کر اپنے کمرے کی طرف مڑ گئے۔
عافیہ کھڑی ہاتھ مسلتی، آنسو بہاتی ماں کے جملے یاد کرتی سسک پڑی ’’ہائے اماں آپ نے کیوں نہ بتایا کہ شادی کے بعد ساری خوبیاں خامیاں بن جاتی ہیں جو بابل کے آنگن سے جڑی ہوئی ہیں۔‘‘
آج عافیہ کی شادی کو 15 دن ہوئے تھے اور دوسرے دن سے کچن سنبھال کر دل جمعی سے تمام خدمات سرانجام دینے کے باوجود آج پہلی کوتاہی پر یوں تادیب کی گئی کہ دل کے سارے درد، ان پندرہ دنوں کی ساری تھکن آنکھوں کے راستے کچن کے فرش پر گر گر کر اِدھر اُدھر پھسل کر بے مول ہوگئی۔
۔۔۔*۔۔۔
’’اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملوا دیں، میرا اور آپ کا کام یہی ہے، اور یہ کام ایسے ہی مجھ پر اور آپ پر فرض ہے جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج۔‘‘ سر سے پیر تک حجاب میں ملبوس خاتون کے لہجے کا زیروبم سننے والوں کے دلوں پر جیسے ثبت ہوتا جارہا تھا۔ درس کے بعد رقت آمیز انداز میں دعا پر تقریب کا اختتام ہوا۔ بچوں کی انگلی تھامے عافیہ جب گیٹ سے باہر نکلنے لگی تو ایک آواز پر رکنا پڑا۔
’’اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ عافیہ تحریم ہیں ناں۔‘‘
’’میں عافیہ تحریم تھی، اب عافیہ حارث ہوں۔‘‘ عافیہ نے متانت سے جواب دیا تو سوال پوچھنے والی ہستی والہانہ عافیہ سے لپٹ گئی۔
’’عافیہ! میں ماہ نور ۔۔۔ ماہ نور ذکا، تم نے پہچانا مجھے؟‘‘ عافیہ نے بغور دیکھا تو شناسائی کی رمق اس کے چہرے پر ابھر کر معدوم ہوگئی۔ جواباً اس نے بھی اسی گرم جوشی سے ماہ نور کا حال احوال دریافت کیا اور ایک دوسرے کے گھر کے پتے لے کر رخصت ہوگئیں اس وعدے کے ساتھ کہ پھر ملیں گے۔
۔۔۔*۔۔۔
صبح کے دس بجے تھے کہ ڈور بیل بجنے پر عافیہ جلدی جلدی وائپر سے صحن صاف کرکے دروازہ کھولنے گئی۔ سامنے ماہ نور کو دیکھ کر اسے خوشی ہوئی، ساتھ ہی برآمدے میں لگی گھڑی پر نظر گئی جودس بجا رہی تھی، یعنی اس کے پاس صرف ایک گھنٹہ تھا۔ کام سارا ہوچکا تھا، کھانا بھی پک چکا تھا، روٹی ڈالنی باقی تھی۔ وہ بچوں کو اسکول سے لاکر ڈال لوں گی۔ ابھی اسے بھی درس پر ساتھ ہی لے جاؤں گی۔ اس نے دل ہی دل میں حساب کتاب کرتے خوش دلی سے ماہ نور کو خوش آمدید کہا اور اسے لے کر اپنی ساس کے کمرے کی طرف چل دی۔
’’امی جان! یہ ماہ نور ہے، میرے بچپن کی سہیلی۔ اس دن مسز امجد کے گھر درس میں ملی تھی، میں نے ایڈریس دیا تو آج ملنے آئی ہے۔‘‘ عافیہ خوش دلی سے تعارف کرانے لگی۔
’’السلام علیکم خالہ جان، کیسی ہیں آپ، عافیہ کی شادی پر آپ کو دیکھا تھا، بہت ینگ اور اسمارٹ تھیں آپ، ہم تو عافیہ کی نند سمجھے تھے آپ کو۔‘‘ ماہ نور بہت گرم جوشی سے ایک ہی سانس میں بولے چلی گئی تو مریم بیگم نے کڑے تیوروں سے اسے دیکھ کر جو سوال پوچھا وہ ماہ نور کو ہکا بکا کر گیا ’’کیا تم بھی ہماری بہو کی طرح تقریریں کرتی آئی ہو؟‘‘
’’ناں۔۔۔ ن۔۔۔ نہیں خالہ جان میں تو۔۔۔ نہیں‘‘ ماہ نور سٹپٹا کر عافیہ کو دیکھنے لگی، تو عافیہ نے خوش دلی سے بات سنبھالی ’’نہیں امی جان، یہ صرف میری تقریروں پر تالیاں بجانے والوں میں سے تھی۔‘‘
’’لگتا تو نہیں ہے، وہی تمہاری طرح بولنے پر آئے تو چپ ہی نہ ہو۔‘‘ مریم بیگم نخوت سے بولیں تو ماہ نور خائف سی ہوکر چپ کی چپ رہ گئی۔ عافیہ دوبارہ شگفتگی سے بولی ’’ماہ نور، بچوں کو کیوں نہیں لائیں؟‘‘
’’وہ اسکول گئے ہوئے تھے۔‘‘ ماہ نور نے اب کی بار نپا تلا جواب دیا۔
’’آؤ کچن میں میرے ساتھ، مل کر چائے بناکے پیتے ہیں، پھر گیارہ بجے مجھے ایک جگہ قرآن کی کلاس میں جانا ہے، میں تمہیں لے کر چلتی ہوں۔ باجی بہت زبردست تفسیر سمجھاتی ہیں۔ مانو زندگی بدلنے والی کتاب قرآن حکیم کو کوئی سمجھائے تو سہی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے عافیہ ماہ نور کو لیے کچن کی سمت مڑی تو پیچھے سے ساس کی بڑبڑاہٹ صاف سنائی دی:
’’ہونہہ اب بنو گھر آئے مہمانوں کو بھی درس پر لے کر جائیں گی۔ ہاں بھئی آخر تقریروں کا شوق کہیں تو پورا کرنا ہے۔ اُدھر ہی سہی۔‘‘
کچن میں جاتے ہی ماہ نور سرگوشی میں عافیہ سے بولی ’’عافیہ تم کیسے برداشت کرتی ہو ان کو؟کہاں گئی وہ شعلہ بیانی، وہ شہر کی شیرنی، وہ عافیہ تحریم جو کسی کو بات میں آگے بڑھنے ہی نہیں دیتی تھی۔‘‘
’’وہ ماں کا گھر تھا ماہ نور! یہ سسرال ہے۔‘‘ عافیہ نے مختصراً جواب دیا اور چائے کا پانی چولہے پرچڑھایا، ساتھ بسکٹ اور نمکو وغیرہ ٹرالی میں سیٹ کرنے لگی۔ ’’مگر پھر بھی یار حد ہوتی ہے، میرے سامنے یہ حال ہے تو پیچھے کیا کرتی ہوں گی؟‘‘ ماہ نور شک کی کیفیت میں تھی۔ عافیہ چپ رہی۔
’’انکل آنٹی کیسے ہیں، تم ملنے جاتی ہو، کہاں ہوتے ہیں۔۔۔ اِدھر کب آتے ہیں؟‘‘ ماہ نور کو اس کے ماں باپ کی فکر ستائی۔ ایک سایہ سا عافیہ کے چہرے پر لہرا کر معدوم ہوگیا۔
’’ابو جان کا انتقال ہوگیا، امی اپنے بھائی کے پاس دوسرے شہر چلی گئی ہیں، بلکہ ابوجان کے انتقال سے پہلے ہی میں نے دونوں کو آبائی شہر بھجوا دیا تھا۔‘‘ عافیہ مصروف انداز میں بولی۔
’’کیوں، وہ تمہارے بغیر اور تم ان کے بغیر۔۔۔کیسے، تم تو۔۔۔‘‘ ماہ نور کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔
’’ان کو، میرا مطلب حارث کو میرا میکے آنا جانا، رہنا وغیرہ پسند نہیں تھا اور وہ دونوں بہت بیمار رہنے لگے تھے تو میں نے سوچا وہاں سارا خاندان ہے، سب مل کر خدمت کرلیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔‘‘ چائے کو دم دے کر عافیہ ٹرالی میں برتن سیٹ کرنے لگی۔
’’مگر پھر بھی تم ساس، سسر کی خدمت بھی تو کرتی ہو، کیا حرج تھا اگر ماں باپ۔۔۔‘‘ عافیہ نے اس کی بات کاٹ کر جلدی سے کہا ’’میں نے اپنی مقررانہ صلاحیتوں کو قرآن کی دعوت کی طرف جب لگایا تو مجھے وہاں سے اس کا جواب مل گیا کہ میں اپنے والدین کی خدمت تب کرسکتی ہوں جب شوہر اجازت دے۔ بہت شورش ہوتی تھی میرے اندر بھی، بہت لاوے پکتے اور بہتے تھے، مگر جب اس رب کی مانی جس رب کو عرصے سے مانتی آئی ہوں، مگر ایسے کہ رب کو مانتی تھی رب کی کبھی جانی ہی نہ تھی تو مانتی کیسے۔ جب جان لیا تب مان لیا کہ:
تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
سو مجھے یقین ہے کہ یہاں نہ سہی اس حیاتِ ابدی میں مجھے میرے والدین ضرور ملیں گے اور اس رب کی جنت میں ایک بار پھر ان کے ہم قدم چلوں گی۔۔۔‘‘
بولتے بولتے ایک سسکی عافیہ کے لبوں سے نکل ہی گئی، دیکھا تو ماہ نور کی آنکھیں جل تھل تھیں۔
’’ہاں عافیہ اللہ نے کہا ہے ناں کہ ’’تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہیں جنت ایسے ہی مل جائے گی؟‘‘ تو واقعی اِس زندگی میں کی گئی محنت ہی مجھے اور تمہیں جنت دلوائے گی، وگرنہ آج جس طرح ہماری برداشت جواب دیتی جارہی ہے اور ہم رشتوں کی کڑواہٹ کو ہضم نہیں کرپاتے اور کئی زندگیاں اس عدم برداشت سے جہنم بن جاتی ہیں۔‘‘
’’ہاں، اور اللہ کا وعدہ سچا ہے، ہمیں اپنے کیے پر عمل کا بدلہ مل کر رہے گا، اچھے کو اچھا اور برے کو برا۔ کیوں کیا سمجھ آئی یا اگلی بھی گئی۔‘‘ عافیہ شگفتگی سے بولی تو ماہ نور پرانی بات یاد کرکے بھرپور ہنسی سے بولی ’’اگلی بھی گئی۔‘‘
دونوں ہنستے ہنستے ٹرالی گھسیٹتے دوبارہ مریم بیگم کے کمرے میں گئیں تو مریم بیگم نے خشمگیں نگاہوں سے دونوں کو گھورا اور بڑبڑائیں ’’ہونہہ، صحیح کہتے ہیں جیسے کو تیسا۔۔۔ جیسی بنو خود ہیں ویسی ہی سہیلیاں بھی ہیں، ہر بات پر ہنسی ٹھٹھول، ہونہہ۔‘‘ دونوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کی آنسو بھری آنکھوں میں دیکھا اور عافیہ نے دھوپ چھاؤں کے اس منظر کے ساتھ ہی ساس کے ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑایا اور ان کو چیزیں سرو کرنے لگی اور دور کہیں سورج اپنی تمازت بکھیر رہا تھا۔
nn