(دینے والا ہاتھ نوما (تحریم مغل جامعۃ المحصنات، کراچی

289

129با ابا مجھے ڈاکٹر بننا ہے…..!!
تجھے ڈاکٹر بناؤں میں یا تیری ماں اور بہن بھائیوں کو کھلاؤں….. چل یہاں سے اپنی اماں سے پوچھ روٹی بنی یا نہیں؟
اور ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنے واے بچے کی ماں اپنے لختِ جگر کی آنکھوں میں آنسوؤں دیکھ کر خود بھی رو رہی تھی اور اللہ تعالیٰ سے سوال کررہی تھی کہ یااللہ، میرے بیٹے کا خواب کب پورا ہوگا؟
اماں اماں، روٹی پک گئی؟ ابا روٹی مانگ رہا ہے!
ہاں پُتر اُبھی لاتی ہوں۔ وہ اپنے آنسو پونچھتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی جہاں سوچوں نے پھر سے اسے آگھیرا تھا، کیوں کہ کھانا اتنا ہی تھا کہ یا تو وہ دونوں میاں بیوی کھاتے یا پھر دونوں بچے۔
ناصر ایک مزدور آدمی تھا۔ ایک بیوی اور ایک بیٹا، شاہد اور بیٹی ایمن…..گھر میں کل یہی مختصر افراد تھے، لیکن غُربت اتنی تھی کہ یہ مختصر کنبہ کبھی کبھی بھوکا ہی سوتا تھا!!
اماں اماں….. شاہد نے اسکول سے واپسی پر اپنے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنا بستہ رکھا اور ماں کو آواز لگانا شروع کردی…..
پتر، کیا ہوا میرے بچے؟؟
اماں، ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر کل فیس نہ لے کر آئے تو تیرا نام کاٹ دوں گا!!
اماں دیکھ میری فیس کا کچھ کر ناں! میں ڈاکٹر بنوں گا۔
ہاں پتر! ابھی تیرا ابا آنے ہی والا ہے۔ تو کل ضرور فیس لے کر جائے گا اب جا تو کپڑے بدل کر منہ ہاتھ دھو لے میں تجھے کھانا دیتی ہوں!!
***
شاہد کے ابا، شاہد کہہ رہا تھا کہ اگر کل اس کو فیس نہ دی گئی تو ماسٹر صاحب اس کا نام کاٹ دے گا تو شاہد کو فیس کے پیسے…..
تو اور تیرا بیٹا ڈاکٹر بننے کا خواب چھوڑ دے۔ ایک غریب مزدور بیٹا کبھی ڈاکٹر نہیں بن سکتا اور سن کسی کے محل کو دیکھ کر اپنی جھونپڑی کو آگ نہیں لگانی چاہیے۔ بہتر تم دونوں کے لیے یہی ہے کہ جو میں ایک دن میں ایک وقت کی روٹی کے پیسے کما کر لاتا ہوں تو ان کو کھانے میں صرف کرو۔
شاہد جو اپنے باپ کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا خاموشی سے وہاں سے چلا گیا اور اب اس کے ننھے دماغ میں اپنے باپ کے الفاظ گونج رہے تھے…..
ایک مزدور کا بیٹا مزدور ہی بن سکتا ہے۔۔۔
نہیں ابا میں ڈاکٹر ضرور بنوں گا۔۔۔ضرور۔۔۔ اس نے دل میں عہد کیا۔
***
شاہد، بہن کے لیے پانی لاؤ۔
اماں!! کیا ہوا ایمن کو؟؟
پتر، بہت تیز بخار ہورہا ہے، اور تیرا ابا بھی نہیںآیا، پتا نہیں کہاں رہ گیا۔۔۔پتُر مجھے توگھبراہٹ ہورہی ہے۔
اماں! تو فکر نہ کر ابا آتا ہی ہوگا۔
ایمن ایمن میری بچی کیا ہوا….. شاہد شاہد، دیکھ بہن کو کیا ہورہا ہے؟ یا اللہ اتنے پیسے دے دے کہ میں اپنی بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں۔
یااللہ، تو کیوں میرا امتحان لے رہا ہے؟میری بچی کو آرام دے۔
اتنے میں ایمن ایک زور دار ہچکی لی اور خالقِ حقیقی سے جا ملی۔
یااللہ! روٹی نہیں دے رہا تھا، لیکن میری بچی کی جان تو نہ لیتا۔
شاہد اور ماں رو ہی رہے تھے کہ دروازہ بجا۔
شاہد نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو کچھ لوگ اپنے کاندھوں پر ایک چارپائی اٹھائے اندر چلے آئے اور اسے آنگن میں رکھ گئے۔ چارپائی پر کوئی سفید چادر اوڑھے لیٹا تھا۔
ماں، اس میں کون ہے؟
بیٹا، یہ تیرا ابو ہے جس پر چھت گر گئی اور اب یہ دنیا میں نہیں رہا۔ آنے والے ایک شخص نے بتایا۔ یہ سُن کر ماں دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔
***
پُتر، گھر پر ہی رہنا میں رات کو آؤں گی۔
اماں، تو کہاں جارہی ہے؟
پُتر، میں نے اپنا سر کا تاج اور بیٹی کھوئی ہے، بیٹا نہیں کھوسکتی۔ میں کماکر اپنا اور تیرا پیٹ بھروں گی۔
نہیں اماں، میرے ہوتے ہوئے تو گھر کے کام سے نہیں نکلے گی۔
نہ پتر، ناں۔۔۔ابھی تو بہت چھوٹا ہے تجھ سے کام نہیں ہوگا۔
اماں وہ تو مجھ پر چھوڑ دے۔
شاہد گھر سے نکلا اور کام کی تلاش میں مارا ماراپھرنے لگا۔آخر کار اسے ایک دکان نظر آئی۔ اس نے دکان دار سے کہا:
سرجی، مجھے اپنے پاس کام پر رکھ لو۔
دکان دار زوردار قہقہہ مارکر ہنسا، بولا:
اوئے چھوٹے، چڑیا سی جان لے کر ہاتھی والے کام کرے گا….. چل بھاگ جا یہاں سے۔۔۔
شاہد: سر جی! خدا کا واسطہ مجھے کام دے دو….. میری امی بھوکی ہے میں نے ان کے لیے کھانا لینا ہے آپ مجھے ایک دفعہ کام دے کر تو دیکھیں اگر مجھ سے نہ ہوا تو نہ رکھنا۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔دکان دارکے ذہن میں پتا نہیں کیا بات آئی۔ اس نے اپنے شاگرد کو آواز لگائی:
شیدے….. اس منڈے نو لے جا اور کام کروا۔
شیدا اس کو گودام میں لے گیا اور جو کام خود کررہا تھا، اسے بھی کرنے کو کہا۔ بھاری بھاری اجناس سے بھری بوریاں تھیں، جو اُٹھا کر سامنے والی دکان تک لے جانی تھیں۔ شاہد نے جیسے ہی ایک بوری اٹھائی، گر پڑا۔ ہمّت کرکے دوسری کوشش کی تو پھر گرگیا۔
شیدے کو اس پر بہت ترس آیا،کہنے لگا:
تونے روٹی کھائی ہے؟
شاہد نے دھیرے سے کہا: نہیں۔۔۔
شیدا بولا: جب پیٹ میں کچھ نہیں ہوگا تو کام کیسے کرے گا!!
آجا پہلے روٹی کھاتے ہیں پھر کام کریں گے۔۔۔
نہیں میری امی گھر پر بھوکی ہے اور میں روٹی کھاؤں؟؟ نہیں….. پہلے میری امی کھائے گی پھر میں کھاؤں گا۔
جب تو کھائے گا نہیں تو کمائے گا کیسے؟ اس لیے پہلے کھالے اس کے بعد کام کرکے اپنی امی کے لیے بھی لے جانا
شیدے کے بہت اصرار پر کھانا کھایا۔ جسم میں تھوڑی طاقت آئی تو کام بھی نمٹادیا، لیکن بڑی مشکلوں سے۔ شام میں دکان دارنے اس کے ہاتھ پر100 کا نوٹ رکھ دیا۔ وہ خوشی خوشی اپنی ماں کے لیے کھانا لے کر گھر پہنچا اور اپنے ہاتھوں سے ماں کو کھانا کھلایا۔ ماں اس کی محبت اور خدمت سے بہت خوش ہوئی اور اسے خوب دُعائیں دیں۔
دوسرے دن شاہد دکان پر گیا تو دکان دارنے کہا کہ مجھے بھاری کام کے لیے بڑا بندہ چاہیے تھا، اس لیے میں نے ایک تگڑا بندہ رکھ لیا ہے۔
شاہد پھر کام کی تلاش میں نکلا۔ کام ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا، لیکن کام نہ ملا۔ تھک ہار کر ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب اس کا اور اس کی ماں کا کیا ہوگا؟ آج وہ کیا کھائیں گے؟؟ پھر اس کی نظر اپنے دائیں طرف پڑی۔ دیکھا کہ ایک شخص قمیص کے اندر ہاتھ چھپاکربھیک مانگ رہا ہے اور لوگ بھی خالی نہیں جارہے تھے، کوئی نہ کوئی اس کے پھیلے دامن پر کچھ نہ کچن رکھ دیتا تھا۔
شاہد نے اس سے کہا: بھائی، تم لوگوں کو دھوکا دے کر بھیک مانگ رہے ہو، تمہارے تو دونوں ہاتھ تو سلامت ہیں۔
اس فقیر نے کہا:دنیا میں ہم جیسے لوگوں کے لیے جینا بہت مشکل ہے، لوگ ہی نہیں چاہتے کہ ہم کچھ کھائیں یا کچھ بنیں۔ چل آج سے تو بھی اپنا مقدر یہی جان لے اور وہی کر جو میں کررہا ہوں۔
شاہد نے سوچا، کیا میں بھی یہی پیشہ اختیار کرلوں، پھر اسے نبی کریمؐ کا وہ فرمان یاد آگیا:
دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
نہیں میں کبھی وہ کام نہیں کروں گا، جِسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے ناپسند کیا ہو۔ وہ بڑبڑایا۔ چلتے ہوئے اسے اپنا ہر قدم بوجھ لگ رہا تھا، آج اسے اپنا ماضی بہت یاد آرہا تھا، اپنے ڈاکٹر بننے کا خواب اور بھی بہت کچھ، اپنے باپ کا وہ جملہ بھی اسے سُنائی دے رہا تھا: ایک مزدور کا بیٹا مزدور ہی بن سکتا ہے۔
پھر اچانک اسے کسی خاتون کی چیخ سُنائی دی: ہائے میرا بچّہ۔۔۔!!
گردن گھماکر شاہد نے دیکھا اس کے بالکل قریب سڑک کراس کرتے ہوئے ایک چھوٹا بچّہ بیچ روڈ پر گرا ہوا تھا اور ایک تیز رفتار ٹرک کسی دیو کی طرح جُھومتا جھامتا چلا آرہا تھا۔ پلک جھپکتے میں شاہد نے چھلانگ لگائی اور بچّے کو اُٹھاکرایک طرف پھینک دیا، لیکن اتنا وقت نہیں رہا تھا کہ وہ خود چھلانگ مارکر سائڈ میں ہوجاتا۔ ٹرک اسے کچلتا ہوا موقع واردات سے رفوچکر ہوچکا تھا۔ بچہ بچ گیا تھا، لیکن جسے ڈاکٹر بننا تھا، جِسے اپنی دُکھیاری ماں کا شجر سایۂ داربننا تھا، وہ اب ایک سُوکھا پتہّ بن کر شجر سے جُدا ہوچکا تھا، لیکن جاتے جاتے نبیؐ کے فرمان پر نشان ثبت کرگیا تھا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے!!

حصہ