پانامہ لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اگر آئین کی دفعات 62 اور 63 پر عمل کیا تو پارلیمنٹ میں صرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق ہی بچیں گے۔ یہ سن کر مجھے حیرت نہیں بلکہ خوشی ہوئی۔ خوشی اس لیے بھی زیادہ ہوئی کہ ملک کے ’’اعلیٰ ادارے‘‘ نے اس بات کی تصدیق تو کی کہ ملک کی پارلیمنٹ میں کوئی ایک تو ہے جو ’’امین اور صادق‘‘ کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ یہ ریمارکس دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کسی شخصیت کی نشاندہی کے ساتھ اس سیاسی جماعت کو بھی قوم کے سامنے واضح کردیا جو سیاست عبادت سمجھ کر کرتی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کی اس بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جماعت اسلامی کے حوالے سے امین اور صادق کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا، لیکن جماعت کے امیر کے بارے میں یہ جملے پوری جماعت اسلامی کے لیے ہی سمجھیں جائیں گے۔ اس لحاظ سے پوری جماعت اسلامی کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے۔ نہ کہ امین اور صادق ہونے کا تعلق صرف سراج الحق تک محدود ہے۔
جماعت اسلامی کی تربیت اور تنظیم کا مقصد ’’سیاست بھی بطور عبادت‘‘ صرف اسی وجہ سے ہے کہ معاشرے کو ایک اسلامی طرز نظام میں ڈھالنا ہے۔آج اگر کسی سیاسی جماعت میں نماز کے وقت نماز، کھانے کے وقت کھانا، کام کے وقت کام اور آرام کے وقت آرام کے سخت اصول موجود ہیں تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتوں کے دفاتر میں مساجد یا جائے نماز مخصوص ہوں گی، لیکن جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی گروہ ہے، جو مقرر کردہ اوقات میں باجماعت نماز ادا کرتا ہے۔ اس پارٹی میں تربیت کا عمل اسلامی جمعیت طلبہ سے شروع ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے بھی ایک مثال ہے۔
دین سے قربت اور دین کا فروغ جماعت اسلامی کی تحریک کا اصل مقصد بھی ہے۔ اسی وجہ سے کئی ایسی شخصیات لوگوں میں مقبول ہیں جنہوں نے سیاسی اور عوامی اہم عہدے رکھنے کے باوجود اپنی ذات کو دنیاوی لحاظ سے تبدیل نہیں کیا۔ جماعت کا نظم اس کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کوئی بدل نہیں سکا۔ ان اصولوں کے تحت سیاست میں ایسی شخصیات کا سامنے آنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ جماعت سے وابستہ جتنی بھی شخصیات اہم عوامی عہدوں پر رہیں انہوں نے اپنی ذات کے لیے کبھی بھی کچھ نہیں کیا، بلکہ بہت ساری ایسی مثالیں موجود ہیں کہ لوگوں نے اپنی عام زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال کر اپنے اندر اور قرب و جوار میں اسلامی انقلاب بپا کیا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منورحسن جب 1960ء میں این ایس ایف سے کنارہ کشی اختیار کرکے اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے تو انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو بدلا بلکہ طلبہ تحریک کو بھی مضبوط کیا۔ نوجوانوں کو دین کے قریب لانے کے لیے جماعت اسلامی کا پیغام عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ پاکستان قومی اتحاد کے دور میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے رکن قومی اسمبلی رہے اور بہت سرگرمی سے لوگوں کی خدمت کی، لیکن انہوں نے کوئی ذاتی جائداد ان عہدوں سے نہیں بنائی اور نہ ہی پلاٹ پرمٹ کی سیاست کی۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بلدیاتی نظام کے احیاء کے ساتھ کرپشن سے پاک نظام کی شروعات کا سہرا جماعت کے سر ہی جاتا ہے جس کے منتخب میئر عبدالستار افغانی نے دو دور اور تقریباً آٹھ سال تک میئر رہنے کے باوجود اپنی ذاتی رہائش تک نہیں بدلی۔ وہ جس فلیٹ میں رہائش پذیر تھے بطور میئر آٹھ سال گزارنے کے باوجود اسی گھر میں رہے۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کا دور (2001ء تا2005ء) ملک میں بااختیار شہری حکومتوں کا پہلا دور تھا۔ کراچی کی شہری حکومت کا بجٹ اربوں روپے ہونے کے باوجود یہ واحد دور تھا جسے کرپشن فری دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں29 ارب روپے کے کراچی پیکیج سے 18 فلائی اوور، چھ بالائی گزرگاہیں، دو سگنل فری سڑکیں، فراہمی آب کا عظیم منصوبہ کے تھری مکمل کیا گیا۔ یہ واحد دور تھا جس میں کراچی کی مثالی ترقی ہوئی۔
آج ملک میں چاروں طرف کرپشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ عدلیہ بھی کرپٹ افراد کو سامنے لانے کے لیے کوشاں ہے۔ جبکہ کرپٹ حکمران اپنی بدعنوانیاں چھپانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔
مگر صادق اور امین کی تاریخی مثالیں صرف جماعت اسلامی کے حوالے سے ہی ملتی ہیں۔ خود آج کے وزیراعظم میاں نوازشریف بھی جماعت اسلامی کی ایماندار سیاست کے قائل رہے ہیں۔ اور آج بھی یقیناًوہ جماعت کے رہنماؤں، کارکنوں اور اس کے نظم پر شک نہیں کرسکتے۔کیونکہ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پر جب انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شروع ہوا تھا تو اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے نوازشریف سے کہا کہ ’’میاں صاحب ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیے جائیں جو آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورے اترتے ہوں‘‘۔ قاضی صاحب کی اس بات پر میاں صاحب بے ساختہ بولے ’’پھر تو سارے ٹکٹ جماعت اسلامی کے امیدواروں کے دینے پڑیں گے‘‘۔
جماعت اسلامی شخصیت پسندی کو بھی پروان نہیں چڑھانا چاہتی اور نہ ہی کسی بھی قسم کے تعصب سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست اسی لیے عبادت کہلاتی ہے کہ اس سیاست میں پانامہ و دبئی سمیت کوئی لیکس نہیں ہے، پلاٹ لینے اور قرض معاف کرانے والوں میں بھی اس کے ارکان شامل نہیں ہیں۔ کرپشن و کمیشن جو اب ایسا لگتا ہے کہ کرپٹ لوگ اسے حق ماننے لگے ہیں اور اسی مقصد کے لیے احتساب کے ساتھ پلی بارگین کا بھی قانون بنایا گیا ہے۔ 2001۔2005، اور اس سے پہلے 1983۔1987 ملک کے سب سے بڑے شہر کا پورا نظام جماعت اسلامی کے کنٹرول میں تھا لیکن بھتہ و چائنا کٹنگ جیسے کسی سلسلے کا تصور تک نہ تھا۔
گیلپ گزشتہ 20 سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے تو لیاقت بلوچ بہترین پارلیمنٹرین قرار پاتے ہیں، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ 2002ء تا 2007ء سب سے متحرک رکن کے طور پر سامنے آتے ہیں، پروفیسر خورشید احمد اور پروفیسر ابراہیم خان کا نام کارکردگی کے اعتبار سے سب سے بہترین سینیٹرز بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر آتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا نظام خوفِ خدا رکھنے والا اور اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ کرنے والا ہے۔ ملک کا یہی وہ واحد سسٹم ہے جو شیطانی اعمال کے سامنے مزاحم ہے۔
جماعت اسلامی میں اپنے اچھے اقدامات کی تشہیر کا فقدان موجود ہوگا جسے دور کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ اتنا بھی ضروری نہیں، کیونکہ جو اللہ کا خوف رکھتے ہوں وہ دکھاوا نہیں کرتے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کے دور میں اگر اس کے ساتھ نہ چلا گیا تو چالاک عناصر معصوم لوگوں کو ورغلا سکتے ہیں اور انہیں اسلامی اقدار سے دور کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے پوری قوم کو ہی مزاحمت کرنا ہوگی، تب ملک اور قوم کا مستقل روشن ہوسکتا ہے۔
nn