بچے کئی دن سے چڑیا گھر جانے کی ضد کررہے تھے، مگر ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ہم بچوں کو چڑیا گھر لے جا نہیں پارہے تھے۔ جان چھڑانے کے لیے ہم نے نیٹ پر بچوں کو کراچی کا چڑیا گھر دکھایا۔ بچے ہاتھی، ببرشیر، شیر، چیتا، بن مانس اور دیگر جانور دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور حیران بھی کہ ہمارے چڑیا گھر میں اتنے اچھے اچھے جانور ہیں، جو ہم نے ٹی وی ہی پر دیکھے تھے۔ ہم خوش تھے کہ بچوں کا نیٹ کے ذریعے کراچی کا چڑیا گھر دیکھ کر دل بہل جائے گا، مگر اب تو ان کا اشتیاق اور بھی بڑھ گیا اور وہ ہم سے ضد کرنے لگے کہ ان جانوروں کو قریب سے دیکھیں گے۔ آخر بچوں کے مسلسل اصرار پہ ہمیں ہار ماننی پڑی اور پھر چھٹی والے دن ہم سب بچوں کو چڑیا گھر لے گئے۔
چڑیا گھر پہنچے تو گیٹ پر فی بندہ 20 روپے ٹکٹ تھا۔ ٹکٹ کی رقم ادا کرکے اندر داخل ہوئے تو لوگوں کو بڑی تعداد میں چڑیا گھر میں موجود پایا۔ اُن میں سے قریباً 80 فی صد اندرونِ سندھ، پنجاب اور دور دراز شہروں سے آئے ہوئے تھے۔ ہمیں اُس وقت حیرت ہوئی ،جب دیکھا کہ کچھ بچے بڑے گارڈن کی گھاس پر بیٹھے ہیں، کچھ بچے فٹ بال کھیل رہے ہیں، کچھ درخت سے پتنگ اتارنے میں لگے ہیں، کچھ پریشان اِدھر اُدھر گھوم پھررہے ہیں۔ ہماری حیرت بجا تھی کہ لوگ چڑیا گھر میں جانور دیکھنے آئے ہیں اور یہاں آکر انہیں دیکھنے کے بجائے اُلٹی سیدھی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ خیر، بچوں کی طرف متوجہ ہونا پڑا، جو چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو دیکھنے کے لیے بے چین تھے۔ کچھ ہاتھی کی سواری کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے پہلے بورڈ دیکھا، جس پر جانوروں کے پنجروں کی سمتیں درج تھی۔ پھر ہم اُن سمتوں کی طرف چل پڑے۔ ہر جانور کے پنجرے کے سامنے بورڈ پر اُس جانور کے بارے میں مکمل معلومات درج تھی۔ ہم جانور دیکھنے کے دوران بچوں کو معلومات بھی فراہم کرتے رہے، مثلاً اِس جانور کو اُردو، انگلش میں کیا کہتے ہیں، اس کی خوراک کیا ہے، کس علاقے میں پایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ چڑیا گھر بہت بڑا ہے، اس میں پنجرے بھی بہت ہیں، لیکن زیادہ تر خالی نظر آئے۔ ایک پنجرے میں ببر شیر نظر آیا، جو سُست حالت میں لیٹا ہوا تھا۔ بچوں نے بہت چاہا کہ وہ اُٹھ کر سلاخوں کے قریب آجائے، مگر مجال ہے جو شیر نے بچوں کو لفٹ بھی کرائی ہو۔ بچوں نے بندروں اور مور کے پنجروں کے پاس خوب لُطف اُٹھایا، خاص طور پر بندروں کے ساتھ کچھ دیر کو بندر بن گئے۔ آخر میں بچوں کو ہاتھی کی سواری کی فکر ہوئی۔ ہاتھی کو ڈھونڈتے ہوئے اُس کی سواری کی جگہ پر پہنچے۔ اس کا چبوترا تو موجود تھا مگر ہاتھی نہیں تھا۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ مزید اندر جاکر ہاتھی دیکھنا ہوگا اور فی بندہ مزید 10 روپے ادا کرنے ہوں گے۔ بڑی حیرت ہوئی، ہم نے وہاں کھڑے ٹکٹ لینے والے سے پوچھا کہ پہلے تو ہاتھی سواری کے لیے باہر ہی ہوتا تھا، اب اسے پنجرے میں کیوں بند کردیا گیا ہے؟ وہ بھی چڑیا گھر کا حصہ ہے، تو اُسے دیکھنے کی الگ سے فیس کیوں؟ جواب نہ ملا۔ خیر پیسے دیے اور بچوں کو لے کرآگے بڑھے۔ دور پنجروں میں دو ہاتھی دیکھے، جو اپنے چھوٹے چھوٹے پنجروں میں غصے اور بے چینی کے عالم میں گھومے جارہے تھے۔ بن مانس دیکھا، وہ بھی ناراض۔ مگرمچھ دیکھے، وہ بھی پریشان۔ حیرانی ہوئی کہ انسان تو بے چین اور بے سکون زندگی گزار ہی رہا ہے، مگر جانوروں کو کیا دُکھ ہے کہ وہ بھی بے چین، بے سکون اور غصے میں نظر آرہے ہیں!
بچوں کے سامنے بڑی شرمندگی ہوئی، جب بچے ہاتھی کی سواری سے لُطف اندوز نہ ہوسکے۔ وہ شکوے شکایت کررہے تھے۔ ہم نے بچوں کو سمجھایا کہ وقت کے ساتھ ملک کے تمام قیمتی اثاثوں کا بھی بُرا حال ہوگیا ہے۔ بچے ضد کرنے لگے کہ بس اب گھر چلیں۔ ہماری طرح دور دراز سے آئے ہوئے لوگ بھی مایوس نظر آئے۔ کچھ سے سنا کہ ہم نے تو کراچی کے چڑیا گھر کی بڑی تعریف سنی تھی، یہاں تو سوائے خواری اور تھکن کے کچھ نہیں ملا۔ مجھے یہ الفاظ سن کر بہت دُکھ ہوا کہ وہ شہر، جس کے چرچے دُنیا میں تھے، لوگ اسے دبئی سے تشبیہ دیتے تھے، جسے روشنیوں کا شہر کہتے تھے، آج ہر طرف سے ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ شام ڈھل رہی تھی، جب ہم سب چڑیا گھر سے باہر آرہے تھے تو درختوں پر چڑیوں کی الوداعی چہچہاہٹ بتارہی تھی کہ اب یہ خالی ’’چڑیا گھر‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔ اب مجھے میرے سوال کا جواب بھی مل گیا تھا کہ جب ہم چڑیا گھر میں داخل ہوئے تھے تو لوگ جانور دیکھنے کے بجائے کھیل کود میں کیوں لگے ہوئے تھے۔ ظاہر بات ہے، جب اپنے آنے کا مقصد نہ ملا تو دل بہلانے کا یہی طریقہ تھا!!
nn