(نظر محور (قاسم بن

248

محافظ آپس میں باتیں کرتے ہوئے اس سلنڈر نما کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے، جہاں بلیکس آسمان سے ٹپکے تھے اور اب قید تھے۔ وہ ایک خالی کمرہ تھا، جس میں دشمن اُوپر لگی ہوئی مشینی چھت سے گرتا تھا اور قید ہوجاتا تھا۔ محافظوں کو اطلاع ملی تھی کہ بلیک 10 اس کمرے میں گرے ہیں۔
محافظ جب کمرے میں داخل ہوئے تو ٹھٹھک کر رہ گئے۔ کمرہ خالی تھا اور بلیکس کا نام و نشان نہ تھا۔
سیکورٹی آفیسر اس کمرے میں ایک دیوار میں نصب اسکرین کی طرف بڑھا اور اس کے قریب لگے ہوئے مخصوص بٹن دبائے۔
اسکرین پر واضح الفاظ میں ایک پیغام لکھا ہوا نظر آنے لگا، جو کچھ اس طرح تھا:
’’ہم بلیکس ہیں،ہم تم لوگوں کی پکڑ میں نہیں آسکتے‘‘۔
سیکورٹی آفیسر چیخا:’’ اُف، وہ لوگ بہت چالاک ہیں‘‘۔
ایک محافظ بولا: ’’سوال یہ ہے کہ بلیکس یہاں سے کیسے فرار ہوئے؟‘‘
’’اس جواب کا وقت نہیں، جاؤ، جاکر انہیں ڈھونڈو۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ گڑبڑ کردیں‘‘۔
سیکورٹی آفیسر نے حکم دیا۔
n۔۔۔n۔۔۔n
بلیکس اپنے چیف کے سامنے کھڑے کسی حکم کے منتظر تھے۔ ان میں ایک شخص وہ تھا، جو میز کے نیچے دبنے سے زخمی ہوگیا تھا۔
ایک بلیک بولا: ’’چیف! اگر آپ حکم دیں تو ہم ابھی اس آدمی کو پکڑ کر لاکے آپ کے قدموں میں ڈال دیں جس نے ہمارے ساتھی کا یہ حال کیا ہے۔ بڑا جاسوس بنا پھرتا ہے‘‘۔
دوسرے بلیک نے مُکّا ہوا میں لہراتے ہوئے کہا: ’’وہ اگر پاتال میں بھی چھپا ہوگا تو میری دسترس سے دور نہیں‘‘۔
بلیک چیف ہنسا اور بولا: ’’بھئی، تم لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں، کیوں کہ جاسوس وہ چیز حاصل نہیں کرسکا جو لینے آیا تھا‘‘۔
’’کیا مطلب سر؟‘‘
’’مطلب یہ کہ مجھے پتا تھا کہ یونیورسل اسکیچ سے کوئی جاسوس ضرور لاکر کی چابیاں لینے آئے گا، اس لیے میں نے بالکل ویسی ہی چابیاں جو کہ نقلی تھیں، فوری طور پر تیار کراکے میز پر رکھوادی تھیں، جب کہ دوسری نقلی چابیاں پیکٹ میں تھیں۔ اور اصلی چابیاں۔۔۔ وہ اب میرے پاس ہیں‘‘۔
اس سے پہلے کہ بلیک چیف قہقہہ لگاتا، ایک بلیک چیخا:
’’سر، غضب ہوگیا‘‘۔
’’کیا ہوگیا؟‘‘ بلیک چیف یوں چونکا جیسے کوئی انہونی بات ہوگئی ہو۔ وہی بلیک سر پہ ہاتھ مار کربولا:
’’سر! آپ نے مجھے جو ہدایات دی تھیں وہ سب گڈ مڈہوکر رہ گئیں اور۔۔۔ اور میں نے پیکٹ میں اصلی چابیاں رکھ دی تھیں‘‘۔
’’کیا بکتے ہو؟ میرا خاص آدمی تو کہہ رہا تھا کہ پیکٹ میں نقلی چابیاں ہیں‘‘۔
’’کاش ایسا ہی ہوا ہوتا! میں نے خود اصلی چابیاں پیکٹ میں رکھی تھیں‘‘۔
’’او مائی گاڈ۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر بلیک چیف نے اتنی زور سے میز پر مُکّا مارا کہ میزدو ٹکڑے ہوگئی۔
n۔۔۔n۔۔۔n
قمرو اس وقت بلیک ٹین کے قبضے میں یونیورسل اسکیچ کے اس کونے میں تھا، جہاں عام طور سے کسی شخص کا گزر نہیں ہوتا تھا۔
’’بتاؤ، لاکر کس کمرے میں رکھا ہے؟‘‘ ایک بلیک نے پوچھا۔
’’کون سا کمرا؟‘‘ قمرو انجان بن کر بولا۔
’’ابھی تو بتایا ہے کہ لاکر والا کمرا‘‘۔
’’جب آپ کو معلوم ہی ہے تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’اس لیے کہ تمہیں معلوم ہے کہ لاکر کس کمرے میں ہے؟‘‘
’’مجھے کیا پتا۔۔۔ ویسے آپ یہاں تک کیسے پہنچے؟‘‘
’’ہم اس عمارت کے چپے چپے سے واقف ہیں‘‘۔
’’جھوٹ۔۔۔ جھوٹ۔۔۔ کیوں کہ اگر آپ یہاں کے چپے چپے سے واقف ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ لاکر کس کمرے میں ہے اور آپ کو میری خدمات حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی‘‘۔
قمرو اب بھی مذاق سے باز نہیں آرہا تھا۔ ایک بلیک نے اسے زنّاٹے دار تھپڑ رسید کیا: ’’اب تم ہمیں لے کر چلو اور بتاؤکہ لاکر کس کمرے میں ہے؟‘‘
قمرو گال سہلاتا ہواآگے آگے چلنے لگا اور بلیک 10 لائن بناکر اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے!!
(باقی آئندہ)

حصہ