تحریکاتِ اسلامی کا نصب العین معاشرتی تبدیلی اور انقلاب برپا کرنا ہے۔ اس نصب العین کے حصول کا ایک اہم ذریعہ تعلیم ہے۔ اس لیے منصبِ رسالت پر فائز کرتے وقت داعئ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے معلمانہ کردار سے آگا ہ کیا گیا تھا اور اولین ہدایت یہ دی گئی تھی کہ:
’’(اے نبیؐ) پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ (العلق 5-1:96)
ان اوّلین نازل ہونے والی پانچ مختصر آیات میں ربِّ کریم نے جہاں اُمیّوں میں سے منتخب کیے جانے والے سراجاً منیراً صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنے رب کے نام سے تلاوتِ آیات کریں، وہیں یہ بات بھی سمجھا دی کہ یہ وہ علم نہیں ہے جو انسانی عقل تشکیل کرتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جو وحیِ الٰہی کے ذریعے انھیں دیا جارہا ہے اور ان کے ذریعے ان تمام انسانوں تک اسے پہنچانے کا آغاز کیا جا رہا ہے، جنھیں آغاز میں خالق کائنات نے جمے ہوئے خون کی ایک پھٹکی سے پیدا کیا اور پھر شعور و آگہی سے نوازا۔ ایک اور مقام پر تعلیم کی اس بنیادی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا کہ وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے، برابر نہیں ہوسکتے ہیں:
’’اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟‘‘ (الزمر9:39)
مزید یہ بات بھی فرما دی گئی کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں، وہ ایسے عباد (بندے) ہیں جو اپنے رب کے شاکر بندے ہونے کے ساتھ اپنے رب کا خَشیَہ یا تقویٰ اختیار کرتے ہیں ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘ (الفاطر35:28) جو شعوری طور پر اس کی بندگی اختیار کرتے ہیں اور بندگیِ رب کے پیغام کو ہمہ وقت اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ داعیِ اعظمؐ نے خود اپنے بارے میں یہی بات فرمائی کہ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘چنانچہ پہلے دن سے دعوتِ دین کی اشاعت کے لیے مکہ مکرمہ میں دارِ ارقم اور مدینہ منورہ میں صْفہ کے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم فرمائے۔
گویا تحریکاتِ اسلامی کے لیے مکہ اور مدینہ ہر دو مقامات سے جو راہ نما اسوہ ملتا ہے، وہ اداراتی بنیاد پر تعلیم کی اشاعت ہے، یعنی یہ معاملہ محض انفرادی طور پر کرنے کا نہیں ہے۔اس لیے تحریکاتِ اسلامی کی ایک اہم ترجیح، تعلیم بطور ایک ادارہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ اس غرض سے تحریکاتِ اسلامی اپنے کارکنوں کی علمی تربیت کے لیے مطالعاتی حلقہ جات، اْسرے ، تربیت و تعلیم گاہوں ، خصوصی خطابات اور دیگر سرگرمیوں کا اہتمام کریں گی، تاکہ کارکنوں کے علم میں اضافے کے ذریعے ان میں خشیت اور تقویٰ پیدا ہو اور ضروری استعداد وآ گہی کے ساتھ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے سکیں۔
دعوت کے تناظر میں تحریکاتِ اسلامی کا د ائرۂ عمل ہمارے ہاں مروّجہ روایتی تصور تبلیغ سے بہت مختلف ہے۔وہ علم کو اس کی ایک جہت تک محدود تصور نہیں کرتیں۔جہاں جہاں ان کے تصور میں نکھار ہے، وہاں اسلامی تحریکیں علم کے وسیع تر تصور کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں معاملہ فرد کی اصلاح کا ہو یا فکر کی تطہیر کا، معاشرے کی تشکیلِ نو کا ہو یا سیاست کی تدوینِ جدیدکا ، ثقافت و تہذیب کے تصور کا تزکیہ ہو یا مذہبی منافرت دْور کرنے کا، مسلکی اختلافات میں اعتدال کی راہ تلاش کرنی ہو یا ملکی اور عالمی معیشت کا تنقیدی جائزہ لینے کا، اور نئے اسلامی عالمی نظام معیشت کا تعارف کا معاملہ ہو، اسلامی تحریکات ان اْمور سے آ نکھیں بند نہیں کرسکتیں۔ اسی طرح گھرمیں اہل خانہ کے درمیان محبت و رحمت کے تعلق کی پرورش سے لے کر معاشرے سے تضادات دْور کرنے تک یا افراد ،خاندان اور معاشرے میں برداشت ، قبولیت (acceptability) اور تعاون کی مضبوط بنیادیں استوار کرنے کے کام ہوں، تحریکاتِ اسلامی کا تصور دعوت و ابلاغ ان تمام اور دیگر ممکنہ انسانی مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ تعلیم و تعلم کے ذریعے وہ اپنے اصلاحی اور انقلابی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہچانا چاہتی ہیں۔
عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو نہ صرف تحریکاتِ اسلامی بلکہ معاشرتی تبدیلی کی جو حکمتِ عملی بھی وضع کی جاتی ہے ، اس میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ سامراجی طاقتیں چاہتی ہیں کہ سیاسی طور پر غلامی و بے اختیاری کے شکنجے میں کسی گئی اقوام کو محکومیت کے زنجیروں میں اس طرح جکڑے رکھیں کہ وہ زنجیروں کو ’زیور‘ سمجھنا شروع کر دیں۔ اس خود سپردگی کو ’حسن و دانش‘ باور کرانے کے لیے مؤثر ترین ہتھیار کو وہ تعلیم ہی کا نظام سمجھتی ہیں اور اسی کو ذریعہ بناتی ہیں۔ برعظیم پاک و ہند ، انڈونیشیا ، ملایشیا، الجزائر، تیونس ، مصر، شام ، سوڈان، فلپائن، غرض کہ جہاں جہاں یہ مغربی سامراج گیا، اس نے تعلیم کے ذریعے ہی معاشرتی تبدیلی پیدا کی اور سیاسی غلامی کو گہرا کیا۔
تعلیمی منصوبہ بندی اور تقاضے
پاکستان کے پس منظر میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کی اگر مناسب تعلیمی منصوبہ بندی کی جائے تو دستورِ پاکستان کی روشنی میں بغیر کسی غیرجمہوری ذریعے کے،معاشرتی انقلاب کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے جو کلی انقلاب کے لیے ممد و معاون ہو گی۔ یہ تعلیمی معاشرتی انقلاب تحریک کی حکمت و دعوت اور طریق کار سے پوری مناسبت رکھتا ہے ، اور قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے تحریک کے نصب العین کے حصول کا ذریعہ فراہم کرسکتا ہے۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی وہ مراکز ہیں، جہاں سے وہ افراد کار فراہم ہوتے ہیں جو سامراج کی چھوڑی ہوئی روایت کا حصہ بن جائیں تو نوکر شاہی میں بابو بن کر خوش و خرم رہتے ہیں۔یہی افراد کار اگر اْس تعلیم سے گزریں جو سیر ت وکردار کی تعمیر اور عقل ود انش کی تہذیب کے ذریعے انھیں اپنے دین و روایات پر فخر کرنا سکھائے اور اسلام کو زندگی کا مقصد اور مشن بنانے کا داعیہ پیدا کرے، تو یہ افراد کار دنیا کے بڑے سے بڑے طاغوتی نظام کو اپنی حکمت عملی سے ایک عادلانہ معاشرے میں تبدیل کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تحریکِ اسلامی کویہ امتیاز حاصل ہے کہآ ج پاکستان کے تمام صوبوں میں ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو اس کی فکر سے نظری اتفاق رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس زمینی حقیقت سے ذہانت اور حکمت کے ساتھ فائدہ اٹھایا جائے اورایک جامع حکمت عملی اس موجود سہولت کو ایک قیمتی افرادی اثاثے میں تبدیل کر دے اور یہ افرادی اثاثہ تحریک اسلامی کے نصب العین کے حصول کا ذریعہ بن جائے۔
تعلیم وتربیت معاشرتی تبدیلی کی شاہراہ ہے، لیکن یہ اسی وقت صحیح نتائج پیدا کر سکتی ہے جب نہ صرف نصاب ، تدریسی کتب ، ادارے کا ماحول بلکہ معلمین و معلمات کاذاتی کردار سیرت اور اخلاق کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہو۔انبیایکرام کا مقصدمحض کتاب کا پہنچا دینا نہیں تھا، ان کا اصل کارنامہ وہ اسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا، جو ان کی تعلیمات کا مرقع اور ہر پیروکار کے لیے قابلِ عمل مثال ہو۔ اسی بنا پر داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا:
’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آ خر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘ (احزاب 33:21)
یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیمی ادارے نظریاتی تربیت گاہوں میں تبدیل ہو جائیں۔ ملک گیر پیمانے پر ان کا نصاب ، اساتذہ کی صلاحیت ، تجربہ و کردار و سیرت اور نصابی کتب اور راہ نما کتب کے انتخاب میں بنیاد محض تعلیمی کمال نہ ہو بلکہ تربیتِ اخلاق ہو۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے ان تعلیمی اداروں سے روشن دماغ قائد ، اخلاقِ حسنہ کے نمونے ، جرأت و خود اعتمادی کے امین، حلم و بردباری اوربرداشت(tolerance ) اور استقامت کے نمایندے ،روحانی بالیدگی اور باہمی رحمت و مودت کے علَم بردار نوجوان پیدا ہو سکیں گے۔
یہ کام نہ تو مشکل ہے اور نہ کوئی خام خیالی۔آ ج بھی جہاں کہیں صحیح اخلاقی تربیت، سائنسی علوم کی اعلیٰ تعلیم ، صبر و استقامت اور سچائی اور خود داری کی تربیت د ی جائے گی، وہاں سے ایسے افراد پیدا ہوں گے جو عصر حاضر کے نام نہاد سامراجی اجارہ دارقوتوں کا ایمان و اعتماد کے ساتھ مقابلہ کرسکیں گے۔
اسلام کی شورائی اور جمہوری اقدارکے ساتھ، خودانحصاری ، سچائی ، امانت، دیانت اور للہیت رکھنے والی شخصیت پیدا کرنے کے لیے تعلیم ہی کے ذریعے اپنے نصب العین کے واضح شعور کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی اور صبر وتوکل کے سہارے یہ کام کرنا ہو گا۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مدینہ کا راستہ مکہ اور حبشہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ مکہ کا صبرآ زما دور اور حبشہ کی غریب الوطنی وہ مراحل ہیں جن سے گزرے بغیر عدل واحسان پر مبنی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ وہ چاہے مٹھی بھر افراد ہو ں لیکن ان مراحل سے گزر چکے ہوں تو وہ وقت کے جباروں کا فکری اور عملی سطح پر مقابلہ کرسکتے ہیں، جب کہ افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو، لیکن ان تمام مراحل سے نہ گزراہو تو وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
الحمدللہ،آ ج تحریک اسلامی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ تعلیم کے شعبے میں اس سے وابستہ افراد کے تعلیمی ادارے تقریباً پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے قابلِ غور سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسی معیاری اخلاقی تعلیم دینے میں کامیاب ہوئے ہیں،جو نئی نسل میں ذہنی انقلاب برپا کر دے اور انھیں مستقبل کی تعمیری اور اصلاحی قیادت کے لیے تیار کر دے؟
حکمتِ دعوت اور ابلاغ
اس تعلیمی جہاد کے ساتھ دوسرا لازمی میدان وہ ہے، جسے قرآن کریم نے حکمتِ دعوت و ابلاغ سے تعبیر کیا ہے جو ہدایتِ الٰہی کو آسان اور ہر خاص و عام کے لیے قابل فہم بنا کر پیش کرنا ہے۔ آ ج ہم جسے ابلاغِ عامہ کہتے ہیں، یہ چاہے طبع شدہ الفاظ کی شکل میں ہو یا برقی پیغامات کی شکل میں، اس کا بنیادی مقصد مطلوبہ پیغام کو جاذبِ نظر بنا کر دل و دماغ میں اتار دینا ہے۔ غالباً اسی بنا پر قرآن کریم کی آ یات میں اثر انگیزی اور معرفت کو اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ہرآ یت جامع اور مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ لامتناہی مفہوم کی امین ہے، اور ایک طائرانہ نظر سے دیکھنے والے اور ایک تفقہ والی نگاہ رکھنے والے ، ہر دو کے لیے معانی و مفہوم کے خزانے فراہم کردیتی ہے۔
اس دور کا المیہ یہ ہے کہ کہ آج اوّلین تعلیم گاہ آغوشِ مادر اور اسکول اور مدرسے کے کردار کو برقی ابلا غ عامہ نے فنی مہارت کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ دْکھ کی بات یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی اس مجرمانہ تہذیبی ڈاکے پر بے چین نظر نہیںآ تے۔
تحریکِ اسلامی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اولاً اس اہم معاشرتی اور تہذیبی مسئلے سے قوم کو دلائل اور شواہد کی بنیاد پرآگاہ کرے۔ ماں کی تربیت اورخاندان کی مرکزیت و عظمت کی تجدید اور حیاتِ نو کے لیے منظم جدوجہد کرے۔ ساتھ ہی اپنی دعوت کو پہنچانے کے لیے اس مؤثر ذریعے کو اخلاق کی پابندیوں اور تہذیبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اختیار کرے۔ تعلیم گاہوں سے وہ نوجوان نکلیں جو نہ صرف سیرت و کردار بلکہ عصر حاضرکے مسائل سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ایک تنقیدی نگاہ کے ساتھ مغرب کی لادینی فکر کا رد ، عقلی دلائل سے اور اسلام کے جامع نظامِ عدلِ اجتماعی کی وضاحت اپنے علم و تجربے کی مدد سے کر سکیں۔
اس حوالے سے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ صحافیوں، ابلاغِ عامہ سے وابستہ ماہرین اور مصنّفین کے لیے ایک مستقل ادارہ ایسا قائم کیا جائے، جہاں تبادلہ خیالات ،علمی تحقیق اور نوجوان نسل کی تربیت اس طرح ہوسکے کہ نہ صرف ابلاغِ عامہ اور اجتماعی ابلاغ (Mass Communication) کی اعلیٰ ترین تربیت ہو، بلکہ انھیں اسلام کے نظام عدل اور پاکستان کی نظریاتی اساس و تاریخ پر پورا عبور حاصل ہو۔ یہی نوجوان تحریک کے نصب العین کے حصول کے لیے افرادی سرمایہ فراہم کریں گے اور تحریک کی تحریکیت کو قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ہر تحریک اسی وقت تک اپنا وزن اور اثر رکھتی ہے جب تک اس میں نیاخون ، فکری یک جہتی، اجتہادی صلاحیت اور نظم و ضبط قائم رکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ نیا خون اگر تحریکی فکر میں سطحی معلومات کے ساتھ شامل ہوگا، تو جلد یا بدیر جذبات کا شکار ہوجائے گا، اور اگر وہ تحریکی فکر کے رنگ میں رنگ گیا تو صبر و استقامت اور کامیابی کی علامت بن جائے گا۔
اداراتی نظم کی ضرورت
تعلیمی اور ابلاغی جہاد کاآ غاز کرنے کے لیے وسائل اور خام مواد پہلے سے موجود ہے۔ تحریکی فکر سے وابستہ افراد کے بہت سے ادارے اس میدان میں کام کر رہے ہیں، لیکن تاحال ایسی کوئی تنظیمی شکل اور انتظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے ایک فطری انداز میں انھیں باہمی تعارف و راہ نمائی فراہم کی جا سکے۔ یہ کام ان کی آزادی کو متاثر کیے بغیر سر انجام دیا جانا چاہیے۔ علمی، نصابی اور تربیتی حوالے سے ایسے راہ نما خطوط (Guide lines) باہمی مشورے سے با آسانی تیار کیے جاسکتے ہیں ، جن کی پابندی کا اہتمام سب ادارے بہ حسن وخوبی کر سکیں۔
تعلیمی اداروں کی صوبائی اور مرکزی سطح پر اداراتی تنظیم سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ کسی ایک مرکزی نظم کے تحت آجائیں اور اپنی ترقی، خودمختاری اور تنوع سے محروم ہو جائیں۔ قطعاً ایسا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان میں نصب العین اور حکمت عملی پر اتفاق ہو، وڑن اور منزل واضح ہو او ر ہر طالب علم اتالیق کی نگرانی و سرپرستی میں اپنی شخصیت اور فکرکی صورت گری کر سکے، اور ایک مشاورتی عمل کے نتیجے میں اپنے مستقبل کانقشہ ذہن میں لے کر تعلیمی ادارے سے نکلے۔ جس سے معلوم ہوسکے کہ طالب علم کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد زندگی کے کس شعبے میں ممتاز مقام حاصل کرنا ہے۔تجارت میں ، سرکاری ملازمت میں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں، عدلیہ اور دفاع کے نظام میں یا ذاتی کاروبار کرناہے، ہنریا جو شعبہ بھی اسے پسند ہے ا س میں کس مقام تک اور کتنے وقت میں وہاں پہنچنا ہے۔ جب تک یہ عملی زندگی کا منصوبہ، تعلیمی مراحل کے دوران میں واضح نہیں ہوگا، تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔ (جاری ہے)