چند ہفتے قبل ’ہوم اسکولنگ‘ کے موضوع پرعرض کیا تھا کہ اسکول سسٹم ناگزیر نہیں، لیکن یہ عقیدہ ہمارے دماغوں میں راسخ ہوچکا ہے کہ بچے کی تعلیم اس کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہم نے اسکول کے ایک متبادل کے طور پر ’ہوم اسکولنگ سسٹم‘ کی کچھ کامیاب مثالیں بھی پیش کی تھیں۔ اس سے کوئی یہ تاثر نہ لے کہ ہوم اسکولنگ ایک مکمل یا ناگزیر نظام ہے۔ اسکول سسٹم کی طرح اس میں بھی خامیاں اور خوبیاں ہوسکتی ہیں۔ پہلے مضمون کے ردعمل میں بے شمار آراء موصول ہوئیں۔ بیشتر نے ہوم اسکولنگ کو سراہا، مگر اس کے خلاف بھی دلائل آئے۔ بعض لوگوں نے اسے پسند کرنے کے باوجود کچھ رکاوٹوں کا ذکر کیا، مثلاً ماں، باپ کا ملازمت کرنا، چھوٹے گھروں یا جوائنٹ فیملی میں پڑھائی کا ماحول نہ ہونا، یا باپ کی ملازمت کی نوعیت یا ماں کی ذمہ داریاں ایسی ہونا کہ وہ بچوں کی تعلیم کے لیے وقت نہ نکال سکے۔ والدین کا ناخواندہ ہونا بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
کم آمدنی والے گھرانوں میں گھر کے چھوٹا ہونے، کھیل کود اور تفریح کے ذرائع موجود نہ ہونے، یا گلی محلے کی خراب صحبت سے بچانے کے لیے بھی والدین بچے کو چھوٹی عمر میں اسکول بھیج دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسکول میں بچے اساتذہ کی مسلسل نگرانی میں ہوتے ہیں، مگر وہاں بھی ہر طرح کی صحبت ہوتی ہے جس سے بچہ اثرات قبول کرتا ہے۔ اسکول یقیناًسوشل انٹریکشن کا بھی ذریعہ ہوتا ہے، مگر اس کے بدلے میں بچے کو اضافی سماجی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ والدین کا غیر تربیت یافتہ ہونا بھی ہوم اسکولنگ میں مانع قرار دیا جاتا ہے، مگر یہ بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان میں کتنے اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ ہیں؟ ان کا تناسب غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے مقابلے میں کتنا ہے؟ تربیت کی اہمیت سے انکار نہیں مگر ایک تربیت یافتہ استاد کے مقابلے میں غیر تربیت یافتہ مگر ذمہ دار والدین زیادہ بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔ اگر توجہ اور اہمیت دی جائے تو سیکھنے کے بے شمار ذرائع موجود ہیں۔ بڑے شہروں میں ایسی مختصر ورکشاپس منعقد ہوتی رہتی ہیں جن کے ذریعے والدین اپنی اپ گریڈنگ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر ہزاروں سائٹس ایسی موجود ہیں جو ٹیچنگ کی تربیت اور ہوم اسکولنگ سے متعلقہ وسائل مسلسل شیئر کرتی ہیں۔ ان میں بیشتر مفت ہوتی ہیں۔ بچوں کو پابند کرنے کے لیے گھر میں ٹیوٹر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ پڑھانے کی ذمہ داری آپ کی، مگر بٹھا کر کام کرانے کی ٹیوٹر کی۔ مشکل مضامین کے لیے بھی ٹیوٹر رکھا جا سکتا ہے۔ بعض والدین معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ہوم اسکولنگ سے گھبراتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے! کبھی محض دکھاوے کے لیے بڑے اور ’’معیاری‘‘ اسکول کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک پڑھے لکھے والدین کو بچوں کے مستقبل سے متعلق اہم فیصلے محض بھیڑ چال میں آکر نہیں کرنے چاہئیں۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں اب ہوم اسکولنگ ایک معروف طریق کار ہے، اونچے اور متوسط طبقات میں والدین اسے کامیابی سے اپنا رہے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمت، استقامت اور شوق کی ضرورت ہے۔ ہوم اسکولنگ کرانے والے والدین کے لیے سوشل میڈیا پر لاتعداد کلب موجود ہیں جہاں وہ اپنے مسائل اور وسائل ایک دوسرے سے شیئر کرنے کے علاوہ باقاعدگی سے ایسے پروگرام منعقد کرتے ہیں جن میں بچوں کو سوشل انٹریکشن کے علاوہ گروپ پروجیکٹس کے ذریعے کوآپریٹو لرننگ کے مواقع بھی ملتے ہیں اور تفریح کے بھی۔ ہمارے ہاں جیسے جیسے ہوم اسکولنگ کے بارے میں شعور میں اضافہ ہوگا اور لوگ اسے اپنانا شروع کریں گے، ویسے ویسے چھوٹے شہروں میں بھی ایسے گروپ سوشل میڈیا پر وجود میں آئیں گے۔ فی الوقت ایسے شہر جہاں یہ سہولت موجود نہ ہو، انٹرنیٹ پر موجود گروپوں سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو اپنی کسی ہم خیال فیملی کو ساتھ ملا کر ہوم اسکولنگ کریں۔
ہوم اسکولنگ کسی بھی تعلیمی درجے کے لیے ہو، اس کے لیے کچھ اہداف متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابتدائی برسوں میں اپنے عقائد، اردگرد کے ماحول، ریاضی کی بنیادی تعلیم کے ساتھ زبان (اردو اور انگریزی دونوں) پر گرفت مضبوط کرنی چاہیے۔ اگر یہ گھر پر مجموعی طور پر والدین یا ٹیوٹر کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے تو ہوم اسکولنگ کے بارے میں سوچنے میں کوئی حرج نہیں۔ واضح رہے کہ انٹرنیٹ کا صحیح استعمال آپ کی بہت مدد کرے گا، مگر ابتدائی برسوں میں اس کے بغیر بھی اچھے نتائج ممکن ہیں۔ تاہم اس کا غلط استعمال آپ کی محنت کو برباد کرسکتا ہے۔
انٹرنیٹ پر بے شمار تعلیمی ذرائع والدین اور بچوں کے لیے موجود ہیں، مثلاً وڈیو سائٹس پر انگریزی سکھانے والی لاتعداد وڈیوز جنھیں والدین اپنی اور بچوں کی بول چال بہتر کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ ریاضی سیکھنے کے لیے ایک امریکی مسلمان سلمان خان کی ویب سائٹ khanacademy.org کو دنیا بھر میں گریڈ زیرو سے لے کر پی ایچ ڈی لیول تک کے طلبہ استعمال کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ کینیڈا اور امریکا کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بھی اسے تجویز کرتے ہیں۔ اسی سائٹ پر تاریخ اور دوسرے سائنسی مضامین پر مواد اور مشقیں بھی موجود ہیں۔
بچوں کو چھوٹی عمر ہی سے پیغمبروں کے قصے ضرور سنائیں اور پھر صحابہ کرامؓ کے۔ قرآن کی سورتیں جتنی ممکن ہوں حفظ کرائیں۔ حفظ کرنے سے حافظہ تیز ہوتا ہے، اس کے لیے بھی انٹرنیٹ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ الہدیٰ ڈاٹ کام (alhuda.com) پر قرآن کی تجوید کے سبق جو بچے کو تکرار کے ساتھ قرآن پڑھاتے ہیں، مفت میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ Quranexplorer.com پر دنیا کے بہترین قاریوں کی تلاوت کچھ اس طرح موجود ہے کہ آپ ایک آیت سے لے کر پوری سورہ کو جتنی مرتبہ دہرانا چاہیں مختلف آپشنز کی سیٹنگ کے ذریعے دہرا سکتے ہیں۔
اردگرد کے ماحول، صفائی، ماحولیات اور حفاظتی اصولوں کی تعلیم بچوں کو روزمرہ عملی طور پر بھی دی جا سکتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کچن میں یا گارڈن میں کام کررہے ہیں تو انہیں اپنی نگرانی میں ان کاموں میں اُن کی استعداد کے مطابق شریک کریں اور ان امور سے متعلق ہدایات اُن کے ذہن میں راسخ کرتے رہیں۔ بچے اپنی عمر سے بڑا کام کرنے اور سیکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، انھیں اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ پودوں کو پانی دلوانے، لہسن چھلوانے، میز صاف کروانے، اور کبھی کبھی ہانڈی میں چمچہ چلوانے میں کوئی حرج نہیں۔ ہوسکے تو اپنے ہر کام میں انہیں شریک رکھیں، ان سے چھوٹی چھوٹی باتوں میں مشورہ کریں کہ اس سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور ذمہ داری کا احساس بھی بڑھے گا۔ چھوٹی عمر ہی سے بچے کو آگ اور بجلی کے کرنٹ کے نقصانات کا شعور مثالیں دے کر سمجھائیں اور ان سے دور رکھیں۔
سب سے اہم چیز بچے میں مطالعے کا شوق پروان چڑھانا ہے۔ اس کے لیے خود بھی مطالعے کو اپنی عادت بنائیں۔ چاہے بچہ اسکول میں پڑھے یا نہیں، اگر ایک دفعہ مطالعے کا شوق بچے کو ہوگیا اور آپ نے اُس کی ذہنی سطح کے مطابق مناسب لٹریچر اُس کے اردگرد مہیا کردیا تو وہ آپ کی توقع سے زیادہ تیزی سے نئی باتیں سیکھے گا۔ مطالعے کے شوق کے لیے ٹی وی اور کارٹونز کو اس کی زندگی میں کم سے کم رکھیں۔ کمپیوٹر کا استعمال کرائیں مگر اس پر ایجوکیشنل گیمز کی طرف راغب کریں۔
ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو ایک سے زیادہ زبانیں سکھانے پر بہت زور دیا جاتا ہے کہ اس سے ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے، مگر مادری اور قومی زبان کی قیمت پر نہیں۔ بچے سے مادری زبان میں بات کریں، یہ آپ کا اثاثہ ہے، اسے انگریزی کی بھیڑ چال میں ضائع نہ کریں۔ ہاں! انگریزی زبان بھی ضرور سکھائیں۔ فی الوقت انگریزی کے ذریعے آپ کا بچہ دنیا کے تمام علوم اور لٹریچر تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ خود بھی اس زبان میں اپنی استعداد بڑھانے کی کوشش کریں۔ اس مقصدکے لیے کسی اچھے رسالے اور اخبار کا پابندی سے مطالعہ کریں۔ اقبال کی شاعری بچوں کو ضرور متعارف کرائیں۔ ’بانگِ درا‘ میں بچوں کے لیے نظموں کا بہت اچھا کلیکشن ہے، جس سے بچوں کے تخیل کو بھی جِلا ملتی ہے بشرطیکہ اسے معنی کے ساتھ سمجھایا جائے۔کلامِ اقبال شرح سمیت بھی مل جاتا ہے جس میں مشکل الفاظ کے معنی بھی دیے ہوتے ہیں۔ اس سے استفادہ کریں۔
غیر ملکی کتابوں اور وڈیوز کو ضرور استعمال کریں مگر اس سے پہلے بچے کے ذہن میں یہ ضرور واضح کریں کہ دنیا میں ہر مذہب، عقیدے اور ثقافت کے لوگ رہتے ہیں۔ بحیثیت انسان سب کا احترام ہم پر لازم ہے۔ کسی دوسری قوم سے اچھی باتیں سیکھنے میں کوئی خرابی نہیں مگر ہماری اپنی ایک مذہبی اور ثقافتی شناخت ہے، اسے ہم سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔ بچے کو اپنی شناخت پر فخر کرنا ضرور سکھائیے، ورنہ وہ ہمیشہ کنفیوز رہے گا اور زندگی میں کچھ نہیں کرسکے گا۔ آپ اسے مطالعے کا عادی بناکر خود سیکھنے کی اہلیت اور علم کے حصول کی تڑپ پیدا کرنے کے ساتھ اسے بنیادی اخلاقیات کا فہم دینے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کا کام بہت آسان ہوجائے گا۔
مکرر عرض ہے کہ والدین اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے خود ہی بہترین فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن اصل اہمیت بچے کی کردارسازی، اس کی صلاحیتوں کو نکھارنا اور ایسی عادات پروان چڑھانا ہے جو اسے زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کریں۔