(سید علی گیلانی کا مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے الگ کرنے کا مطالبہ(حامد ریاض ڈوگر

316

164قیناوہ ہم سب پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں جو سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج کی سنگینیوں کے سائے تلے ہر طرح کا ظلم و ستم سہتے ہوئے اور زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود نتائج کی پرواہ کئے بغیر ڈنکے کی چوٹ ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ’’ہم پاکستانی ہیں۔۔۔ پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام ہر طرح کے مظالم کا شکار ہونے اور ہندو جیسی قوم کی غلامی کا قلاوہ گلے میں ہونے کے باوجود اس لحاظ سے نہایت خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک جانب جنت نظیر وادی میں رہنے کی سعادت انہیں بخشی ہے تو دوسری جانب سید علی گیلانی جیسے میر کارواں کی قیادت انہیں عطا کی ہے۔۔۔ وہ محض ایک فر د نہیں پوری ایک تحریک ہیں۔۔۔ کاش ان جیسی مخلص، دین دار، امانت و دیانت کی پیکر، دور اندیش، زیرک، حقیقت شناس، معاملہ فہم جرأت مند صاحب فراست اور حکیم ہستی کی قیادت پوری امت مسلمہ کو نصیب ہو جائے تو امت کی بگڑی بن جائے اور طویل مدت سے زوال آشنا یہ امت ایک بار پھر بام عروج پر کھڑی نظر آئے۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ مرحوم نے ایسے ہی مثالی قائد کے لیے فرمایا تھا ؂
نگاہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر، میر کارواں کے لیے!
سید علی گیلانی جیسی عظیم ہستی جب کوئی بات کرتی ہے تو یہ ہمارے پاکستانی حکمرانوں یا سیاست دانوں کا بیان نہیں ہوتا کہ جس کے بعد ان کے وکیل کو عدالت میں یہ التجا کرنا پڑتی ہے کہ جناب وزیر اعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر اور قوم سے خطاب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی اسے بطور شہادت قبول کیا جائے۔۔۔ یہ مرد قلندر اپنے بیان پر ’یوٹرن‘ بھی نہیں لینا اور بات کہنے کے بعد اس پر ’’غیر مشروط معافی‘‘ کے الفاظ تو اس کی لغت ہی میں نہیں۔۔۔ وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو اس سے پہلے سو بار سوچتا اور اپنے الفاظ کو حقائق کے ترازو میں تولتا ہے اور پھر ذاتی سود وزیاں کی پرواہ کئے بغیر ان الفاظ پر ڈٹ جاتا ہے۔ اس لیے جب سید علی گیلانی کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان کی قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کردار پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سربراہی سے مولانا فضل الرحمن کو ہٹا کر کمیٹی کو فعال، بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اسے سیاسی چشمک قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا سری نگر سے ایک پاکستانی چینل سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا کہ ’’حکومت پاکستان کے پاس ایسے لوگ نہیں جو مسئلہ کشمیر پر کمیٹی کی قیادت کریں؟ کشمیر کمیٹی کی قیادت اور ارکان کی اکثریت کشمیر کازکا نہیں سمجھتی۔۔۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سنجیدگی کا اندازہ کشمیر کمیٹی سے ہو رہا ہے۔۔۔ حکومت پاکستان کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے مولانا فضل الرحمن کو ہٹا کر کسی ایسے شخص کو یہ منصب سپرد کرے جو ہندو ذہنیت سے واقف ہو۔۔۔ نواز شریف حکومت نے بیرونی محاذ پر کشمیر کاز کے لیے جرأت مندانہ موقف اپنایا ہے لیکن اندرونی محاذ پر کرپشن کے الزمات نے ان کی پوزیشن کو کمزور کیا۔۔۔!!!‘‘
کیا یہ گفت گو سید گیلانی کے سچا، کھرا اور پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہونے کا ثبوت نہیں کس قدر درد دل اس بیان سے جھلک رہا ہے۔۔۔ ظاہر ہے اس بیان میں مولانا فضل الرحمن کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی ذاتی تعصب کسی بھی سطح پر کار فرما نہیں البتہ مسئلہ کشمیر کے لیے اخلاص کا اظہار اس کے ایک ایک لفظ سے جھلک رہا ہے پاکستانی حکمران اور سیاست دان اس بیان کے پیس پشت موجود خلوص، درد دل اور حکمت و فراست کا احساس کر سکیں۔ سچی بات یہی ہے کہ سید محترم کے اس بیان کے بعد مولانا فضل الرحمن کو از خود ’کشمیر کمیٹی‘کی قیادت سے سبکدوش ہو جانا چاہئے اور کھلے دل سے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ وہ اس منصب کے تقاضوں سے انصاف کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے وہ محض مادی مفادات کی خاطر مزید اس منصب سے چمٹے رہنا مناسب نہیں سمجھتے۔۔۔ سید علی گیلانی کی جانب سے عدم اعتماد کے بعد بھی اگر مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے الگ نہیں ہوتے تو ان کی رہی سہی سیاسی اور اخلاقی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔۔۔!!!
مولانا فضل الرحمن پہلی بار ’کشمیر کمیٹی‘ کے چیئرمین نہیں بنے قبل ازیں پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی یہ منصب ان ہی کے پاس تھا، ’کشمیر کمیٹی‘ کی سربراہی میں مولانا کی دلچسپی اور اس سے محبت کا سبب باخبر حلقے یہ بتاتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی کشمیر سے متعلق خصوصی کمیٹی کا بجٹ دیگر کمیٹیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور مولانا فضل الرحمن کو قواعد و ضوابط کے برعکس وفاقی وزیر کی مراعات بھی حاصل ہیں۔۔۔ کسی کو ان کے ان مادی فوائد کے حصول پر اعتراض نہ ہوتا اگر وہ سنجیدگی سے مسئلہ کشمیر کو اندرون و بیرون ملک اجاگر کرنے کے لیے کچھ موثر اقدامات اور محسوس تگ و دو کرتے۔۔۔ مولانا خود بھی عالم دین ہیں، ایک ممتاز عالم دین کے فرزندہ بلکہ ’’علماء اسلام‘‘ کی جمعیت کے امیر کے طور پر بھی اپنے والد کے وارث اور جانشین ہیں۔۔۔ دنیا نہیں تو آخر میں جواب دہی کے احساس ہی سے مولانا کو خود سوچنا چاہئے کہ گزشتہ آٹھ نو برس کے دوران انہوں نے ’کشمیر کمیٹی‘ کے چیئرمین کی حیثیت سے ملنے والی مراعات کا حق کس حد تک ادا کیا ہے۔۔۔؟ کیا وہ دیانت داری سے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کے طور پر قوم کی جو امانت ان کے سپرد کی گئی اس میں کوئی خیانت انہوں نے نہیں کی۔۔۔؟ کیا مولانا بتا سکتے ہیں کہ ان کی سربراہی میں ’کشمیر کمیٹی‘ کی کاوشوں سے مسئلہ کشمیر میں تنکا بھر بھی مثبت پیش رفت ہوئی ہے ؟؟؟
بانئ پاکستان نے کشمیر کو پاکستان کی ’شہ رگ‘ قرار دیا تھا۔ یہ شہ رگ گزشتہ ستر برس سے پنجۂ ہنود میں ہے اور وہ اسے کاٹ کر آپ کو زندگی کی قید سے آزاد کرنے کے لیے ہر ہر حربہ آزما رہا ہے۔۔۔ ایسے میں کیا ہماری اولین اور اہم ترین ذمہ داری یہ نہیں کہ اپنی جان کی سلامتی کی خاطر ظالم و جابر کا بازو مروڑ کر اپنی شہ رگ کو اس سے آزاد کرائیں اور اپنی بقا و سالمیت کو یقینی بنائیں۔۔۔؟؟؟ مگر ہم ہیں کہ اس خوفناک صورت حال کی جانب سے آنکھیں بند کئے، مسلسل چین کی بانسری بجاتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ بھارت نے اپنے زیر قبضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ فوجی متعین کر رکھے ہیں، جو دنیا بھر میں اتنے رقبے میں گنجان ترین فوجی تعیناتی ہے اور یہ فوج صرف سرحد یا کنٹرول لائن پر ہی موجود نہیں بلکہ اس کی اکثریت شہری علاقوں میں موجود ہے جس نے پورے مقبوضہ کشمیر کو چھاؤنی میں بدل کر رکھ دیا ہے، اور نہتے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور ہمارے کشمیری مسلمان بزرگوں، بچوں، بھائیوں، بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پامال میں مصروف ہے جس پر خود بھارت کے اپنے اور دوسرے بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے چیخ رہے ہیں کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے مگر ہم ہیں کہ اس ظلم اور تشدد پر صدائے احتجاج بلند کرنے پر بھی آمادہ نہیں اور ’’ٹک ٹک دیدم۔۔۔ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔۔۔!!!
’حزب المجاہدین‘ کے کمانڈر مظفر وانی شہید نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر آزاد�ئ کشمیر کی جدوجہد میں نئی روح پھونک دی ہے۔۔۔ کشمیری مسلمان خصوصاً جو ان آزادی کی خاطر مسلسل جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں اور بھارتی فوج کے ہر طرح کے مظالم خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں۔۔۔ آئے روز ہڑتالیں ہوتی ہیں اور مظاہرے کئے جاتے ہیں جن میں پاکستان کے پرچم لہرائے جاتے ہیں۔۔۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے ہیں اور شہید کشمیری پاکستان کے پرچم میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔۔۔ ظلم کا کون سا حربہ ہے جو بھارتی حکومت اور فوج نے نہتے اور بے بس کشمیری مسلمانوں کے خلاف نہیں آزمایا مگر وہ ہر طرح کے حالات میں سینہ تانے کھڑے رہے ہیں اور ہر آزمائش میں سرخرو ہوئے ہیں ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت اپنی سیاسی و سفارتی مصلحتوں کے پیش نظر کسی وقت کمزوری کا مظاہرہ کرے تو کشمیر کمیٹی اسے ایسا نہ کرنے دے اور اپنے دباؤ کے ذریعے حکمرانوں کو کشمیر کاز کے لیے متحرک و فعال رکھے مگر یہاں بھی معاملہ الٹ ہے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر مظفر وانی شہید کو خراج عقیدت پیش کیا اور عالمی ضمیر کو جھنجوڑ کر اس کی ذمہ داریاں یاد دلانے کی کوشش کی مگر ’کشمیر کمیٹی‘کی خاموش نہیں ٹوٹ سکی۔۔۔!!!
مظفر وانی کی شہادت کے بعد گزشتہ چھ ماہ سے جدوجہد آزادی کشمیر ایک نئی کروٹ لے چکی ہے اور اس نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے مگر پاکستان کی قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی توجہ اس جانب تاحال مبذول نہیں ہو سکی۔۔۔ کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نہیں بتا سکتے کہ گزشتہ آٹھ نو برس کے دوران انہوں نے کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دیگر قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر کبھی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی کوئی منظم اور منضبط کوشش کی ہو۔۔۔ ان کی کمیٹی کی جانب سے کبھی عالمی برادری یا درست ممالک کے سفیروں کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی سے آگاہ کرنے کے لیے کسی بریفننگ کا اہتمام کیا گیا ہو یا کوئی باقاعدہ سفارتی مہم چلائی گئی ہو۔۔۔ اندرون ملک رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے کبھی ارکان پارلیمنٹ، دانشوروں، مدیران اخبارات و جرائد، صحافیوں، اساتذہ، طلبہ تاجروں، محنت کشوں یا معاشرے کے کسی دوسرے طبقے کے نمائندوں کے لیے مسئلہ کشمیر، اس کی تازہ صورت اور پاکستان کے موقف سے متعلق کسی چھوٹی بڑی بریفنگ کا اہتمام کیا گیا ہو۔۔۔ کوئی سیمینار منعقد کیا گیا ہو یا کسی جلسے، جلوس یا ریلی کو منظم کیا گیا ہو۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ اب پانچ فروری۔۔۔ ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ سر پر آ چکا ہے۔۔۔جماعت اسلامی، جماعۃ الدعوۃ اور دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں نے شہرخ شہر، گاؤں گاؤں، میں اس موقع پر رنگا رنگ پروگرام ترتیب دیئے ہیں، لیکن مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت اور امارات کام کرنے والی کشمیر کمیٹی اور جمعیۃ العلماء اسلام ماضی کی طرح اس سال بھی تاحال خاموش ہیں اور یوم یکجہتی کشمیر، سے مکمل طور پر لا تعلق دکھائی دے رہی ہیں۔۔۔ اس طرز عمل کو آخر کیا نام دیا جائے۔۔۔؟؟؟
اس صورت حال میں بعض حلقے اگر اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو چونکہ بھارت بھی جانا ہوتا ہے اور وہاں دارالعلوم دیو بند اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرنا ہوتی ہے۔ اس دوران انہیں بھارتی سرکار کی جانب سے جو پروٹوکول اور پذیرائی بخشی جاتی ہے۔ اس نے مولانا کی زبان بند کر رکھی ہے اور وہ اس باعث بھارت کے ہر قسم کے ظلم و ستم کے باوجود بھارت کے خلاف اور مظلوم کشمیریوں کے حق میں لب کشائی سے گریز کرتے ہیں۔ معترضین ممکن ہے کسی بغض کی وجہ سے اس طرح کے اعتراضات اٹھاتے ہوں مگر کیا مولانا کا اپنا طرز عمل ان کی اس رائے کی تائید نہیں کر رہا۔۔۔؟؟؟
قائد حریت سید علی گیلانی کی مولانا فضل الرحمن کے کشمیر کے حوالے سے کردار پر تنقید پہلی اور اچانک نہیں، قومی سیاسی و دینی حلقے کافی عرصہ سے اس ضمن میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں مگر مولانا نے کبھی انہیں درخور اعتنا نہیں سمجھا اور نہ ہی کبھی اپنے طرز فکر و عمل کی اصلاح کی کوئی عمل کوشش کی ہے۔۔۔ سید علی گیلانی کے بیان سے قبل پاکستان میں حریت کانفرنس کے ممتاز رہنماؤں غلام محمد صفی اور فاروق رحمانی نے کم و بیش تین ہفتے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور انہیں کشمیر کمیٹی کی خاموشی، سرد مہری اور غیر مناسب رویہ کے بارے میں خدشات اور تحفظات سے آگاہ کیا جس پر مولانا نے اپنی کوئی کارکردگی بنانے اور صفائی دینے کی بجائے کچھ مہلت طلب کی اور یقین دہانی کرائی کہ ان کے شکوے جلد دور ہو جائیں گے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔!!!
تحریک حریت کشمیر اور قومی سیاسی و سماجی حلقوں کی پریشانی اور تحفظات تو ایک طرف خود کشمیر کمیٹی کے ارکان کمیٹی بھی اپنے چیئرمین کے طرز عمل پر عدم اطمینان اور عدم اعتماد کا کھلے بندوں اظہار کرتے ہیں کمیٹی میں شامل پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالستار بچانی کھل کر کہتے ہیں کہ موجودہ کشمیر کمیٹی کی ساڑھے تین برس کی مدت میں صرف پانچ اجلاس ہوئے۔۔۔ جو نشتند گفتند، برخاستند سے آگے نہ بڑھ سکے اور عملاً اپنے مقصد کے حوالے سے کشمیر کمیٹی کی کارکردگی صفر ہے کشمیر کمیٹی کا حصہ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی مجاہد علی بھی کمیٹی کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مجھے تو کمیٹی کی کوئی خاص کارکردگی نظر نہیں آئی۔۔۔پچھلے چھ ماہ کے دوران کشمیر کی تحریک آزادی میں خاصی تیزی آئی ہے اور بھارتی مظالم میں بھی بہت اضافہ ہو گیا ہے مگر کمیٹی نے اس کا بھی نوٹس نہیں لیا۔۔۔!!!
گھر کی اس گواہی کے بعد بھی کیا اس بات کی کوئی گنجائش باقی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے چمٹے رہیں؟ بہتر ہو گا وہ جس قدر جلد ہو سکے کمیٹی کی سربراہی سے الگ ہو جائیں تاکہ کوئی موزوں فرد یہ ذمہ داری سنبھال کر کمیٹی کے مقاصد کی تکمیل اور تحریک آزادی کشمیر کی تقویت کے لیے کمیٹی کے وسائل کو بروئے کار لا سکے۔۔۔!!!

حصہ