سہل ممتنع اور مشکل پسندی کا امتزاج

1672

محترم معتبر شاہ جہاں پوری کا ’’اعتراف‘‘ سامنے آیا ہے۔ معتبر اپنے نام کے مطابق ہی شاعری میں ایک معتبر نام ہیں اور ان کا شمار استادوں میں ہوتا ہے۔ معتبر شاہ جہاں پوری کا اصل نام محمد صدیق ہے۔ انہوں نے شاعری کا آغاز 21 سال کی عمریں 1975ء میں کیا اور حضرت خاور نظامی کے سامنے زانوئے تلمذطے کیا جن کا انتقال ہوچکا ہے اور اب جناب معتبر خود ایک استاد کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے مجموعہ کلام اعتراف کو دیوان قرار دیا ہے حالانکہ دیوان کی شرائط کچھ اور ہیں۔ جناب معتبر کے ہر شعر میں استادانہ رنگ جھلکتا ہے۔ بعض اشعار ایسے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے کاوش کرنا پڑتی ہے۔
استاد معتبر شاہ جہاں پوری سے زیادہ اور کون اس حقیقت سے و اقف ہوگا کہ عوام میں وہی شعر مقبول ہوتے ہیں جو سمجھنے میں آسان ہوں۔ مرزا غالب جیسے بڑے شاعر کے بارے میں بھی ان کے دور کے ایک صاحب نے اعتراض کیا تھا کہ:
کلام میر سمجھے‘ زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
غالب کا دعویٰ تھا تھاکہ:
گنجینۂ معنی کا طلسم اسے سمجھو
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
یقیناًان کے کئی اشعار گنجینہ معنی کا طلسم تھے لیکن عوامی مقبولیت سے محروم۔ پھر جب انہوں نے ایسے شعر کہے کہ:
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
تو زبان زدعام ہوگئے۔
اس کے مقابلے میں غالب کی وہ غزل دیکھیے جس کے اشعار ہیں:
شمار سبح مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا
ہوائے سیر گل آئینہ بے مہری قاتل
کہ انداز بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا
اس پوری غزل پر فارسی چھائی ہوئی ہے اور اگر ردیف میں آیا کو آمد کردیں تو یہ فارسی کی غزل ہو جائے گی لیکن کتنے لوگوں کو اس غزل کا ایک شعر بھی یاد ہوگا۔ دوسرے شعر کا اردو ترجمہ خود غالب نے پیش کیا کہ:
انہیں منظور اپنے زخمیوں کو دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیر گل کو‘ دیکھنا شوخی بہانے کی
عرصے تک غالب کی شاعری پر فارسی مسلط رہی مگر جب انہوں نے آسان زبان میں شعر کہنے شروع کیے تو غالب ہوگئے۔ ذوق یقیناًبڑے استاد تھے لیکن ان کی شاعری عوام میں مقبول نہیں ہوئی۔ دوسری طرف میر تقی میر‘ سودا اور میر درد کے اشعار عوام کی زبان پر چڑھ گئے۔ میرکا کہنا تھا کہ ’’گفتگو لیکن مجھے عوام سے ہے۔‘‘ غالب نے بھی میر کی استادی کا اعتراف کیا لیکن یہی میر صاحب کہتے ہیں
’’کیا چیتنے کا فائدہ جب شیب میں چیتا‘‘
اب اس چیستان پر دماغ لڑاتے رہیے دوسری طرف ایسے شعر کہ:
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
یہ پوری غزل عوام میں مقبول ہوگئی۔ اس لمبی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ عوام میں وہی شعر زبان زد عام ہوتے ہیں جو عام فہم ہوں۔ حضرت معتبر کے مجموعہ کلام میں ایسے کئی اشعار ہیں جو ’’از دل ریزد‘ بر دل خیزد‘‘ کی مثال ہیں۔ مثلاً
ہمارے دم سے ہی صحن چمن کی رونق ہے
روشن روشن شجر سایہ دار ہیں ہم لوگ
بکھیرتے ہی رہے رنگ اپنی بستی کے
کبھی خزاں‘ کبھی فصل بہار ہیں ہم لوگ
بڑی رواں غزل ہے۔ مزید دیکھیے
صبح طرب کو چاہیے نغمہ فصل گل اگر
بلبلِ بے قرار کو قید سے تو نکال دے
*
ہم نے اگر خدا کو دیکھا نہیں تو کیا ہے
سارے جہاں میں اس کا جلوہ نہیں تو کیا ہے
آدم اگر خطا کا پتلا نہیں تو کیا ہے
دنیا میں خیر و شر کا جھگڑا نہیں تو کیا ہے
*
سمجھ سکا نہ ترا التفات میں لیکن
کوئی کشش ہے جو دل کھینچتی ہے قبلہ رخ
جلا رہی ہے شبِ انتظار دل میرا
تمہارے گھر کی طرف ہے مرے چراغ کا رخ
’’رخ کی ردیف میں بڑی رواں دواں غزل ہے۔ ایک اور شعر دیکھیے:
شاد ہوں گے نہ کبھی ہم کو ستانے والے
پھر نہ آئیں گے کبھی روٹھ کے جانے والے
لیکن مجموعہ کلام میں ایسے اشعار بھی ہیں جنہیں گنجینہ معنی کا طلسم یا استادانہ مشکل پسندی کہا جاسکتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ طرحی مصرعوں پر طبع آزمائی کرنے سے بھی ایسا ہوجاتا ہے‘ بقول شیخ ابراہیم ذوق ’’نکال اس کو کہ ہے یہ بشر فساد کی جڑ‘‘
ذرا یہ شعر دیکھیے:
نظر تھی آئینے پر جب حصار خد و خال کھینچے
میں دیکھوں تو کہاں تک طول میرا عکس قد کھینچے
ابھی تک ہے شعار اختلاط ناروا جائز
کوئی تو بڑھ کے دیوارِ تمیز نیک و بد کھینچے
کہاں تک عقدہ سود و زیاں انسان پر کھلتا
کہاں تک دل پناہ غفلت داد و ستد کھیچنے
عبیداللہ ساگر کی رائے سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ معتبر نے سچائی اور حقیقت کا اظہار حسن و خوبی سے کیا ہے۔
مجموعے میں کہیں کہیں پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں مثلاً یہ مصرع ’’بمشکل بوئے گل تر سفر میں ہیں تو سہی‘‘ (صفحہ 192) یہاں ’’بشکل‘‘ ہوگا جسے ’’بمشکل‘‘ بنا دیا گیا۔
معتبر کے استاد مرحوم خاور نظامی نے 12 سال پہلے اپنے شاگرد رشید کو حقیقت پسند شاعر قرار دیا ہے۔ استاد کے توصیفی مضمون میں بھی کمپوزنگ یا پروف ریڈنگ کی غلطیاں رہ گئی ہیں مثلاً صفحہ 16 پر ’’قابل ستائش استبداد‘‘ اور ’’اللہ کا قوم ہے‘‘
’’اعتراف‘‘ کا ناشر بزم تخلیق ادب پاکستان‘ کراچی ہے۔ قیمت 400 روپے اور صفحات 272 ہیں۔ فلیپ میں عثمان قیصر نے معتبر شاہجہاں پوری کو منظوم خراج تحسین ادا کیا ہے۔ پہلا مصرع ہے ’’شعر و سخن کی شاخ تناور ہے با ثمر‘‘ شاخ تناور کی ترکیب صحیح نہیں لگتی کیوں کہ تناور کا تعلق تنے سے ہے‘ شاخ اس کا حصہ ہوتی ہے۔
اعتراف کا سرورق جناب معراج جامی کی فکر کا نتیجہ ہے۔ وہ خود ایک اچھے شاعر ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ مصوری کا ذوق بھی رکھتے ہیں۔

حصہ