مولانا عبیداللہ سندھی کی سحر انگیز شخصیت کا خاکہ کچھ اس طرح سے ہے: ’’درمیانہ قد، گول چہرہ، متوازن نقش و نگار، ذہانت کی آئینہ دار موٹی موٹی چمکدار آنکھیں، گورا رنگ، سفید داڑھی چہرے کے رنگ کے عین مطابق، ننگا سر بالوں سے بے نیاز، سفید کھدر کا لمبا کرتا، سفید کھدر کی شلوار زیب تن، جاذبِ قلب و نظر شخصیت کے مالک اور بڑے متحرک، اسلوبِ کلام پُراعتماد، اور شانِ جلالی ہر لفظ میں نمایاں۔
جٹ سکھ خاندان کے سیالکوٹی گھرانے میں 10 مارچ 1872ء کو آنکھ کھولنے والے بوٹا سنگھ اوائل عمری میں اپنے دوست کلاس فیلو سے کتاب مستعار لے کر اپنے علم کی پیاس بجھاتے بجھاتے بوٹا سنگھ سے عبیداللہ سندھی بن گئے۔ پھر دیوبند میں شیخ کی ارادت مندی میں آنے کے بعد مولانا عبیداللہ سندھی ہوگئے۔ ان کی زندگی کے 24 برس (1915ء سے 1939ء تک) افغانستان، سوویت یونین، ترکی اور سعودی عرب (حجاز) میں گزرے۔
1897ء سے لے کر 1944ء یعنی وفات تک کے پچاس سال انتہائی تحرّک اور فعالیت میں گزارے۔ یہ پچاس سال ایک طرف تو آپ نے سندھ کی قومی طاقتوں کو قومی نکتہ نگاہ پر مجتمع کرنے پر صرف کیے اور دوسری جانب دیوبند کے علماء کو جہادِ آزادی کے لیے ازسرنو تیار کیا۔ جدوجہد کے پہلے مرحلے میں دیوبند اور علی گڑھ کے عالم و فاضل افراد کو جمعیت الانصار کی شکل میں ایک جگہ منظم کیا۔ دوسرے مرحلے پر کابل میں پہلے سے موجود مجاہدین جو کہ شیخ الہند کے شاگرد تھے، ان کو سیاسی حوالے سے ایک شناخت دی، اور انگریز کو مجبور کرکے1920ء میں افغانستان کی آزادی تسلیم کروائی۔ اور آنے والے دنوں میں حکومتِ برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کا بھی وعدہ لیا۔
مولانا عبیداللہ سندھی کی زندگی کا بہت بڑا حصہ ہجرت، سفر اور مستقل آزادی کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ 1915ء میں کابل پہنچے، پھر چند سال قیام کے بعد ماسکو (روس) چلے آئے۔ یہاں پہنچ کر زارِ روس کے اقتدار کو بکھرتے اور جدید روس کو بنتے ہوئے دیکھا۔ اس مشاہدے نے آپ کے ذہن پر بہت گہرے نقوش ثبت کیے۔
اپنی جلاوطنی کے 24 برسوں میں عبیداللہ سندھی نے افغانستان کے حکمرانوں کی سیاسی قلابازیوں کو اچھی طرح جانچ لیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ انقلاب پر چڑھے قومیت پرستی کے غلاف کو بھی اترتے دیکھا۔ اسی اثناء میں ترکی کے مصطفی کمال اتاترک کی جدیدیت کا بھی مشاہدہ کیا اور اسلامی دنیا کے نقشے پر حجاز مقدس کی جگہ سعودی بادشاہت اور اس بادشاہت کی سیاسی ترجیحات اور جابرانہ طرزِ حکمرانی کا بھی بغور مطالعہ کیا۔ اپنے طویل تجربے اور حیرت انگیز مشاہدے کی روشنی میں اپنا مؤقف اس طرح پیش کیا کہ ’’میں نے دہریہ روس سے حجاز مقدس تک حکمرانوں کو دیکھا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہمارے انقلاب کو کوئی دوسرا ملک مدد نہیں دے گا کیونکہ ہر ملک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسیاں ہیں۔ وہ اپنی خارجہ پالیسیوں کے تحت ہی انقلابیوں کو چکر دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔ اگر ہم حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنے عوام ہی پر بھروسا کرنا ہوگا، نہ کہ کسی بیرونی طاقت پر۔‘‘
1939ء میں ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی پر مولانا عبیداللہ سندھی کا اتنا دلیرانہ اور بھرپور مؤقف ان کے 24 سالہ مشاہدات کی روشنی میں ہی سمجھا جاسکتا ہے جو انھوں نے بیرون ہندوستان حاصل کیا۔
گو کہ مولانا عبیداللہ آل انڈیا کانگریس کے پُرزور حامی تھے، مگر انہوں نے مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی آف پنجاب کو بھی اپنی گڈ بک میں جگہ دے رکھی تھی۔ گاندھی جی کی سیاست کی کئی مواقع پر مخالفت بھی کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وہ ہندوستان کو ایک قوم کہنے کے بجائے قوموں کا وفاق کہیں۔
عبداللہ ہارون کی کوششوں سے فروری 1939ء میں حکومتِ سندھ کی ضمانت پر انگریز حکومت نے مولانا عبیداللہ سندھی کو وطن واپس آنے کی اجازت دے دی تھی۔
مولانا عبیداللہ نے وطن واپس آکر اپنے تجربات کی روشنی اور مشاہدات کو پیش نظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں مولویانہ مزاج سے ہٹ کر اجتہادی انداز میں وعظ و نصیحت شروع کی تو ان پر الزامات کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ یہاں سے آپ ترقی پسند مولوی اور اجتہادی بھی قرار پائے، ساتھ ہی ساتھ آپ پر سندھی قوم پرست ہونے کا بھی الزام لگایا گیا۔
عبیداللہ سندھی ایک طویل عرصہ کابل، ماسکو اور ترکی میں گزار کر آئے تھے۔ سوشلسٹ انقلاب و نظریات، ترکی کی پروان چڑھتی قومیت اور جدیدیت کے سیلاب نے ان کی زندگی میں ایک خاص رنگ پیدا کردیا تھا۔ وہ اسلام کو محض روحانی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر انسان کی مکمل زندگی بشمول معیشت، رہن سہن، تہذیب و تمدن اور ریاست سب پر حاوی دیکھنا چاہتے تھے۔ معذرت کے ساتھ اُس وقت کا سکہ بند مولوی مکتب، عبیداللہ سندھی کے ترمیم شدہ خیالات کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے اپنے مکتبِ فکر کے بہت سے زعما نے ان کی مخالفت میں کہنا شروع کردیا۔
مولانا جب چوبیس برس بعد 1939ء میں وطن واپس لوٹے تو انہوں نے اپنے وطن کے لوگوں کو ان الفاظ میں اپنا پیغام دیا:
’’میں انقلاب کے دینی فلسفے کا پیغام دینے تمہارے پاس واپس آیا ہوں۔ انقلاب کا میرا یہ پیغام تمہیں لادینی انقلاب کے مضر اثرات سے محفوظ رکھ سکے گا۔ محنت کش لوگوں کے ہاتھ میں قوت اور اقتدار آنا لازمی ہوگیا ہے۔ تم نے اگر محنت کشوں کے اس اقتدار کو دینی نہیں بنایا تو پھر یہ انقلاب حتمی طور پر لادینی فلسفے کے زیراثر ہوگا۔‘‘
اُن کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ مظلوموں، محکوموں کے اقتدار کو اب روکا نہیں جاسکتا۔ اس پیغام میں درحقیقت وہ جو بات کہنا چاہ رہے تھے وہ یہ تھی کہ عالمی منظرنامہ بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہا ہے۔ مزدور اور محنت کش اپنے اپنے جتھے بنا چکے ہیں۔ گویا اب مذہب کو محض رسوم و عبادت تک محدود نہ کیا جائے بلکہ ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے تبدیلی کے ان عوامل کو دین کے دائرۂ اثر میں رکھا جائے یا اس بارے میں شعوری کوشش ضرور کی جائے۔‘‘ (یہی بات اُس وقت کے دینی سکہ بند عناصر کو گراں گزری۔ اور ان پر انقلابی اجتہادی جیسے فقرے کسے جانے لگے)
عبیداللہ سندھی نے متعدد موقعوں پر ریاستی انقلاب سے پہلے اپنی زندگی اور ذات کے انقلاب پر زور دیا ہے۔ آپ کہتے تھے کہ ضروری ہے کہ اگر آنے والے انقلاب کے برے اثرات سے بچنا چاہتے ہو تو قومی ضمیر میں انقلاب لے کر آؤ اور انقلابی سوچ و فکر سے اپنے ضمیر کا ڈھانچہ بناؤ۔ اس طرح تم تقلیدی انقلابی نہیں بنو گے بلکہ تمہارے باطن سے انقلاب کے سوتے پھوٹیں گے، اور پھر اس انقلاب کی شکل اور ہیئت تمہارے وطن کے حالات اور اس کی روایات کے مطابق ہوگی۔ اور پھر اس طرح جو انقلاب رونما ہوگا مجھے یقین ہے کہ روس کی طرح لادین نہیں ہوگا۔‘‘
ان خیالات کے سبب ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ روس کے انقلاب سے متاثر ہوئے اور محنت کشوں کے اقتدار کی بات کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کم فہمی پر مبنی رائے تھی جو اُن کے بارے میں قائم کی گئی۔ مولانا کی جگہ کوئی بھی فرد ہوتا جس نے روس میں ایک انقلاب کو پروان چڑھتے دیکھا ہو اور اسی طرح عثمانی سلطنت کے ختم ہونے کے بعد جدید ترکی کی تعمیر اور عوامی مقبولیت دیکھی ہو، اُس کی ان انقلابات کے بارے میں زمینی حقائق پر مبنی رائے ضرور ہی بننی تھی۔
مگر مولانا عبیداللہ سندھی کی بالغ نظری تھی کہ آپ اس طرح کے عوامی دھاروں کے جذباتی انقلاب کے اثراتِ بد سے بھی بخوبی آگاہ تھے اور اس سے بچنے کے طریقوں سے بھی آگاہی دلا رہے تھے۔
مولانا عبیداللہ سندھی کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ اگر بیرونی عوامل کے زور پر کسی بیرونی قوت کے زیراثر رہ کر کوئی انقلاب برپا ہو بھی جائے تو وہ دیرپا نہیں ہوگا۔ اپنے ان خیالات کو انھوں نے اپنے معتقدین کے سامنے اس طرح سے پیش کیا: ’’اگر تمہارے محنت کش طبقے لادینی انقلاب کے ذریعے اٹھے تو اس سے تمہارے دین کا جو حشر ہوگا وہ تو معلوم ہی ہے، لیکن اس کا اثر تمہارے قومی وجود کے لیے بھی زیادہ مفید نہیں ہوگا۔ اس لادینی انقلاب کا مرکز تمہارے ملک سے باہر پرورش پارہا ہے، اگر اس بیرونی مرکز کے لادینی انقلاب کی رو میں تم بہہ گئے تو اگرچہ یہ مان بھی لیا جائے کہ تم سیاسی طور پر آزاد اور خود مختار ہوگے، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تم ذہنی طور پر اوروں کے مقلد ہوجاؤ گے۔‘‘
انقلاب، تبدیلی، محکوم و مظلوم کی کشمکش اور گرد و پیش میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو دین کے ساتھ جوڑے رکھنے اور اپنے اپنے باطن میں حقیقی انقلاب برپا کرنے کی دعوت و نصیحت دینے والا کوئی عام مولوی نہیں تھا، بلکہ اپنے دور کے عظیم مجاہد اور انقلابی مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔ وہ جب بوٹا سنگھ تھے تب بھی گرجدار اور مختلف مزاج تھے، اور جب حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے تب بھی منفرد اور سب سے جداگانہ انداز لیے ہوئے تھے۔
مولانا عبیداللہ سندھی کا انقلاب کا فلسفہ ایسے انقلاب کا پتا دیتا تھا جو علم اور سائنس کی برکات سے بھی مالا مال ہو۔ تعلیم و ترقی سے بھی استفادہ کرے اور صرف مادی تبدیلی پر انحصار نہ کرے بلکہ اس انقلاب میں فرد کا کائنات اور روح کے ساتھ بھی باہمی ربط لازم ہو۔
(جاری ہے)