المحصنات ٹوبہ ٹیک سنگھ
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
کسی کام کو وقتِ مقررہ پر اور با قاعدگی سے سرانجام دینا پابندئ وقت کہلاتا ہے۔ پابندئ وقت انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وقت کیا ہے؟ وقت زندگی کا دوسرا نام ہے۔ زندگی لمحات کا مجموعہ ہے۔ سیکنڈوں کی سوئی پر نظر جمائیے، آپ گزرتے وقت کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ وقت تیزی سے بہنے والا ایک ایسا دریا ہے جسے روکا جا سکتا ہے نہ واپس لایا جا سکتا ہے۔ یہ برف کی مانند غیر محسوس انداز میں پگھلتا جا رہا ہے۔ چاند، سورج کا طلوع و غروب، موسموں کی تبدیلی، سیاروں کی گردش، سمندر کا مدوجزر۔۔۔ غرض کائنات کا پورا نظام وقت کا پابند ہے۔ ذرا تصور کیجیے اگر کسی وجہ سے ان میں سے کسی ایک کے معمولات میں فرق آجائے تو کائنات تباہ ہوجائے گی۔ اس نظامِ کائنات میں افراد اورقوموں کے لیے ایک بڑا سبق ہے، جو لوگ وقت کی اہمیت کو سمجھ لیتے ہیں وہ وقت کی پابندی کرکے نظامِ کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور کامیابی ان کے قدم چومتی ہے، اور جو قومیں وقت کے دھارے کا ساتھ نہیں دے سکتیں، وہ مدار سے ہٹ کر تباہ ہوجاتی ہیں اور گردشِ زمانہ میں گم ہوجاتی ہیں۔۔۔ ان کا سراغ بھی نہیں ملتا۔
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال، قیامت کی چل گیا
اللہ تعالیٰ نے نظامِ کائنات چلانے کے لیے مختلف انسانوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ انسانی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں، مثلاً شکل و صورت، رنگ و روپ، افتادِ طبع، نزاکت و جفاکشی۔۔۔ یعنی کئی اعتبار سے انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ وقت ایک ایسی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بلا تفریق ہر ایک کو یکساں طور پر عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عناصرِ فطرت کا نظام الاوقات بھی مقرر کردیا ہے۔ سورج کا طلوع و غروب، زمین اور چاند کی گردش، موسموں کی تبدیلی وغیرہ۔ خالقِ کائنات کے مبعوث کردہ تمام پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے ضابطے کے مطابق زندگی گزارنے پر زور دیا۔ نماز کے اوقات مقرر ہیں، سحر و افطار اور حج کے لیے وقت معین ہے۔ عیدین، قربانی اور حقوق و فرائض پورے کرنے کے سارے نظام میں وقت کی اہمیت مسلّم ہے۔ گویا دینِ فطرت دن میں پانچ وقت مسلمانوں کو وقت کی پابندی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی پابندی کو اختیار کرنے میں خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی ہے۔ دیگر مذاہب میں بھی عبادات اور وقت کا گہرا تعلق ہے۔ دورِ حاضر میں بعض قومیں ترقی یافتہ، بعض ترقی پذیر اور کچھ غیر ترقی یافتہ نظر آتی ہیں۔ ان قوموں کی تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ترقی اور عروج بہت سے دوسرے عناصر کے علاوہ زیادہ تر وقت کی قدر و قیمت کے ادراک کی وجہ سے ہے۔ وقت کی قدرو قیمت سے صرفِ نظر کرنے کا نتیجہ نہ صرف پسماندگی بلکہ نسل در نسل غلامی ہے۔ جس نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا، تاریخ اسے ضرور سبق سکھاتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ فلاں قوم ہم سے سو سال آگے ہے تو اس کا سادہ سا مفہوم تو یہی ہے کہ انہوں نے ہم سے سو سال پہلے وقت سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا تھا۔ ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ اقوام کے دفاتر، اداروں، گلی کوچوں، بازاروں میں لوگ زیادہ وقت فضول بحث مباحثے میں ضائع کرتے رہتے ہیں۔ کاہلی اور ضیاعِ وقت کے طفیل یہ لوگ پسماندگی ہی کے گرداب میں اسیر رہتے ہیں۔
وقت صرف اُسی کا دوست ہے جو اس کی عزت یعنی قدر کرتا ہے۔ یہ اُسے فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے اور ایسے افراد کے نام اپنے سینے میں محفوظ کرلیتا ہے۔ اور جو اس سے فائدہ نہ اٹھائیں وہ وقت کے انتقام سے بچ نہیں سکتے اور وہ دنیا میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اقبال نے وقت کی بات خوب صورت انداز میں کی ہے:
ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب،کسی کامرکب،کسی کو، عبرت کا تازیانہ
گویا یہ سوار بھی ہے، سواری بھی، اور عبرت کا تازیانہ بھی۔۔۔ یا آقا بھی ہے، غلام بھی اور عبرت انگیز بھی۔
یوں تو وقت سب کے لیے اہم ہے لیکن جو لوگ بہت سا وقت گنوا چکے ہیں اب وہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں وقت کی اہمیت کا ادراک کرلیں تو نقصان کی تلافی کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر طلبہ کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ زندگی میں کامیابی فطری اصولوں پر چلنے یعنی وقت کی پابندی میں مضمر ہے تو ان کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل الگ الگ نہیں، وقت ایک تسلسل کا نام ہے۔ آج سے تہیہ کرلیں کہ تضیع اوقات کی ہر صورت کو ترک کردیں گے تو آپ کا حال سنور جائے گا۔ یہی حال ٹھوس بنیادیں مہیا کرتا ہے جس پر خوابوں کے محل یعنی مستقبل کی عمارت بطریق احسن تعمیر کی جا سکتی ہے۔ جس کو وقت کے زیاں کا احساس ہوجائے اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ آپ وقت کی قدر و قیمت کا احساس تو کیجیے، وقت خود آپ کا ممد و معاون ہوگا۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔
nn