زبان سیدہ عنبرینجامعۃ المحصنات کراچی

241

خلق جامعۃ المحصنات کے بارے میں والدین کے تاثرات
عبدالحمید
ہمارا تعلق کشمیر کی وادئ نیلم کے گاؤں لوات سے ہے اور میری بیٹی سعدیہ عبدالحمید جامعۃ المحصنات کراچی کی طالبہ ہے۔ عورت کئی افراد کی تربیت کرتی ہے اس لیے عورت کو اسلامی طور طریقوں سے مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔ بہت خواہش تھی کہ میری بیٹی شعوری طور پر مسلمان بن سکے، اس لیے میں نے اپنی بیٹی کو دینی و عصری علوم سے آراستہ کرنے کے لیے جامعۃ المحصنات میں داخل کروایا، نیز مجھے جامعۃ المحصنات کے فرقہ بندی سے پاک ماحول نے بھی متاثر کیا۔
محمد اسلم طارق
میری بیٹی حافظہ اقدس اسلم جامعۃ المحصنات ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طالبہ ہے۔ میں ایک اسکول ٹیچر ہوں اور میری اہلیہ نے بھی الحمدللہ ایف اے تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اپنی بیٹی کو دنیاوی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرنے کے لیے جامعۃ المحصنات کا انتخاب کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک تعلیم یافتہ عورت ہی اپنے بچوں کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت کرسکتی ہے۔ اسی لیے نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ تم مجھے عظیم مائیں دو، میں تمہیں عظیم قوم دوں گا۔ دیگر والدین کے نام میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم ضرور دلائیں، کم از کم اتنی ضرور دلوائیں کہ بچے دین کے بنیادی عقائد و تصورات سے آگاہ ہوجائیں۔ یہ آپ کا فرض اور بچے کا حق ہے۔
الطاف سومرو
میں ایک سرکاری وکیل ہوں۔ میری بیٹی فائقہ جامعۃ المحصنات لاڑکانہ کی طالبہ ہے۔ ہمارا تعلق لاڑکانہ کے گاؤ ں بنگل دیرو سے ہے۔ وہاں کی اکثر بچیاں جامعہ لاڑکانہ کی فارغ التحصیل ہیں جن کا کردار و عمل قابلِ رشک نظر آتا ہے۔ بس اسی کو دیکھ کر اپنی بیٹی کو جامعہ میں داخل کرانے کی خواہش جاگی۔ عورت کی تعلیم عموماً ہمارے یہاں ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کو ایک گھر نہیں نسلوں کی تربیت کرنی ہوتی ہے۔ مرد کا فوکس عموماً معاشی ضروریات پوری کرنے پر ہوتا ہے، جبکہ عورت زندگی کا ہر پہلو نسلوں میں منتقل کرتی ہے، جو صرف تعلیم ہی سے ممکن ہے۔ میں تمام والدین سے کہوں گا کہ بچیوں کو ضرور تعلیم دلائیں تاکہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھے جانے کا تصور بھی ختم ہو اور بچیاں دین و دنیا میں والدین کے لیے فخر کا باعث بنیں۔
عبدالمنعم منصوری ( اسسٹنٹ پروفیسر ٹنڈو جام یونیورسٹی)
میرا تعلق ہالا سندھ سے ہے۔ میری بیٹی بشریٰ عبدالمنعم منصورہ جامعہ (سندھ) میں زیرِ تعلیم ہے۔ اولاد کے حقوق میں سے ایک حق اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اس پُرفتن دور میں اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں، انہیں دین و دنیا کا صحیح فہم اور اچھے برے کی پہچان کروائیں۔ نسلِ نو کی تربیت و صالح معاشرے کی تعمیر میں چونکہ عورت کا بڑا کردار ہے اس لحاظ سے عورت کے لیے تعلیم کی اہمیت بدرجہ اولیٰ بڑھ جاتی ہے۔ ہم نے بھی تعلیم و تربیت کو ترجیح دیتے ہوئے بیٹی کے لیے جامعۃ المحصنات کا انتخاب کیا۔ میری بڑی تین بیٹیوں اور بہنوں نے بھی جامعہ سے ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ الحمدللہ یہ ادارہ ہماری امیدوں سے بڑھ کر ثابت ہوا ہے۔
سید ازکیاء ہاشمی(پروفیسر ڈاکٹر ہزارہ یونیورسٹی)
میں ہزارہ یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسس، جبکہ جامعہ اسلامیہ محمودیہ مانسہرہ میں مہتمم کے عہدے پر فائز ہوں۔ میری اہلیہ سیدہ نفیسہ ہاشمی ایم اے اسلامیات ہیں۔ ہماری بیٹی قدسیہ ہاشمی جامعۃ المحصنات مانسہرہ کی طالبہ ہے۔ خواتین نصف انسانیت ہیں اور ان کی تعلیم پوری انسانیت کی تعلیم ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنی بچیوں کو زیادہ تر وہ تعلیم دے رہے ہیں جو ان کی عملی زندگی سے زیادہ ہم آہنگ نہیں ہوتی۔ دینی و عصری علوم کی جامعیت، اخلاقی و دینی تربیت کا اہتمام، دعوتی و ہم نصابی سرگر میوں کی طرف توجہ، یہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ہم نے جامعۃ المحصنات کا انتخاب کیا اور بہت مطمئن ہیں۔
زلیخا رانا
میرا تعلق ضلع سانگھڑ کی تحصیل سنجھورو سے ہے اور میں ایک عام گھریلو خاتون ہوں۔ اگرچہ بذاتِ خود میں بہت تعلیم یافتہ نہیں مگر میرے شوہر اسلامی کلچر اور عمرانیات میں ماسٹرز ہیں۔ ہم دونوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ اپنے بچے اور بچیوں کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کرائیں۔ جس قبیلے سے ہمارا تعلق ہے وہاں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ خاندان کے بزرگ افراد کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو گھر داری سنبھالنی ہے اس کے لیے تعلیم ضروری نہیں، جبکہ ہم نے اس سوچ کو بدلنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ جب میری بڑی بیٹی نے 1996ء میں میٹرک کیا تو کئی اداروں کے بارے میں معلومات حاصل کیں مگر کوئی بھی ادارہ ہمیں مکمل طور پر مطمئن نہ کرسکا۔ جب جامعہ اور اس کے نظامِ تعلیم کے بارے میں علم ہوا تو پہلا انتخاب جامعہ ہی تھا۔ بڑی بیٹی کوثر عبدالجبار نے جامعہ سے شھادتہ العالیہ کیا۔ اس میں مثبت تبدیلی آئی، زندگی کے فیصلے قرآن و سنت کے مطابق کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہماری تمام بچیاں جامعہ سے علم حاصل کریں گی، ان شاء اللہ۔ اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ میری سب سے چھوٹی بیٹی سدرہ کلثوم بنتِ عبدالجبار بھی اب جامعہ سنجھورو کی طالبہ ہے۔ ہم جامعہ کے ماحول اور تربیت سے مطمئن ہیں۔ دیگر والدین کے لیے بھی ہمارا پیغام ہے کہ اگر وہ اپنی بیٹیوں کو معاشرے میں ایک مضبوط کردار کی حامل، شریعتِ طاہرہ کی پابند دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں موجودہ تعلیم اور حالات کے دھارے پر بہنے کے لیے تنہا نہ چھوڑیں بلکہ ان کو قرآن و سنت کی مہارت دے کر ان کی زندگیوں کو سنواریں۔
غلام رسول
میری بیٹی کا نام سلیمہ غلام رسول ہے جو جامعۃ المحصنات کوئٹہ میں زیرِ تعلیم ہے۔ علم انبیاء کی میراث ہے۔ بالخصوص عورت کی تعلیم تو صرف اس کی تعلیم نہیں ہوتی بلکہ پورے گھر اور پورے معاشرے کی تعلیم ہوتی ہے۔ وہ اپنی تعلیم کے ذریعے ایک ان پڑھ گھرانے کی بھی تربیت کرسکتی ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کے لیے جامعہ کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہ دینی و عصری علوم سے آگاہ ہوکر اپنے علاقے میں ایک مثالی طالبہ کا کردار ادا کرسکے۔
nn

حصہ