آو پھر سے ملیں ۔۔۔۔آؤ ساتھ چلیں (افشاں نوید

2151

آو پھر سے ملیں ۔۔۔۔آؤ ساتھ چلیں
افشاں نوید
’’آؤ پھر سے ملیں۔۔۔ آؤ ساتھ چلیں‘‘۔۔۔ سادہ سے یہ جملے اپنے اندر معنی کا ایک جہان رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہورہا کہ کب سے بچھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ہیں بہرحال بچھڑے ہوئے۔ ملنے کی یہ خواہش بھی یک طرفہ ہے اور خواہشوں میں عظیم ترین خواہش ہے۔ ورنہ یہاں تو احوال یہ ہے کہ نظر سے دور۔۔۔ دل سے دور۔۔۔ اور اب تو ’’فرینڈز‘‘ کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں۔ آپ فیس بُک کو کلک کریں تو اصرار کیا جاتا ہے کہ ان درجنوں لوگوں کو آپ جانتے ہیں تو اپنی دوستی کے سرکل میں شامل کیوں نہیں کرلیتے؟ درجنوں درخواستیں روزانہ آپ کو موصول ہوتی ہیں کہ ہمیں اپنے حلقۂ احباب میں شامل کرلیں، اور درجنوں لوگ بار بار آپ کے سامنے لائے جاتے ہیں کہ آپ ان سے درخواست کریں کہ وہ آپ پر چشم کرم کردیں۔ سو ہر آن دوستیوں کے اس ہجوم میں، اس میلے میں کس کو پروا ہے کہ بچھڑوں کو یاد کرے، اور نہ صرف یاد کرے بلکہ یہ خواہش کرے کہ اس دوری کو ختم ہونا چاہیے، اور تمنا صرف دل میں نہ ہو بلکہ تمنا خواہش بن کر لبوں تک آجائے۔ ان سادہ فقروں میں امکانات کی بھی ایک دنیا آباد ہے۔ ایک بڑا جان دار اور پُراثر پیغام ہے کہ:
بچھڑ گئے ہیں تو کیا ہوا، یہی تو دستورِ زندگی ہے
جدائیوں میں نہ فرقتوں کا ملال ہوگا یہ طے ہوا تھا
ملنا اور بچھڑنا تو دستورِ زندگی ٹھیرا۔ مگر اس بچھڑنے میں ملنے کی کسک اور آس رہے، بس یہی زندگی ہے۔ ورنہ پیٹھ پھیر کر جانے والے کو بلانا، پکارنا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ بھی نہیں۔ زمانہ ہوا ہم بھی کراچی یونیورسٹی کے اس مشاعرے میں موجود تھے جہاں معروف شاعر محمود غزنوی نے (جو اُس وقت یونین کے صدر تھے) اسٹیج پر برملا کہا تھا:
پکارے جانے کا وہ انتظار کرتے ہیں
صدائیں دینے کے قائل تو اتنے ہم بھی نہیں
جبینِ شوق تیرے سنگِ در پہ جھک جائے
تُو محترم ہے، مگر اتنا محترم بھی نہیں
انسانی نفسیات بالکل یہی ہے کہ صرف اُس جانے والے کو پکارا جائے جو ہم سے زیادہ محترم ہو، اور اگر کسی کو پکار لیا تو علی الاعلان یہ پیغام چلا گیا کہ دوسرا ہم سے احترام میں بازی لے گیا۔ ایسے میں اگر کوئی یہ پیغام دیتا ہے کہ پھر سے ملنا چاہیے اور صرف ملنا ہی نہیں چاہیے بلکہ ساتھ بھی چلنا چاہیے۔ دوسرا ساتھ چلنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہا، ہم پھر بھی مُصر ہیں، کیونکہ آگے سفر کی صعوبتوں سے ہم زیادہ واقف ہیں۔ آنے والے وقت کے خطرات کو ہمارا لاشعور زیادہ بھانپ رہا ہے اور ساتھ نہ چلنے کے جو نقصانات اٹھا چکے ہیں اس کا ادراک بھی ہمیں زیادہ ہے، اس لیے یہ لطیف پیشکش بھی ہماری جانب سے ہے کہ آنے والے وقت کے چیلنج گئے وقتوں کے چیلنجوں سے زیادہ ہیں، اس لیے اب ضرورت بھی دوچند ہوگئی ہے رفاقتوں کی۔۔۔ ساتھ نہ چلنے کے نقصانات فرد اپنی اجتماعی زندگی میں ہی نہیں انفرادی زندگی میں بھی دیکھتا ہے۔ قومی زندگی ہو یا بین الاقوامی حالات۔۔۔ ساتھ چلنے کے ہی متقاضی ہیں۔ اس وقت مسلم امہ جو دکھ اٹھا رہی ہے وہ اسی ساتھ نہ چلنے کا شاخسانہ ہیں کہ مرنے والا بھی کلمہ گو اور مارنے والا بھی۔۔۔ اور یہی قربِ قیامت کی علامتوں میں تھا کہ نہ قاتل کو پتا ہوگا کہ کیوں قتل کررہا ہے، نہ مقتول کو کہ کیوں قتل ہوا؟ حلب میں تعلیمی اداروں کے بچے جو آن کی آن میں بم باری سے ملبے کے ڈھیروں میں دب گئے، انسانیت سے یہ سوال پوچھتے ہوئے چلے گئے کہ ہمارا قصور کیا تھا۔۔۔؟ ہم سے زندگی کس جرم کی سزا میں چھین لی گئی۔۔۔؟ امت کا افتراق و انتشار خود دشمن کی سب سے بڑی قوت ہے اِس وقت۔
اس پیغام کو آگے بڑھنا چاہیے، زبان زدِ عام ہونا چاہیے۔ ہماری قوتِ گویائی اس صدا کو عام کرے۔ پہل ہم خود کرلیں۔ یوں بھی حدیثِ مبارکہ کی رُو سے پہلے سلام کرنے والے، نیکی میں پہل کرنے والا کا اجر کئی گنا زیادہ ہے۔
قابلِ صد مبارک ہے یہ سلوگن بجائے خود۔۔۔ اور اس ضمن میں کی جانے والی ان تھک محنت۔۔۔ وہ جوانیاں جو اس راستے میں کام آجائیں۔۔۔ وہ سوچ اور فکر اور تحرک جو اس عظیم جدوجہد کے لیے وقف ہو، یقیناًفرشتے بھی رشک کرتے ہوں گے ان نوجوانوں پر جو اپنے مفاد پر نبویؐ مشن کو فوقیت دیتے ہیں۔۔۔ جن کی زندگی اپنے مشن پر عین اس طرح نصب ہے کہ بڑی سے بڑی آزمائش بھی اسے اپنی جگہ سے ہلا نہ سکے۔
15 جنوری کو ایکسپو سینٹر کراچی کے درو دیوار اسلامی انقلاب کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ نوجوانوں کے جوش و جذبات دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ چاہے جو بھی عمر کے جس حصے میں ہو اُسے ماضی میں جمعیت سے تعلق پر ضرور ناز ہوتا ہے۔۔۔ جمعیت سے منسلک سابق اور موجودہ طلبہ جمعیت سے اپنی وابستگی کو والہانہ انداز میں بیان کررہے تھے کہ جمعیت نے ان کو سنوارا، ان کو مقصدِ زندگی سے روشناس کرایا۔ جمعیت ہی ان کا عشق ہے، جمعیت ہی ان کا مان ہے۔
نہ جانے کیوں اسٹیج پر اس نوجوان کو دیکھ کر مجھے اس جیسے ایک نوجوان کی ماں یاد آگئی۔ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی، ایک بڑے تعلیمی ادارے کی نظامت پر فائز، پچھلی دہائی میں کراچی کی فضاؤں نے بارہا وہ دن دیکھے ہیں جب نام نہاد حق پرست حقیقی حق پرستوں کے گرد گھیرا تنگ کردیتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی، فائرنگ کے واقعات۔۔۔ انہی دنوں ان کا بیٹا دو دن سے لاپتا تھا کیونکہ اس کے تعلیمی ادارے میں خاصی ٹینشن تھی۔ اس کی والدہ جمعیت کے زمانے کی ہماری ساتھی تھیں، پروگرام میں ملیں تو انتہائی آزردہ کہ بیٹا نہ ہی تعلیمی ادارے آیا ہے نہ ہی فون اٹھا رہا ہے، دوستوں سے پوچھتی ہوں تو کہتے ہیں سب خیریت ہے، ذمے داران نے فون بوجوہ بند کررکھے ہیں، مجھے تو تسلی ہے مگر والد کی حالت قابلِ رحم ہے کہ شہر میں درندگی کا راج ہے اور ہمارا اکلوتا بیٹا۔۔۔؟ میں نے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ تشویش تو بجا ہے۔ نوجوان جذبات میں آگے بڑھ جاتے ہیں، سمجھایا کرو۔ میری اس ہمدردی سے تو ان کے جذبات میں یکدم اشتعال آگیا۔ بولیں ’’کیا سمجھایا کروں کہ اس مشن کو چھوڑ دے، کڑے وقت میں ذمے داری سے استعفیٰ دے دے، عزیمتوں کے سفر میں رخصتوں کو گلے لگالے، چونکہ میرا لختِ جگر ہے اس لیے اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔۔۔؟ میں نے سوچ سمجھ کر اُس کو اس راستے پر لگایا ہے، ان راستوں پر ہر طرح کی قربانی کا جگر ہو تو آنا چاہیے۔ میں سب نوجوانوں کی عافیت کی دعائیں کرتی ہوں، حفاظت کرنا اللہ کا کام ہے۔‘‘
مجھے بڑا رشک آیا اس ماں کے ان جذبات پر کہ جن نوجوانوں کے جسم میں ایسی پاکیزہ ماؤں کا لہو گردش کررہا ہو، ان کے راستے کو کوئی رکاوٹ نہیں روک سکتی۔
یقیناًقابلِ مبارک باد ہیں وہ گھرانے جنہوں نے اپنے حقوق کی قربانی دے کر اپنے گھر کے نوجوان کو اس مشن کے لیے وقف کردیا۔ بڑے کام بڑے حوصلے والے ہی کرسکتے ہیں۔
1980ء کی دہائی ہے۔۔۔ یونیورسٹی کے درویوار نے سوگ کی چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ وہاں سے ہم طالبات کا ایک گروپ دانش غنی شہید کے گھر تعزیت کے لیے گیا، وہ ایک روز قبل شہید کردیے گئے تھے۔ ان کی ماں اور بہنیں کس قدر غم اور صدمے سے نڈھال ہوں گی، کیسی آہ و بکا ہوگی، غم زدہ ماں کو کئی لوگوں نے سنبھالا ہوا ہوگا، یہ سوچتے ہوئے ہم سفید چاندنی بچھے ان کے بڑے سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو حیران رہ گئے۔ ان کی والدہ اور بہنیں مہمانوں کا استقبال کررہی تھیں۔ جب ان کی والدہ سے ملتے ہوئے کوئی آبدیدہ ہوجاتا تو وہ تسلیاں دینے لگتیں کہ شہیدوں کے لیے رویا نہیں کرتے۔ نہ صرف یہ کہ اہلِ خانہ رو نہیں رہے تھے بلکہ حیرت اس پر تھی کہ بہت پُرسکون تھے۔ تب سے اب تک جمعیت طلبہ کے جن شہدا کے گھروں میں جانے کا موقع ملا، گھر والوں کو دیکھ کر غیرمعمولی حوصلہ ملا۔
یادوں کی البم میں اس صفحہ پر ذرا بھی گرد نہیں پڑی جب ہم اسلام آباد میں موجود تھے (دو عشرے قبل)، نوازشریف حکومت کے خلاف بہت بڑا احتجاجی جلسہ تھا۔ اس دن خواتین کو پرائم منسٹر ہاؤس یا پارلیمنٹ ہاؤس جاکر نوازشریف کو چوڑیاں پیش کرنا تھیں۔ میں اسٹیج پر قرارداد پڑھ کر ابھی اپنی نشست کی طرف بڑھ رہی تھی کہ دیکھا، ایک خاتون تیزی سے اسٹیج پر آئیں، خود انہوں نے آکر بتایا کہ کشمیر سے میرے بیٹے کی شہادت کی اطلاع آئی ہے، میں اس قابل نہیں تھی، اللہ نے یہ مرتبہ عطا فرمایا۔ وہ سب سے ایک ہی جملہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ میرے بیٹے کی شہادت کی قبولیت کی دعا کریں۔۔۔ نہ شکوہ، نہ شکایت۔ الفاظ جذبات کا ساتھ نہ دیتے تھے، اپنی خوش بختی پر نازاں تھیں۔ منصورہ میں ان کے گھر پر مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں۔ سوچا کرتی تھی یہ سب جانے والے اپنے پیچھے ایک جیسی عظیم مائیں چھوڑ کر جاتے ہیں۔ سب کی مٹی میں ایک ہی خمیر کیوں گندھا ہوا ہوتا ہے؟ بے وجہ ہی یہ سوال ذہن میں آجایا کرتا۔
جمعیت نے اپنے شہدا پر ایک کتاب ’’جنت کے مسافر‘‘ شائع کی جس میں شہدا کی شہادت کے بعد کی تصاویر تھیں۔ مجھے لگتا تھا ہر شہید کے چہرے پر اس کی ماں کا چہرہ سجا ہوا ہے۔ وہ تو جنت کو سدھارا (ان شاء اللہ) مگر اصلی عزیمتوں کا امتحان تو اس کے اہل خانہ کا ہے۔ ماں کی نظروں میں تو بس اب وہی رہتا ہوگا، اس لیے کہ وہی ایک نظر جو نہیں آتا۔ جوان اولاد کی جدائی پر کون ماں اندر سے ٹوٹ نہ جاتی ہوگی! مگر بظاہر عظمتوں کا پہاڑ، اپنے نصیبوں پر نازاں۔ ایک خواہش ابھری کہ کتاب کا اگلا ایڈیشن اُن ماؤں کے نام نکالا جائے جو ایک بیٹا کھو کر دوسرا بھیجنے پر تیار ہوجاتی ہیں۔ ہاں روئے زمین پر ایسی مائیں سینکڑوں ہیں جن کے اشکوں سے فرشتے وضو کرتے ہوں گے۔ وہ مائیں غزہ میں بھی ہیں، وہ مائیں مقبوضہ کشمیر میں بھی ہیں، حلب میں بھی ایسی مائیں وڈیو کلپس میں نظر آئیں۔۔۔ معصوم بچے کا لاشہ ہاتھوں پر اٹھائے کلمہ شہادت کا ورد کررہی ہیں، اپنی خوش بختی پر نازاں و فرحاں ہیں کہ مجھے اللہ نے اس مرتبے کے لیے چنا۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور دین کے متوالوں کا یہ قافلہ چودہ صدیوں سے یونہی سفر میں ہے۔
آج ایکسپو سینٹر اپنے جلو میں نصف صدی کی عظیم جدوجہد کو سمیٹے ہوئے تھا۔ یہ ان پاک باز سرفروشوں کے قافلے ہیں جن کی کتابِ زیست کا ہر باب صبر سے شروع ہوتا ہے اور دعوت و عزیمت پر منتج ہوتا ہے۔ یہ امتِ مسلمہ کی آبرو کے محافظوں کا قافلہ ہے۔ دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں آئیں، ٹیکنالوجی جتنی بھی جدید تر ہوجائے ان کے سروں میں یہی سودا سمایا ہوا ہے کہ دنیا کو ظلم و استبداد سے نجات دلائی جائے اور خدا کے بندوں کی گردنوں سے غیر اللہ کے قلاوے نکال دیے جائیں۔ اوراس کے عوض انہیں کوئی بھی دنیاوی مال و متاع مطلوب نہیں ہے۔ ایک عجیب بے گانگی ہے کہ:
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
آخری بات ۔۔۔ یہ حوصلوں کا سفر ہے، عزیمتوں کی راہ گزر ہے اور ان نعروں کی گونج اور دھمک آج بھی ان کے جذبات میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ سعادت بھی جمعیت کے نصیب میں آئی کہ جب بھی ارضِ وطن نے اپنے تحفظ کے لیے پکارا تو نسلِ نو نے بڑھ کر لبیک کہا۔
اے ارضِ وطن تُو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جاں باز چلے آئے ہیں
عزیمتوں کے اس سفر پر جتنی بھی کتابیں لکھی جائیں گی ان کا انتساب ’’ماں‘‘ کے نام ہی ہوگا۔
nn

حصہ