امریکی حکومت سے مربوط عافیہ ایشو ایک بار پھر قومی و عالمی منظرنامے پر اُبھر آیا۔ 14 برس سے مسلسل بدترین مظالم کا شکار ہوکر امریکی قید میں رہنے والی معصوم محبِ وطن ڈاکٹر عافیہ ہر دردمند مسلمان کے لبوں پر دعا بن گئی۔ ڈاکٹر عافیہ ایشو اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ ڈاکٹر عافیہ کا تعلق پاکستان کے مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے ہے۔ اس علم دوست خاتون نے امریکہ کی اعلیٰ جامعات ایم آئی ٹی اور برینڈیز سے گریجویشن اور پی ایچ ڈی کیا۔ ان کے مقالے کا موضوع ’’ابتدائی عمر میں بچوں میں ذہنی نشوونما‘‘ تھا۔ وہ ایک ماہرِتعلیم ہیں۔ دین سے محبت کے باعث انہوں نے قرآن کی تعلیم کو اپنی قابلیت کا حصہ بنایا اور دورانِ تعلیم ہی بصد شوق قرآن حفظ کیا۔ تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی اُن کا خواب تھا۔ ان کے ساتھ پیش آنے والے حادثات ان خوابوں کی تعبیر میں مانع رہے۔
ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو 2003 میں حکمرانِ وقت پرویزمشرف کے حکم پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کرکے بگرام ایئربیس افغانستان لے جایا گیا۔ یہاں پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ برطانوی نَومسلم صحافی ایوان ریڈلے نے یہاں سے رہائی پانے کے بعد، یہاں موجود قیدی نمبر 650 کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ انہوں نے عافیہ پر امریکی فوجیوں کے شرم ناک اور دل دہلا دینے والے مظالم کا انکشاف بھی کیا۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف سازشی مقدمہ تیار کیا گیا جس کے مطابق یہ کم زور اور زخموں سے چُور خاتون M_4 گن اٹھاکر امریکی فوجیوں پر حملے کی غرض سے فائر کردیتی ہے، فائر اس ڈرامائی انداز سے خطا ہوتا ہے کہ آس پاس در و دیوار میں کہیں گولی کا نام و نشان نہیں۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کردیتا ہے، مگر وہ بچ جاتی ہیں اور 2009 میں امریکہ منتقل کردی جاتی ہیں۔ ان پر امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ نام نہاد مقدمہ چلاکر عدالت میں جرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ عافیہ اپنا فیصلہ اللّٰہ کے حوالے کرنے اعلان کرتی ہیں۔ قید کی سزا کے طور پر انہیں 62356 کی تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت، قرآن کی بے حرمتی پر لباس دینے کی شرط مظالم کا حصہ ہونے کے باوجود ان کا عزم قوی تر ہے۔
دوسری جانب ان کے اہلِ خانہ اپنی مظلوم بیٹی کے لیے انصاف کی تلاش میں مسلسل سرگرداں ہیں۔ عدالتی فیصلے میں ان کو دی جانے والی سزا کو سیاسی سزا کہا گیا ہے، اس تعلق سے اس ایشو کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جانا چاہیے تھا، مگر سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کے لیے کوئی ڈیل نہ کی جاسکی۔ پرویزمشرف نے ان کی گرفتاری کے عوض ڈالر وصول کیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف زرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہ کیے کہ بقول ان کے ’یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے‘۔ اس طرح پیپلزپارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنادیا۔ حسین حقانی کا کردار اس سلسلے میں نہایت سفاک ہے۔ انہوں نے بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ، ان کی بیٹی کو واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا۔ حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔
عدم تعاون کے حکومتی رویوں سے بددل ہوکر عافیہ کے اہلِ خانہ نے عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے عافیہ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے الطاف شکور اور ان کے کارکنان، پاسبان کی شناخت کے بغیر پورے خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ عافیہ کی رہائی کے لیے مسلسل سرگرم ہیں۔ عافیہ کی رہائی کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششوں میں جماعت اسلامی، خصوصاً حلقہ خواتین کا کردار بہت نمایاں ہوکر سامنے آیا۔ عافیہ کی رہائی کی حالیہ اہم ترین کوشش حکومتی تعاون سے ہی مشروط تھی۔ اس کے مطابق امریکی صدر بارک اوباما صدارتی اختیارات کی نئے صدر کو منتقلی سے قبل کچھ قیدیوں کو آزاد کرنا چاہتے تھے، اس ضمن میں صدر یا وزیرِاعظم کا دستخط شدہ خط امریکی صدر کو مطلوب تھا۔ جماعت اسلامی نے اس دستخطی خط کے حصول کے لیے عافیہ موومنٹ کے شانہ بشانہ بھرپور مہماتی کوششیں کیں مگر تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے پیشِ نظر اس کام کو اہمیت نہ دی۔ وقت گزرتا رہا۔۔۔ اور بالآخر اوباما کی مدتِ صدارت کے خاتمے پر عافیہ کی رہائی کے روشن ترین امکانات معدوم کردیے گئے۔ بیوہ ماں کی آنکھوں میں امید کے جگنوؤں کی جگہ آنسوؤں نے لے لی۔
سوچنے کی بات ہے۔۔۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ سید سجاد علی شاہ کے مغوی بحفاظت بازیاب ہوچکے ہیں، قوم نے بچشمِ سر دیکھا کہ ان سیاسی اور اعلیٰ عہدے داروں کی اولادوں کی گھر واپسی کے لیے پوری انتظامیہ اور ایجنسیوں نے کس مستعدی کا مظاہرہ کیا۔۔۔اس لیے کہ وہ حاکموں کے بیٹے تھے؟ جب کہ عافیہ ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہے جس کے وسائل بھی محدود ہیں۔
امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈڈیوس کے ذریعے عافیہ کی رہائی کی ڈیل ہوسکتی تھی۔۔۔ لیکن حکومت نے یہ قیمتی موقع بھی ضائع کیا اور اس فرد کو پانچ قتل کرنے کے بعد بھی باعزت طریقے سے امریکا رخصت کیا گیا۔۔۔ پھر ریمنڈڈیوس ہی کیا، کئی اور جاسوس بھی جرم کرکے حکومتی سرپرستی میں اپنے وطن روانہ کیے گئے۔ اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی خاموشی سے امریکا بھیجنے کی منصوبہ بندی ہے۔ نہایت دکھ کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عافیہ کی رہائی کا کوئی موقع ملتا ہے تو ہمارے غیرت سے عاری حکمران قومی غیرت کی ڈالروں کے ذریعے سودے بازی کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکی اٹارنی جنرل کے یہ الفاظ کہ ’’پاکستانی تو چند ڈالروں کے عوض اپنی ماں تک کو بیچ سکتے ہیں‘‘ ہمارے اندازِحکمرانی کی شرم ناک تعریف ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے عافیہ کی والدہ سے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں عافیہ کی واپسی کا وعدہ کیا تھا، آج ان کی حکومت کو چار برس ہونے کو ہیں۔۔۔ وہ وعدہ وفا کا منتظر ہی ہے۔
پھر ایک وزیراعظم نوازشریف ہی کیا، پچھلے 14 برسوں میں جنرل پرویزمشرف، میر ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز، نگراں وزیراعظم میاں محمد سومرو، یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویزاشرف کے دورِ حکومت گزر گئے، افتخار چودھری، تصدق حسین جیلانی، وقارالملک اور انورظہیر جمالی جیسے قابل چیف جسٹس اپنی مدتیں پوری کرگئے، جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف بھی کارنامے انجام دیتے ہوئے ریٹائر ہوگئے، مگر عافیہ پر ظلم، اس کی رہائی کسی کو، کبھی یاد نہیں رہی۔۔۔!!
استاد جامعہ اُم القریٰ شیخ ابومحمد عبداللّٰہ المجازی فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی مسلمان عورت یہود و نصاریٰ یا غیر مسلموں کے ہاتھوں میں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمانوں کی حکومتوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں۔‘‘
ہماری روشن تاریخ ہے کہ ایک جری جوان محمد بن قاسم، ایک مسلمان لڑکی کو ہندو راجا کی قید سے آزاد کرانے اپنی طاقت سمیت مدد کو آیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے انسانی ہمدردی کے اس عمل کی برکت سے پورے خطے کو اسلام کی دولت سے سرفراز کردیا۔
کیا آج بھی کوئی ابنِ قاسم ہے جو عافیہ اور اس جیسی قید میں پھنسی لاتعداد مظلوم عورتوں کو آزاد کراکے اسلام کی برکتوں کو ایک بار پھر دعوت دے سکے۔۔۔!!