(اخبار ادب (ڈااکٹڑ نثار احمد نثار

275

کے ای سی اسپورٹس کلب، کشمیر روڈ کراچی میں آزاد خیال ادبی فورم کا مشاعرہ اور مذاکرہ منعقد ہوا۔ پروفیسر رئیس علوی نے صدارت کی۔ چکوال سے تشریف لائے ہوئے شاعر مدثر عباس مہمان خصوصی تھے۔ سرور جاوید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مذاکرے کے موضوع ’’ادب اور نظریہ‘‘ پر سرور جاوید نے اپنے مقالے میں کہا کہ ادب میں مختلف نظریات سامنے آتے رہے ہیں۔ عقیدت اور نظریے میں فرق ہے، جب آپ کسی عقیدے سے جڑ جاتے ہیں تو آپ اس عقیدے کے پابند ہوجاتے ہیں۔ محمد حسن عسکری نے جب ترقی پسند تحریک سے اپنا ناتا توڑا تھا، تب انہوں نے کہا کہ آپ کسی نظریے کو اپنائیں گے تب بھی آپ غیر جانب دار نہیں رہ سکتے اور ادب ایک پروپیگنڈہ بن جائے گا۔ عسکری اور ان کے رفقا کار کے نظریے کو عقیدت کے طور پر لیا گیا، جس کی وجہ سے گڑبڑ ہوگئی۔ نظریے میں ایسا نہیں ہوتا، نظریہ قابل بحث ہوتا ہے، آپ کی مرضی ہے کہ آپ کسی نظریے کو مانیں یا نہ مانیں، یہ آپ کی مرضی ہے۔ مذہب چوں کہ ہمارے اندر موجود ہوتا ہے، اس لیے ہم سمجھ نہیں پاتے کہ نظریہ اور عقیدہ کس حد تک کام کررہے ہیں، آپ کسی نظریے سے انکار نہیں کرسکتے، نظریے کے اثرات زندگی پر پڑتے ہیں۔ ہر تخلیق کار کا نظریہ الگ ہوتا ہے، جس کے تحت تخلقات جنم لیتی ہیں۔ ترقی پسند تحریک نے ادیبوں کو یہ نظریہ دیا کہ وہ معاشرتی مسائل بھی اپنے اشعار اور تحریروں میں شامل کریں۔ انسانی فکر و ذہن کو ادب کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے لہٰذا قلم کار سماج کے مسائل ڈسکس کرسکتے ہیں۔ ہماری ادبی تخلیقات میں ادبی جمالیات کی موجودگی لازمی ہے۔ نظریہ آپ کے شعور میں ہوتا ہے، ترقی پسند تحریک نے گل و بلبل کے قصّے ترک کرنے کی تحریک دی۔ جدیدیت ایک رجحان ہے، نظریہ نہیں۔ جدیدیت کے ماننے والوں کے نزدیک ’’نظریۂ اضافت‘‘ بہت اہم ہے، وہ کہتے ہیں کہ لفظ کے معنی بدلتے رہتے ہیں۔ تخلیق کار خود نہیں لکھتا، تحریر لکھواتی ہے، اس کے بعد تخلیق کار مرجاتا ہے، یعنی جب آپ کوئی تخلیق پیش کرتے ہیں تو وہ تخلیق آپ کی دسترس سے نکل جاتی ہے۔ اب اس تخلیق کی اچھائیوں اور بُرائیوں کا فیصلہ ناقدینِ فن کریں گے یا قاری فیصلہ کرے گا۔ عقیدے کے ماننے سے تعصّب جنم لیتا ہے، نظریے میں ایسا نہیں ہوتا۔ علم بھی ہمیں مختلف نظریات دیتا ہے، ہر شعبہ تعلیم کے نظریات الگ الگ ہیں، مختلف نظریات مل کر کوئی ادبی تخلیق بنتی ہے۔ نظریے اور سسٹم کو الگ الگ رکھا جائے۔ نظریے کے بغیر آپ کی شخصیت تشنہ رہتی ہے اور ہر اچھے نظریے کو مان لینے سے آپ پر ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ جو نظریے ہمارے عقل و ذہن کو روشنی دیتے ہیں، وہی نظریے زندہ رہتے ہیں، نظریہ کسی بھی اہم شخص سے منسوب ہوتا ہے۔
صاحب صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہم نظریے کو ایک Extract کے طور پر دیکھیں، ہر زمانے میں نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ سائنسی بنیادوں پر نظریات کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ نظریہ زندگی کا اہم جز ہے، ہر شاعر کا ’’نظریۂ شاعری‘‘ الگ ہوتا ہے۔ ہم نظریے کے ذریعے۔ ترقی پسند تحریک کی کام یابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جب یہ تحریک آئی، اس وقت لوگ بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے تھے، اس تحریک نے لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائی، لہٰذا لوگ جوق در جوق اس تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ جب مختلف نظریات آپس میں ٹکراتے ہیں، تب ایک نیا نظریۂ وجود میں آتا ہے۔ شاعری کے اندر بھی فطری طور پر کوئی نہ کوئی نظریہ کام کررہا ہوتا ہے۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ اسلام نظریات سے آگے کی بات کرتا ہے، معاشرتی اصطلاحات پر سب سے زیادہ زور اسلام دیتا ہے۔ اسلام نے زندگی گزارنے کے طور طریقے بتائے ہیں، اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہم اپنی شاعری میں غلو، کذب سے سے پرہیز کریں اور حقائق بیان کریں۔ اس مذاکرے میں حامد علی سید، قیوم واثق، مدثر عباس، شمس الغنی، انوار زیدی اور سیف الرحمن سیفی نے بھی حصّہ لیا۔ پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا۔ صاحب صدر کے حکم کے مطابق ہر شاعر نے پانچ پانچ اشعار سنائے۔ جن شعرا نے اپنے اشعار پیش کیے، ان میں صاحب صدر، مہمان خصوصی، ناظم مشاعرہ کے علاوہ قیوم واثق، شمس الغنی، حامد علی سید، سیف الرحمن سیفی، صفدر علی انشا، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) سخاوت علی نادر، تنویر سخن، محمد عمر برنادی، محمد علی سوز، الحاج نجمی اور دیگر شامل تھے۔ دو شعرا اس وقت آئے، جب مہمان خصوصی اپنا کلام سنا رہے تھے، لہٰذا ناظم مشاعرہ نے انہیں نہیں پڑھوایا۔ یہ ایک اچھی روایت ہے، ورنہ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ کافی دیر میں آنے والوں کو مشاعرہ پڑھوا دیا جاتا ہے۔ مشاعرے کا اختتام لذّت کام ودہن پر ہوا۔
۔۔۔*۔۔۔
اکرم کنجاہی شاعر ہیں، ادیب ہیں، صحافی ہیں، نقّاد ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی۔ کراچی کے ادبی حلقوں میں اکرم کنجاہی ایک معتبر حوالہ ہیں۔ ان کا سہ ماہی رسالہ ’’غنیمت‘‘ کراچی اور گجرات سے شائع ہورہا ہے، اس رسالے میں بہترین تخلقات شامل ہوتی ہیں۔ اکرم کنجاہی اس ادارے کے تحت ہر مہینے ایک مشاعرہ منعقد کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے، اس تناظر میں میں گزشتہ اتوار کو انہوں نے اپنے آفس میں ایک شان دار مشاعرے کا اہتمام کیا تھا۔ عارف شفیق اس محفل کے صدر تھے، جب کہ انور انصاری مہمان خصوصی تھے، سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر اکرم کنجاہی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ مشاعروں سے اُرو ادب کو فروغ مل رہا ہے۔ ہر زمانے میں مشاعرے ہوتے ہیں، لیکن ہر زمانے کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں، لہٰذا شاعری کے مضامین بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے، جو کہ ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے، یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں ہم ہر قسم کے مضامین لکھ دیتے ہیں۔ غزل کا ہر شعر ایک مختصر نظم ہوتا ہے، جب کہ دنیا کی بڑی شاعری نظم میں موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں نوجوان شعرا بہت تیزی سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ادب روبہ زوال نہیں، نئی نئی تخلیقات سامنے آرہی ہیں۔ صاحب صدر نے کہا کہ جب بھی زمینی حالات بدلتے ہیں، ادبی منظر نامہ بھی تبدیل ہوجاتا ہے، لیکن حرف و معانی کے اساتذہ اپنے اپنے عہد کی عکاسی کرتے ہیں۔ ادیب و شعرا لفظوں کی حُرمت کے ذمّے دار ہیں، خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ادیب و شعرا اپنی ذمّے داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے اور عوام تک اپنی آواز پہنچا رہے ہیں۔ ہر قلم کار کا فرض ہے کہ وہ سچائیاں رقم کرے، معاشرتی مسائل اجاگر کرے، لوگوں کو آنے والے وقت کے مصائب بتائے اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں سے آگاہی دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعر و ادب ہمارا ثقافتی ورثہ ہے، شاعری ذہنی سکون کا ایک ذریعہ ہے بلکہ شاعری کو ہم روح کی غذا کہتے ہیں اور غذا کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ مہمان خصوصی انور انصاری نے کہا کہ بھائی اختر سعیدی کی مہربانی ہے کہ وہ اپنے حلقۂ احباب میں ایسی ادبی محفلیں سجاتے ہیں، ان محافل میں بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوجاتی ہے اور بہت اچھے اشعار بھی سننے کو ملتے ہیں۔ کراچی محبت کرنے والوں کا شہر ہے، اس شہر میں شعر و ادب کی تقاریب ہوتی رہتی ہیں۔ اُردو ادب کی ترویج و اشاعت میں کراچی والوں کا بہت بڑا حصّہ ہے۔ مشاعرے میں صاحب صدر، مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا و شاعرات نے کلام نذر سامعین کیا، ان میں اختر سعیدی، سحر تاب رومانی، اکرم کنجاہی، رفیع اللہ میاں، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، حجاب عباسی، آئرن فرحت، کشور عدیل جعفری، ظفر بھوپالی، اسد لکھنوی، گلِ انور، عاشق شوکی، علی کوثر، احسن رضا، نجی الدین اور دیگر شامل تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
36-B لانڈھی کے رہنے والے اُردو سے جڑے ہوئے ہیں، اس علاقے میں ادبی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ’’بزمِ القریش‘‘ ایک نوزائیدہ ادبی تنظیم ہے، جس کے روح رواں اشرف طالب ہیں، انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک شان دار مشاعرہ منعقد کرایا۔ رسا چغتائی محفل کے صدر اور علاؤ الدین خان زادہ مہمان خصوصی تھے، عبدالرحمن مومن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں صاحب صدر، مہمان خصوصی اور ناظم مشآعرہ کے علاوہ سلمان صدیقی، خالد معین، سحر تاب رومانی، اجمل سراج، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)، ظفر بھوپالی، سیمان نوید، اسد لکھنوی، نجیب ایوبی، اسامہ امیر، ارشاد کیانی، محسن سلیم، اشرف طالب ارشد شاد، زاہد عباس، راجا عادل دار، احمد جہانگیر، اور شہیر سلال نے کلام سنایا۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت محمد عمران نے حاصل کی، جب کہ نعت رسولؐ حسن امام نے پیش کی۔ عبدالرحمن مومن نوجوان شاعر ہیں، یہ اچھے اشعار کہنے کے ساتھ ساتھ نظامت کے میدان میں بھی قدم رنجہ ہوچکے ہیں، انہوں نے بڑے اعتماد سے نظامت کی اور خوب صورت جملوں سے لوگوں کے دل جیت لیے۔ مشاعرے کے لیے بہت شان دار پنڈال سجایا گیا تھا، سرد موسم کی مناسبت سے پنڈال بالکل پیک تھا۔ سامعین کی بڑی تعداد مشاعرے کے اختتام تک ہر شاعر کو دادو تحسین سے نوازتی رہی۔ اس موقع پر صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اجمل سراج کی کوششوں سے یہ مشاعرہ کام یاب ہوا ہے، اس وقت اس پنڈال میں شہر کے مختلف علاقوں کے شعرا موجود ہیں، جنہوں نے بہت اچھا کلام پیش کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُردو زبان کو نافذ العمل کرنے میں جن رکاوٹوں کا سامنا ہے، انہیں دور کیا جائے، جب تک ہم اُردو کو دفتری زبان نہیں بنائیں گے، اس کا مستقبل غیر محفوظ رہے گا۔ اس زمانے میں قلم کاروں کے مسائل بھی بڑھ گئے ہیں، حکومت کا فرض ہے کہ وہ انہیں ریلیف فراہم کرے۔ مہمان خصوصی علاؤ الدین خان زادہ نے کہا کہ اُردو ادب کی سرگرمیوں کے حوالے سے لانڈھی کورنگی زرخیز علاقہ ہے، ایک زمانے میں یہاں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں، لیکن وقت و حالات کی تبدیلی کے باعث اس علاقے سے بہت سی اہم ادبی شخصیات دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئیں، جس کے باعث کچھ وقت کے لیے ادبی سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب اس علاقے میں اُردو ادب کی محفلیں تواتر سے سجائی جارہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اُردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔ جن ادبی تنظیموں نے اُردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہ بھی قابل مبارک ہیں اور جو ادارے اس وقت اُردو کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں، وہ بھی قابل ستائش ہیں۔ اجمل سراج نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 36-B کے لوگ ادب شناس ہیں، یہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت مشاعرے کرا رہے ہیں، ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اشرف طالب، ارشاد کیانی، زاہد عباس اور ان کے رفقا کار اُردو ادب کے خدمت گزار ہیں، ان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ جو لوگ ہمارے علاقے میں اشعار سنانے آئے ہیں، ہم ان کے بھی شکر گزار ہیں اور ان سامعین کا بھی ہم شکریہ ادا کرتے ہیں جو کہ سردی کے باوجود اس محفلِ مشاعرہ میں موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ بزم القریش آئندہ اس سے بھی بڑا مشاعرہ منعقد کرے گی۔
nn

حصہ