(آرا قارئین(یوسف خان،کراچی

280

’’بیٹا نواز شریف، وعدہ پورا کرو‘‘
انتخابات میں وہ عوام کے سامنے کہا کرتا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو میں واپس لے کر آؤں گا۔ ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو قوم کی بیٹی ہے اور جسے امریکہ نے برسوں سے قید کیا ہوا ہے وزیراعظم بننے کے بعد قوم کی اس بیٹی کو وطن لے آؤں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ اس وعدے کی تکمل کے لیے آپ لوگ مجھے ووٹ دیجیے۔‘‘
اس طرح کے وعدے وزیراعظم ایک جلسے میں نہیں بلکہ بہت سارے جلسوں میں کرچکے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ عوام نے انہیں ووٹ دے کر ملک کا وزیراعظم بنادیا۔ حلف اٹھانے کے بعد جب وہ سب سے پہلے کراچی آئے تو عافیہ کے بچوں سمیت مجھے گورنر ہاؤس بلایا اور ہماری اُن سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں وہ وعدے جو انہوں نے مجھ سے اور میرے بچوں سے کیے، میں کبھی بھلا نہیں سکو ں گی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری امی جان میں آپ کا بیٹا ہوں اور عافیہ کو میں ہی واپس لاؤں گا۔ مصیبت کے دن اب گزر گئے اور سب ختم ہوگئے، اب میں آگیا ہوں اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ عافیہ کو واپس لے کر میں ہی آؤں گا۔ اسی طرح کی انہوں نے اور بھی بہت ساری باتیں کیں، بہت دلاسے دیئے۔ ان کی ان تمام باتوں کو میں کبھی نہیں بھلا سکتی اور اس کے ساتھ میں یہ بھی کہتی ہوں کہ وہ غلط بیانی نہیں کرسکتے، وہ اپنا کہا ہوا بھول نہیں سکتے، وہ میری بیٹی کو واپس لے کر آئیں گے۔
یہ چند باتیں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی کی ہیں جو انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو اور متعدد بار ملاقاتیوں سے کی ہیں۔ ان کا اس بات پر یقین ختم نہیں ہو پارہا ہے کہ نوازشریف نے جو وعدہ اُن سے برسوں قبل سندھ کے گورنر ہاؤس میں کیا تھا وہ اسے اپنی مدتِ وزارتِ عظمیٰ میں ضرور پورا کریں گے۔ ان کا تو اب بھی یہ کہنا اور سمجھنا ہے کہ وزیراعظم تو امریکی صدارت کی منتقلی سے قبل اپنا فریضہ ادا کریں گے کیونکہ انہوں نے وعدہ ایک ماں سے کیا تھا اور یہ ماں جانتی ہے کہ جب اس وزیراعظم پر ماضی میں سخت وقت آیا تھا تو راتوں کے آخری پہر میں کون اٹھ کر ان کے حق میں دعا مانگا کرتا تھا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں انہوں نے یہاں تک کہا کہ امریکی اٹارنی جنرل نے ہمارے وکیل سے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان اگر اس صورتِ حال میں بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے خط لکھ دے تو امریکی حکومت ڈاکٹر عافیہ کو رہا کردے گی۔ اب جبکہ نئے امریکی صدر کو اپنی صدارت کا آغاز کرنا ہے تو ایسی صورت میں بھی اس ماں کے پختہ یقین کے پورا ہونے کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل اسٹیفن ڈاؤنز نے موجودہ صورت حال کے پیش نظر حکومتِ پاکستان کو خط لکھا کہ وہ ان دنوں امریکی حکومت کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی سے متعلق خط لکھیں، لیکن وزیراعظم اور ان کی کابینہ میں سے کسی نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی، جس سے اس بات کا بھی اشارہ عیاں ہوتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان اپنے وعدے کی تکمیل کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں۔ لیکن یہ ساری باتیں، سارے نکات و اشارے جب عصمت صدیقی کے سامنے رکھے جاتے ہیں تو وہ اس وقت بھی مایوس نہیں ہوتیں بلکہ امید کا دامن تھامے رکھتی ہیں۔
اس ایشو پر صرف جماعت اسلامی اور سراج الحق متحرک ہیں اور ہر فورم پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ حزبِ اختلاف میں سرفہرست سابقہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی ہے جو ماضی میں پانچ سال ملک پر برسراقتدار رہی لیکن اس نے بھی ماسوائے وعدوں کے کچھ نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عافیہ صدیقی کے معاملے پر آواز اٹھائی، تاہم وہ اب اس آواز کو برقرار نہیں رکھ پائے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نوازشریف صاحب! اب بھی وقت ہے، قوم کی ماں سے کیا گیا قوم کی بیٹی کو باعزت رہائی دلواکر واپس لانے کا وعدہ پورا کردیں، اور ایک ماں، اُس کی اور قوم کی بیٹی اور قوم کے سامنے سرخرو ہوجائیں۔
پروفیسر محمد عاصم حفی٭۔۔۔شیخوپورہ
فرائیڈے اسپیشل کے سلسلے میں چند مشورے
آپ کے رسالے کا میں ایک عرصے سے قاری ہوں، ملک کے سیاسی و سماجی مسائلِ حاضرہ کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے اور پھر اس کو بیان کرنے پر آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ رسالے میں کچھ نیا نظر آیا تو دل چاہا کہ جذبات کا اظہار آپ سے بھی کرلوں۔ جہاں تک رسالے کے گیٹ اپ کا تعلق ہے، اس میں تبدیلی سے یہ خوبصورت اور دیدہ زیب ہوگیا ہے اور اس کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ بعض جگہ پرنٹنگ کا معیار خراب ہے۔ دھنک کے صفحات میں اضافہ بھی اچھا ہے لیکن خواتین اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور سماجی صورت حال کو باقاعدہ موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ انٹرویوز کے سلسلے میں تسلسل کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ایک انٹرویو پڑھتے ہیں تو اس کے بعد دوسرے انٹرویو کا انتظار ہی رہتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے عام لوگوں کو بھی موضوع بنانے اور ان کا احوال بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ کن حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں، کیونکہ ہمارے میڈیا میں اس طبقے کی حقیقی اور تکلیف دہ صورت حال کا ذکر کم ہی ملتا ہے۔ طاہر مسعود بہت اچھا لکھتے ہیں اور انہیں مستقل لکھتے رہنا چاہیے۔ شاہ نواز فاروقی کی کمی محسوس ہورہی تھی جوکہ اب ان کے تازہ اور پہلے سے بھرپور مضامین سے پوری ہوگئی ہے، لیکن پروفیسر شمیم اختر صا حب بہت عرصے سے غائب ہیں۔ میاں منیر کی سیاست پر گہری نظر ہے اور اقتدار کے شہر اسلام آباد میں بیٹھ کر بہت کچھ جانتے بھی ہیں اور ان کے مضامین میں معلومات بھی ہوتی ہیں، لیکن بعض مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ کئی معلومات کو ایک صفحے پر خبر کی صورت میں جمع کردیا گیا ہے۔ انہیں کسی ایک مسئلے پر فوکس کرنا چاہیے اور اس میں وہ معلومات ہوں جن کا ہمیں پہلے سے علم نہ ہو تو بہت اچھا ہے۔ اسی طرح سلمان عابد بھی بہترین تجزیہ پیش کرتے ہیں اور اب تو ان کی کتاب بھی شایع ہوگئی ہے، اور فرائیڈے اسپیشل میں تجزیے کرکرکے اب وہ ٹی وی اسکرین پر بھی تجزیہ پیش کرتے نظر آرہے ہیں، انہیں اپنی تحریر کو طوالت سے بچانا چاہیے، ان کے والد عبدالکریم عابد کو تو مختصر اور وہ بھی بھرپور لکھنے پر عبور حاصل تھا۔ آخر میں تبصرۂ کتب پر بس اتنا تبصرہ کروں گا کہ اللہ تعالیٰ ملک نواز احمد اعوان صاحب کو لمبی عمر دے۔ ان کی کتابوں پر بڑی گہری نظر ہوتی ہے لیکن اکثر ان کے تبصرے بہت طویل ہوتے ہیں اور ان میں غیر ضروری اقتباس موجود ہوتے ہیں۔ حکیم مجاہد محمود برکاتی کی حکمت کی باتیں بہت معلومات افزا ہیں اور اطہر ہاشمی صاحب کی زبان سکھانے کی تحریک ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ پر کچھ کہنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ بحیثیتِ مجموعی میرا خیال ہے اس وقت سیاسی رسالے ویسے تو ہیں ہی نہیں، اور جو ہیں ان میں سب سے بہتر معیار فرائیڈے اسپیشل کا ہے اور یہ اس وقت پڑھا جانے والا سب سے مقبول رسالہ ہے۔

حصہ