(لیس منا پروفیسر(عبدالحمید ڈار

298

اللہ رب العزت نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ یعنی نائب بنایا تاکہ وہ یہاں احکامِ الٰہی کی تنفیذ کرکے ایک پُرامن اور پُرسکون معاشرہ وجود میں لائے جہاں انسان اطمینانِ قلب کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برأ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ذہنی و جسمانی صلاحیتیں عطا فرمائیں اور اسے ان حقوق سے نوازا جو اس مقصد کے حصول میں معاون و مددگار ہوسکتے ہیں۔ ان حقوق میں جان، مال اور عزت کے تحفظ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ گویا انسان کے فطری حقوق ہیں جو ہر انسان کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، مسلمان ہو یا کافر بر بنائے پیدائش حاصل ہوتے ہیں۔ یہ حقوق ناقابلِ تنسیخ ہیں۔ کوئی فرد یا ادارہ کسی بھی حالت میں ناحق طور پر انسان کو ان سے محروم نہیں کرسکتا۔ ان حقوق کو تسلیم کرنے سے معاشرے میں انصاف اور استحکام پیدا ہوتا ہے اور ان کے چھن جانے سے ظلم اور فساد جنم لیتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور فعل انسان کی بھلائی اور فلاح کا ضامن ہے۔ زیرنظر حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حق مال کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے مال کو اس کی دلی رضامندی کے بغیر اپنے قبضے و تصرف میں نہ لائے۔ ایسا عمل صریحاً ظلم اور حرام ہے۔ (معارف الحدیث بحوالہ بیہقی فی شعب الایمان)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے کسی دوسرے کی کچھ بھی زمین ناحق لے لی تو قیامت کے دن وہ اسی زمین کی وجہ سے (اور اس کی سزا میں) زمین کے ساتوں طبق تک دھنسایا جائے گا‘‘۔ (معارف الحدیث بحوالہ بخاری)
کسی شخص کا مال مار لینے کی ایک شکل تو یہ ہے کہ اس کا مال زبردستی اس سے چھین لیا جائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے مال پر قبضہ جمانے کے لیے حاکم کی عدالت میں جھوٹا دعویٰ کردے اور وہاں اپنی (یا اپنے وکیل کی) چرب لسانی اور زورِ استدلال سے عدالت کو چکمہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ لے لے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ جس نے جھوٹی قسم کھاکر کسی مسلمان کا کوئی حق مارا (اور عدالتی فیصلے سے اس کی کوئی چیز حاصل کرلی) تو اللہ نے اس شخص کے لیے دوزخ واجب کردی ہے اور جنت حرام۔ (معارف الحدیث، بحوالہ مسلم)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ میں ایک بشر ہوں۔ اور تم لوگ میرے پاس اپنے تنازعات اور مقدمات لاتے ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایک، دوسرے سے زیادہ اچھا بولنے والا اور بہتر انداز میں تقریر کرکے اپنی دلیل پیش کرنے والا ہو، اور پھر میں اس کی بات سن کر اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ دے دوں تو اس طرح میں جس کے لیے اس کے بھائی کی چیز کا فیصلہ کردوں تو وہ اس کو ہرگز نہ لے (اس کے جھوٹے دعوے یا جھوٹی قسم کے نتیجے میں) اس کو میں جو دیتا ہوں وہ اس کے واسطے دوزخ کا ایک حصہ ہے‘‘۔ (معارف الحدیث بحوالہ بخاری و مسلم، راوی حضرت اُم سلمہؓ)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’جو شخص جھوٹا دعویٰ کرے تاکہ اس کی وجہ سے زیادہ مال حاصل ہو، اللہ (اس کے مال) میں کمی کو زیادہ کرتا ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ’قسموں کا بیان‘، بحوالہ بخاری و مسلم، راوی ثابتؓ بن ضحاک)
یعنی اس قسم کے دھوکے سے مال بڑھتا نہیں بلکہ کم ہوجاتا ہے۔ دنیا میں بھی گھاٹا اور آخرت میں بھی گھاٹا۔ (اللہ کی پناہ)
قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے:
’’جو لوگ اللہ کے عہدوپیمان کو توڑ کر اور اپنی (جھوٹی) قسموں کے ذریعے دنیا کا تھوڑا سا نفع حاصل کرتے ہیں، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور اللہ ان سے کوئی بات نہ کرے گا اور وہ اس کی نگاہِ کرم سے بھی محروم رہیں گے، اور ان کو پاک و صاف بھی نہ کرے گا اور ان کو نہایت دردناک عذاب ہوگا‘‘۔ (آل عمران۔ 77)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کی محنتِ شاقہ سے ایک مہذب و متمدن اورمثالی معاشرہ تشکیل دیا تھا جس میں ہر شخص کو امن و سکون اور راحت و آرام کی نعمتیں میسر تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اخوت و مساوات کے مستحکم رشتے میں منسلک کرکے رضائے الٰہی کے حصول کی راہیں ان کے لیے آسان بنا دی تھیں۔ اب اگر کوئی شخص محض اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے دھوکے اور جعل سازی سے اخوت و مساوات کے ان رشتوں کو توڑ دے اور معاشرے کو پھر سے ظلم و تعدی (ناانصافی) کی راہ پر لگا دے تو اس سے بڑا مجرم کون ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر امتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا نمائندہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی تعلیم و تربیت اور تزکیۂ نفس سے انہیں اعلیٰ اخلاق و کردار کے ایسے انسان بنادیا تھا جنہیں دیکھ کر غیر مسلم اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوتے اور قبولِ اسلام کے لیے سبقت کرتے تھے۔ لیکن جس شخص کا کردار اتنا گھناؤنا ہو کہ وہ اپنے ہی بھائی بندوں کے حقوق پر ڈاکے مارنے لگے اُس کی بداعمالیوں سے نہ صرف اہلِ ایمان کا امن و سکون تباہ ہوجاتا ہے بلکہ اس سے غیر مسلموں میں اسلام سے نفرت اور دوری پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے بدبخت انسان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ برأت فرماکر اسے اپنی امت سے ہی خارج کردیا۔
افسوس کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے واضح ارشادات کے باوجود بہت سے بدنصیب مالِ حرام کے حصول کے اس دھندے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہماری عدالتوں میں جھوٹے دعووں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اس مقدمہ بازی نے ہمارے مالوں اور صلاحیتوں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ پرائے مال پر قبضہ جمانے کے لیے بڑے بڑے قبضہ گروپ وجود میں آگئے ہیں جو دھونس، دھاندلی اور جعل سازی سے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرکے ان کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت کی سیدھی راہ دکھائے اور مخلوق کو ان کی دست درازیوں سے محفوظ کردے۔ (آمین)
nn

حصہ