چھوٹوں کو ’’میاں‘‘ کہہ کر پکارنے والے اور ہم عمروں کا عالی جاہ، عالی مرتبت، حضورِ والا اور عالی مقام جیسے القابات سے استقبال کرنے والے سید انور قدوائی بھی چل بسے۔ یہ لاحقے اور سابقے استعمال کرنے والے شاید وہ اس شہر کے آخری آدمی تھے۔
کل من علیہا فان، ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام
’’ زمین پر جو کوئی ہے فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گی صاحبِ عظمت اوراحسان کرنے والے رب کی ذات۔‘‘
سورہ الرحمن آیت25،26 )
ان کی اچانک موت نے یہ حقیقت زیادہ واضح کردی کہ زندگی اور موت کے درمیان 75 سال کا نہیں چند گھڑیوں، چند ساعتوں اور چند لمحوں کا فاصلہ ہے۔ اپنی اس ظاہری زندگی کے آخری دن (23 دسمبر2016ء) کی صبح وہ معمول کے مطابق اٹھے، تیار ہوکر دفتر پہنچے، دفتر میں معمول کے کام کیے، اگلے روز کے کالموں کی نوک پلک درست کی، اداریہ اور شذرے لکھے اور سگریٹ اور سگار کا دھواں اور چائے کے کئی پیالے اس عارضی جسم میں انڈیلتے ہوئے واپس گھر چلے گئے۔ اپنی روزانہ کی عادت کے مطابق وہ کچھ دیر آرام کے لیے لیٹے تھے کہ اچانک طبیعت بگڑ گئی۔ وہ اسے بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے مگر ان کے ہونہار بیٹوں امان اور حفیظ نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے ریسکیو 1122 کی گاڑی منگوا لی، انہیں ہسپتال لے جایا جارہا تھا کہ وہ یہ راستہ کاٹ کر ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، (البقرہ آیت155)
ان کے جنازے اور رسم قل میں جتنی بڑی تعداد میں صحافیوں، سیاست دانوں، تاجروں، علماء، ماہرین تعلیم، وکلاء، سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں نے شرکت کی وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ انہوں نے محبت بانٹتی ہوئی زندگی گزاری ہے اور ایک آسان موت کے بعد کامیاب اور سرخرو ہوکر اگلے سفر پر روانہ ہوئے ہیں۔ دعا ہے کہ ان کی ابدی زندگی بھی اس عارضی زندگی کی طرح کامیاب ہو۔ آمین
سیدانور قدوائی برصغیر کی گنگا جمنی تہذیب کا نمونہ تھے۔ ان کی وضع داری اور روایت پسندی مشہور تھی۔ وہ جس قدر وجیہ و شکیل تھے اس سے کہیں زیادہ مہذب، خوش گفتار، اور خوش اطوار انسان تھے۔ لمبا قد، کھلتا ہوا رنگ، بڑی بڑی روشن آنکھیں اور نوابی مونچھوں کے ساتھ وہ کوئی افسانوی کردار نظر آتے تھے۔ انگریزی سوٹ پہنتے تو دانشور اور اسکالر لگتے، اور شلوار قمیص میں ہوتے تو ایسا جچتے کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے۔ گفتگو کا سلیقہ انہیں وراثت میں ملا تھا، جبکہ ان کا سینہ معلومات کا خزینہ تھا۔ اس امتزاج کے ساتھ گفتگو کرتے تو پورے ماحول پر چھا جاتے۔ ان کی آواز ایسی پاٹ دار اور رعب و دبدبہ لیے ہوئے تھی کہ اگر اس میدان میں قسمت آزماتے تو ملک کے نامور صداکار اور براڈ کاسٹر ہوتے، لیکن انہوں نے صحافت کا پُرپیچ اور پُرخطر پیشہ اپنایا اور اس پیشے میں اتنا نام کمایا کہ اتنی ناموری کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ 1970ء،1980 ء اور1990کی دہائی میں وہ لاہور کی صحافت پر راج کرتے تھے۔ نوابینِ لکھنؤ سے ان کا تعلق پہلے ہی تھا، صحافت کی تاجداری نے ان کی شخصیت کو مزید نکھار دیا اور ان کے رعب و طنطنے کو چار چاند لگادیئے تھے۔ وہ لاہور ہی نہیں پاکستان بھر کی صحافت کا ایک بڑا نام تھے۔1970ء سے 2016ء تک کے تمام حکمرانوں، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور افسر شاہی کے اعلیٰ عہدیداروں سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ آج کے بڑے بڑے حکمران اُن کے گھر پر ملاقات کے لیے آتے اور اپنی گاڑیوں میں لیے پھرتے تھے۔ ملک کے تمام وزرائے اعظم اور صدور کے ساتھ انہوں نے بیسیوں اندرون اور بیرونِ ملک سفر کیے، لیکن جن کے دروں پر وہ خود عاجزی کے ساتھ حاضری دیتے وہ اللہ کے مقرب بندے اور صوفیہ تھے۔ وہ ایسے درویش منش اور فقیر لوگوں کو بڑی محنت سے تلاش کرتے، جس کسی کا پتا چلتا اُس کے پاس پہنچتے، اور یہ سلسلہ مستقل بنیادوں پر جاری رہتا۔ عشقِ رسولؐ ان کی رگوں میں زندگی بن کر دوڑتا تھا، وہ اولیا اللہ کے دیوانے اور اولادِ رسولؐ کی محبت و عقیدت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے تھے۔ خود نجیب الطرفین سیّد ہونے کے باوجود سادات کو وہ احترام دیتے کہ احترام و محبت کا حق ادا ہوجاتا۔
سید صاحب قیام پاکستان کے وقت لکھنؤ کے نواحی قصبے بارہ بنکی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اُس وقت ان کی عمر چھ سات سال تھی۔ ان کا خاندان لکھنؤ کا متمول اور بااثر خاندان تھا، ان کے والد سید امیرالدین قدوائی، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے فارغ التحصیل، یو پی کے نامور وکیل اور تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کے سرکردہ رہنما تھے۔ سید انور قدوائی نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی، اسلامیہ کالج سول لائنز سے حسین نقی کے ساتھ گریجویشن کرنے کے بعد کراچی چلے گئے، جہاں انہوں نے ایس ایم لا کالج میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہی مقامی اخبارات میں کام شروع کردیا۔ یہ ایوبی آمریت میں طلبہ تحریکوں کا دور تھا۔ سید صاحب کے اُس وقت کے طلبہ لیڈروں کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم ہوگئے جو اب تک قائم رہے۔1960ء کی دہائی کے آخری چند سال باقی تھے کہ وہ ایک بار پھر لاہور آگئے۔ اُس وقت لاہور کا مال روڈ علمی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، یہاں رات گئے تک بحث و مباحثے اور خوش گپیوں کی مجلسیں جمی رہتیں۔ سید صاحب بھی ان مجالس کا حصہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کابینہ سے استعفیٰ دیا تو انہیں پہلی بار لاہور لانے والے نوجوانوں میں سید صاحب بھی شامل تھے۔ اس دوران وہ نوائے وقت لاہور میں رپورٹنگ کا آغاز کرچکے تھے، اور ان کا کالم ’’مال روڈ سے مال روڈ تک‘‘ خاصا مقبول ہوگیا تھا۔1970ء کی ہنگامہ خیز انتخابی سیاست اور بعد کی سیاسی رسّاکشی کے دوران ان کی رپورٹنگ اور تجزیوں نے بڑی شہرت پائی۔ ان کی تحقیقی و توجیحی رپورٹنگ اور تجزیے ایسے تھے کہ پہلے اپوزیشن اور پھر حکمران ان کے مداح ہوتے گئے۔ سید صاحب کی رپورٹنگ بے لاگ اور تبصرے اور تجزیے حقائق کے قریب ہوتے۔ وہ دائیں بازو کے سیاست دانوں پیر پگاڑا، ایئرمارشل اصغر خان، مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور کے بہت قریب تھے۔ لیکن پیپلز پارٹی، نیپ اور دوسری ترقی پسند جماعتوں میں بھی ان کو معقول پذیرائی حاصل تھی۔ پنجاب اسمبلی کی رپورٹنگ اور اس کی بائی لائن جھلکیوں نے ان کی پیشہ ورانہ شہرت میں اضافہ کیا۔ وہ خبر کی تہہ تک پہنچنے والے اور جاندار تجزیہ کرنے والے صحافی تھے، چنانچہ کئی بار پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی اور پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر منتخب ہوئے۔ اپنی موت کے وقت بھی وہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(دستور) کے سینئر نائب صدر تھے۔
شاہ صاحب کا حلقۂ تعلقات بہت وسیع تھا۔ آخری دنوں میں جن لوگوں کو ان کی قربت حاصل تھی ان میں راقم بھی شامل تھا۔ ان کی موت سے چند گھنٹے قبل بھی میری دوبار اُن سے فون پر بات ہوئی۔ صرف چار دن پہلے انہوں نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں صحافیوں کی ایک تقریب کی صدارت کی، اور اسی شام کو لاہور پریس کلب کے انتخابات کے سلسلے میں اپنے گھر پر کچھ صحافیوں کو رات کے کھانے پر مدعو کیا، جس میں لاہور پریس کلب کے موجودہ صدر میاں شہباز، اعظم چودھری، نعیم مصطفی، حامد ریاض ڈوگر، حبیب چوہان اور راقم شریک تھے۔ ابھی اس کھانے کی لذت، ان کی گفتگو کی شیرینی اور ان کے اہلِ خانہ کی میزبانی کی مٹھاس موجود تھی کہ23 دسمبر2016ء کو آسمانوں سے ان کا بلاوا آگیا اور وہ اپنی عادت کے مطابق سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس طرف چل پڑے۔
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
nn