بلوچستان جس گمبھیر صورت حال سے دوچار ہوا اس کا سب سے بڑا سبب جنرل پرویزمشرف کا دورِ حکومت تھا۔ 2006ء میں نواب بگٹی کے بہیمانہ قتل کے بعد مسلح تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ نواب بگٹی کا پوتا براہمداغ بگٹی نواب کے ساتھ فوجی تصادم سے پہلے افغانستان چلا گیا، اور نواب خیر بخش خان مری کا بیٹا حیربیار مری اور بالاچ بھی افغانستان چلے گئے۔ ڈاکٹر اللہ نذر قید سے چھوٹ کر مکران ڈویژن میں، اور سردار عطا اللہ مینگل کا بیٹا جاوید مینگل (سابق سینیٹر) خضدار ڈویژن میں مسلح کارروائیوں میں شریک ہوگیا۔ اس کی مسلح تنظیم کا نام ’لشکر بلوچستان‘ ہے اور اس کا زیادہ تر قیام دبئی میں ہوتا ہے، جبکہ حیربیار برطانیہ میں اور براہمداغ بگٹی فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔ خان قلات بھی بلوچ گرینڈ جرگہ کے بعد برطانیہ چلے گئے۔ بلوچ گرینڈ جرگہ نواب بگٹی کے قتل کے بعد بلایا گیا تھا، اس میں بلوچوں کے نواب اور سردار نواب محمد اسلم رئیسانی، نواب ثنا اللہ زہری، نواب ذوالفقار مگسی، والیِ قلات میر سلیمان داؤد، سردار اختر مینگل شریک تھے۔ جرگے میں شریک بلوچ نوجوان آزاد بلوچستان کا نعرہ لگارہے تھے اور مطالبہ کررہے تھے کہ بلوچستان کی آزادی کا اعلان کیا جائے۔ لیکن جرگے نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ خان قلات برطانیہ جاکر اپنی ریاست کا مقدمہ لڑیں گے اور تاجِ برطانیہ سے ریاست قلات کو واگزار کرانے کا مطالبہ کریں گے۔ اگر ریاست قلات بحال ہوئی تو بعد میں تمام بلوچ ریاستیں آزاد ہوجائیں گی۔ یوں خان قلات اس گرینڈ جرگے کے فیصلے کے تحت برطانیہ چلے گئے۔ وہ برطانیہ میں ایک قابل وکیل کی تلاش میں تھے جو ان کا مقدمہ لڑے۔ وہ وکیل تلاش کرتے کرتے تاجِ برطانیہ سے پناہ کی درخواست کربیٹھے اور مسلح جدوجہد کی حمایت کی طرف چلے گئے۔ وہ بھی قلات ڈویژن میں مسلح جدوجہد کی حمایت کررہے ہیں۔ اس کشمکش کے دوران خان قلات اور ڈاکٹر اللہ نذر میں زبردست اختلاف پیدا ہوگیا۔ ڈاکٹر اللہ نذر نے خان قلات پر زبردست بیان کے ذریعے حملہ کیا اور خان کو طعنہ دیا کہ انہوں نے جنرل پرویزمشرف کو قلات کے دورے میں تلوار تحفے میں دی اور وہ اس کے ذریعے بلوچوں کا خون بہا رہا ہے۔ دونوں کے درمیان بیان بازی کا مقابلہ کچھ دیر کے بعد رک گیا، اب یہ محاذ خاموش ہے۔ خان قلات واپس آنے کے خواہش مند تھے لیکن اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ سابقہ کور کمانڈر ناصر جنجوعہ اس کے خواہش مند تھے، ان کے بعد یہ سلسلہ بھی رک گیا۔ براہمداغ بھی لوٹنے کو تیار تھے، عبدالمالک بلوچ نے ان سے روابط کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ نواب ثنا اللہ زہری کو ان معاملات سے ویسی دلچسپی نہیں ہے جس طرح عبدالمالک بلوچ کو تھی۔ عبدالمالک بلوچ سیاسی سوچ کے مالک ہیں اور ان کی پارٹی بھی سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھتی تھی۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کو اس سے دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے اہداف سیاسی نہیں ہیں۔ اس کے بعد بلوچستان میں مسلح کارروائیاں ہورہی ہیں۔
2016ء میں حکومت نے اپنے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اب یہ بھی روایت بن گئی ہے کہ پورے سال کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے کہ حکومت نے کتنی کارروائیاں کیں، کتنے آپریشن کیے اور اپنے اہداف کو کس طرح حاصل کیا ہے۔ دوسری طرف مسلح جدوجہد کرنے والوں کی طرف سے بھی اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں۔ اس طرح عوام کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ پورے سال میں بلوچستان میں کتنے لوگ مارے گئے اور کتنے دہشت گردی کے حملے ہوئے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق 2016ء میں صوبہ بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے 240 واقعات ہوئے، جن میں 330 افراد قتل ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں سب سے بڑا واقعہ سول اسپتال میں ڈاکٹروں پر حملہ تھا، دوسرا بڑا حملہ پولیس ٹریننگ کالج پر تھا اور تیسرا دہشت گردی کا حملہ شاہ نورانی کے مزار پر ہوا تھا جس میں بے شمار شہری لقمہ اجل بن گئے۔ وکلا پر حملے نے پورے ملک کو سوگوار کردیا۔ یہ ایک طرح سے عدلیہ پر حملہ تھا جس کے بڑے منفی اثرات ملک پر پڑے اور سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ وزارتِ داخلہ اس رپورٹ کے خلاف جوابی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت اپنی نااہلی کو چھپانا چاہتی ہے۔ یہ تین بڑے واقعات حکومتِ بلوچستان کی کمزوری اور نااہلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں 109 پولیس والے، ایف سی کے 37 جوان اور لیویز کے 9سپاہی نشانہ بنے۔ 8 بینک لوٹے گئے، 225 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں، چوری کی 33 وارداتیں بھی ہوئیں۔ دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ رپورٹ کسی مہذب حکومت کی نہیں بلکہ ٹیکساس جیسے علاقے کی رپورٹ لگتی ہے جہاں کاؤ بوائے کی حکومت ہو۔ اس رپورٹ کے مطابق 16885 افراد کو مختلف جرائم میں ملوث پاکر گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ملک میں سب سے خراب صورت حال صوبہ بلوچستان کی نظر آتی ہے۔
ایک اور رپورٹ پاکستان انسٹی ٹیوٹ کانفلیکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2016ء میں مسلح حملوں میں 30 فیصد کمی ہوئی ہے، بم دھماکوں میں کمی آئی ہے، مجموعی ہلاکتوں کی تعداد میں بھی 28 فیصد کمی آئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 859دہشت گرد مارے گئے اور 4142 گرفتار ہوئے۔ اورجنگجو حملوں میں 60 فیصد کمی ہوئی ۔ اس رپورٹ کے مطابق ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں بالترتیب 27 فیصد اور 121 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق 2014ء سے 2016ء تک بلوچستان میں 4980 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے ہیں جن میں جرائم میں ملوث 16885 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 568 دہشت گرد مارے گئے ہیں اور اغوا کے 64 واقعات درج ہوئے ہیں۔
ایک طرف سرکاری رپورٹ شائع کی گئی ہے تو دوسری جانب بلوچستان نیشنل فرنٹ نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے جو یوں ہے:
2016ء میں بلوچستان میں حقوقِ انسانی کی صورت حال تشویش ناک رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور مہذب ممالک کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ بی این اے کی رپورٹ کے مطابق 2016ء میں بلوچستان میں 630 افراد کو قتل کیا گیا، 15مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں اور 3450 افراد لاپتا کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2016ء میں 13575 افراد کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت گرفتار کیا گیا۔ جنوری 2016ء میں بلوچستان میں 50 آپریشن کیے گئے۔ مارچ میں 80 افراد قتل اور 150 کے قریب اغوا ہوئے۔ بی این اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالمنان اور ان کے ساتھیوں کو مستونگ میں قتل کیا گیا۔ مارچ میں فورسز کے ہاتھوں 80 افراد قتل ہوئے اور150 کے قریب اغوا ہوئے۔ بی ایس او آزاد کے دو کارکنوں ماجد بلوچ اور عدیل بلوچ کی لاشیں ملیں۔ جون میں 54 کارروائیوں میں 40 افراد قتل کیے گئے۔ اس طرح ترتیب سے ماہوار رپورٹ تیار کی گئی ہے اور اخبارات کو جاری کی گئی ہے۔
بلوچستان کے اخبارات میں سال گزرنے پر اسی طرح کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے اور حکومت کی طرف سے اس رپورٹ کی تردید ہوتی ہے، اور دوسری جانب بی اے ایف حکومتی رپورٹ کو مسترد کرتی ہے۔ مگر اخبارات میں لاشیں ملنے کے واقعات شائع ہوتے رہتے ہیں، ان میں مسخ شدہ لاشیں بھی ملتی ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے 20 اگست 2016ء کو پریس کانفرنس میں کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان میں 2825 کارروائیاں کی گئی ہیں اور 13575 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس پلان کے تحت 337 دہشت گرد ہلاک کیے گئے اور 54 زخمی ہوئے۔ محکمہ داخلہ کی کارروائیوں کے تحت 4232 مختلف اقسام کا اسلحہ برآمد کیا گیا۔ سیکورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیوں کے نتیجے میں 2 لاکھ 48 ہزار 324 گولیاں، مارٹر گولے اور بارود برآمد کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ آخری دہشت گرد تک ہماری کارروائیاں جاری رہیں گی۔
8 جنوری 2017ء کو ایک رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق کے مطابق رواں سال کے دوران مختلف علاقوں سے 70 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں 2007ء سے لے کر اب تک جو لاشیں برآمد ہوئی ہیں ان میں جلیل ریکی بھی شامل ہے۔ اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ 2009ء میں 3 گاڑیوں میں لوگ سرآب آئے اور جلیل ریکی کو گھر سے گرفتار کرکے لے جایا گیا، پھر اس کی تشدد زدہ لاش 2011ء میں ایک ہزار کلومیٹر دور ایران کے بارڈر کے قریب ملی۔ اس کے سینے اور سر پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ تشدد زدہ لاشیں ان کی ہیں جنہیں زبردستی اغوا کیا جاتا ہے۔ تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے نصراللہ کے بیان کے مطابق آئے روز بلوچستان میں لاشیں ملتی ہیں۔ آپریشن میں عسکریت پسندوں کو مارنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن یہ ان لوگوں کی لاشیں ہوتی ہیں جن کو جبری طور پر اغوا کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ جنرل پرویزمشرف کے دور کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے جن کو ہم بھگت رہے ہیں۔2007ء سے تشدد زدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ اور پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں ایک بینچ کے فیصلے کے مطابق ان اغوا شدہ لوگوں کے مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 2011ء میں 26 ، 2012ء میں161، 2013ء میں 154، 2014ء میں 207 لاشیں ملیں۔ آخری دو سالوں میں 2013 لاشیں ملیں۔ یہ لاشیں مختلف علاقوں سے ملی ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک 6 سالوں میں ایک ہزار سے زائد لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔ لیکن نصراللہ بلوچ کے مطابق اب تک 6 سالوں میں رجسٹرڈ شدہ لاشوں کی تعداد 1200 ہے، تاہم ان کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ قوم پرست جماعتوں اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کی تنظیم کی جانب سے ریاستی اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان انوارالحق کے مطابق حکومت نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ بعض دفعہ دہشت گرد آپس میں بھی لڑتے ہیں اور ایک د وسرے کو مارتے ہیں، اورجب وہ ایک دوسرے کو مارتے ہیں تو لاشوں کو نہیں دفناتے، یوں مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ کچھ قبائلی تنازعات میں مارے جاتے ہیں اور ڈرگ مافیا کے لوگ بھی ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور لاشیں پھینک دیتے ہیں۔ اس طرح لاشیں ملتی ہیں۔ ہر سال ایک بڑی تعداد غیر ملکیوں کی لاشوں کی بھی ملتی ہے۔ ان میں بڑی تعداد افغان افراد کی ہوتی ہیں اور یہ بلوچستان سے برآمد ہوتی ہیں۔
یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ ان مسخ شدہ لاشوں کے علاوہ قوم پرست پارٹیوں کے کارکن بھی مسلح گروہوں کی جانب سے نشانہ بنتے ہیں۔ بعض مسلح تنظیمیں نیشنل پارٹی پر الزام لگاتی ہیں کہ اس کا بھی مسلح گروہ موجود ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے 20اگست کو بلوچستان کے شہر سنجاوی میں ایک مدرسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہر مسلح تنظیم کسی نہ کسی ادارے کے لیے کام کرتی ہے، بلوچستان کے بعض حصوں میں بعض قبائلی افراد کے گروہوں نے بھی اپنے اپنے لشکر بنائے ہوئے ہیں، وہ بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔
یہ آج کا بلوچستان ہے۔ اب سی پیک کے حوالے سے امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک پاکستان کو گوادر کے حوالے سے مضطرب رکھیں گے۔
nn