5 جنوری 2017ء کو خضدار کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں اکنامک ڈویلپمنٹ کے زیراہتمام ایک روزہ سیمینار ہوا۔ اس سیمینار کے مہمانِ خصوصی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری، وفاقی و صوبائی وزراء، سول بیوروکریسی، صحافیوں، طلبہ اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بعد خضدار کا علاقہ بھی اہم مرکز بننے جارہا ہے۔ خضدار رتو ڈیرو شاہراہ پر کام جاری ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد خضدار شہداد کوٹ سے جاتے ہوئے قومی شاہراہ سے جڑ جائے گا۔ یعنی گوادر سے خضدار، رتو ڈیرو، شہداد کوٹ کے راستے آمد و رفت ہوگی، یوں ملک کے دیگر حصوں میں جایا جاسکے گا۔ سڑکوں کے جال کا بچھ جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے بلوچستان کا قریہ قریہ قومی شاہراہوں سے منسلک ہوگا۔ فاصلے کم ہوں گے تو کاروباری سرگرمیوں میں آسانی اور تیزی پیدا ہوگی، اور اس طرح ہر جگہ حکومتی عملداری قائم ہونے میں کوئی مشکل بھی پیش نہیں آئے گی۔ خضدار یقیناًتجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کا اہم مرکز بننے جارہا ہے۔ یہاں کے تعلیمی اداروں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے، بالخصوص خواتین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قلیل مدت میں قیام بہت ضروری ہے، بلکہ خواتین یونیورسٹیاں تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں قائم کی جانی چاہئیں ۔ ٹیکنیکل تعلیمی اداروں کا قیام جنگی بنیادوں پر ہو تاکہ بلوچستان کے نوجوان آنے والے دور میں جو مقابلے اور ہنر کا دور ہے، کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ جب گوادر ایشیا کے اہم تجارتی مرکز کی حیثیت سے اجاگر ہوگا تو یہاں کے عوام کو بھی برابر ترقی کی دوڑ میں حصہ دار بنانا حکمرانوں پر لازم ہے۔ چونکہ بلوچستان چین کی مجبوری ہے لہٰذا صوبے کی سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ چین سے صوبے اور یہاں کے عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرے۔ سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کے بیجنگ میں 27 تا29 دسمبر2016ء کو ہونے والے چھٹے اجلاس میں بلوچستان کے 12اہم منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنا اہم کامیابی ہے۔ پنجاب کی حکومت بہت لائق اور تیز ثابت ہوئی ہے۔ اُس نے پنجاب کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رکھی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کو بھی بہت سارے اختیارات حاصل ہیں۔ چنانچہ انہیں ان اختیارات کو جاننا اور استعمال کرنا چاہیے۔ اس اجلاس کی اہم بات یہ تھی کہ وفاق سمیت چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزراء اعلیٰ شریک تھے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کی کاوش قابلِ داد ہے۔ اس اجلاس میں بلوچستان کے چار اہم منصوبوں کو شامل کرانے میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے جس میں کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین سسٹم جس کا تخمینہ 25 ارب روپے ہے، شامل کیا گیا ہے۔ نوکنڈی، ماشکیل، پنجگور316 کلومیٹر شاہراہ جسے نیشنل ہائی وے این 85 سے منسلک کیا جائے گا، اس شاہراہ پر 25 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔2016-17ء کے بجٹ میں شہر کوئٹہ کو فراہمئ آب کے لیے 10ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ یہ منصوبہ پٹ فیڈر سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا ہے۔ اب یہ منصوبہ سی پیک میں شامل کیا جاچکا ہے۔ اس بڑے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 40 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ کوئٹہ کے شمال میں واقع بوستان اور خضدار میں انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کا منصوبہ بھی شامل کرایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس اجلا س میں این50، 110کلومیٹر طویل خضدار بسیمہ روڈ، 216کلومیٹر طویل ژوب ڈی آئی خان شاہراہ کی اپ گریڈیشن کا فیز1، اور گوادر بندرگاہ میں پانچ اضافی برتھوں کی تعمیر شامل ہے۔ گوادر بندرگاہ کو گوادر کے ایئرپورٹ سے منسلک کرنے کے لیے ایسٹ بے ایکسپریس وے فیزII اور گوادر میں باؤٹیل پارک کی تعمیر کی جائے گی۔ گوادر فری زون میں اسٹین لیس اسٹیل فیکٹری کا قیام اور فوٹون آٹو موبائل پلانٹ کی تنصیب شامل ہے۔ ان منصوبوں کو سی پیک کا حصہ بنانا سردست حکومت کی کامیابی ہے۔ کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین کا منصوبہ بھی اہم نوعیت کا ہے۔ حکومتِ چین کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ کوئٹہ سے ژوب تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ شامل کرانا چاہیے۔ یہ نیرو گیج لائن تھی۔ کوئٹہ اور ژوب ریل سے منسلک کرنے سے سفری سہولیات میں اضافہ ہوگا۔ کوئٹہ جیکب آباد اور کوئٹہ چمن ریلوے لائنوں کی اپ گریڈیشن کی بھی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت صوبے کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات لینے کی جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھے۔ چینی زبان سیکھنے کے ادارے تمام اضلاع میں کھلنے چاہئیں تاکہ نوجوان چینی زبان پر عبور حاصل کریں۔ اسی طرح چینیوں کے لیے اردو اور مقامی زبانیں سکھانے کے لیے اداروں کی ضرورت ہے تاکہ اردو کے ساتھ ساتھ بلوچی اور پشتو بھی سیکھی جاسکے۔ nn