جنرل پرویزمشرف کے دورِ آمریت میں ڈیرہ بگٹی کے شہر سوئی (جو کہ گیس کے ذخائر و تنصیبات کا اہم علاقہ ہے) میں فوجی چھاؤنی کے قیام کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ چار سو ایکڑ اراضی مختص کی گئی جس پر چھاؤنی کی تعمیر ہونی تھی۔ اُس وقت ڈیرہ بگٹی میں حالات معمول پر نہ تھے۔ نواب بگٹی اور حکومت کے درمیان کھنچاؤ کا ماحول تھا۔ اس طرح چھاؤنی کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن چھاؤنی کی جگہ جو فیصلہ ہوا، اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ وہ یہ کہ اب اس مقام پر ملٹری کالج قائم ہے جس کا افتتاح جنرل اشفاق پرویزکیانی نے 2011ء میں کیا۔ ملک کے تیسرے ملٹری کالج سوئی میں ڈیرہ بگٹی کے بچوں کا خصوصی کوٹہ ہے۔ اسی طرح بلوچستان بھر کے طلبہ کو بھی داخلوں میں خصوصی سہولت دی گئی ہے۔ کاش صوبے کے اندر افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنے میں حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو کامیابی ملے۔ پاک آرمی میں بھی بلوچستان کے نوجوانوں بالخصوص بلوچ طلبہ کو رعایت دی جارہی ہے۔ اس وقت بیس ہزار نوجوان فوج میں بھرتی ہیں جن میں چھ سو سے زائد افسران شامل ہیں۔ بلوچستان کے دور دراز اور اُن علاقوں میں تقاریب کا انعقاد ہورہا ہے جن کی پہلے حکومتوں کے ہاں سرے سے کوئی اہمیت نہ تھی۔ بدامنی کے باعث صوبہ ترقی، تعلیم، ہنر اور سرمایہ کاری کے میدان میں بہت پیچھے چلا گیا، تعلیمی ادارے ویران ہوگئے، بڑے ذہین اور لائق فائق اساتذہ چلے گئے، بہت ساروں کو قتل کردیا گیا۔ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار میں حالات اس قدر خراب ہوگئے تھے کہ مہینوں شہر بند رہا کرتا تھا، بلکہ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر آمد و رفت میں نمایاں کمی آگئی تھی۔ رات کو تو اس شاہراہ پر کوئی سفر کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہاں کی انجینئرنگ یونیورسٹی ویرانے میں تبدیل ہونے جارہی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ بدامنی پر قابو پالیا گیا۔ شہری زندگی بحال ہوگئی۔ انہی حالات سے صوبے کے کئی بلوچ علاقے دوچار تھے۔ اگرچہ شورش پسند اب بھی سرگرم ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ حالات پہلے جیسے نہیں رہے ہیں۔ nn