سوئٹرزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کا سالانہ اجلاس جاری ہے۔ پاکستان سے وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف بھی شڑیک ہیں۔ اس اجلاس کی خاص بات چین کے صدر شی جن پنگ کی شرکت بھی بتائی گئی ہے ‘کیونکہ شی جنپنگ پہلے چینی صدر ہیں جنہوں نے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کی ہے۔ ’’عالمی اقتصادی فورم ‘‘کی بنیاد 1971 ء میں رکھی گئی تھی۔ اس ادارے کا مرکز مغربی یورپ کا ایک چھوٹا سا دولت مند ترین ملک سوئٹزرلینڈ ہے۔ ہر سال جنوری کے آخری ہفتے میں ڈیووس میں فورم کا سالانہ اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ مندوبین شریک ہوتے ہیں۔ اجلاس میں حکومتی سربراہوں کے علاوہ دنیا بھر کی سیاسی‘ تعلیمی‘ کاروباری رہنماؤں‘ دانشوروں اور صحافیوں کو دعوت دی جاتی ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں دنیا کو درپیش سیاسی‘ اقتصادی‘ سماجی مسائل پر تبادلۂ خیال اور گفتگو کی جاتی ہے۔ پاکستان میں سوئٹزر لینڈ کی شہرت اس وجہ سے ہے کہ اس ملک میں دنیا بھر کے چھپائی ہوئی دولت اس ملک کے بینکوں میں محفوظ رکھی جاتی ہے۔ دنیا کے چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کے داخلی تضادات سے بچنے کے لیے اس ملک کو ایک اہم مرکز بنایا گیا ہے‘ جہاں متحارب قوتوں کے نمائندے بھی ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں۔ اس اجلاس میں ہونے والے مباحثوں‘ گفتگوؤں اور تبادلۂ خیال کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عالمی قائدین‘ عالمی سیاسی صورتحال‘ اقتصادی صورتحال اور سماجی مسائل کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم اور ڈیووس‘ عالمی سیاسی اور اقتصادی نظام کے مراکز میں سے ایک مرکز ہے۔ آج سے 47 برس قبل جب عالمی اقتصادی فورم قائم کیا گیا تھا تو اس کا مقصد یہ بیان کیا گیا تھا کہ دنیا کی حالت بہتر بنائی جائے گی۔ اجلاس میں شریک سیاسی‘ تعلیمی‘ کاروباری رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی میں عالمی سطح پر منصوبہ بندی کی جائے گی۔ اس عرصے میں دنیا تسلسل سے انقلابات سے گزررہی ہے۔ موجودہ عالمی نظام نے یورپی نوآبادیاتی نظام کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔جس نے دنیا کے وسائل پر قبضے کی جنگ میں دنیا کو 2 عظیم جنگوں کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم نے دنیا کو ’’سرد جنگ‘‘ کا تحفہ دیا اور ایک نئے انداز میں دنیا کے وسائل پر قبضے کی جنگ جاری رہی۔ دنیا دو کیمپوں میں تقسیم ہوگئی اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کمیونزم سرمایہ دارانہ دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرلے گا۔ اس لیے روس سوویت کمیونزم کا قائدبن کر آدھے مشرقی یورپ تک اپنا تسلط پھیلا چکا تھا دوسری طرف وسط ایشیا کے تمام ممالک اس کا حصہ بن چکے تھے افغانستان پر فوجی قبضے کے بعد روس اور بحرہند کے گرم پارنیوں کے درمیان صرف پاکستان حائل رہ چکا تھا او ریہاں کے سیاست داں یہ کہہ رہے تھے کہ روس مرسیڈیز میں بیٹھ کر پاکستان میں داخل ہوسکتا ہے لیکن دنیا کے سب سے پسماندہ اور غریب ملک افغانستان سے عالمی نظام کا نقشہ تبدیل کردیا۔یہ سفر سوویت یونین کی پسپائی اور انہدام پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس قوت میں یک قطبی عالمی نظام بھی ختم ہوگیا جس کا دعویٰ امریکی صدر بش سینئر نے پہلی جنگ خلیج کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے کیا تھا۔ سوئٹزر لینڈ میں منعقد ہونے والے سالانہ عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس نے سرمایہ دارانہ نظام کی طاقت کے مراکز کو پھر تبدیل کردیا ہے۔ یہ وہی موقع ہے کہ جب عالمی سرمایہ داری نظام کے قائد امریکہ کے ایوانوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس ہلچل کی سب سے بڑی علامت ’’نیا امریکہ‘‘ہے جس کی قیادت ڈونلڈ ٹرمپ نے سنبھالی ہے۔ دنیا اب یہ دیکھ رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں بدلے ہوئے امریکہ کے بعد عالمی منظرنامہ کیا ہوگا۔ پہلی مرتبہ امریکہ کے اندر فیصلہ کن اداروں میں اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ بارک اوباما کے انتخاب کو امریکی تبدیلی کی علامت قرار دیاگیا تھا‘ لیکن جلد ہی ’’خوش گمانیوں‘‘کی امید مایوسی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب نے امریکہ کے اندر اور باہر سب کو دہلا رکھا ہے۔ اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے ضمیر کی حقیقی آواز بن کر سامنے آگئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے ساتھ ہی عالمی منظرنامے پر جو تبدیلی سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ کمیونزم اور سوشلزم کی دو بنیادی علامتیں یعنی روس اور چین نئے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی طاقت کے نئے مراکز بن کر سامنے آئے ہیں۔ روس اور چین کے نئے کردار نے عالمگیریت کے نئے معنی بیان کردیے ہیں۔ اس تناظر میں چین اب کمیونزم کے بجائے عالمگیریت کا محافظ بن کر سامنے آیا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ کے خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی جنگ جاری ہے۔ نئی عالمگیریت کا ایک ستون نئی شاہراہ ریشم بھی ہے جو دنیا کے تمام اقتصادی خطوں کو بری اور بحری تجارتی راستوں کے ذریعے آپس میں جوڑ رہا ہے۔ اسی عالمی اقتصادی راہداری کا ایک حصہ سی پیک بھی ہے جس کو نئی عالمگیریت کے تناظر میں ’’گیم چینجر‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ سی پیک کے خلاف بھارت کی تشویش عالمی معاشی جنگ اور نئی سیاسی صف بندی کو ظاہر کررہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام چاہے انیسویں صدی کا ہو یا اکیسویں صدی کی عالمگیریت دونوں نے دعویٰ تو یہی کیا ہے کہ اس سے لوگوں کی زندگی میں بہتری آئی ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت ہے۔ ’’وار آن ٹیرر‘‘ بھی عالمی سیاسی و اقتصادی نظام کے اہداف حاصل کرنے کا ذریعہ تھا جس میں امریکہ ناکام ہوا اور عالمی نظام کی قیادت اس کے ہاتھوں سے آہستہ آہستہ نکل رہی ہے۔ البتہ ’’وار آن ٹیرر‘‘ نے یہ کام ضرور کیا ہے کہ جدید مغرب نے انسانیت کے خلاف اپنے مکروہ عزائم کو چھپانے کے لیے ’’آزادی اظہار‘‘ اور انسانی حقوق کا جو نقاب اوڑھا تھا وہ اس کے چہرے سے اترگیا ہے۔ جو ظلم اور تعذیب و تشدد’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر کیا گیا ہے اس کے تذکرے پر بھی ممانعت ہے۔ اس کے باوجود دعویٰ یہ کیا جارہ اہے خہ ہم دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔