قندھار اورکابل میں افغان پارلیمنٹ کے قریب ہونے والے بم دھماکوں کی پاکستان کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت اور افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون کے اعادے کے باوجود پاکستان پر ایک جانب افغان حکومت کی جانب سے افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کی پشتی بانی کے الزامات ایک بار پھر دہرائے گئے ہیں، اور دوسری جانب افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کے سابق سربراہ امراللہ صالح کی قیادت میں بیسیوں شرپسندوں کے کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے سے افغان قیادت کا پاکستان مخالف چہرہ ایک بار پھر عالمی سطح پر بے نقاب ہوگیا ہے۔ جبکہ تیسری جانب دہشت گردی کی تمام صورتوں کے خلاف پاکستان کی بے پناہ قربانیوں اور اقدامات کے باوجود اگر ایک جانب امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان پر فاٹا میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی کا بھونڈا الزام لگایا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے نامزد سیکرٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھی اپنا پہلا بیان پاکستان پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں داغ کر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق ممکنہ امریکی پالیسی کا اظہار کردیا ہے۔ ان چاروں الزامات کے پس منظر بظاہر جدا جدا ہیں لیکن ان کی ٹائمنگ کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ ان تمام الزامات کا مقصد جہاں پاکستان کو دباؤ میں لانا ہے وہاں پاکستان نے چونکہ پچھلے دو تین ماہ کے دوران میں اگر ایک جانب چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی پیک پر کام میں تیزی پیدا کی ہے تو دوسری جانب پاکستان نے پہلی دفعہ افغانستان کے معاملے پر خطے کی دو بڑی طاقتوں روس اور چین کے ساتھ مشترکہ مؤقف اختیارکرتے ہوئے امریکہ، افغان حکومت اور بھارت کو جو واضح پیغام دیا ہے اس سے بھی امریکی کیمپ میں خاصی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ یہ شاید اسی ہلچل کا نتیجہ ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل نکولسن نے پچھلے دنوں نہ صرف پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے پنڈی میں ملاقا ت کی ہے بلکہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی کامیابیوں اور قربانیوں کی تعریف کرتے ہوئے بارڈر سیکورٹی نظام کو مزید مؤثر اور مربوط بنانے میں پاکستان کو ہر ممکن تعاون کی پیش کش بھی کی ہے۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی کمانڈر کو نہ صرف ضربِ عضب آپریشن کی کامیابیوں کے بارے میں آگاہ کیا بلکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کے تعاون کا اعادہ بھی کیا۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں قیام امن اور سیاسی استحکام میں اتحادی افواج کا کردار لائقِ تحسین ہے اور اتحادی افواج افغان فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے اور تربیت کے ضمن میں جوکردار ادا کررہی ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی مسلح افواج نے کم وسائل اور بے پناہ مسائل کے باوجود دہشت گردی کے مختلف نیٹ ورکس کے خلاف کامیاب کارروائی کی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے اردگرد امن کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے اور توقع ہے کہ سارے خطے سے امن اور ترقی دشمن عناصر کا صفایا جلد ہی ہوجائے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی کمانڈر کے سامنے قبائلی علاقوں میں پاک فوج کی کامیاب کارروائیوں کے متعلق کہا کہ پاک فوج اور قبائلی عوام نے خطے میں قیام امن کے سلسلے میں اب تک جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ ناقابلِ فراموش اور لائقِ تحسین ہیں۔ بعدازاں جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل نکولسن نے مشترکہ طور پر میران شاہ کا دورہ بھی کیا جہاں پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ نے جنرل نکولسن کو ضرب غصب آپریشن کے مختلف پہلوؤں پر بریفنگ دی۔ واضح رہے کہ جنرل راحیل شریف کی سبک دوشی کے بعد کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا یہ پہلا دورۂ پاکستان تھا جس میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج کے کردار اور خدمات پرگفتگو ہوئی۔
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور اس میں اب تک کے امریکی کردار اور حاصل ہونے والے نتائج کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو جو تصویر ابھر کر سامنے آئے گی وہ یقیناًادھوری ہوگی۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو افغانستان میں پندرہ سالہ قیام اور طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود سوائے طالبان حکومت کے خاتمے کے اب تک کوئی خاص کامیابی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ کا دعویٰ تھاکہ چند ماہ کے اندر اندر سارے افغانستان سے طالبان کا مکمل صفایا کردیا جائے گا، لیکن اب خود اعلیٰ امریکی حکام اس تلخ حقیقت کا برملا اعتراف کررہے ہیں کہ امریکہ پندرہ سالہ جنگ کے دوران نہ تو طالبان کا مکمل خاتمہ کرسکا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس بات کے کچھ امکانات نظر آرہے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے طالبان کا مکمل صفایا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ خود امریکی حکام بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ طالبان کے مکمل خاتمے کی خواہش نہ صرف دیوانے کی بڑ ہے بلکہ یہ دیواروں سے سر ٹکرانے کے مترادف بھی ہے۔ اس ساری صورت حال میں جب پچھلے سال پاکستان نے نیک نیتی سے افغانستان میں مستقل قیام امن کے لیے چار فریقی (امریکہ، چین، افغان حکومت اور طالبان) کے درمیان مری مذاکرات کاآغاز کیا تھا تو اس سے یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ شاید مذاکرات کی میز پر تمام فریقین کسی متفقہ حل پر پہنچ جائیں گے، اور اس طرح اس خطے میں پچھلے پندرہ سولہ سالوں سے جاری خونریزی کا نہ صرف خاتمہ ہوجائے گا بلکہ تمام فریقین کو سُکھ کا سانس لیتے ہوئے جہاں اپنے وسائل کو خود اپنے شہریوں کی فلاح وبہبودکے لیے بروئے کار لانے کے مواقع دستیاب ہوسکیں گے وہاں ان وسائل کا کچھ حصہ تباہ شدہ افغانستان اور اس خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کے قبائلی علاقوں کی آبادکاری کے لیے بھی بروئے کار لانے کی امید کی جاسکے گی۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق امریکہ نے اپنی طاقت کے زعم میں طالبان راہنما ملا محمد اختر منصور کی شہادت کی صورت میں ان مذاکرات کو جس رعونت کے ساتھ سبوتاژ کیا اب اس کا سب سے زیادہ خمیازہ خود امریکہ اور اس کی پٹھو افغان حکومت کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ امریکہ کا پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی یہ مطالبہ پہلی دفعہ کیا گیا ہے۔ پاکستان نے اپنی تمام تر مشکلات اور خدشات کے باوجود سوات اور باجوڑ سے لے کر شمالی اور جنوبی وزیرستان تک جدید جنگی تاریخ کے کامیاب ترین آپریشن کرکے دنیا پر یہ بات ثابت کردی ہے کہ اگر قوم متحد ہو تو اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اب ایسے میں امریکہ کے پاکستان سے ڈومور کے مطالبے کو باہر کی دنیا تو کجا خود امریکہ کے اندرونی حلقے اور امریکی عوام بھی سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا ایک حالیہ پریس کانفرنس میں یہ کہنا سوفیصد درست معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں خراب ہوتی ہوئی سیکورٹی کی صورت حال کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیرانا مناسب نہیں ہے۔ یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ پاکستان نے را، این ڈی ایس اور سی آئی اے کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کے خلاف بچھائی جانے والی سازشوں کو جس طرح ان ایجنسیوں کے خلاف الٹا ہے اس کا ادراک اب ان ایجنسیوں اور ان ممالک کی اعلیٰ قیادتوں کو بھی ہونے لگا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد 27 دسمبر کو ماسکو میں افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے چین، روس اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سطح کے ہونے والے مذاکرات جہاں ان تینوں ممالک کی کامیاب سیاسی حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں وہاں اس مذاکراتی عمل میں ایران کی ممکنہ شمولیت کے امکانات سے بھی یہ امید پیدا ہورہی ہے کہ اس خطے کے ممالک اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس خطے کا امن اور سلامتی نیز ترقی کا خواب تب ہی شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے جب اس خطے کے ممالک اپنے مسائل حل کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں پر انحصار کے بجائے علاقائی تعاون کو فروغ دیں۔ روس نے ماسکو مذاکرات پر افغان حکومت کے ردعمل کو مسترد کرتے ہوئے افغان حکومت کو ان مذاکرات میں شمولیت کی دعوت دے کر جس کامیاب ڈپلومیسی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ روس اگر مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے اپنا کردار منوا سکتا ہے تو اس خطے جس سے روس اور اس کے مستقبل کے اتحادی چین کا مستقبل وابستہ ہے، سے کیونکر لاتعلق رہ سکتا ہے! اس پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں امریکہ اور افغان حکومت کی افغانستان میں قیام امن سے متعلق تشویش اور پریشانی کو سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہوگا وہاں یہ صورت حال یقیناًبھارت کے لیے بھی کسی ڈراؤنے خواب سے ہرگز کم نہیں ہوگی۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں روس، چین اورخاص کر پاکستان کو اس خطے میں قیام امن کے لیے اپنے تمام پتّے انتہائی احتیاط اور ہوشیاری سے کھیلنا ہوں گے۔
nn