سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔ وزارت صحت، سگریٹ کے ہر پیکٹ پر لکھے اس انتباہ ہے کہ ہم بچپن سے پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد عوام کو سگریٹ نوشی سے باز رکھنا ہے بجائے اس بات کے کوئی قانون بنایا جائے یا لوگوں کی ایسی تربیت کی جائے، جس سے عوام سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں، پیکٹوں پر دو لائن کی تحریر چھاپ کر اپنی تمام ذمّے داریاں پوری کر دی گئیں۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ سگریٹ پئیں یا نہ پئیں، حکومت کی بلا سے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ جس تیزی سے سگریٹ پینے والوں کا اضافہ ہو رہا ہے یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ صرف انتباہ سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کے لیے باقاعدہ قوانین بنائے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ایسی تربیتی نشستوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس سے لوگوں کی اصلاح کی جائے۔ پیکٹ پر لکھی تحریر پر کسی نے عمل کیا ہو، ہمیں یاد نہیں، مگر ہماری وزارت داخلہ سندھ کے ماتحت سی پی ایل سی نے عوام کو تحریری آگاہی دینے کا ہنر ضرور سیکھ لیا ہے اس آگاہی کے لیے اخبارات میں جرائم سے جڑے اعداد و شماردے کر عوام کو متنبہ کردیا جائے یا پھر ان علاقوں کی نشان دہی کرکے، جہاں اسٹریٹ کرائم بے قابو ہوچکا ہے، عوام کو خبردار کر دیا جائے تاکہ عوام خود ہی احتیاط کریں، بصورت دیگر وہ کسی نقصان کے خود ذمے دار ہوں۔ اسی طرح کی خبر کے مطابق کراچی کے شہری اسٹریٹ کرمنلز سے ہوشیار رہیں۔ نیپا چورنگی، حسن اسکوائر، سخی حسن، عائشہ منزل، طارق روڈ، بہادر آباد، دو دریا، پی آئی ڈی سی، کلفٹن اور ڈیفنس سمیت شہر کے مختلف مقامات پر لٹنے کا خطرہ ہے۔ 2015 میں بھی مختلف مقامات کی نشان دہی کی گئی، جہاں بندوق کے زور پر لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا ہے۔ ان میں نارتھ ناظم آباد میں قلندریہ چوک سے فائیو اسٹار چورنگی تک جو جائے گا، وہ موبائل فون اور نقدی سے ہاتھ دھوسکتا ہے۔ گلشن اقبال سے حسن اسکوائر تک لوگ ذرا بچ کے رہیں، کیوں کے اس رستے میں لوٹ مار کرنے والے گروہ گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ پی سی ایس ایچ، طارق روڈ اور خالد بن ولیدروڈ اسٹریٹس کرمنلز کے لیے جنّت سے کم نہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے سفاری پارک تک کا راستہ بھی ان رہزنوں کے رحم و کرم پر ہے، جیل چورنگی سے بہادر آباد اور طاق روڈ شاپنگ کے لیے جانے والوں کو بھی یہ سودا مہنگا پڑسکتا ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ دو دریا تک جانے والے راستے پر بھی کراچی کے باسی محفوظ نہیں۔ سی پی ایل سی کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2016 میں موبائل فونز چھیننے اور موٹر سائیکل کی چوری میں اضافہ ہوا۔ یہ سب کچھ شہر کراچی میں ہر روز پولیس کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ عوامی شکایت پر کارروائی کے بجائے لوگوں سے رشوت وصول کرتے محمکہ پولیس کے اہل کار جرائم پیشہ افراد کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں اسٹریٹ کرائم کی شرح بڑیتیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ حکم رانوں کو کراچی کے پوش علاقوں میں ہوتے جرائم تو نظر آتے ہیں، لیکن غریبوں کی آبادیوں میں کھلے عام کھومتے اور کاروائیاں کرتے کرمنلز دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں کی کوئی سڑک ان لٹیروں سے محفوظ نہیں۔ ایک ایسا ہی واقعہ کورنگی زمان ٹاؤن مین روڈ کا میرے علم میں ہے، جس کو ہوتے دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ڈکیتی کرتے چار نوجوانوں نے ایک گاڑی، جس میں فیملی سوار تھی، روکی۔ گاڑی کے دونوں اطراف کھڑے ان ڈاکو نے بلا خوف خطر اسلحہ نکال رکھا تھا وہ زبردستی اس فیملی کو گاڑی سے باہر آنے پر مجبور کررہے تھے، لیکن گاڑی چلانے والے شخص نے ان لٹیروں کی ایک نہ سنی اور تیز رفتار گاڑی ان میں سے دو ڈاکوؤں پر دے ماری۔ اس کشمکش میں رہزنوں کے ساتھیوں نے اس فیملی پر فائرنگ کر دی۔ خدا جس کو محفوظ رکھے، اس کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ گاڑی والا شخص بڑی تیزی سے ان کے چنگل سے دور نکل گیا زخمی ڈاکو کو عوام نے زدوکوب کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔ اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے تھے۔ یہ زمان ٹاؤن کورنگی کی وہ سڑک ہے، جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی شہری ضرور اپنے موبائل اور رقم سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
مضافاتی آبادیوں میں اسٹریٹ کرائمز دن بدن بڑھتے جا ر ہے ہیں۔ اسٹریٹ کرائم میں گزشتہ تین سے چار ہفتوں سے زیادہ تیزی آئی ہے۔ میں کافی دیر وہاں لوگوں کے درمیان موجود رہا، جہاں مجھے عوام کی رائے سُننے کو ملی۔ ایک شخص نے کہا کہ ڈکیتی کی وارداتوں میں کافی کمی آچکی تھی ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے تھے، کراچی کا امن دوبارہ خراب ہوتا جارہا ہے۔ ایک دوسرے شخص نے بڑے جذباتی انداز میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: جب سے راحیل شریف ریٹائرڈ ہوئے ہیں، سارے ڈاکو دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں۔ سابق ڈی جی رینجرز بلال اکبر کے کارکردگی بے مثال تھی، نہ جانے انہیں کیوں ہٹایا گیا؟ ہمارے شہر کا وہ رکھوالا تھا۔ یہاں کسی بھی اچھے انسان کو جو عوام کے لیے کام کرے، رہنے نہیں دیتے۔ جنرل صاحب کے جانے کے بعد بھاگے ہوئے چور لٹیرے یہاں تک کہ کرپشن میں ملوث سیاست دان سب کے سب تازہ دم ہوکر غیر ممالک سے واپس آرہے ہیں۔ لوگ بڑے غصے میں تھے، میں ان کی باتیں سن رہا تھا، ان کا ہر جملہ صاف بتا رہا تھا کہ ان کا اشارہسابق آرمی چیف کی طرف ہے۔ میں نے ہمت کرکے ان سے بات کی اور ان لوگوں کویہ بتانے کی کوشش کی کہ شخصیت نہیں، ادارے ہمیشہ رہتے ہیں کہ ادارے مضبوط ہوں تو ملک مضبوط ہوتا ہے۔ افسران تو آتے جاتے رہتے ہیں، ہر شخص اپنے فرائض انجام دے کر چلا جاتا ہے، ہمیں پاکستان میں اداروں کی مضبوطی کی بات کرنی چاہیے، ادارے ہی کی وجہ سے انسان کو کارکردگی دکھانے کا مواقع ملتا ہے، ہم سب کو مل کر ہی اس لاقانیت کا مقابلہ کرنا ہو گا، ایک دن ایسا ضرور آئے گا، جب ہمارا پیارا پاکستان ایک مضبوط ملک ہوگا، لیکن وہاں لوگوں کا غصہ اتنا زیادہ تھا کہ میری کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی، وہ بضد تھے، ان کی تکرار تھی کہ اگر ادارے مضبوط ہوتے ہیں تو پھر کچھ افسران کی تبدیلی سے امن و امان کی صورت حال کیون خراب ہوئی، وہ مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ جرائم پیشہ افراد اور کرپٹ سیاست دان پہلے کیوں نہیں آئے؟ ادارہ تو پہلے بھی تھا، افسران بدلے تو سب کچھ بدل گیا، بات صاف ہے، غلط لوگ پہلے کیوں ڈرتے تھے، اب کیوں دندناتے پھر رہے ہیں؟ ایک شخص نے میرا کندھا دباتے ہوئے غصّے سے کہا: بھائی افسر سخت ہوتا ہے، ادارے نہیں، کسی ادارے نے کارکردگیِ دکھائی ہوتی تو ہی یہ حالات دوبارہ نہ ہوتے۔ پہلے تو سارے کرمنلز بلوں میں گھس گئے تھے، غیر ممالک نکل گئے تھے، اب آزاد گھوم رہے ہیں، غریبوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ خدارا، ہماری مدد کرو اور ان قاتلوں سے ہمیں بچاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ شہر میں پھر سے خانہ جنگی شروع ہو جائے، بڑی مشکل سے قانون یہاں نظر آنا شروع ہوا تھا، ڈر ہے کہ کہیں نرمی برتنے سے کراچی میں وہی عذاب نہ آجائے جس سے ہر شہری واقف ہے۔
ہم جتنے لوگ یہاں کھڑے ہیں سب کی یہی رائے ہے کہ سابق ڈی جی ایک ایک اور شہری نے کہا: رینجرز بلال اکبر صاحب کے جانے کے بعد شہر میں دوبارہ لاقانونیت کا راج ہے۔ میں ان لوگوں کی باتیں سُننے کے بعدوہاں سے چلا آیا۔
لانڈھی میں بھی ایک جوشیلے طالب علم نے اسی طرح کی بہادری دکھائی، جیسا کہ زمان ٹاؤن کا ایک شہری دکھا چکا ہے۔ عنایت الرحمٰن، جو ہمدرد یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے، گذشتہ دنوں دو نامعلوم رہزنوں نے اس سے موبائل اور نقدی چھیننے کی کوشش کی تو اس نے نہایت دلیری سے ان کا مقابلہ کرتے ہوئے ان سے پستول چھین لیا اور جب ان کی پٹائی لگائی تو دونوں کرمنلز بھاگ لیے۔ بعد ازاں، عنایت نے ہمیں بتایا کہ میں گھر سے ہمیشہ یہ سوچ کر نکلتا ہوں کہ اگر میرے ساتھ اس طرح کا واقعہ رونما ہو تو میں بُزدلی دکھانے کے بجائے مزاحمت کروں، باقی جان تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی کسی کی جان نہیں لے سکتا، جب تک اللہ نہ چاہے۔
قارئین: لوگوں کے ذہنوں میں کسی ادارے اور افسران کے بارے میں مایوس کن سوالات کا جنم لینا انتہائی خطرناک ہے۔ سب سے پہلے سوچنے کی یہ بات کہ آخر کیوں غریب لوگ اس قسم کی باتیں سوچنے پر مجبور ہیں؟ میرے نزدیک اس کی وجہ لاقانونیت ہے، بقول ایک عام آدمی کے جو دوبارہ اس شہر میں بڑھنے لگی ہے۔ لوگ ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں اور شہر میں پھر سے قتل کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ شاید پہلے کے مقابلے میں کراچی آپریشن میں کچھ نرمی آئی ہے یا کرمنلز کی گرفتاریوں اور انہیں سزا دینے کے عمل میں اتنی تیزی نہیں جتنی ہونی چاہئیں۔ عوامی بے چینی اور ان کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے کراچی آپریشن پر کام کرنے والے سول و عسکری اداروں کو ایسی پالیساں بنانی ہوں گی، جن سے عوام کا اعتماد نیک نامی کمانے والے اداروں پر دوبارہ بحال ہو سکے۔ لوگوں کونتائج دے کر ہی مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ اداروں کی توقیر افسران بالا کی ذمے داری ہوتی ہے۔ کارکردگی سے ہی اٹھنے والے سوالات کا جواب دیا جاسکتا ہے، خاص طور پر محمکہ پولیس کے اعلیٰ افسران کو یہ بات سوچنی ہوگی کہ کیوں شہریوں کا اعتماد پولیس سے ختم ہوتا جارہا ہے، عوام پولیس پر اعتماد کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ اعلیٰ افسران کو بھی نچلے درجے تک اپنے ادارے کے ملازمین پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔ عوامی رائے کے مطابق زیادہ خرابی پولیس کے ان اہل کاروں کی وجہ سے بڑھی ہے، جو شہر کے ہر چوک پر بے گناہوں سے بھتہ وصول کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اگر موبائل پر ڈیوٹی دینے والے اہل کار شہریوں کو لوٹنے کے بجائے اپنے فرائض ایمان داری سے ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ شہر کراچی امن کا گہوارہ نہ بن سکے۔ ایسے اقدامات اُٹھانے ہوں گے، جن سے نفرتوں میں کمی ہوسکے۔ پولیس اور عوام کو قریب لانے کے لیے ایسے پروگرام بنانے ہوں گے، جن سے دوریاں ختم ہوں۔ جب تک ادارے اور عوام ایک نہیں ہوں گے، پائیدار امن کا حصول ممکن نہیں۔ اخبارات میں خبروں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کرنے ہوں گے، لوگوں کو خطرناک علاقوں کی نشان دہی کے بجائے اسٹریٹ کرائم سے متاثرہ علاقوں میں پولیس کی نفری کو بڑھانا ہوگا۔ زمان ٹاؤن میں ہوئے واقعے میں زخمی ڈاکو کی گرفتاری کے بعد اب تک اس کی نشان دہی پر کتنے مزید جرائم پیشہ افراد یا ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے کوئی کارروائی ہوئی؟ ایسے مزیداور سوالات کا جواب محکمہ پولیس اور عسکری اداروں کو ڈھونڈنا ہوگا!!
nn