(ڈائلسز کی بیماری شاہدہ (محمد شریف

795

بزرگوں کا کہنا ہے کہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘۔ آج یہ مقولہ دنیا بھر میں شدومد کے ساتھ تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیماریاں انسان پر بڑھ بڑھ کر حملے کررہی ہیں، جس کی وجہ سے صحت کا خیال رکھنا ناگزیر ہوگیا ہے۔آج ہم گردوں کی حفاظت کے حوالے سے بات کریں گے، کیوں کہ گردوں کی بیماری انتہائی خطرناک پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔ اس مرض کے پھیلاؤ میں روزمرّہ کی عام مصروفیات اور غذائیں بھی اہم وجہ بن رہی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی کُل آبادی کا دسواں حصہ گردوں کے خطرناک مرض میں مبتلا ہے اور ہر سال مختلف بیماریوں میں جو لوگ مر جاتے ہیں، ان میں گردوں کے مرض میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی شرح ستائیسویں نمبر پر پہنچ گئی ہے۔ ہر سال بمشکل بیس لاکھ کے قریب کڈنی کے مریضوں کا ڈائیلسز ہوپاتا ہے اور باقی ماندہ اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ پاکستان میں بھی گردوں کے علاج کی جدید سہولتیں موجود ہیں، لیکن جس شرح سے یہ مرض بڑھ رہا ہے، اُس کے مقابلے میں یہاں سہولتیں ناکافی ہیں۔
آج ہمارے ہاں گردوں کے بڑھتے ہوئے مسائل ان احتیاطی تدابیر کو جاننے، سمجھنے اور اپنانے کی اہمیت کو بڑھا رہے ہیں جو کہ ہمیں ہر ممکن حد تک محفوظ اور صحت مند رکھ سکیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ گردے ہمارے جسم میں موجود زائد پانی اور فاسد مادوں کے اخراج کا نظام ہیں۔ خون کی صفائی، خون کا دباؤ، خون میں موجود سرخ خلیات اور ہڈیوں کی مضبوطی کا انحصار گردوں کی بہترین حالت پر ہے۔
پاکستان کی آبادی کا 65 فی صد حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے اور ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ صحت کی بنیادی سہولتوں کا دیہات میں تو چھوڑیں، شہروں میں بھی بڑا بُرا حال ہے۔ گردے فیل ہونے کے کیسز سالانہ ایک بڑا اضافہ دکھا رہے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے پاس پورے ملک کے حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار تک نہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے ہاں ہرسال 10 لاکھ میں سے 100 افراد کے گردے فیل ہورہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد کو تو پتا تک نہیں چلتا کہ انہیں گردوں کے مسائل کا سامنا ہے۔ اور جب تک اندازہ ہوتا ہے، پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوتا ہے۔
ایسی صورتِ حال میں اُن حقائق کو جان لینا بہتر ہے جو کہ گردوں کے مسائل پہلے تو پیدا اور پھر بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ گردے بہت سی وجوہ سے متاثر ہوسکتے ہیں، جن میں قوتِ مدافعت کے نظام کا غیر فعال ہونا، مختلف قسم کے انفیکشن اور بلڈ شوگر وغیرہ، اور اگر بروقت تشخیص ہو بھی جائے تو فوری علاج، غذائی اور رہن سہن میں تبدیلی بہت کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔
ہیومیوپیتھی کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گردوں کی خرابی کا علاج ایلوپیتھک (Allopathic) ادویہ میں ممکن نہیں، گردوں کی صفائی یا ڈائیلسز کے ذریعے انسانوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ان کی زندگی محض ان مشینوں کی مرہونِ منت ہوجاتی ہے۔ طبی ماہرین کی کئی سالوں پر محیط تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ انسانی جسم میں پائی جانے والی ایسی دیرینہ اور خاموش بیماریاں جو سست رفتاری سے، لیکن مسلسل بڑھ رہی ہوں، گردوں کو خراب کردیتی ہیں۔ ایسی صورت حال کو Kidny Failre یا گردوں کی ناکامی کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب گردے خون سے اضافی مائع، مادوں، معدنیات اور فالتو اجزا کو علیحدہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ اس خطرناک بیماری میں مبتلا افراد کے لیے ڈائیلسز یا گردوں کی صفائی ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ یہ طریقہ علاج ایلوپیتھی میں بہت عام ہوچکا ہے۔ یہ مشینیں دراصل گردوں کی صفائی کا کام کرتی ہیں، یعنی خون کو خاص نظام کے ذریعے صاف کرتے رہنا، اس میں سے اضافی مائع مادوں، معدنیات اور فالتو مادوں کو الگ کرنا اور باقی ماندہ صحت مند خون کو دوبارہ جسم میں بھیجنا وغیرہ۔
جن مریضوں کے گردے خرابی کی وجہ سے اپنا معمول کا کام انجام نہیں دے سکتے، ان کے خون کو فلٹر کرنے کے لیے ایسی مشینیں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ عمل نہ صرف نہایت مشکل اور پیچیدہ بلکہ خطرناک بھی ہوتا ہے۔ اس میں مشین کو مریض کے دورانِ خون کے نظام سے جوڑا جاتا ہے اور پھر یہ خون مشین سے ہوتا ہوا مسلسل مریض کے جسم میں گردش کرتا رہتا ہے۔ یوں مریض کے خون کی بتدریج صفائی کی جاتی ہے۔ جب یہ طریقہ علاج بھی کارآمد ثابت نہ ہو تو ایلوپیتھک ڈاکٹر مریض کو گردوں کی ٹرانس پلانٹیشن یا پیوندکاری کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ علاج پُرخطر بھی ہوتا ہے اور مہنگا ترین بھی، جس کے اخراجات ہر مریض برداشت نہیں کرسکتا۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ گردوں کے ٹرانس پلانٹ کے بعد مریضوں میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشارِ خون کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔ پھر ٹرانس پلانٹ کی کوئی گارنٹی بھی نہیں ہوتی کہ اس کے بعد گردہ چلے گا بھی کہ نہیں چلے گا؟ اور اگر کارآمد رہا بھی تو کتنے عرصے تک؟ مریض تو اپنی بے کار زندگی گزار رہا ہوتا ہے، مگر جو صحت مند انسان اپنا گردہ دیتا ہے وہ پھر بھاری اور زیادہ مشقت والے کام نہیں کرسکتا۔ یعنی گھر کا ایک فرد تو اذیت ناک زندگی گزار رہا تھا، اب دوسرا فرد بھی احتیاط کی زندگی پر آجاتا ہے، اور گردہ بھی زیادہ تر جوان انسان کا لیا جاتا ہے۔
آخر یہ کیسا علاج ہے؟ پھر ہر دوسرے تیسرے مہینے میں خون بھی چڑھانا پڑتا ہے ورنہ خون کی کمی کی وجہ سے سانس پھولا رہتا ہے اور کھانسی بھی الگ تنگ کرتی ہے۔ اب خون بھی گھر کے افراد کہاں تک دیں گے؟ لوگوں سے مدد لینی پڑتی ہے مگر کب تک؟
اس مرض میں مبتلا مریض اپنی زندگی سے بے زار نظر آتے ہیں۔ کچھ مریضوں کو اُن کے گھر والے ڈائیلسز کے لیے اسپتال چھوڑ جاتے ہیں اور اس عمل کے مکمل ہونے پر لے جاتے ہیں، اس دوران اکثر مریضوں کا بلڈ پریشر یا تو بالکل گر جاتا ہے یا ہائی ہوجاتا ہے۔ اس دوران دل کا دورہ بھی پڑسکتا ہے اور اکثر مریض ڈائیلسز جیسے خطرناک عمل کے دوران اپنی زندگی کی بازی تک ہار جاتے ہیں۔ اس دوران اسپتال کا عملہ اُن کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ SIUT (Surgical Institute Transplantation Urology) کا ادارہ گردوں، مثانہ وغیرہ جیسے مرض پر بہت کام کررہا ہے، مگر ڈائیلسز علاج کا حل نہیں۔ اس بیماری میں اذیت کے سوا کچھ نہیں، آخرکار انجام تو موت ہی ہوتا ہے، فرق اتنا ہے کہ انسان ایک دم کے بجائے آہستہ آہستہ موت کی جانب بڑھتا ہے، مگر بھوک اور پیاس کے ساتھ۔ میری حکومت، تمام ڈاکٹر حضرات اور ایسے اداروں سے گزارش ہے جو گردوں کے لیے کام کررہے ہیں کہ اب تو کینسر اور ٹی بی جیسی جان لیوا بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہوگیا ہے، جو اذیت ناک بھی نہیں ہے، صرف ادویہ کا استعمال ہی انسان کو زندگی کی طرف لے آتا ہے۔ اسی طرح طبی ماہرین تحقیق کے بعد گردوں کا علاج بھی ادویہ سے ممکن بنا سکتے ہیں۔ اس طرح کہ دونوں گردے صحیح ہوجائیں یا صرف ایک گردہ ہی اپنا کام کرنے لگے اور مریض اپنے روزمرہ کے معمولات انجام دینے کے ساتھ اللہ پاک کی نعمتوں سے بھی استفادہ کرسکنے کے قابل ہوجائیں۔
بہت سارے مریضوں نے مجھ سے درخواست کی ہے اور اُن کی خواہش کو میں نے ان الفاظ میں بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ خدارا، اُن کی
مشکلات کو سمجھیں اور جتنا اُن کے مرض میں بہتری کے لیے طبی ماہرین کرسکتے ہیں، کریں۔ گردوں کی صفائی کے دوران بھی انہیں کوئی ایسی سہولت فراہم کردیں کہ انہیں کوئی ڈونر ساتھ نہ لانا پڑے۔ کیوں کہ یہ بیماری جس طرح انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے اسی طرح مالی طور پر بھی گھر والوں کو توڑ دیتی ہے، اور یہ مشکل اُس وقت حد سے بڑھ جاتی ہے جب گھر کا سربراہ یا کمانے والا اس بیماری کے شکنجے میں پھنس جائے۔ پھر اس خاندان کا مکمل طور پر دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ اکثر مریض ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کوئی مشکلوں کا حل بتائے، کوئی ہمیں اس مشکل سے نکال دے۔ تو خدارا، مصیبت میں ان مریضوں کی دل جوئی کریں، ان کی تسلی و تشفی کریں، اللہ پاک سے بھی ان کی صحت یابی کی دعائیں کریں۔ اللہ پاک ہمارے سارے مریضوں کو شفاء عطا فرمائے اور ہم سب کو موذی بیماریوں سے محفوظ رکھے، آمین!!
nn

حصہ