(سدا بچیوں کے گھر آباد رہیں(افروز عنایت

433

زینب نے آج بہت عرصے بعد ڈرتے ڈرتے بیٹی سے سوال کیا ’’ارم بیٹا۔۔۔ تم خوش تو ہو ناں؟‘‘
ارم نے حیرانی سے ماں کی طرف دیکھا اور سوچا کہ اتنے عرصے بعد انہوں نے یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھا ہے؟
زینب: ’’بیٹا تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔‘‘
ارم: ’’آج سے اگر چار پانچ سال پہلے آپ مجھ سے یہ سوال کرتیں تو میرے لیے جواب دینا بہت مشکل ہوتا۔۔۔ یا شاید میں آپ سے جھوٹ بولتی۔‘‘
زینب: ’’اور اب؟‘‘
ارم: ’’سچ بتاؤں اماں، جب میں رخصت ہوکر سسرال پہنچی تو ان کا ماحول، ان کے طور طریقے، گھر، کچھ بھی تو میری سوچ اور میرے میکے جیسا نہ تھا۔ اکھڑے اکھڑے لوگ، لہجوں میں سرد مہری۔۔۔ اور شوہر۔۔۔ وہ اپنی دنیا میں مست رہنے والا بندہ۔۔۔ میں کوئی اونچے خواب دیکھنے والی لڑکی نہ تھی لیکن کچھ خواہشات اور امنگیں ضرور تھیں۔ پھر۔۔۔ پھر میں نے ہر چیز سے سمجھوتا کرلیا۔ آپ ہی نے تو ایک مرتبہ کہا تھا کہ شادی دراصل سمجھوتے کا دوسرا نام ہے۔ آپ کی دی ہوئی تعلیم و تربیت نے میری بڑی رہنمائی کی۔ ویسے بھی میں آپ کو کوئی دکھ دینا نہیں چاہتی تھی۔ اکثر آپ کو اپنی آنکھوں میں خوشی تلاش کرتے دیکھا تھا، اس لیے آپ کی عزت، آپ کی خوشی کے لیے میں نے سمجھوتا کرلیا۔‘‘
زینت: ’’تو کیا صرف سمجھوتے کی وجہ سے تم اپنے آپ کو خوش محسوس کررہی ہو، یا۔۔۔؟‘‘
ارم: ’’نہیں اماں۔۔۔ کچھ آپ کی تعلیم و تربیت تھی اور کچھ اپنے آس پاس دیکھا تو محسوس ہوا کہ میں تو بہت سے لوگوں سے بہتر بلکہ خوش نصیب ہوں۔ یاد ہے آپ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم سنایا تھا کہ اگر تم کو اپنے زوج سے کوئی شکایت ہو یا وہ پسند نہ آئے تو اس کی کوئی اچھائی تلاش کرو، پھر اس اچھائی کی وجہ سے اس کی خامیوں کو درگزر کرو۔ میں نے بھی زہیب کی شخصیت میں سے اچھائیاں تلاش کرنی شروع کیں، گرچہ مجھے اس میں بہت وقت لگا لیکن ناکامی نہیں ہوئی۔
اماں آپ کو معلوم ہے آفس میں ہم سب 19-18-17 گریڈ کی آفیسرز ہیں، سب خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش شکل ہیں، صاحبِِ حیثیت گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب میں نے ان کی زندگیوں میں جھانکا تو اپنے آپ کو ان سب سے بہتر پایا۔ ویسے بھی اوپر والوں کو دیکھنے سے تکلیف ہوتی ہے اور نیچے والوں کو دیکھ کر شکر کا احساس ہوتا ہے کہ ہم بہت سوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ ریحانہ کو تو جانتی ہیں، میں اکثر اُس کا ذکر آپ سے کرتی ہوں، اس خاتون میں کیا کمی ہے؟ لیکن اس کا شوہر باہر کی خواتین کے پیچھے خوار رہتا ہے، اس کی عیاش طبیعت سے اس کی بیوی واقف ہے لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی، کچھ کہنا سمجھو اپنا گھر برباد کرنا ہے، اس لیے بچوں کی وجہ سے صبر شکر کرکے گزارہ کررہی ہے۔ یہی حال ثمینہ کا ہے۔ ثمینہ کا شوہر ذہنی مریض ہے بلکہ نفسیاتی مریض۔ بیٹی کی وجہ سے وہ اس گھر میں رہ رہی ہے جبکہ اس کے شوہر کا تعلق بس اس کے ’’نام‘‘ سے ہی وابستہ ہے۔ وہ شوہر کو چھوڑ کر ماں باپ کے گھر اس لیے نہیں جا رہی ہے کہ بیٹی کے ساتھ باپ کا نام تو جڑا ہوا ہے، اسے دادا دادی، پھوپھی اور چاچا کا پیار تو میسر ہے۔ پھر بھابھیوں کے دل میں اس کے لیے ایک احترام اور عزت ہے۔ وقت پر جاتی ہے تو عزت دیتی ہیں۔ ثمینہ کا کہنا ہے کہ میں ان پر مسلط ہونا نہیں چاہتی، خود کو اور اپنی بیٹی کو معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل کررہی ہوں۔
اور شاہدہ۔۔۔ اس بیچاری کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے۔ میاں بینک سے تنخواہ نکلوا کر اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، اس کی اور بچوں کی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں بس۔
اماں اور کس کس کا حال بتاؤں! سچ پوچھیں ان سب کے حالات معلوم ہوئے تو مجھے ایک قسم کی ڈھارس ہوئی کہ خدا کا شکر ہے ان میں سے کسی جیسے میرے حالات نہیں ہیں۔ زہیب اپنے بزنس کی وجہ سے اگرچہ مجھے زیادہ وقت نہیں دے پاتے لیکن وہ ایک شریف النفس شخص ہیں جو اپنے کام سے کام رکھنے والے ہیں۔
اپنے بچوں کی وجہ سے میرا بہت خیال رکھتے ہیں کہ ماں صحت مند ہوگی تو بچوں کا اچھی طرح خیال رکھے گی، دیکھ بھال کرسکے گی۔‘‘
زینب: ’’بیٹا یہ تو بہت اچھی خوبی ہے۔‘‘
ارم: ’’وہی تو آپ کو بتا رہی ہوں، میں نے زہیب کو جانچا پرکھا اور ان خوبیوں کو تلاش کیا ہے، اور یہ خوبیاں ایسی ہیں کہ میں آس پاس کی خامیوں اور کوتاہیوں کو درگزر کرسکتی ہوں۔ اماں مجھے آپ کی یہ بات بھی آج تک ازبر ہے کہ اللہ جو خوشیاں دے رہا ہے ان سے لطف اندوز ہو، دوسری تکلیفوں کی وجہ سے آئی ہوئی یہ خوشیاں کیوں ضائع کی جائیں۔ لہٰذا اماں اب مجھے جینا آگیا ہے، مجھے جو ملا ہے اس سے لطف اندوز ہورہی ہوں اور خوش ہوں، بجائے اس کے کہ جو نہ ملا اس کی وجہ سے روکر خود کو ملی ہوئی خوشیوں کو بھی ضائع کردوں۔‘‘
زینب نے بڑے فخر سے بیٹی کی طرف دیکھا، اس کی پیشانی پر پوسہ دیا اور بولی: ’’میری بیٹی تو بڑی بڑی باتیں کرنا سیکھ گئی ہے، اپنے قد سے بھی بڑی، عمر سے بھی بڑی۔ لگتا ہے کہ تم بھی بیٹی کی ماں ہو اور یقیناًاس کی تربیت بھی ایسی کرو گی۔‘‘
ارم: (ہنستے ہوئے) ’’اماں یاد ہے آپ کو، میں شادی سے پہلے کتنا گھومنے پھرنے کی شوقین تھی، لیکن زوہیب ایک تو مصروفیت کی وجہ سے، دوسرے انہیں گھومنے پھرنے کا شوق نہیں۔ ایک مرتبہ میں نے ان کی یہ بات آپ سے مذاق مذاق میں کہی تھی اور آپ نے بھی مذاق میں مجھے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کو یا حضرت علیؓ اپنی زوجہ حضرت فاطمہؓ کو کتنی مرتبہ سیرو تفریح کے لیے لے کر گئے تھے۔ اماں واقعی، میں نے گھر جا کر سوچا آج کی عورت۔۔۔ اسے سب کچھ حاصل ہے پھر بھی وہ خوش نہیں رہتی، اور یہ پاک ہستیاں۔۔۔ ان کی زندگی سے ہم اپنی زندگیوں کا موازنہ کریں تو آج ہمیں ہر سُکھ حاصل ہے، زندگی کتنی پُرآسائش ہے۔۔۔ ہیں ناں اماں۔۔۔‘‘
زینب: ’’ہاں میری جان، تم سچ کہہ رہی ہو۔‘‘
***
یہ حقیقت ہے کہ ماں باپ اپنی بیٹیوں کو گڑیوں کی طرح لاڈ پیار سے پالتے ہیں اور امیر ہوں یا غریب ماں باپ کی دیرینہ آرزو ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں شادی کے بعد خوش و خرم زندگی گزاریں۔ خود لڑکیاں بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں تو آنے والے وقت کے لیے حسین خواب بُنتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ تمام بیٹیوں کو اُن کے حسین خوابوں کی تعبیر ملے۔ 50 فیصد لڑکیوں کو شادی کے بعد کچھ نہ کچھ مسائل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے، کہیں زیادہ کہیں کم۔ یہ وقت دیکھا جائے تو بچیوں کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے۔ چھوٹے موٹے مسائل تو درگزر کیے جا سکتے ہیں، والدین کی نصیحتوں اور تعلیم و تربیت کے ذریعے بچیاں خود بھی معاملات سنبھال لیتی ہیں، لیکن جہاں گمبھیر مسائل ہوں وہاں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ ویسے بڑے کہتے ہیں کہ شادی دراصل سمجھوتے کی وجہ سے ہی کامیاب ہوتی ہے۔ دو الگ الگ شخصیتیں، الگ الگ خاندان، مختلف طبیعتوں کے مالک، الگ الگ پسند اور خواہشیں۔۔۔ ظاہر ہے ایسے موقعوں پر سمجھوتا ہی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ سمجھوتا کرتی ہے اور اسے ہی اپنی شخصیت میں لچک پیدا کرنی پڑتی ہے۔ اسے اس نئے ماحول میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اپنی پسند اور اپنی خواہشات کا اکثر گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔ لیکن جہاں مسائل گمبھیر ہوں، سمجھوتا کرنا ناممکن ہو تو رب العزت نے طلاق کی اجازت دی ہے جو کہ رب العزت کے نزدیک جائز لیکن ناپسندیدہ عمل ہے۔ کیونکہ طلاق کے بعد کے مسائل ’’گمبھیر‘‘ نوعیت کے ہیں، اس لیے والدین اور بچیاں خود بھی یہی چاہتی ہیں کہ گھر نہ ٹوٹیں۔ لیکن کچھ جگہ مجھے یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ معمولی نوعیت کے لڑائی جھگڑوں یا مسائل کی وجہ سے بات طلاق تک پہنچ گئی۔
چند ماہ پہلے دو بہنوں کی شادیاں ہوئیں۔ دولہے بھی آپس میں بھائی تھے۔ تین مہینوں کے اندر ہی صرف معمولی نوعیت کے جھگڑے پر لڑکیوں کے والدین کو طیش آگیا اور دونوں بہنوں نے خلع لے لیا۔ لڑکے والوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ طلاق نہ ہو۔۔۔ محلے والوں، رشتہ داروں نے صلح کے لیے ہاتھ پاؤں مارے، لیکن بے سود۔ اسی طرح ایک لڑکی نے بیٹی کی پیدائش کے بعد صرف اس بات کو ’’ایشو‘‘ بنایا کہ میرا شوہر مجھے جیب خرچ نہیں دیتا۔ جج کو جب خلع کی وجہ معلوم ہوئی تو بہت حیران ہوا۔ لڑکے سے کہا کہ اسے ماہانہ خرچہ دے۔ لیکن لڑکی بضد کہ اس کی آمدنی کم ہے، یہ میری ضرورتیں پوری نہیں کرپائے گا۔ آخر وہ خلع لینے میں کامیاب ہوگئی۔ ایک جگہ لڑکی کے گھر والے صرف اس لیے طلاق کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے کہ ہماری بیٹی کو آزادی حاصل نہیں۔ جبکہ لڑکا خوبرو، اچھی ملازمت والا اور بیوی بچوں کا خیال رکھنے والا تھا۔ والدین کو سب نے سمجھایا کہ یہ ’’ایشو‘‘ ایسا نہیں کہ آپ بیٹی کو جو تین بچوں کی ماں بھی ہے، طلاق دلوا کر گھر بٹھا رہے ہیں، ویسے بھی بے جا آزادی اور خودسری تو ہمارے معاشرے میں پسند نہیں کی جاتی، یہ چیزیں تو شادی سے پہلے ہی واضح کرنی چاہئیں۔
مجھے سب سے زیادہ افسوس اپنے پڑوس میں رہنے والی لڑکی پر ہوا جس نے صرف اس لیے شوہر سے طلاق لی کہ اس کا شوہر خوبصورت نہیں ہے، جبکہ اس بندے نے دنیا جہاں کی چیزیں اور آسائشیں لڑکی کے مطالبے پر مہیا کی تھیں، آس پڑوس اس پر رشک کرتے کہ اسے اتنی محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا شوہر نصیب ہوا ہے۔ اس اللہ کی بندی کو اپنی چھ ماہ کی بچی پر بھی ترس نہ آیا۔ اُسے بھی وہ شوہر کے پاس چھوڑنے کے لیے راضی تھی۔ اس بدنصیب لڑکی نے بعد میں ایک خوبرو جوان سے شادی کرکے گھر بسا لیا۔ بچی نانی کے پاس رہنے لگی اور سابق شوہر بددل ہوکر پاکستان سے باہر چلا گیا۔ اس طرح ایک ہنستا بستا گھر تباہ ہوگیا۔
اوپر بیان کیے گئے واقعات میں طلاق کی وجوہات اتنی سنگین نہیں تھیں کہ مسئلے کا حل طلاق ہی ہو۔ اسے موقعوں پر بچیوں کے والدین اور بچیوں کو خود بھی افہام و تفہیم اور بردباری سے کام لینا چاہیے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ طلاق کے بعد لڑکی کو وہ تمام خوشیاں نصیب ہوں جن کی چاہت نے اسے خلع پر مجبور کیا۔ بلکہ اکثر اس کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں جس پر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ویسے بھی زندگی میں انسان کو سب کچھ نہیں ملتا، کئی بار زیادہ پانے کی لالچ میں انسان جو ہاتھ میں ہے اُسے بھی کھو بیٹھتا ہے۔ لہٰذا جو مل جائے اس پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ رب نے ضرور آپ کے لیے بہترین سوچا ہوگا، جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 216 میں میرے رب کا فرمان ہے ’’ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو، اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے‘‘۔
اس لیے اللہ کے دیے ہوئے پر شکر لازمی ہے۔ ہم تکلیف کے جس مقام پر بھی ہوں، ہم سے آگے ضرور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہمیں شکر کی لاٹھی ہاتھ میں تھام لینی چاہیے، اور شکر کی لاٹھی کی بدولت اندھیروں میں بھی راستہ مل جاتا ہے۔ میں نے اپنے آس پاس ایسی بہت سی خواتین کو دیکھا ہے جو ماضی میں تکلیفوں کے باوجود رب کا شکر ادا کرتی رہیں۔ رب نے ان کی اسی ادا پر انہیں اس قدر نوازا ہے کہ وہ خود بھی حیران ہیں کہ کس نیکی پر رب نوازتا جا رہا ہے! بچیوں کی تربیت ان خطوط پر کریں کہ وہ لالچ و ہوس کو چھوڑ کر رب کی رضا میں راضی رہیں۔ اس سلسلے میں ازواج مطہرات، صحابیات اور نیک بیبیوں کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر ان کی تربیت کریں، خوب سے خوب ترکے چکر سے انہیں بچائیں تاکہ ان کی آئندہ زندگی خوشگوار اور پُرسکون گزرے اور ان کی شخصیت دوسروں کے لیے بھی تکلیف کا باعث نہ بنے۔
nn

حصہ