(سیرت وسول ﷺ اور حسن اعتدال(ڈاکٹر سیّد عزیز الرحمن

486

انسانی زندگی، عناصر کے اعتدال کا نام ہے۔ خود نظامِ عالم اسی اعتدال پر قائم ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تمام تکوینی امور میں توازن و اعتدال سے مکمل کار فرما نظرآتی ہے۔ قرآن حکیم نے اپنے خاص اسلوب میں مثالیں دے کر اور انداز بدل بدل کر اس جانب بار بار متوجہ کیا ہے۔ ایک مقام پر تو بہت واضح الفاظ میں فرمایا:
تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمھیں کوئی خلل نظرآتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ۔ تمھاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔ (الملک 4-67: 3)
اسلام یہی حکم عملی زندگی کی تمام تشریعی ہدایات میں بھی عطا فرماتا ہے۔ اسلام اعتدال اور میانہ روی کو زندگی کا حسن قرار دیتا ہے، تاکہ انسانی اعمال اسی اعتدال سے مزین ہو کر معاشرے کی تعمیر اورآخرت کی کام یابی کے موجب بنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حسنِ اعتدال کی وضاحت اپنے احوال اور اپنے افعال سے فرمائی ہے۔
مشہور واقعہ ہے کہ تین حضرات ازواجِ مطہراتؓ کے پاس آئے اورآپؐ کے معمولاتِ عبادت کے بارے میں معلوم کیا۔ جب اس کی تفصیلات ان کے سامنے رکھی گئیں تو انھوں نے اسے کم جانا اور کہا کہ کہاں ہم اور کہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ تعالیٰ نے توآپؐ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ’’میں تو رات بھر نماز میں مصروف رہا کروں گا‘‘۔ دوسرے نے کہا: ’’میں تمام عمر روزے سے رہوں گا، اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا‘‘، اور تیسرا شخص بولا: ’’میں کبھی شادی نہیں کروں گا‘‘۔ یہ سب آپؐ کے علم میںآیا تو آپؐ نے ان تینوں صحابہؓ کے بارے میں فرمایا:
لوگوں کو کیا ہوگیا کہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں، روزے کا ناغہ بھی کرتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔( مسلم، ج2، ص 328، رقم: 1401)
اس واقعے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طریقے اور سنت کی وضاحت بھی فرمائی ہے، اور راہِ اعتدال کی عملی تشریح بھی، اور اس کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں جادۂ اعتدال سے ہٹنے والوں کو تنبیہ بھی فرمائی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس بارے میں اس قدر سختی فرمائی ہے: ’’اپنے افعال اور اقوال میں حد سے تجاوز کرنے والے ہلاک ہوگئے‘‘۔ ( مسلم، ج4، رقم:2670)
انسانی زندگی دو حوالوں سے عبارت ہے: ایک اس کا جسمانی وجود، اور دوسری اس کی روحانی قوت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی راہ نمائی ان دونوں حوالوں سے فرمائی ہے، اور حیات انسانی کے ان دونوں شعبوں میں ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی روحانی تربیت بھی کرسکتا ہے، اور جسمانی و بدنی تنظیم بھی۔ اس تربیت کے لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ایسے آداب تلقین فرمائے گئے ہیں، جو اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، کمانے کھانے اور رہن سہن کے ہر پہلو سے متعلق مکمل احاطہ فرماتے ہیں۔ ان تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ جب انسان مزاج کے اعتبار سے اعتدال پر قائم ہو جاتا ہے، پھر نہ تو وہ رہبانیت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور نہ خالص مادیت اس کی انسانی تگ و دو کا حاصل اور مقصد حیات ٹھیرتی ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم روزِ محشر کفار کی پشیمانی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتا ہے:
کافر بار بار تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے کہ وہ (خوب) کھالیں اور فائدہ اٹھالیں اور خیالی منصوبے ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں۔ بہت جلد ان کو (حقیقت) معلوم ہو جائے گی۔ (الحجر15: 2، 3)
اسلام کی تعلیمات تو اس قدر واضح ہیں کہ اس مسئلے پر دنیا کا کوئی نظام اور مذہب ایسی دوٹوک ہدایات اپنے دامن میں نہیں رکھتا۔ قرآن کریم میں ہے:
اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر اور دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کر، اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ بن۔ یقیناًاللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔ (القصص28: 77)
زندہ رہنے کے لیے کھانے کا اصول
قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرماتا ہے:
اور جو کافر ہیں وہ (دنیا میں کچھ) فائدہ اٹھارہے ہیں اور وہ اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور جہنم ہی ان کا ٹھکانا ہے۔(محمد47: 12)
اسلام نے کھانے پینے میں خاص طور پر احتیاط کی تعلیم دی ہے اور ’خوردن براے زیستن‘ (زندہ رہنے کے لیے کھانا) کا اصول عطا فرمایا ہے۔ کھانا پینا انسانی ضرورت ہے، لیکن ضرورت کو مقصد کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، اور اگر یہ غلطی کر لی جائے تو پھر انسان کا حیوانیت کے درجے سے بلند ہونا ممکن نہیں رہتا: ’’اور ہم تمھیں ضرورآزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے اورآپؐ صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیجیے‘‘۔ (البقرہ2: 155)
اس بنا پر رزق میں کمی، کاروباری نقصان، ملازمت میں ترقی کا نہ ہونا، بیماریاں، اپنے پیاروں کا اٹھ جانا سب کچھ اللہ ہی کی جانب سے ہے، اور محض آزمایش ہے۔ یہ نہ سزا ہے، نہ پکڑ ہے، نہ ہمارے اچھے ہونے کی علامت ہے، نہ برے ہونے کی۔ ہمارے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ تو اس آزمایش کے بعد ہوگا۔ یہ تو دنیا میں آنے والے ہر شخص کے لیے مقدر کردیا گیا ہے۔ اس لیے انعام کے وقت شکر اور کسی مشکل کے وقت صبر ہی انسان کو کام یاب بناتا ہے، اور اخروی زندگی میں سرخ رو کرتا ہے۔ (سیّد عزیز الرحمٰن: قرآن کیا کہتا ہے؟ کراچی، زوار اکیڈمی، 2013ء، ص 32)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے کھانے پینے میں احتیاط کی بھی تعلیم دی ہے اور ’زیستن براے خوردن‘ کے رویے کی بھی ممانعت فرمائی ہے۔ ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا: ’’جو لوگ دنیا میں سب سے زیادہ شکم سیرہیں، روزِ آخرت وہی سب سے زیادہ بھوکے ہوں گے‘‘۔ (بزار)
اس طرح اب یہ بات پوری طرح پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ کثرتِ طعام انسان کے لذت کام و دہن کا بہانہ تو ہے، عملی طور پر چوں کہ یہ غیر فطری ہے، اسی لیے انسانی صحت کے لیے سخت مضر ہے۔ اسی تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیکھیے:
انسان کو تو اتنا کھانا کافی ہے، جو اس کی پشت کو سیدھا رکھ سکے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ کھانا ہی چاہتا ہے تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک حصہ پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے (خالی) رکھے۔(ابن ماجہ، ج4، رقم: 3349)
گویا یہ ایسا برتن ہے، جس کا بھرنا اچھی علامت نہیں۔ اس بات کی وضاحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور واقعے میں تمثیلی انداز میں بھی فرمائی ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک کافر ایک بار رسول اکرمؐ کا مہمان ہوا تو آپؐ نے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا۔ دودھ نکالا گیا تو مہمان اسے پی گیا۔ پھر دوسری بکری لائی گئی اور اس کا بھی دودھ کافر مہمان پی گیا، پھر بھی اسے شکم سیری نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ اکیلے اس کی خوراک بن گیا۔ صبح کو وہ مسلمان ہوگیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دودھ دوہنے کا حکم دیا، چناں چہ ایک بکری کا دودھ تو وہ شخص پی گیا لیکن دوسری بکری کا دودھ ختم نہ کرسکا۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مومن ایک معدے میں نوش کرتا ہے، جب کہ کافر سات معدوں میں پیتا ہے۔ (مسلم، ج3، رقم: 2061)
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابرؓ کی ایک اور روایت میں فرمایا:
اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور طلبِ (رزق) میں اعتدال سے کام لو۔ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ اپنا رزق پورا پورا وصول نہ کرلے، اور اگر کبھی رزق کے حصول میں دیر ہو جائے تو بھی اللہ سے ڈرو۔ کوشش میں اعتدال سے کام لو، جو رزق حلال ہو اسے لے لو اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو۔ (ابن ماجہ، ج3، رقم:6144)
یعنی طلب رزقِ حلال عبادت ہے، مگر ضرورت کی حد تک۔ اگر اسے مقصد حیات بنا لیا جائے، اور زندہ رہنے کا واحد جواز کمانے اور ہر طرح کمانے میں تلاش کیا جائے تو یہ عمل انسان کو جادۂ اعتدال سے ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس لیے اسلام دونوں جانب سے اعتدال کی تلقین کرتا ہے، ایک طرف تو وہ کہتا ہے:
رزق حلال میں لگنا اور اس کی تگ و دو کرنا یہ (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج جیسے) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔( طبرانی، ج10، ص 47)
(جاری ہے)

حصہ