(انسان انسانیت کا قاتل ، آخر کیوں؟(میرال فاطمہ

778

ایک بلی نے بلی کے چھوٹے سے معصوم بچے پر حملہ کردیا اور لمحوں ہی میں اسے زخمی کردیا۔ ابھی اس کے زخموں پر مرہم لگاتے ہوئے میں سوچ رہی ہوں کہ یہ صرف ایک چھوٹی بلی اور بڑی بلی کا قصہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کی کہانی ہے۔ صدیوں سے آدم کی آدم خوری کا کھیل چلتا آرہا ہے۔ اگر ہم آدم کی آدم خوری کے آغاز کی بات کریں تو یہ سلسلہ تو تب ہی شروع ہوگیا تھا جب پہلا ناحق قتل ہوا تھا۔ قابل فکر پہلو یہ ہے کہ آدم خوری کا یہ کھیل بنا کسی رکاوٹ کے جاری و ساری ہے۔ یہ آدم خوری مختلف انداز اور مختلف زاویوں سے ہمارے اپنے اندر آج بھی موجود ہے۔ کہیں اقتدار کی جنگ میں لاشوں پر سیاست ہوتی ہے، تو کہیں زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے لاشوں کے انبار لگا دیے جاتے ہیں۔
وحشت و درندگی تھوڑی اور آگے بڑھتی ہے تو ہاتھوں میں قلم پکڑے معصوم بچوں سے ان کے قلم کے ساتھ ساتھ ان کی سانسیں بھی لے لیتی ہے۔ کبھی برادریوں کی برادریاں خاک و خون میں نہلا دی جاتی ہیں تو کہیں کالے کوٹوں کو خون سے آلودہ کردیا جاتا ہے۔ بات دنیا کی سطح پر کی جائے تو خود کو سپر پاور کہلوانے والے پورے پورے ممالک پر بمباری کرکے انہیں تہس نہس کرکے بھی حقوقِ انسانی کا نعرہ مارتے ہیں۔ اگر بات ہمارے اپنوں پر آئے تو ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر انہیں چیتھڑوں میں بدل دیا جاتا ہے، جسے کچھ بیگانوں نے بھی خوب ہوا دی اور خوب مدد فراہم کی۔ تمام اسلامی ممالک میں تکفیری سروس کو ایسے چلایا گیا کہ آج ہم شام میں ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے کفر کے خلاف جہاد کرلیا۔
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
انسان انسان کو کاٹ رہا ہے۔ ایک بازارِ قتل و غارت سجا ہوا ہے۔ مگر اس میں ہم کہاں کھڑے ہیں، یہ سوچنے والی بات ہے۔ ہم کچھ نہیں کررہے مگر اس کے باوجود ہم بہت کچھ کررہے ہیں۔ یا تو ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں یا مظلوم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر ہم خاموش ہیں تو گویا ظلم و جبر کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے سب ٹھیک ہورہا ہے۔ اگر ہم بول رہے ہیں اگرچہ ہماری آواز کہیں پہنچ نہیں رہی تو گویا ہم سے جو کچھ ہورہا ہے ہم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور کام بھی ہے جسے کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ ہے خود کی اصلاح اور خود احتسابی۔ لازمی نہیں کہ ہم انسان کو ماریں گے تو ہی ظالم کہلوائیں، بصورتِ دیگر ہم تو کہیں بھی ظلم کر ہی نہیں رہے۔ کبھی سوچا کہ ہم بڑی بڑی باتیں تو کر سکتے ہیں لیکن اپنے حصے کی آدھی روٹی بھوک سے بلکتے کسی معصوم بچے کو نہیں دے سکتے ۔ شاید ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ غریب و کمزور پر ہمیشہ حکمرانی ہوتی آئی ہے۔
ایک بات سنی، تو آج وہ دیکھنے کو اکثر ملتی ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔ دعا کے وقت کہا گیا کہ اے اللہ تمام مریضوں کو شفا عطا فرما۔ سب نے آمین کہا مگر ڈاکٹر صاحب خاموش رہے۔ کسی نے پوچھا کہ آپ نے اس پر آمین کیوں نہیں کہا؟ تو وہ بولے: اگر سب ٹھیک ہوگئے تو میں مر جاؤں گا۔ میرا کاروبار تو چلتا ہی لوگوں کے بیمار ہونے سے ہے۔ آج اقتدار میں بیٹھے افراد بھی کسی غریب اور کمزور کی بھوک، پریشانیوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ اگر ان میں شعور آگیا تو یہ ہمارے ہی خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ وہ اس لیے ان کی بھوک نہیں مٹاتے کہ پھر یہ خود سے بے فکر ہوکر دوسرے کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا۔
مگر یاد رکھیں آج کسی کا استیصال ہوا اور آپ وجہ تھے تو آپ نے بھی ظلم کیا۔ ظلم معصوم بچوں پر بمباری ہی نہیں بلکہ کسی غریب اور کمزور کے حقوق دبانا بھی ظلم ہے۔ آج آپ کے ساتھ اپنے آفس، اپنے ادارے یا اپنی وزارت کی کرسی ہے، اقتدار ہے۔ جو چاہیں کرسکتے ہیں، تو خیال رکھیں کہ کہیں جانے یا انجانے میں غلطی سے بھی کسی کا استیصال نہ کریں، ہر کسی کو اس کی محنت مزدوری مکمل اور وقت پر دیں۔ آپ دنیا فتح نہیں کرسکتے نہ کریں، مگر فی الحال یہ عزم کرلیں کہ آج سے آپ کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں کریں گے۔ آج اگر آپ نے یہ کرلیا تو ایک دن آپ سے مل کر بہت سارے اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں، اور پھر یہ ملک پوری دنیا کے مسلمانوں کی امید ہی تو ہے اور اس امید کی پہلی کرن آپ ہی ہوں گے، میں ہوں گی، ہم سب ہوں گے۔ تو عزم کریں کہ آج سے کسی کی پریشانی کا سبب کم از کم ہم نہیں ہوں گے۔ اور صرف اتنا ہی نہیں، کسی اور کو بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

حصہ