ندگی کی رفتار ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز ہوتی جارہی ہے۔ اس بات کا اندازہ دنوں کا ہفتوں، ہفتوں کا مہینوں اور مہینوں کا سالوں کے تیزی سے گزرنے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ باتیں جو بہت دنوں بعد، پھر ہفتوں بعد، پھر گھنٹوں بعد پتا چلتی تھیں اب وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لمحوں بلکہ لائیو پتا چل جاتی ہیں۔ مگر اس سب کے ساتھ ساتھ اسی تیزی سے معاشرے میں بے حسی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ وہ تمام حقائق ہیں جن کو ہم روزمرہ کے مشاہدات میں محسوس کررہے ہیں۔ وقت اور حالات میں جہاں ہماری مصروفیات کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے وہیں ملکی صورت حال بھی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ عوامی رائے، قانون اور بین الاقوامی رائے عامہ بھی بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ قومی و بین الاقوامی صورت حال نے ایک عام انسان کو بہت سی الجھنوں، مایوسیوں، ناامیدیوں اور معاشرتی ناہمواریوں سے دوچار کیا ہے۔ مگر جو کچھ ہوا ہے اس میں سوشل میڈیا ہمارے ساتھ ساتھ رہا ہے۔ معاشرے میں بہت سی تبدیلیوں کا ذمہ دار سوشل میڈیا بھی ہے۔
سوشل میڈیا کا کردار:
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ابلاغِ عامہ میں بھی بہت بڑا انقلاب برپا کیا ہوا ہے۔ نیٹ کی ہر جگہ رسائی سے جہاں معلومات کی فراہمی بڑھی ہے وہیں علم اور تجربے میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہر خبر مصدقہ و غیرمصدقہ، بلاتحقیق بآسانی ہر آدمی اپنی مشہوری کے لیے میڈیا کی زینت بنا دیتا ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر جگہ نہ ملے تو سوشل میڈیا پر کوئی نہیں روک سکتا، اور پھر یہاں سے ایک اور نئی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔ کچھ اس کے حق میں اور کچھ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور نہ جانے بات کہاں سے کہاں تک چلی جاتی ہے۔ ایک دوسرے پر انتہائی سنگین الزامات اور بداخلاقی کا طوفان دیکھنے میں آتا ہے۔
سوشل میڈیا کتاب دشمن:
یہ سوشل میڈیا ہی ہے جس نے کئی سالوں کی ریاضت کے بعد لکھی گئی کتابوں سے نوجوان نسل کو دور کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ وہ نوجوان نسل ہے کہ جس نے قلم، کاپی اور پھر کتاب کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر انٹرنیٹ کو اپنا سب کچھ بنالیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا گویا اب نوجوان نسل کا سب کچھ ہے۔ صبح کی پہلی کرن بھی اسی پر پڑتی ہے اور شام کا ڈھلتا سورج بھی اسی سوشل میڈیا پر دیکھا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا معاشرتی اور سماجی تعلقات کا دشمن:
اس سوشل میڈیا کے استعمال سے ہم خود سے تو گئے ہی، مگر اپنوں کی محبت اور ان کی چاہت سے بھی بہت دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ سات سمندر پار بیٹھے شخص کا معلوم ہوتا ہے مگر ہمیں اپنے کمرے کے پاس والے کمرے کا نہیں معلوم ہوتا کہ ہمارے ساتھ اور بھی بہت سے افراد رہتے ہیں اور وہ کس حال میں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا نے ترقی کی اور چاند کو فتح کرلیا، مگر کیا ترقی اپنوں سے دور کرنے کا نام ہے؟ ہم اپنے اطراف کی خبر گیری چھوڑ دیں؟ شاید اس ترقی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے۔ اپنے آس پاس کے لوگوں تک کو بھول جائیں کہ کہیں ہمارے پڑوس میں کسی کو ہماری ضرورت تو نہیں ہے! پڑوس تو دور کی بات، اب تو ایک گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا پتا نہیں ہوتا۔ والدین گویا بس انتظار کرتے رہ جاتے ہیں کہ شاید ان کی اولاد ان سے پوچھ لے کہ اب وہ کیسے ہیں۔ کچھ ضرورت تو نہیں۔
سوشل میڈیا کے قومی تعلقات پر اثرات اور استعمال:
یہ سوشل میڈیا کیا عجیب چیز ہے! ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے لگاؤ رکھتی ہے۔ اپنا ملک ہے، اس کے لیے سب ہی جان دینے کے لیے تیار ہیں۔ مگر جب بات اپنی پارٹی کی آجائے تو پھر ملک کسی کو یاد نہیں رہتا۔ پھر یہی سوشل میڈیا ہوتا ہے اور ایک آن لائن ورکر ہوتا ہے اور پھر دوسرے ہم وطنوں مگر مخالف پارٹی ورکرز کو خوب کھوٹی کھری سنا رہا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ کون سی پارٹی کس کے ساتھ ہے اور کس کی آلہ کار بنی ہوئی ہے، مگر نجانے وہ کون سی بات ہے کہ کوئی اس بات کو نہیں سوچتا کہ کچھ بھی سہی، ہے تو اپنا ہم وطن ہی۔ بجائے اس کے کہ نوجوان اپنی پارٹی کی کرپشن اور اچھی بری ہر بات کو تسلیم کریں۔۔۔ ملکی سالمیت کی خاطر اور کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اسی سوشل میڈیا کو کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال کریں۔
مسلم دنیا کا احوال اور سوشل میڈیا کا درست استعمال:
اگر ہم بین الاقوامی منظرنامے پر نظر دوڑائیں تو اپنی امت کا ایک اہم ترین حصہ کشمیر ہمارے ہی بغل میں لہو لہو ہے۔ ان دنوں تو مودی سرکار نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ اسی بھارت کے زیر نگرانی بنگلہ دیش کو سیکولرازم کی آگ میں جھونکا جارہا ہے۔ اسلام پسندوں کا حتی المقدور صفایا کیا جارہا ہے۔ ذرا آگے کو چلیں تو برما کے مسلمانوں کے خلاف خونیں و وحشی کھیل جاری ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کا راگ الاپنے والے اب افغانستان سے سفارتی تعلقات کے مختلف راگ الاپ رہے ہیں۔ اردن، فلسطین، مصر، ترکی سب اس وقت استعماری سازشوں کی لپیٹ میں ہیں۔ خود شام کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ روسی طیارے دانستہ طور پر اسکولوں، کالجوں، طبی مراکز ، شہری آبادیوں پر فضائی حملے کررہے ہیں جس سے صاف اور واضح قتل عام کے اشارے مل رہے ہیں۔ حلب میں ایک صحافی کہتے ہیں کہ بشارالاسد کی حکومت ہجرت کرکے ملک سے باہر نکلنے والوں کو یا تو مار رہی ہے یا اذیت رسانی کے لیے گرفتار کررہی ہے۔ اس وقت ایرانی حکومت بھی امریکا اور روس کے جھانسے میں آئی ہوئی ہے۔
غرض دنیا میں بے حسی، انتشار اور خودغرضی بڑھ گئی ہے اور بڑھتی جارہی ہے۔ انسانیت کی تذلیل کا مشاہدہ آئے روز ہم کررہے ہیں۔ انسانیت کی تذلیل ایسی بڑھی کہ اب یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ ایک انسان کی عزت و اکرام کیا ہوتا ہے۔ ایک شاعر اس کی طرف کچھ یوں اشارہ کرتا ہے:
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اسی حضرتِ انسان نے اپنے جیسے انسانوں کو ختم کرنے کے لیے مہلک ترین ہتھیار بناکر بستیوں کی بستیاں تاراج کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ نسلیں ختم کی جارہی ہیں، بستیاں تاراج کی جارہی ہیں، اپنے جیسے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔ اور ہم سوائے افسوس کے کچھ نہیں کرپا رہے۔ یہ سب ہوا اور ہورہا ہے، مگر یہاں پر سوچنا یہ ہے کہ اس ساری صورت حال میں ہم نے کیا کردار ادا کیا؟ بیشتر وہ نوجوان ہیں کہ جنہیں ان تمام صورت حال کا معلوم تک نہیں ہے۔ پھر کچھ ایسے ہیں جن کو معلوم ہے تو انہوں نے اپنی پروفائل کی ڈی پی تبدیل کرکے ایک دو پوسٹ لگا دیں، گویا انہوں نے حق ادا کردیا۔ مگر ایسے بھی بہت سے افراد ہیں جنہوں نے باقاعدہ اپنی آواز کو سوشل میڈیا کے ذریعے بلند کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بحیثیت ایک مسلم قوم ہمیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ ہمارے میڈیا کو بھی اس معاملے پر مک مکا کی پالیسی اپنانے کے بجائے کام کرنا چاہیے، اور اگر کوئی نہیں کرتا تو نہ کرے، کم از کم ہمارے پاس سوشل میڈیا کی طاقت ہے اور اس پر ہم اپنی مؤثر آواز بلند کرسکتے تھے اور کرنی چاہیے۔ اس وقت ہمارے لیے سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے اور اس کا بین الاقوامی سطح پر یہ ایک مثبت استعمال ہوسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم اشرف المخلوقات بناکر بھیجے گئے ہیں۔ یہ اللہ کی وہ تخلیق ہے کہ جسے فرشتوں نے بھی سجدہ کیا، انسان کے بارے میں ہی کہا تھا:
فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو
اس انسان کو سمیٹنے اور آج اس انسان کا دکھ دور کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہر فرد بہت سی تخلیقی صلاحیتیں لے کر اِس دنیا میں آتا ہے اور کچھ لوگ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں بشرطیکہ ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے۔ انہیں معاشرے میں بہترین طریقے سے بروئے کار لایاجائے۔
سوشل میڈیا یا میری ذاتی ذمہ داریاں:
ہمارے اندر بہت سی خوبیاں رکھی گئی ہیں۔ ایسی بے شمار خصوصیات ہیں جن کا ہم استعمال کرکے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ مجھے اپنا آپ کھنگالنا ہے۔ مجھے خود سے ہم کلام ہونا ہے۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں میری کیا رائے ہے۔ مجھے اپنی رائے جاننی ہے۔ مجھے اگر اپنا آپ مل جائے تو اس سے بہتر بات تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ بقول اقبال
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
سوشل میڈیا پر ہمیں اپنی اخلاقیات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے مقصد پر کام کرنا چاہیے۔ فضول گوئی سے پرہیز کریں۔ سوشل میڈیا کا مثبت سے مثبت استعمال کریں۔ اپنے اردگرد پر خوب نظر رکھیں کہ کہیں ہماری کسی کو ضرورت تو نہیں ہے۔ سوشل میڈیا بھی معاشرے کے بگاڑ اور بناؤ میں اہم ٹول ہے۔ اس کے بہتر سے بہتر استعمال سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ فرد معاشرتی حیوان ہے اور افراد ہی معاشرے کی اکائی ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو جانیں گے تو ہی معاشرے میں اپنے جیسے افراد کے ساتھ مل کر اپنی آواز کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کرسکیں گے۔ دوسروں تک اپنی صحیح بات پہنچایئے۔ معاشرے کے عام فرد کی براہِ راست رہنمائی کیجیے۔ کوشش کریں کہ ہم کسی کو تکلیف دینے والے نہ بنیں۔ پھول بنیں جو اپنے توڑنے والے کو بھی مہکا دیتا ہے۔ ایک فرد میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور بذاتِ خود فرد کوئی وقعت نہیں رکھتا جب تک اُس کے ساتھ کچھ اور لوگ، اس کے قریبی دوست احباب، اس کے رشتہ دار، اس کے پڑوسی نہ ہوں۔ بقول اقبال
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
پہلا قدم ہمیں اٹھانا ہوگا۔ پھر فرد سے افراد، افراد سے گروہ، گروہ سے معاشرہ اور بہترین معاشرے بنیں گے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا
nn