(آج بچوں کا ادب پیش کرنا سے سے بڑا چیلنج(محمد شبیر احمد خان

272

بچوں کا ادب تخلیق کرنا اور اسے خوب بنا سنوار کر دل چسپ انداز میں پیش کرنا ہمیشہ اہم اور مشکل مسئلہ رہا ہے، کیوں کہ آج بچوں تک رسائی کے لیے ان کی نفسیات، رجحانات اور معاشرت و ماحول کو سمجھنا پڑتا ہے، پھر تمام چیزوں کو بچوں کی سطح پر اترکر، ان ہی کی زبان میں بیان کرنے کا ہُنر آنا بھی نہایت ضروری ہے، جو بہت کم ہی ادیبوں اور شاعروں کو حاصل ہے۔
ہمارے دور میں سائنس وٹیکنالوجی کی تیزرفتار ترقی گزرے زمانے کے سنگ ہائے میل بڑی تیزی کے ساتھ پیچھے چھوڑتی جارہی ہے اور نسلوں کے درمیان خلیج تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سماجی و معاشرتی اقدار وروایات تیزی سے اتھل پتھل ہورہی ہیں، دیہی سادہ زندگی پر شہرکی پُرتصنع زندگی غالب آرہی ہے اور اس سے براہِ راست نئی نسل متاثر ہورہی ہے، چناں چہ محض بیس پچیس برس قبل کا بچوں کا ادب موجودہ نسل کے لیے ازکارِ رفتہ معلوم ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے لگتا ہے کہ دنیا بدل گئی ہے، ماحول بدل گیا ہے اور اقدار وروایات تبدیل ہوگئی ہیں۔ بچّے تو بچّے ہیں، موجودہ جوان نسل میں بھی بیشتر لوگ ایسے ہیں، جو میرزا ادیب، سعید لخت، مسعود احمد برکاتی، حکیم محمد سعید، اشتیاق احمد، جبار توقیرکی کہانیوں کا منظر اور پس منظر سمجھنے سے قاصر ہیں۔
آج کا ادیب و شاعر جس بچّے سے مخاطب ہے، وہ ایک تیزطرار، بولڈ، الیکٹرانک دور کی نسل کا نمائندہ ہے، جو وعظ ونصیحت سننے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ آج کی یہ نسل تقابل کا رجحان اور صلاحیت رکھتی ہے۔ تقابلی رجحان کا مطلب ہے کہ جب انٹرٹینمنٹ کے لیے اس کے پاس ٹی وی، ویڈیو گیمز، جدید موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور دیگر دل چسپ الیکٹرانک آلات موجود ہیں تو وہ کتاب کا مطالعہ کیوں کرے؟
ظاہر ہے اب اگر اسے مطالعے کی طرف لانا ہے تو ان تمام چیزوں سے زیادہ دل چسپ اور زیادہ معلوماتی مواد سجا سنوار کر اس کے سامنے پیش کرنا ہوگا، تاکہ وہ اسے قبول کرسکے!!
nn

حصہ