خرگوش جنگل میں اُچھلتا کُودتا جارہا تھا۔ جب وہ شاہ بلوط کے درخت کے نیچے سے گزرا، تو اسے وہاں سے کالے رنگ کی ایک ڈائری ملی۔
’’کس کی ڈائری ہے؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔
ڈائری کھولی تو اس کے پہلے صفحے پر لکھا تھا: ’’منکو کی ڈائری۔‘‘
’’ارے، یہ تو منکو بندر کی ڈائری ہے، جسے شکاری پکڑ کر لے گئے تھے، پڑھنا چاہیے، اس میں کیا لکھا ہے۔‘‘
خرگوش درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ابھی وہ پڑھنا ہی چاہتا تھا کہ درخت سے کوئی دھم سے نیچے کُودا۔ خرگوش نے دیکھا وہ منکو کا بھائی چنکو تھا۔ چنکو نے خرگوش سے کہا:
’’تم نے یہاں کالے رنگ کی کوئی ڈائری تو نہیں دیکھی؟‘‘
’’ہاں، یہ رہی، مجھے درخت کے پاس سے ملی ہے‘‘۔
’’میں نے شاخوں میں پھنسا کر رکھی تھی، شاید ہوا چلنے سے نیچے گرگئی‘‘۔
’’لیکن یہ تو منکو کی ہے‘‘۔
’’ہاں، وہ شہر میں ایک مداری کی قید میں ہے۔ قید کے دوران اس نے ڈائری لکھی اور اپنے ایک دوست کے ہاتھ مجھے بھجوائی ہے۔‘‘
پھر چنکو نے کہا:
’’تم تو اسکول میں پڑھتے ہو، ذرا پڑھ کے سناؤ، منکو نے اس میں کیا لکھا ہے؟‘‘
’’خرگوش پڑھنے لگا:
’’انسان اپنے آپ کو اشرف المخلوقات میں شمار کرتا ہے، لیکن جانوروں پر بے تحاشا ظلم کرتا ہے۔ شہر میں، مَیں نے ایسے گدھوں کو دیکھا ہے، جو سارا سارا دن بوجھ ڈھوتے ہیں، لیکن ان کے مالکان انہیں روزانہ ہنٹر سے پیٹتے ہیں اور کھانے کو بہت تھوڑا دیتے ہیں، ان کی محنت کے لحاظ سے نہیں دیتے۔ ان بے چارے گدھوں سے ’’ان کی قوت سے زیادہ‘‘ کام لیا جاتا ہے۔ میں بھی کبھی گھنے جنگل کا باسی تھا، اب للّو مداری کی قید میں ہوں، وہ سارا دن مجھے گلی گلی، محلّے محلّے نچاتا ہے، میرا تماشا لوگوں کو دکھاتا ہے۔ جس دن میری طبیعت خراب ہوتی ہے اور میں تماشا نہیں دکھاتا تو مجھے مارتا پیٹتا ہے، محلّے کے بچّے جو میرا تماشا دیکھنے آتے ہیں، وہ بھی بڑے شریر اور شیطان ہیں، کوئی میری دُم پکڑ کر کھینچتا ہے، تو کوئی مداری کی نظر بچا کر مجھے چپت رسید کرتا ہے، کوئی چھوٹے چھوٹے پتھر مارتا ہے۔ افسوس، انسان کے بچّے بالکل انسانوں جیسے ظالم ہیں۔ مجھے جنگل اور سب جانوروں کی بڑی یاد آتی ہے، کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ مداری کی قید سے نکل بھاگوں، لیکن مداری بڑا چالاک ہے، مجھے زنجیر سے باندھ کر رکھتا ہے، پھر بھی مجھے یقین ہے کہ ایک دن مجھے آزادی ضرور ملے گی اور میں کسی اچھے انسان کی مہربانی سے جنگل میں واپس آؤں گا۔‘‘
خرگوش نے اگلا صفحہ پلٹا، وہ خالی تھا، اس کے بعد کے صفحات بھی خالی تھے ۔
’’ڈائری یہاں پر آکر ختم ہوگئی ہے چنکو۔‘‘
خرگوش کی بات سُن کر چنکو کی آنکھوں میں آنسو آگئے، رندھی آواز میں بولا :’’مجھے لگتا ہے میرا بھائی کبھی واپس نہیں آئے گا‘‘۔
خرگوش نے چنکو کو افسردہ دیکھا تو کہا:
’’پیارے بھائی، اُداس نہ ہو، مجھے یقین ہے تمہارا بھائی ایک دن مداری کی قید سے ضرور آزاد ہوکر واپس آئے گا۔ میں نے سُنا ہے سارے انسان بُرے نہیں ہوتے، اچھے بھی ہوتے ہیں۔ جو جانور اور پرندے قید ہوتے ہیں، اچھے انسان پیسے دے کر انہیں آزاد کرا دیتے ہیں‘‘۔
’’میاں خرگوش، اللہ پاک تمہاری زبان مبارک کرے اور میرا بھائی منکو کسی اچھے انسان کی مہربانی سے واپس آجائے، وہ دن ہم سب گھر والوں کے لیے عید کا دن ہوگا‘‘۔ چنکو کے لہجے میں بڑا یقین تھا۔
’’ان شاء اللہ تعالیٰ !‘‘ خرگوش نے اس یقین کو پختہ کیا اور چنکو کے ہاتھ میں ڈائری تھماکر آگے بڑھ گیا!!
nn