دیواروں پر لگے زرد رنگ کے بلبوں کی پھیکی پھیکی روشنی اندھیرے کو شکست دینے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ ماحول میں عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس پُراسرار ماحول میں بلیک 10 پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ زمین پر بچھائے گئے خفیہ تار سے ٹکرا گئے اور الارم زوردار آواز میں بجنے لگا۔ ابھی بلیک 10 اگلے اقدام کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ زمین شق ہوئی، وہ سب کے سب اندھے کنویں میں گرتے چلے گئے۔
n n
رشید، پروفیسر خورشید کو بتارہا تھا:
’’سر! مسئلہ خاصا گمبھیر ہے، لاکر کی چابیاں بلیک چیف تک پہنچ گئی ہوں گی اور وہ ضرور فائل حاصل کرنے آئے گا‘‘۔
’’تمہیں کیسے معلوم کہ وہ فائل والے لاکر کی چابیاں بلیک چیف تک پہنچ گئی ہوں گی؟‘‘ پروفیسر خورشید کی آنکھیں سُکڑ گئیں۔
’’سر! یہ کوئی چھوٹی موٹی غلطی نہیں، بہت سے لوگوں کی غلطیاں ہیں، اس رصدگاہ کے آدمیوں کی بھی غلطیاں ہیں۔ قمرو نے چابیاں اٹھائیں اور پھر میرے کوٹ کی جیب میں ڈال دیں۔۔۔ سعید، حافظ جان کے کوٹ کی جگہ میرا کوٹ لے کر چلا گیا۔۔۔ حافظ جان نے وہ کوٹ گاڑی میں رکھ دیا۔۔۔ انہیں کیا پتا تھا کہ اس کوٹ میں اتنی اہم چابیاں ہیں۔۔۔؟ پھر وہ گاڑی، جس میں کوٹ تھا۔۔۔ بلیکس لے گئے اور جب انہوں نے تلاشی لی ہوگی تو وہ چابیاں انہیں مل گئی ہوں گی۔۔۔ یہ سب تو سعید نے مجھے بتایا کہ قمرو کی غلطی سے یہ سب کچھ ہوگیا‘‘۔ رشید نے ’’الف‘‘ سے ’’ی‘‘ تک پوری کہانی کہہ سنائی۔
’’کیا ان چابیوں کی ڈپلی کیٹس بھی نہیں ہیں؟‘‘
’’ہاں جناب، ورنہ مسئلہ ہی کیا تھا۔۔۔‘‘
’’یہ بتاؤ، تم نے اب تک کیا کیا ہے؟‘‘ پروفیسر خورشید خاصے متفکر تھے۔
رشید نے کہا: ’’میں نے ایک جاسوس بلیک ہاؤس بھیجا ہے، اب دیکھیں، وہ کیا خبر لاتا ہے؟‘‘
n n
جاسوس کو بلیک ہاؤس میں چھپ چھپ کر بلیک چیف کی حرکتیں نوٹ کرتے ہوئے دو گھنٹے بیت گئے تھے اور اسے یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ بلیک چیف نے چابیوں کی حفاظت کے لیے انہی جیسی نقلی چابیاں بنوانے کا آرڈر دیا ہے تاکہ کوئی جاسوس اگر چابیاں لینے آئے تو نقلی چابیاں لے جائے۔ اس وقت جاسوس میٹنگ روم کے باہر کھڑکی سے خفیہ انداز میں کھڑا اندر کا منظر دیکھ رہا تھا، جہاں صرف بلیک چیف ہی بیٹھا تھا، جو بار بار رِسٹ واچ پر نظر ڈالتا جیسے کسی خاص آدمی کا انتظار کررہا ہو۔ اور واقعی ایسا ہوا بھی۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک آدمی بڑا سا لفافہ لیے اندر داخل ہوا۔ جاسوس چوکنا ہوکر باتیں سننے لگا:
’’کام ہوگیا۔۔۔؟‘‘ بلیک چیف نے کہا۔
’’ہاں جناب۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس آدمی نے لفافے میں سے ایک پیکٹ اور چابیوں کا ایک گچھا نکالا۔
بلیک چیف نے پوچھا:’’پیکٹ میں اصلی چابیاں ہیں یا نقلی؟‘‘
’’نقلی چابیاں ہیں جناب۔ میں اچھی طرح اطمینان کرکے آیا ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ بلیک چیف نے چابیوں کا گچھا اُٹھایا اور اسے ایک نظر دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ آدمی بھی بلیک چیف کے ساتھ ہی تھا۔ اب کمرہ خالی تھا اور میز پر صرف ایک پیکٹ پڑا تھا۔ جاسوس دھیرے دھیرے چلتا ہوا کمرے میں داخل ہونے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ چاروں طرف نظر بھی رکھے ہوئے تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ چپک چپک کر میز کے قریب پہنچ گیا، پھر وہ ٹانگوں اور گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے اس جگہ پہنچ گیا جہاں سے وہ چابیوں کا پیکٹ اُٹھا سکتا تھا۔ اس نے پیکٹ اُٹھایا اور اسے کھول کر دیکھا۔
’’یہ تو اصلی چابیاں ہیں۔۔۔‘‘ جاسوس کی آنکھوں میں چمک اُتر آئی۔
’’کون ہے کمرے میں؟‘‘ کسی کی بھیانک آواز آئی۔ جاسوس میز کے نیچے چھپ گیا۔ وہ پیکٹ اس نے اپنے پاس چھپالیا۔ پھر کمرہ ایک دم روشن ہوگیا۔ جاسوس کو کسی کے قدم میز کی طرف آتے دکھائی دیے۔ جاسوس جو میز کے نیچے تھا اس نے یکدم کھڑے ہوکر میز اپنے مخالف پر اچھالی اور بھاگتا ہوا کھڑکی کا شیشہ توڑ کر باہر کُود پڑا۔
بلیک ہاؤس ایک دم روشن ہوگیا۔ جاسوس عمارت سے باہر نکل چکا تھا۔ دن کی روشنی میں اسے کوئی بھی دیکھ سکتا تھا۔ وہ فوراً اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھا اور اپنی منزل کی طرف انتہائی رفتار سے پہنچنے گا۔
n n
محافظ آپس میں باتیں کرتے ہوئے اس سلنڈر نما کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے، جہاں بلیکس آسمان سے ٹپکے تھے اور اب قید تھے۔ وہ ایک خالی کمرہ تھا، جس میں دشمن اُوپر لگی ہوئی مشینی چھت سے گرتا تھا اور قید ہو جاتا تھا۔ محافظوں کو اطلاع ملی تھی کہ بلیک 10 اس کمرے میں گرے ہیں!!
(باقی آئندہ)