(مراکش :عرب بہار کے بعدڈاکٹر(محمد اقبال خلیل

413

ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور
تیونس کے ساتھ مراکش بھی وہ عرب ملک ہے جہاں ’’عرب بہار‘‘کی تحریک نے مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس لیے اچھا ہوگا کہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے شام ، یمن اور تیونس کے بعد مراکش کے حالات پر بھی ایک نظر ڈالی جائے اور اس کا تجزیہ کیا جائے ۔ کیونکہ ایک طویل عرصے سے عرب ممالک شہنشایت اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کے زیر تسلط وقت گزارنے کے بعد 2011میں “عرب بہار”کی تحریک اور عوامی بیداری سے ایک انگڑائی لے چکے ہیں اور انہوں نے کئی ڈکٹیٹروں سے جان بھی چھڑائی ہے لیکن اس کے ثمرات سے اب تک محروم ہیں ۔ یہی صورتحال 50کی دہائی میں بھی پیش آئی جب دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراجی قوتوں برطانیہ اور فرانس وغیرہ کی گرفت کمزور پڑی تو یہ ممالک ان کی غلامی سے آزاد ہوتے چلے گئے ۔ اس آزادی کے لیے قوم نے قربانیاں دیں لیکن بد قسمتی سے کچھ ہی عرصے بعد وہ ایک نئے استعمار سے دو چار ہوئے جو ان کے اندر سے ہی پیدا ہوا لیکن ان عناصر نے عنان اقتدار سنبھال کر اپنے عوام کا گلا گھونٹ دیا اور ان کو بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے محروم کردیا۔
مراکش ، مراکو یا المغرب ، عرب اور افریقی دنیا کا ایک خوبصورت ملک ہے جس کے باسی بھی حسین و جمیل ہیں۔ مراکش کی آبادی 33.8 ملین اور رقبہ 446550مربع کلومیٹر ہے ۔ بحرالکاہل کے ساتھ اس کا طویل ترین ساحلی پٹی 1800کلومیٹر ہے ۔ تیونس کی طرح یہ بھی فرانسیسی سامراج کی کالونی تھی ۔ 1956میں اس کو آزادی ملی ۔ مراکش کی تمام آبادی سنی مسلمان ہیں جو عرب ،بربر 99فیصد اور دیگر 1فیصد دیگر اقوام پر مشتمل ہے ۔ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے ۔ دارلخلافہ رباط ہے جو اسلامی کانفرنس تنظیم کی وجہ سے مشہور ہے ۔ دیگراہم شہر کاسا بلانکہ ، مراکش ،طیطوان ، تینگر وغیرہ جس میں کاسا بلانکہ سب سے بڑا شہر ہے ۔ مراکش میں بادشاہت کا نظام چلا آرہا ہے ۔ بادشاہ ریاست کا سربراہ اور تمام ریاستی اداروں کا سرپرست ہے ۔ شاہ حسن 2ایک طویل عرصے تک یہاں بادشاہ رہے ہیں اس دوران لوکل گورنمنٹ اور پارلیمنٹ کے انتخابات بھی ہوتے رہے لیکن اختیارات کامرکز شاہ حسین ہی رہے ۔ ان کا1999میں انتقال ہوا تو ان کے بیٹے محمد نے محمد ششم کے لقب سے حکومت سنبھالی ۔
2010-11کے “عرب بہار “تحریک نے دیگر عرب ممالک کی طرح مراکش کو بھی متاثر کیا لیکن بڑی تبدیلی نہ آسکی البتہ آئینی و دستوری طور پر تبدیلیاں ضرور وقوع پذیر ہوئیں ۔ عوامی تحریک کو”تحریک 20فروری”کے نام سے موسوم کیا گیا جس کی وجہ سے ملک میں زیادہ بااختیار جمہوری طرز حکومت کا سفر شروع ہوا ۔ نئی آئنی اصلاحات کے بعد 25نومبر 2011 (عرب بہارکے بعد )نمائندہ حکومت کے قیام کے لیے پہلے باقاعدہ قومی انتخابات منعقد ہوئیں لیکن اس میں صرف 45فیصد ووٹرز نے اپنی رائے کا اظہار کیا جس کی بڑی وجہ اعتماد کی کمی تھی ۔ عوام کو یقین نہیں تھا کہ شاہ محمد 6ان کو حقیقی معنوں میں اختیارات منتقل کر یں گے ۔
شاہ محمد 6نے خاصی روکر کے بعد ملک کی اکثریتی اسلامی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ کے سربراہ عبدالعلٰی بن کیران کو حکومت بنانے کی دعوت دی جنہوں نے کئی مختلف الخیال گروپس کو ساتھ ملا کر کابینہ تشکیل دی اس طرح وہ شاہ محمد کے دور کے چوتھے لیکن پہلے نسبتاً بااختیار وزیر اعظم بن گئے ۔ جن آئینی ترامیم کی منظوری دی گئی تھی اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
(1)شاہ محمد ہی ریاست المغرب کی آئینی سربراہ رہیں گے البتہ اب ان کو “مقدس “ہونے کا درجہ حاصل نہیں ہوگااور ان کی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکی گی ۔
(2)کابینہ کے اجلاس کی اب بھی وہ صدارت کریں گے اور اس کے آغاز میں بات کریں گے لیکن اجلاس کو چلانے کا فریضہ وزیر اعظم سر انجام دیں گے ۔
(3)شاہ محمد ہی افواج کی سربراہی کریں گے اور چیف آف سٹاف کا تقرر کریں گے ۔ البتہ دیگر تمام اہم اداروں ، سفراء اور گورنروں کا تقرر وزیر اعظم کے اختیار میں ہوگا ۔ بادشاہ آئینی سربراہ ہوگا۔
(4)شاہ محمد کو وزیر اعظم کے تقرر اور معزولی کا اختیار ہوگا۔ البتہ اس کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس کے وہ پابند ہوں گے ۔
(5)بادشاہ ، وزیر اعظم اور اراکین کابینہ کے اختیارات میں توازن پیدا کیا گیا ۔
(6)پارلیمان کے دو ایوان ہوں گے‘ ایوان بالا اور ایوان نمائندگان اور ان کے درمیان تقسیم کار کیاگیا ہے ۔ ایوان بالاکے 120ارکان 6سال کے منتخب ہوں گے۔
(7)ہر پانچ سال کے بعد ایون زیریں کے لیے قومی سطح پر انتخابات ہونگے اور اکثریتی سیاسی پارٹی کے رکن کو حکومت بنانے کی دعوت دی جائے گی ۔ کل ارکان 325ہیں۔
(8) قانون سازی کا اختیار اب بادشاہ کے بجائے پارلیمنٹ کو حاصل ہوگا۔
(9)انتخابات کثیر الجماعتی بنیاد پر اور انتخابی حلقوں میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہیں۔
(10)خواتین کے لیے اسمبلی میں 30نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
(11)ایوان نمائندگا میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کی جا سکتی ہے۔
آئینی اصلاحات اور حکومت سازی کے بعد ایک جمہوری حکومت تو بن گئی لیکن اندرون خانہ تنازعات اور اختلافات کا سلسلہ جاری رہا ۔ وزیر اعظم اپنی قوت اور صلاحیت عوامی مسائل اور مشکلات حل کرنی کی بجائے زیادہ وقت بادشاہ کو منانے پر خرچ کرتے رہے اس لیے ان سے وابستہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ 2013میں ایک بار پھر پورے ملک میں احتجاجی تحریک اس وقت اٹھ کھڑی ہو گئی جب بادشاہ نے38اسپینی خطرناک مجروموں اور قیدیوں کو معافی دے کر آزاد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس میں ایک مجرم ایسا بھی تھا جس پر کئی مراکشی بچوں کی آبروریزی کے جرائم ثابت ہو چکے تھے ۔ ایک دم س عوامی عیض و عضب کا ایک ایسا ریلہ پھوٹ پڑا جس کی تاب نہ لاکر بادشاہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور اسپین کے قیدیوں کو رہا کرنے کی سازش ناکام ہو گئی ۔ 53سالہ شاہ محمد ششم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہے ۔ حافظ قرآن کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہے ۔ وہ مراکش ہی کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھ چکے ہیں۔ ان کو چونکہ 1963میں پیدائش کے ساتھ ہی ولی عہد مقرر کر دیا گیا تھا اس لیے ان کی تعلیم و تربیت پر شاہ حسن نے خصوصی توجہ دی اور دینی و دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم حاصل کی ۔ ان کا نام سدی محمد ہے ۔ لیکن انہوں نے محمد ششم کالقب اختیار کیا جوان کے خاندان میں چلا آرہا ہے ۔ انہوں نے قانون میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی فرانسیسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ۔ ان کے مقالے کا موضوع”مراکش اور یورپی یونین کے تعلقات”تھا ۔ وہ شاہ حسن کے زمانے ہی میں میجر جنرل اور چیف آف سٹاف مقرر کر دئے گئے تھے ۔ وہ بربر اور عربی زبان کے علاوہ فرانسی اور ہسپانوی زبانیں بھی جانتے ہیں ۔ 23جولائی 1999کو ان کے والد شاہ حسن کے انتقال کے بعد 30جولائی کو انہوں نے مراکش کا تخت و تاج سنھبال لیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم اور یورپی یونین کے صدرسے خصوصی تعلق کی وجہ سے ان کا جمہوری اقتدار کی جانب میلان تھا اس لیے انہوں نے عنان اقتدار سنھبالنے کے بعد ملک میں پہلے سے پارلیمنٹ کو زیادہ بااختیار بنانے کی کوشش کی اور اعلانات بھی کیے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2010-11 میں ان کو قریبی ملک تیونس سے شروع ہونے والی “عرب بہار” کا جھٹکا ملا تو وہ اس کو برداشت کر گئے ۔ مراکش میں یہ تحریک ” 20فروری تحریک”کے نام سے چلی اور جوق درجوق لوگ اس میں شامل ہوتے گئے ۔ رباط ، کاسابلانکہ اور چند دیگر شہرووں میں لوگ بادشاہت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں ۔ جس کی وجہ سے ایسا لگا کہ بادشاہ محمد اب اپنا تحت چھوڑناپڑے گا۔ لیکن چونکہ میں ایک سیاسی نظام پہلے سے چلا آرہا تھا اور سیاسی جماعتیں بھی موجود تھیں ۔ اخوان المسلمون سے وابستہ جماعت بھی پارلیمنٹ کا حصہ تھی ۔ 2007میں نسبتاً آزاد انتخابات ہو چکے تھے جس میں تمام پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل تھی اور وزیر اعظم عباس الغاسی بھی بادشاہ کے طرفدار تھے اس لیے عوامی سطح پر بادشاہ کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہو سکی۔ چونکہ علویہ خاندان گزشتہ 400سال سے مراکش پر حکمرانی کرتا چلا آرہا ہے ا ن کے جد امجد حجاز سے مراکو منتقل ہوئے اور حضرت محمد ﷺ سے نسبت کی وجہ سے ان کو یہاں کے بربر قبائل نے بڑی عزت و اکرام سے نوازا ۔ 1664میں مولائے الرشید نے اپنی پہلی ریاست قائم کی اور اس کے بعد اس خاندان کے حکمران جنہوں نے اپنے لیے سلطان کا لقب اختیار کیا مسلسل مراکوکی ریاست کو توسیع اور استحکام بخشتے رہے اور بربر قبائل کے درمیان اتفاق و اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ اس لیے ان کو عوام میں قدر و منزلت حاصل رہی ۔ اس دوران انہوں نے ہسپانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑی اور پھر فرانس میں جب 1912میں مغرب کو اپنا نو آبادیاتی کالونی Proctorateکا درجہ دیا تو اس کے بعد بھی علویہ خاندان نے مراکش کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی ۔ سلطان محمد پنجم کو انہی باغیانہ سرگرمیوں کی سرپرستی کی وجہ سے فرانس نے مغزول کر کے جلاوطن کر دیا اور مڈغا سکر بھیج دیا ۔ ان کی جگہ کچھ عرصے کے لیے ایک نام نہاد بادشاہ کو کٹھ پتلی کی حیثیت سے بٹھا یا گیا لیکن اس کو کسی نے قبول نہ کیا ۔ پھر مجبوراً فرانس کو محمد پنجم کو واپس لانا پڑا اور جب 1956میں مراکش کو آزادی ملی تو ان کی بادشاہت مکمل طور پر بحال ہو گئی اور انہوں نے سلطان کی بجائے شاہ کا لقب اختیار کر لیا۔ ان کے بیٹے شاہ حسن ثانی 1961سے 1999تک حکمران رہے اور ان کے بعد اب محمد ششم ہیں۔ اس پس منظر کی وجہ سے مراکش کے عوام ان کو ملک کے اتحاد اور یکجہتی کی علامت سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف اس قسم کے مخالفانہ جذبات نہیں رکھتے جس طرح دیگر عرب ممالک میں فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف پائے جاتے تھے۔
مراکش کے موجودہ وزیر اعظم عبدالالہ بنکیران بھی ایک تجربہ کار سیاستدان اور مدبر حکمران ہیں۔ 1954کی پیدائش ہے ۔ 1970سے میدان سیاست میں سرگرم ہیں۔ شروع میں بائیں بازوں کی طرف جھکاؤ جس طرح کے اس دور میں عرب نوجوان بالعموم سوشلزم سے متاثر تھے ۔ لیکن بعد میں ان کا تعلق اخوان المسلمون کی فکر سے جڑ گیا اور یہ اسلامٹ بن گئے ۔ وہ سیکولرزم کے مخالف ہیں البتہ اقتصادی ترقی اور نوجوانوں میں بیروز گاری کے خاتمے کو ملکی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں اب تیونس کی طرح انہوں نے بھی اخوان سے اپنا تعلق رسمی طور پر ختم کر دیا ہے اور مراکش میں جمہوریت اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں ۔ انہوں نے شام میں جاری بشار الاسد حکومت کے مظالم پر سخت تنقید کی ہے ۔ اقتصادی ترقی کے لیے انہوں نے یورپی یونین اور خلیجی ممالک سے قریبی تعلقات رکھنے پر زور دیا ہے ۔ اس معاملے میں ان کی اور شاہ محمد پالیسیاں یکساں ہے ۔ یہ 2008سے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے لیڈر اور سیکرٹری جنرل چلے آرہے ہیں اور گزشتہ پارلیمنٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا۔ 2011سے مراکش کے وزیر اعظم کا عہدہ سنھبالے ہوئے ہیں۔
مغربی صحارا کا مسئلہ
مراکش کا ایک اہم مسئلہ مغربی صحارا کا ہے ۔ افریقہ کے اس عظیم ریگستان کا ایک حصہ مراکش کی حدود میں آتا ہے جہاں طویل عرصے ملکیت کا تنازعہ چلا آرہا ہے ۔ اس کے ایک حصہ پر اب بھی یولسیاریو محاذ کا قبضہ ہے ۔جن کا ہید کوارٹر الجزائر ہے ۔ یہ محاذ اس علاقے کو صحرا وی عرب جمہوریہ قرار دیتا ہے اور اس مسئلہ پر طویل عرصے سے مراکش اور ماریطانیہ کی فوجوں سے بر سر جنگ ہے ۔ الجزائر سمیت اکثر افریقی ممالک مغربی صحارا پر مراکش کی حق ملکیت کو تسلیم نہیں کرتے البتہ یوروپی ممالک مراکش کے حق میں ہے ۔ اقوام متحدہ نے اس قدیم مسئلہ کے حل کے لیے ایک مستقل شن MINURSOکے نام قائم کیا ہے جو اس کے لیے کوشا ں ہے ۔ اسی ادارے کی وجہ سے 1991سے متحارب گروپوں میں ایک جنگ بندی کا معاہدہ بھی ہوا تھا جو اب تک نافذ العمل ہے ۔ لیکن مسئلہ کا مستقل حل طے نہیں ہو سکا ہے ۔ مراکشی حکومت نے 2006میں اس کو ایک خود مختار علاقہ قرار دینے کی تجویز پیش کی تھی جن کی امریکہ نے بھی حمایت کی لیکن اس پر اتفاق نہ ہوسکا البتہ سلامتی کونسل نے تما م پارٹیوں سے اپیل کی کہ وہ اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کریں اور مذاکراتی عمل کے ذریعے اس تنازعہ کا مستقل حل تلاش کریں ۔ مغربی صحارا میں اب بھی بڑی تعداد میں مراکشی فوج تعینات ہیں جب کہ محاذ کے رضاکار بھی 5ہزار کے لگ بھگ موجود ہے ۔ اس تنازعے کی وجہ سے مراکش افریقہ کا واحد ملک ہے جو افریقین یونین کا رکن نہیں ہے ۔
اقتصادی و سماجی حالات
مراکش کی اقتصادی ترقی میں ساحت کا سب سے اہم کردار ہے ہر سال ایک کروڑ سے زائد سیاح ساحل سمند ر پر وقت گزارنے کی خاطر یوروپی ممالک و دیگر خطوں سے یہاں آتے ہیں یورپ سے قربت اور سستے ہوٹلوں کی وجہ سے چنددن گزارنے کے لیے فرانس اور سپین سے خاص طور پر بڑی تعداد میں خاندان یہاں کارخ کرتے ہیں۔ مراکشی حکومت نے سیاحت کی مزید فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ 2020تک یہ تعداد سالانہ دو کروڑ دے تجاوز کر جائے گی جن کی وجہ سے ملکی ترقی میں 20فیصد تک اضافہ ہوگا ۔اگادیر خاص طور پر سب سے بڑا سیاحتی مرکز ہے جہاں سے ایک طرف ساحل سمند ر اور دوسری طرف اونچی پہاڑی چوٹی اطلس کو راستہ بھی یہاں جاتا ہے ۔ مراکش کا سب سے بڑا شہر کاسا بلانکہ بھی سیاحتی اور اقتصادی مرکز ہے ۔ یہاں پورے خطے لے لوگ شاپنگ کے لیے آتے ہیں ۔ مراکش نے اپنے قدیم اثار کو محفوظ رکھا ہے جس میں قبل مسیح کے ہزاروں سال پرانے دیہات اور اسلامی تاریخ کے عجائب بھی شامل ہیں جن کو دیکھنے کے لیے لاکھوں شائقین ادھر کا رخ کرتے ہیں مراکش نامی شہر میں وسیع و عریض بوٹانیکل گارڈن بھی بھی عالمی شہرت رکھتا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی وجہ سے ایک اہم سیاحتی مرکز بن چکا ہے لیکن مراکش کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ اس کی معدنی وسائل ہے ۔ بالخصوص فاسفیٹ کی پیداوار میں اس کو عالمی درجہ بندی میں تیسرا نمبر حاصل ہے ۔ اس لیے جس طرح ہمارے ملک کی اقتصادیات پر تیل کی عالمی منڈیوں میں ردوبدل کا اثر پڑھتا ہے اس طرح مراکش “پر فاسفیٹ “کی قیمت میں اتار چڑھاؤ اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی معدنیات اور مچھلی کی پیداوار سے آمدن ہوتی ہے ۔ ملکی سطح پر 45فیصد لوگ زراعت کے پیشے سے منسلک ہے جس حصہ قومی پیداوار میں 15فیصد ہے ۔ مراکش مجموعی طور پر افریقی ممالک میں اس وقت اقتصادی لحاظ سے 5ویں نمبر ہے جب کہ ایک زمانے میں یہ نمبر ایک سمجھاجاتا تھا۔
تعلیم کے میدان میں مراکش اکثر عرب ممالک سے آگے ہیں۔ اس میں خواندگی کی شرح 72فیصد ہے ۔ ملک میں تعلیم مفت اور لازمی ہے۔ اس کی کئی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے عالمی سطح کے ہے ۔ محمد پنجم یونیورسٹی رباط میں سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے ۔ فیض شہر میں القراوین یونیورسٹی سب سے قدیم ادارہ ہے جو سنہ 859میں ایک مدرسہ کے طور پر شروع ہوئی تھی ۔ اس کو UNESCOنے دنیا کی قدیم ترین جامعہ قرار دیا ہے ۔ شاہ حسن دوئم کے زمانے میں شعبہ صحت پر بھی توجہ دی گئی تھی ۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کے نظام کے کے لیے شہروں میں مضبوط بلدیاتی ادارے قائم کیے گئے تھے ۔ پانی کی فراہمی میں غیر ملکی کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں۔ ہسپتالوں اور صحت کے مراکز پورے ملک میں قائم ہے۔ جس کی وجہ سے مراکشی عوام کی اوسط عمر میں خاطر خواہ اضافہ ہوں ہے اور یہ مردوں میں 72سال اور خواتین میں 76سال ہے ۔ مراکش کی اپنی بری ،فضائی اور بحری فوج موجود ہیں جن کاایک بڑا مسئلہ مغربی صحارا کے غیر آباد اور بے آب و گیا لق و وق ریگستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا ہے ۔ پہلے مراکش میں لازمی فوجی سروس کا نظام رائج تھا اور ہر شہری کو فوج میں خدمات سر انجام دینی پڑتی تھیں لیکن اب اس قانون کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ 1لاکھ 95ہزار باقاعدہ فوج اور اور 1لاکھ 50ہزار ریزرو فوج ہیں۔

حصہ