سب زوبیہ کی قسمت پر رشک کررہے تھے، اچھے رشتوں کی قلت اور خودغرضی کے اِس دور میں اُس کے لیے اتنا اچھا رشتہ آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ محلے کی خواتین کو جب سُن گن ملی تو وہ زوبیہ کی امی مدیحہ کو مبارک باد دینے کے لیے اُن کے گھر پہنچ گئیں اور ٹھنڈی آہیں بھر کر اپنی اپنی بچیوں کے لیے بھی ایسے ہی رشتے کی خواہش کرتی نظر آئیں۔
مدیحہ نے انہیں تسلی دی کہ ہر کام کا اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، ان شاء اللہ جب وقت آئے گا تو کوئی بچی بھی اپنے گھر میں نظر نہیں آئے گی، سب اپنے اپنے سسرال میں ہوں گی اور ہم انہیں گھروں میں بیٹھے یاد کیا کریں گے۔ سب نے ان شاء اللہ کہا اور اپنے گھروں کو روانہ ہوگئیں۔
ان سب کے جانے کے بعد مدیحہ اپنے شوہر ساجد سے مخاطب ہوئی: ’’سنیں، لڑکے اور اُس کے گھر والوں کو تو ہماری زوبیہ پسند آگئی ہے مگر آپ نے انہیں یہ بات سمجھا دی ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی مرضی کے بغیر ’’ہاں‘‘ نہیں کریں گے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں، میں نے اس کا اظہار لڑکے اور اُس کے والد کے سامنے کردیا تھا کہ آخری فیصلہ ہماری بیٹی کا ہی ہوگا‘‘۔ ساجد نے جواب دیا۔ پھر مدیحہ کو مخاطب کرتے ہوئے بولا: ’’یہ حسنہ آپا کی خاص محبت ہے کہ انہوں نے اتنی دور کینیڈا میں رہتے ہوئے ہمارا خیال رکھا اور اپنے سسرالی رشتے داروں میں سے اتنا اچھا رشتہ بھجوایا جس میں بظاہر کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے، مجھے تو لڑکا بہت ہی پسند آیا، فوراً ہاں کردینے کو جی چاہ رہا ہے۔‘‘ ساجد خوشی میں بولے جارہا تھا۔
مدیحہ نے بھی اس کی تائید کی: ’’آپا نے اتنا خیال کیا حالانکہ آپ تو صرف اُن کے کزن ہیں، جب کہ ان کی سگی بھانجی رابعہ بھی موجود ہے، ابھی اُس کا کہیں رشتہ طے نہیں ہوا۔‘‘
’’سب اللہ کا کرم اور مہربانی ہے، وہی لوگوں کے دلوں میں بات ڈالتا ہے‘‘۔ ساجد نے کہا۔
’’مجھے تو یہ سب ایک خواب سا لگ رہا ہے کہ ہم جیسے متوسط لوگوں کے یہاں باہر سے اتنا پڑھا لکھا اور دولت مند رشتہ آیا ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ ہم لوگوں نے لڑکے کو بھی ساتھ بلا لیا اور لڑکی کو بھی ایک نظر چائے دینے کے بہانے بھیج کر اسے دکھا دیا تاکہ بعد میں کوئی تنازع نہ بنے کہ لڑکا بھی لڑکی کو دیکھنا چاہ رہا ہے، فون نمبر دے دیں یا بات کروا دیں، کیونکہ باہر رہنے والے شادی سے پہلے کی انڈر اسٹینڈنگ کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ زیادہ تر مشرقی لڑکیاں اور ان کے گھر کے لوگ اس بات کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی شادی سے پہلے گھر والوں کے درمیان بیٹھ کر ایک نظر لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی ہے، اس کے ساتھ تنہائی میں بات چیت کرنے اور گھومنے کی اجازت بالکل نہیں دی‘‘۔ مدیحہ نے اچھی خاصی تقریر کرڈالی۔ ساجد بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ بولا: ’’مدیحہ، تمہیں پتا ہے خوشی کے موقع پر مجھے بہت بھوک لگنے لگتی ہے، جلدی سے کھانا لگاؤ۔‘‘
مدیحہ ’’اچھا‘‘ کہتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔
ساجد ایک سرکاری محکمے میں سینئر کلرک تھا، والد نے مکان خرید کر دے دیا تھا، اس لیے اس طرف سے سکون تھا۔ پھر شادی ہوئی تو بیوی بہت سلیقہ مند اور صابر ملی۔ لگاتار تین بیٹیاں ہوئیں، اس کے بعد سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ سارے بچے پڑھ رہے تھے۔ بیٹیاں خوش شکل، ذہین اور فرماں بردار تھیں، ٹیوشن پڑھاکر اپنے اخراجات نکال لیتیں۔ بڑی زوبیہ صرف 19 سال کی تھی، کراچی یونیورسٹی سے بی ایس کررہی تھی۔ ساجد کی کزن جو کینیڈا میں رہتی تھیں، انہوں نے یہ رشتہ بھجوایا تھا۔ لڑکے کے گھر والے پاکستان ہی میں رہتے تھے مگر لڑکا جاب کی وجہ سے کینیڈا میں رہائش رکھتا تھا۔
اب مسئلہ زوبیہ کی رائے لینے کا تھا۔ ساجد نے مدیحہ سے کہا کہ وہ زوبیہ سے اس کی رائے معلوم کرے، کیونکہ لڑکے والے جلدی جواب دینے کا کہہ کر گئے ہیں۔ زوبیہ ایک خاموش طبع سنجیدہ لڑکی تھی، اس نے میٹرک میں آتے ہی عبایا پہننا شروع کردیا تھا۔ بڑی بہن کو دیکھ کر باقی دونوں چھوٹی بہنیں شرمین اور نائمہ بھی پردہ کرنے لگی تھیں۔ نماز، روزے کی بھی زوبیہ آپ ہی آپ پابند تھی، کسی کو کہنا نہ پڑا۔ یونیورسٹی میں لیکچر ختم ہونے کے وقفے میں درسِ قرآن یا حدیث جو بھی ہوتا اُسے بھی وہ بڑی توجہ سے سنتی۔ باقی جو پڑھائی کے بعد وقت بچتا امی کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹاتی۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اس کو جیسی اچھی صورت دی اُس سے بھی اچھی اس کی عادتیں تھیں۔
زوبیہ اگلے سمسٹر کی تیاری کے لیے الماری سے کتابیں نکال رہی تھی کہ مدیحہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’ارے امی آپ کو کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیا ہوتا‘‘۔ زوبیہ نے مدیحہ سے مخاطب ہوکر کہا۔
’’نہیں بیٹا مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے، اس لیے تمہارے پاس آئی ہوں۔ وہ جو اُس دن خواتین آئی تھیں اپنے بیٹے کے ساتھ تمہیں دیکھنے، انہیں تم بہت پسند آئی ہو، مگر ہم نے یہ بات انہیں پہلے ہی بتادی تھی کہ ہاں یا ناں کا اختیار صرف ہماری بیٹی کو ہوگا، اب وہ لوگ جواب مانگ رہے ہیں، میں تمہاری مرضی معلوم کرنے آئی ہوں‘‘۔ مدیحہ نے تمہید باندھی۔
زوبیہ خاموشی سے ماں کی بات سن رہی تھی۔ مدیحہ کے خاموش ہونے پر بولی ’’امی میری صرف ایک شرط ہے کہ میں پردہ کرنا نہیں چھوڑوں گی، اگر ان لوگوں کو اور ان کے بیٹے کو میری یہ شرط منظور ہے تو پھر میری طرف سے ہاں کردیں‘‘۔ یہ کہہ کر زوبیہ خاموش ہوگئی۔
زوبیہ کی باتوں سے مدیحہ اندیشوں میں گھر گئی کہ کہیں وہ لوگ بیٹی کی شرط سن کر انکار نہ کردیں اور اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل جائے۔ حسنہ آپا الگ ناراض ہوں گی۔ پھر زوبیہ سے مخاطب ہوئی: ’’بیٹی سوچ لو خوب اچھی طرح۔‘‘
’’امی میں نے بہت سوچ کر ہی یہ شرط رکھی ہے‘‘۔ زوبیہ نے جواب دیا۔
’’اچھا تمہاری یہی خوشی ہے تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ یہ کہہ مدیحہ اس کے کمرے سے نکل آئی۔
اگلے دن ساجد نے شاہ رخ کے والدین کو زوبیہ کی شرط کے متعلق بتایا کہ وہ شادی کے بعد بھی پردہ کرنا نہیں چھوڑے گی، اگر آپ لوگوں کو یہ شرط منظور ہے تو اس کی طرف سے ہاں ہے۔
فون سن کر لڑکے والے حیران رہ گئے۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک مڈل کلاس لڑکی ہاں کرنے کے لیے ان اَپر کلاس والوں کے سامنے کوئی شرط بھی رکھ سکتی ہے، اور وہ بھی ایسی کڑوی کہ جس سے ان کے منہ کا ذائقہ ہی خراب ہوگیا۔ انہوں نے پردے کی مخالفت میں کافی دلائل دیے مگر ساجد نے آخر میں یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ ’’میں نے آپ لوگوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ کا فیصلہ میری بیٹی ہی کرے گی۔‘‘
شاہ رخ کے گھر والوں نے حسنہ آپا کو فون کرکے پتا نہیں کیا کہا کہ ان کا فون ساجد کے پاس آیا کہ ’’میں نے اتنا اچھا رشتہ لگایا، تم لوگوں نے اتنی معمولی سی بات پر انکار کردیا۔ ارے زوبیہ تو ابھی بچی ہے، تم لوگ ہی کچھ عقل سے کام لے لیتے۔۔۔ پردے کا معاملہ تو بعد میں دیکھا جاتا ہے۔۔۔ اسے چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔! ارے اس لڑکے کو تو داماد بنانے کے لیے ہزاروں کروڑ پتی تیار بیٹھے ہیں مگر میں نے سوچا کہ میری بھتیجی عیش کرے، دوسرے کیوں۔۔۔! مگر تم لوگوں نے مجھے بہت دکھ دیا ہے یہ شرط لگاکر۔ وہ بھلا تم لوگوں کی کوئی شرط کیوں ماننے لگے جب ان کے لیے ہزاروں والدین بغیر کسی شرط کے اپنی بیٹی دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر آپا نے کھٹ سے فون بند کردیا۔ ساجد کی یہ بات پوچھنے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی کہ اتنے روشن خیال ملک میں رہتے ہوئے آپ لڑکی کی اپنی مرضی کے خلاف شادی کی کیوں حمایت کررہی ہیں، جب کہ ہمارا مذہب اسلام بھی اسی بات پر زور دیتا ہے کہ شادی کے وقت لڑکی کی رائے کو اہمیت دی جائے، ورنہ اس کی منشا کے خلاف رشتہ کرنے سے تمام زندگی کا ملال اور شادی کی ناکامی کا خطرہ رہتا ہے۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام محلے میں پھیل گئی کہ زوبیہ نے اتنے اچھے رشتے کو منع کردیا صرف پردہ کرنے کے مسئلے پر۔ سب عورتیں اکٹھی ہوکر مدیحہ کے پاس دوبارہ آئیں اور اس کو خوب جھاڑ پلائی کہ اتنی سی بات پر اس نے لڑکے والوں کو منع کردیا۔ اگر وہ لوگ اس کی جگہ ہوتیں تو اپنی لڑکیوں کی اس قسم کی بے وقوفانہ شرط کا کہیں ذکر نہیں کرتیں اور فوراً شادی کردیتیں۔
مدیحہ ان لوگوں کی تمام باتیں چپ چاپ سنتی رہی، آخر سب تھک ہارکر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئیں۔
اس واقعہ کو خاصا عرصہ ہوگیا تھا۔ زوبیہ کا فائنل سمسٹر قریب آرہا تھا۔ وہ پڑھائی میں سخت محنت کررہی تھی کہ ایک دن مدیحہ کی ایک سہیلی ایک لڑکے کا رشتہ لے کر آئی۔ لڑکے کی امی نے زوبیہ کو دیکھا ہوا تھا۔ لڑکا کمپیوٹر انجینئر تھا، امریکا میں جاب تھی، آج کل پاکستان آیا ہوا تھا شادی کے سلسلے میں۔ اس کی امی کو زوبیہ پسند آگئی تھی تو اپنی جاننے والی جو مدیحہ کی سہیلی بھی تھی، سے رشتہ بھجوایا تھا اور رشتے کی بات کرنے کے لیے آنے کی اجازت مانگی تھی۔ مدیحہ نے ساجد کو پوری بات بتائی تو ساجد نے کہا: ’’انہیں پہلے ہی پردے والی شرط بتادو، اگر انہیں یہ بات منظور ہے تو بسم اللہ کریں، ضرور ہمارے گھر آئیں، اگر شرط منظور نہیں ہے تو بات یہیں ختم کردیں۔‘‘
مگر اپنی سہیلی کا جواب سن کر مدیحہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے کہا کہ ’’لڑکے کی بھی یہی شرط ہے کہ لڑکی باپردہ ہو، صوم و صلوٰۃ کی پابند گھریلو لڑکی ہو‘‘۔ یہ سن کر ساجد نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ان لوگوں کو رشتہ کے لیے اگلے دن ہی بلا لیا۔ تمام معاملات فوراً ہی طے ہوگئے۔ ان لوگوں نے شاہ زیب کے سامنے زوبیہ کو چائے لے کر آنے کو کہا جو اپنے والدین اور بہنوں کے ساتھ ہی آیا تھا۔ اس نے بھی زوبیہ کو دیکھ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کردیا اور سادگی سے شادی کرنے کو کہا۔ جہیز وغیرہ کی ضرورت نہیں تھی، جب تک کاغذات وغیرہ تیار ہوتے اُس وقت تک ہی زوبیہ کو پاکستان میں رہنا تھا، پھر تو امریکا جانا تھا۔ چنانچہ فوراً پندرہ دن بعد نکاح ہوگیا۔ ولیمہ شاندار تھا۔ پھر شاہ زیب چھٹی ختم ہونے پر امریکا روانہ ہوگیا۔ زوبیہ فائنل پیپر دینے میں لگ گئی۔ کچھ عرصے بعد شاہ زیب نے زوبیہ کو امریکا بلوا لیا۔
اس بات کو اب تو کئی سال گزر گئے۔ زوبیہ اب دو بچوں کی ماں بن چکی تھی، لیکن اس نے جو مثال قائم کی تھی اُس پر عمل کرنے والی اور پردے پر ثابت قدمی سے جمنے والی نہ صرف خاندان میں کئی تھیں بلکہ اس کی سہیلیوں میں بھی بہت سی لڑکیوں نے اسی طرح اس شرط کو اپنی نئی زندگی کے لیے لازم کرلیا تھا۔