بات بہت پرانی ہے۔ مگر کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں دل تو بھلا دیتا ہے مگر ذہن کے کسی گوشہ میں محفوظ رہتی ہیں اور اچانک کسی موقع پر ظاہر ہوجاتی ہیں۔ آج اسی گوشہ سے ایک واقعہ میرے ذہن کی اسکرین پر نمودار ہورہا ہے۔ آج سے تقریباً دس سال قبل ہمارے دوست شجاع الدین غوری کے گھر ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ان کا ڈرائنگ روم شعرا، ادبا اور سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ پروگرام شروع ہوا۔ جو صاحب نظامت فرمانے والے تھے انہوں نے خود اپنا تعارف کروایا کہ وہ عزیز جبران ہیں۔ میں نے انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ عزیز جبران نے اپنی ایک غزل سے شعری نشست کا آغاز کیا، بعد ازاں دیگر شعرا نے اپنا کلام پڑھا اور محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ اگلے دن شجاع الدین غوری کا فون میرے پاس آیا کہ نشست کا احوال لکھ کر ’’جسارت‘‘ بھیج دیں تاکہ ہفتہ وار میگزین میں شائع ہوجائے۔ میں نے شجاع الدین سے کہا کہ میں نے شعرا کا کلام نوٹ نہیں کیا ہے لہٰذا احوال کس طرح لکھوں۔ انہوں نے کہا کہ کلیم چغتائی نے سب کے کلام نوٹ کیے ہیں، میں ان کے جستہ جستہ کلام آپ کو بھیج دیتا ہوں آپ رپورٹ تیار کرلیں۔ اس طرح رپورٹ تیار ہوگئی اور اتوار کو جسارت میگزین میں شائع ہوگئی۔
اسی دن شام کو میرے پاس ایک فون آیا ۔۔۔ انداز اگر سخت نہیں تھا تو نرم بھی نہیں تھا۔
’’آپ ظہیر صاحب بات کررہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا ’’جی جی میں ظہیر خان بات کررہا ہوں‘‘۔
فرمایا گیا۔۔۔’’میں عزیز جبران بات کررہا ہوں، میں آپ کو اپنا مجموعۂ کلام بھیج دیتا ہوں، آپ ذرا اس کی اصلاح فرمادیں‘‘۔
یہ سننا تھا کہ مجھے پسینہ آگیا، میں سمجھ گیا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے ورنہ طنز کا ایسا خوفناک تیر کبھی میری طرف نہ آتا۔ جس شخص کو شاعری کی الف بے بھی نہ آتی ہو اس سے کہا جارہا ہے کہ اصلاح فرمادیں۔ میں کیا میرے ابّا اور میرے دادا بھی یہ کام نہیں کرسکتے تھے۔ ہونٹ خشک ہوگئے، دل پریشان‘ اﷲ میاں یاد آنے لگے کہ یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے! بمشکل تمام اپنے آپ پر قابو پاسکا اور بہت ہی عاجزانہ انداز میں یہ کہہ سکا کہ ’’حضرت اگر اس ناچیز سے نادانی میں کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے تو بندہ معذرت کا طلب گار ہے‘‘۔ کہنے لگے’’آپ نے اپنی رپورٹ میں میرے ایک شعر میں ترمیم کی ہے، آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کسی کے شعر میں ردّ و بدل کرنے کا‘‘۔
میں پہلے ہی گھبراہٹ کا شکار تھا، اور بھی گھبرا گیا۔ میں نے کہا ’’محترم اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں‘‘۔
کہنے لگے’’فرمائیے‘‘۔
میں نے کہا ’’رپورٹ کے لیے نشست کے تمام شعرا کا کلام شجاع الدین غوری نے مجھے ارسال کیا تھا، میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے انہیں اپنی رپورٹ میں شامل کرلیا، اس قصور کی آپ جو چاہیں اس گناہ گار کو سزا دے لیں‘‘۔
کہنے لگے ’’ٹھیک ہے، میں شجاع الدین سے بات کرتا ہوں۔‘‘
کچھ ہی دیر بعد فون کی گھنٹی دوبارہ بجی، میں سمجھ گیا یہ اسی فون کی دوسری قسط ہوگی۔۔۔ کہنے لگے ’’آپ کی اس میں کوئی غلطی نہیں ہے، غلطی کلیم چغتائی سے لکھتے وقت ہوئی تھی، میں آپ سے معذرت خواہ ہوں‘‘۔
میں نے کہا ’’میرے محترم آپ مجھے شرمندہ نہ کریں، یہ تو میری خوش نصیبی ہے کہ آپ جیسا شاعر مجھ جیسے جاہل سے ہم کلام ہو، آج کا دن میری زندگی کا ایک اہم اور تاریخی دن ہے جو ہمیشہ یاد رہے گا‘‘۔
تو یہ تھی عزیز جبران صاحب سے میری پہلی اور تاریخی ٹیلی فونک گفتگو۔ اس کے بعد اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ موصوف شاعر بھی ہیں، ادیب بھی، نقّاد بھی، افسانہ نگار بھی، استاد بھی اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک بہت اچھے انسان بھی۔ آج کے دور میں ایک اچھا انسان ہونا ہی بڑی بات ہے۔ جب بھی ملتے ہیں چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے ہیں۔ محبت سے اس طرح پیش آتے ہیں گویا میں ان کا کوئی قریبی عزیز ہوں۔ یہی رویہ ان کا ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے، اسی لیے وہ سب کو عزیز ہیں۔
’’بے لاگ‘‘ ان کی جان ہے جس کے وہ مدیر ہیں، آج کے اس دورِ پُرآشوب میں جبکہ الیکٹرانک میڈیا کا دور دورہ ہے، لوگ کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے دور میں کسی ادبی رسالہ کی انطباع کیسے جان جوکھم کا کام ہے۔ مگر یہ حوصلہ ہے بھائی عزیز جبران کا کہ ’’چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے‘‘ رسالہ وقت پر نکالتے ہیں، اکثر بیمار بھی رہتے ہیں، طبیعت ناساز رہتی ہے، صحت متاثر رہتی ہے مگر رسالہ کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
عزیز بھائی کی اب تک دس سے زائد کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہوچکی ہیں، انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور کامیاب رہے۔ ان کی کتابوں پر ماہرینِ اہلِِ قلم اپنا ماہرانہ تبصرہ بھی فرما چکے ہیں۔ میری بھی خواہش ہے کہ میں ان کی کسی کتاب کے بارے میں کچھ لکھوں، مگر میری علمی کم مائیگی آڑے آجاتی ہے، بہرحال کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔
کتاب کا عنوان ہے ’’کھٹّے میٹھے‘‘۔ یقیناًآپ کے منہ میں پانی آنا شروع ہوگیا ہوگا، عنوان ہی ایسا ہے، مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں کھٹّے میٹھے فالسوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں مختصر افسانے ہیں جنہیں پڑھ کر قاری کا ادبی ذائقہ تبدیل ہوجاتا ہے جو کبھی کھٹّا ہوتا ہے اور کبھی میٹھا۔ شروع کے اوراق میں چند نامور ادبا کی آراء ہیں، اس کے بعد عزیز جبران صاحب نے مختصراً اپنے حالاتِ زندگی بعنوان’’عرضِ حال‘‘ رقم کیے ہیں جو بہت دلچسپ ہیں۔ بچپن کے حقیقی واقعات، نوجوانی کے خوبصورت حادثات، جوانی کے دلفریب تعلقات۔۔۔ بس اک داستانِ لاجواب ہے جو عزیز بھائی کے قلم نے سپردِ اوراق کی ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں ’’میں نے اپنی زندگی سے عشق کا خانہ ہی ختم کردیا ہے‘‘۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اور آگے اسی قلم سے یہ بھی فرما رہے ہیں کہ ’’چاہنا اور چاہے جانے کا جذبہ بالکل فطری ہے‘‘ اور اس فطری عمل کی حقیقت کا اعتراف بھی کررہے ہیں ’’کئی ہستیوں نے مجھے ٹوٹ کر چاہا‘‘۔ اب یہ چاہت کا عمل کوئی یک طرفہ ٹریفک تو ہے نہیں اور نہ ہی تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے کہ صرف ایک ہی طرف سے ٹوٹ کر چاہا گیا ہو اور دوسرا فریق پتھر کی مورت ہو۔ اس کے آگے ایک بہت ہی دلچسپ جملہ رقم ہے ’’میں ہر راہِ عشق سے جلدی واپس آگیا‘‘۔ اب کتنی ’’جلدی‘‘ اور کتنے ’’فاصلے‘‘ سے واپس آئے اس کا ذکر نہیں ہے، یہاں بیان میں ڈنڈی ماری گئی ہے۔
افسانے مختصر ہیں اور بہت ہی پُراثر، خاص طور پر افسانہ ’’جاگتی آنکھوں کا خواب‘‘ لاجواب ہے۔ ایک اچھے افسانہ نگار کا کمال یہی ہے کہ وہ جو کچھ اپنے معاشرے میں دیکھتا ہے چاہے وہ اچھائی ہو یا برائی، اسے اپنے انداز میں اور خوبصورت الفاظ کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر منتقل کردیتا ہے، قاری اسے پڑھ کر محظوظ ہوتا ہے۔ عزیز جبران نے اپنے افسانوں میں یہی کمال کردکھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے مجموعہ ’’تضاد‘‘ نے خاصی شہرت حاصل کی اور دو مرتبہ طباعت کے مراحل سے گزرا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں بیشتر افسانے قاری کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ میں عزیز جبران کو اتنے بہترین افسانے تحریر کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
مزاح لکھنا، چاہے نثر ہو یا نظم، ایک مشکل فن ہے۔ لوگوں کو رُلانا آسان ہے ہنسانا مشکل ہے۔ رُلانے کے لیے زندگی کے روزمرّہ کے مسائل ہی کافی ہیں۔ اب ایسے گھٹن والے ماحول میں اگر کوئی پُرمزاح تحریر یا شاعری دستیاب ہوجائے اور قاری کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دے تو سمجھ لو وہ قاری کے لیے امرت دھارا ہے۔ عزیز جبران کو مزاحیہ اشعار کہنے پر بھی قدرت حاصل ہے، موصوف نے پُرمزاح اشعار کہہ کر اپنا نام مزاح گو شاعروں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ مزاحیہ شاعری میں مزاح کے ساتھ اگر طنز بھی شامل ہے تو بس یوں سمجھ لو کہ ایک تیر سے دو شکار ہورہے ہیں، قاری محظوظ بھی ہورہا ہے اور شاعر اُسے آئینہ بھی دکھا رہا ہے تاکہ اس میں وہ اپنی خامیاں دیکھ سکے اور اپنی اصلاح کرنے کے لیے غور و فکر بھی کرسکے۔ عزیز جبران کی بیشتر شاعری کا یہی انداز ہے۔ وہ طنز کے ایسے تیر چلاتے ہیں جو جگر میں پیوست تو ہوتے ہیں مگر پار نہیں ہوتے تاکہ خلش برقرار رہے۔ ان کی طنز و مزاح سے بھرپور شاعری کے مجموعے ’’چھیڑ خوباں سے‘‘ اور ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ اہلِ ذوق میں خاصے مقبول ہوئے ہیں۔ اب اگر طنز و مزاح پر مبنی عزیز جبران کا تیسرا مجموعہ شائع ہوتا ہے تو مجھے یقین ہے اُس کا عنوان ’’چھیڑ خانیاں‘‘ ہوگا۔
عزیز جبران نے اپنی مزاحیہ شاعری کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے ان میں سیاست سرِ فہرست ہے۔ روشن خیالی کے حوالے سے ان کا ایک قطعہ جو کافی شہرت کا حامل ہے، ملاحظہ کیجیے:
اسلام آباد نام ہے اب تک، کمال ہے
روشن خیال لوگوں کی اس پر نظر نہیں
جبرانؔ سب سے بڑھ کہ حیران کن یہ بات
اس انتہا پسندی کی ’بُش‘ کو خبر نہیں
یہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا ’’ایک نکتہ نے مجھے محرم سے مجرم کردیا‘‘ آئیے ہم آپ کو اس نکتہ کا ایک اور کمال دکھاتے ہیں۔ عزیز جبران حقیقت کا اظہار بھی کررہے ہیں اور نکتہ کا کمال بھی:
تاریخِ پاک و ہند نظر میں رہے جناب
ہیں ناگ دیوتا کے پجاری نہ بھولیے
مودی نہیں یہ موذی ہے، ڈسنا ہے اس کا کام
فطرت کہاں بدلتی ہے تاریخ دیکھیے
جمہوریت پر اس سے اچھی تنقید نہیں ہوسکتی:
وہ حزبِ اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف
جمہوریت نوازی کا دعویٰ سراب ہے
کرسی نہ جائے ہاتھ سے مقصود ہے یہی
ان کی بلا سے ملک کا خانہ خراب ہے
آج ہم جس دور میں زندگی بسر کررہے ہیں، یہ جمہوری دور ہے۔ بظاہر تو جمہوری سیاست ہے مگر درحقیقت یہ منافقت کی سیاست ہے جس کے شکنجے میں ہم سب جکڑے ہوئے ہیں۔ عزیز جبران نے اسی موضوع کو اپنے ایک قطعہ میں اس طرح رقم کیا ہے:
منافقت کی سیاست ڈبو کے چھوڑے گی
یہ بے حسی کی قیادت ڈبو کے چھوڑے گی
ہزاروں تجھ سے بھی پہلے گزر گئے نمرود
سنبھل کہ تجھ کو یہ نخوت ڈبو کے چھوڑے گی
مندرجہ بالا قطعات سے آپ یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ عزیز جبران نے اپنے قطعات کو طنز و مزاح کا پیراہن دے کر کس طرح اپنا پیغام دوسروں تک پہنچایا ہے۔
میں عزیز جبران کی شاعری پر کوئی گفتگو نہ کرسکا، بس ان کی رومانی غزلوں کا مجموعہ ’’آج بھی انتظار ہے تیرا‘‘ کا سرورق ہی دیکھ سکا، سرورق پر جو آنکھیں دکھائی گئی ہیں اس سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ وہ حسین آنکھیں کسی کی منتظر ہیں۔ بقول عزیز بھائی ’’کئی ہستیوں نے مجھے ٹوٹ کر چاہا‘‘ کہیں وہ آنکھیں ان ہستیوں میں سے تو کسی کی نہیں ہیں جو بڑی حسرت و یاس سے عزیز جبران سے کہہ رہی ہیں۔۔۔
’’آج بھی انتظار ہے تیرا‘‘