سعیدہ آغا (تذکیر)
129للہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’َفھل ینَظرُونَ الاّاَلساعَتہ اَن تا تیھم بغَتتہ فقد جاء اَشراطُھَا‘‘ (محمد:۱۸)
قیامت برحق ہے لیکن اس کا دن نامعلوم ہے، وہ اچانک آنے والی ساعت ہے۔
البتہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے کچھ علامات بیان فرمائی ہیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بلاشبہ قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت کی زیادتی ہوجائے گی، زنا کثرت سے ہونے لگے گا، مردوں کی تعداد کم ہوجائے گی، عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کی خبر گیری کرنے والا ایک مرد ہوگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ علم کم ہوجائے گا اور جہالت پھیل جائے گی۔(بخاری ومسلم)
اسی طرح دوسری حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ صحابہ سے باتیں کررہے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا: قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا کہ جب امانت تلف کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرنے لگنا۔ دیہاتی نے پوچھا کہ امانت کیوں کر تلف کی جائے گی اور یہ نوبت کب آئے گی؟ آپ ؐ نے فرمایا: جب حکومت و سلطنت کا کام نااہل لوگوں کے سپرد ہوجائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔(بخاری)
نبی کریم ؐ نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ زمانہ قریب نہ ہوجائے گا، سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر، ہفتہ دن اور دن ایک گھنٹے کے برابر ہوجائے گا اور ایک گھنٹہ اتنا مختصر ہوجائے گا جیسے آگ کا شعلہ (گھاس کے تنکے) سلگا جاتا ہے۔
(ترمذی)
جدید دور کے الیکٹرانک نظام کو دیکھا جائے تو مسافتوں کا مختصر ہونا زیادہ آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابوہریرہؓ نے حدیث روایت کی جس میں مزید مندرجہ ذیل علامات کا ذکر ہے:
* جب فتنوں کا ظہور ہوگا اور ھرج یعنی قتل و قتال اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافہ ہو جائے گا۔
* مال و دولت کی کثرت ہوجائے گی۔
* جب زلزلوں کی کثرت ہوجائے گی۔
* جب لوگ وسیع اور لمبی چوڑی عمارتوں کے بنانے پر فخر محسوس کریں گے۔
* جھوٹوں کی کثرت ہوجائے گی۔
* والدین کی نافرمانی،
* بے حیائی عام ہوگی
نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے قربِ قیامت کی جتنی علامات بتائی ہیں ان میں سے اکثر کا ظہور ہو چکا ہے۔
* علم اٹھا لیا جائے گا۔۔۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ شہر علماء سے خالی ہوچکے ہیں اور مجلسوں میں ان پڑھ لوگ صدر بن گئے ہیں، جاہل لوگ فتویٰ دے رہے ہیں اور تدریس کررہے ہیں۔
حدیثِ مبارکہ میں علم اٹھانے کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ: اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے نہیں چھینے گا بلکہ علماء کو اٹھاکر علم کو اٹھالے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے جو بغیر علم کے لوگوں کے سوالوں کے جواب دیں گے جس سے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے۔
قربِ قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ دنیا کی قومیں اِس امت پر ٹوٹ پڑیں گی۔ فی زمانہ امتِ مسلمہ کی حالتِ زار دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے، کیوں کہ مسلم ممالک فلسطین، کشمیر، مصر، چیچنیا وغیرہ دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں نصرانی، یہود و ہنود پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ کبھی ڈرون حملوں میں،کبھی فوج اور پولیس پر منظم حملوں کی صورت میں، کبھی فرقہ وارانہ آگ بھڑکا کر مسلمانوں کو اس آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔ نااہل لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں جو متعلقہ کام اور حکومت و سیاست کی شرائط پر پورے نہیں اترتے اور حدود اللہ کا انحراف کررہے ہیں، اللہ کے دین سے ہٹ کر اپنے قوانین بنا رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ترقی کی طرف پیش قدمی کے ذرائع آسان کیے وہیں بے راہ روی کے راستے عام کردئیے۔ بے حیائی عام ہوچکی ہے۔ ٹیلی ویژن چینل ہوں یا اخبارات، آزادئ اظہار کے نام پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کردہ حدود کی پابندی گوارا نہیں کرتے۔ عورت کی برابری کے نام پر مادر پدر آزادی جس کی وجہ سے بے حیائی کا ایک طوفان برپا ہوگیا ہے، فحاشی و عریانی کا سیلاب خاندانی، معاشرتی اور اخلاقی نظام کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اپنے اعمال کی وجہ سے اللہ کی ناراضی کو مول لیا ہے، گویا رب کو راضی کرنے کے بجائے بے راہ روی اختیار کرلی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ناگہانی آفات کا شکار بن گئے ہیں۔ کبھی زلزلوں اور کبھی سمندری طوفان کی وجہ سے رب کی ناراضی کا عندیہ ملتا ہے، مگر سدھار کی طرف کوئی پیش قدمی نظر نہیں آتی۔ بکثرت خونریزی، ٹارگٹ کلنگ سے مردوں کی قلت ہورہی ہے۔ دن میں کئی مرد ٹارگٹ کلنگ کا شکار بن رہے ہیں۔ آج کے حالات دیکھیے، تمام علاماتِ صغریٰ ظاہر ہوچکی ہیں۔ لوگ اللہ کی نافرمانی کررہے ہیں، اسوۂ رسولؐ سے روگردانی اور طاغوتی نظام کی اتباع کی جارہی ہے، فتنوں پر فتنے نازل ہورہے ہیں اور عقلیں حیران ہیں، پریشان ہیں کہ کدھر جائیں، لیکن ان سب کے باوجود ہمارے اعمال نہیں بدلے۔ آفات و عذاب نازل ہورہے ہیں مگر خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کا احساس تک نہیں۔ لیکن آخرت کا انکار قیامت کے وقوع پذیر ہونے میں مانع نہیں، وہ برحق ہے۔
اِنِ عذَابَ ربکَ لواقِع ماَلہ ٗ من دافعِ یوَم تقوم السَّماءَُ مورا و تسیُر الجباَلَُ سیرََا فوََیلٌ یوَمءِذِ للّمُکذّبینَ (سورہ طور)
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ رجوع الی اللہ و استغفار اور فکر آخرت کو اپنا معمول بنا لیں۔ مہلتِ عمل مختصر ہے اور بغیر کسی نوٹس کے ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے دعوت پر لبیک کہنے کی ضرورت ہے کہ وقتِ رخصت سے پہلے اور موت کی پکڑ سے پہلے
’’مہلت سے فائدہ اٹھا لو اور آخرت کی فکر کرلو۔‘‘
’’َولتنظرنفس ماَ قدمت لغَد‘‘
ہر لمحہ اپنے جائزے اور احتساب کا اہتمام کرنا ہے اور اللہ کی راہ میں جان و مال لٹا کر سبقت لے جانے والوں میں شامل ہوجانا ہے، یقیناً ایسے ہی لوگ روزِ محشر شاداں و فرحاں اپنے رب کی رضا و خوشنودی اور اس خطاب کے مستحق ٹھیریں گے۔
’’یاٰایتھا النفس المطمئنہ،ارجعیِ الیٰ ربکِ راضیتہ مر ضیتہ،فاَدخلی فیِ عباَدی وادخلیِ جنتی‘‘ (الفجر)
nn