یوں تو صنفِ نازک اور باورچی خانہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن دورانِ طالب علمی عموماً لڑکیاں اس سے دور ہی رہتی ہیں۔ ہماری جامعۃ المحصنات طالبات کا کچن سے رشتہ استوار کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ طالبات کی کچن یاترا کے لیے بھی سرگرمیاں ترتیب دیتی رہتی ہے۔ جامعہ میں نیا سیشن شروع ہوتے ہی طالبات کو گروپس میں تقسیم کردیا جاتا ہے جنہیں اُم عائشہ، اُم ایمن اور اُم ہانی کے خوبصورت نام دیئے جاتے ہیں۔ گروپس کی طالبات کے درمیان مقابلے کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ جمعہ کا دن چونکہ ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے مختص ہوتا ہے اس لیے ہفتہ شروع ہوتے ہی کسی نئے مقابلے کے لیے نوٹس بورڈ پر نوٹس لگ جاتا ہے۔ بس پھر دیکھتے ہی دیکھتے طالبات کا پُرجوش جم غفیر نوٹس بورڈ کو گھیرے میں لے لیتا ہے کہ دیکھیں اس بار کون سی سر گرمی ہوگی۔ ایسا ہی ایک دن ہماری زندگی کی ڈائری میں بھی یادگار صفحات کا اضافہ کرگیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی ادھر مقابلۂ کوکنگ اناؤنس ہوا، ادھر ٹیم ہیڈز اپنی اپنی ٹیم کی طالبات کے پاس پہنچ گئیں اور مقابلے پر ابھارنے لگیں۔ پورا سال جو طالبات اپنے گھروں سے کھانے بناکر لاتیں اور بڑے مزے لے لے کر کھلاتیں اور داد وصول کرتیں، مقابلے سے وہی طالبات اپنا دامن بچانے لگیں کہ اگر کچھ خراب ہوگیا تو خوب بے عزتی ہوگی۔
لیکن آخرکار کچھ سنجیدہ اور سگھڑ قسم کی طالبات مقابلہ پر آئیں اور خود کو پیش کیا۔ گویا کہ وہ بہت ماہر شیف ہیں، اور طرح طرح کے کھانے پکانے کی تراکیب سامنے آنے لگیں کہ یہ بنائیں گے اور وہ بنائیں گے مگر۔۔۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
سب کے ارمانوں پر اُس وقت اوس پڑ گئی جب انتظامیہ کی طرف سے یہ حکم آیا کہ کوئی اپنی مرضی کی ڈش نہیں بنائے گا بلکہ ڈشز کا تعین انتظامیہ کی طرف سے کیا جائے گا۔ تھوڑی دیر میں نوٹس بورڈ پر ایک اور نوٹس لگ چکا تھا کہ ہر ٹیم آلو کے کٹلس اورسوئیٹ ڈش میں چنے کی دال کا حلوہ بنائے گی۔ طالبات چکن کی ڈشز کے طرح طرح کے منصوبے بنا رہی تھیں، جبکہ ٹیچرز کا کہنا تھا کہ آلو اور دال کی ڈشز بنائیں، آخر ہمیں بھی پتا چلے کہ طالبات آلو اور دال کیسے بناتی ہیں۔ گویا ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سلیقہ شعار خاتون بنانے کی تیاری۔
معاشرے کے قیام میں ایسی ماہر طالبات تیار کرنا جو ہر طرح کے ’’اندرونی و بیرونی‘‘ حالات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ دال اور آلو کی ڈشز بناکر گھر والوں کے دل جیتنا بھی جانتی ہوں۔ جب طالبات کے سامنے یہ مقصد رکھا گیا تو ٹیموں کی ہیڈز نے اپنی ٹیم میں سے کچھ ماہر قسم کی طالبات کو پیش کیا۔ دو طالبات آلو کے کٹلس کے لیے اور دو طالبات چنے کی دال کے حلوے کے لیے منتخب کی گئیں۔ مقابلے کے لیے دو گھنٹے کا وقت طے پایا۔9 بجے سے 11 بجے تک دونوں ڈشز بناکر سجا کر رکھنی تھیں۔ جیسے ہی مقابلے کا وقت شروع ہوا مقابلے کے شرکاء نے کچن کی جانب دوڑ لگا دی۔ پھر تو دو گھنٹے تک کچن کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ جہاں دو برتن ہوں وہ آپس میں ضرور ٹکراتے ہیں، پھر یہاں تو ڈھیر سارے برتن تھے، کیسے نہ ٹکراتے!کچن سے طرح طرح کی آوازیں پیدا ہونے لگیں، گویا چھری کانٹے کی لڑائی ہورہی ہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو میں ہر ٹیم دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کرنے لگی۔ آج تو آلو اور دال کی خوب درگت بننی تھی۔ کہیں آلو ابل رہے ہیں تو کہیں دال گرینڈ ہورہی ہے،کہیں چولہا خالی نہیں مل رہا تو کہیں گزرے برتنوں کا ڈھیر لگتا جارہا ہے، اور کہیں ہاتھ کے ہاتھ برتن دھوکر سگھڑاپے کی مثال قائم ہورہی ہے۔ اس پورے عمل کے دوران وقتاً فوقتاً ٹیچرز کو دیکھ کر اوسان خطا ہوجاتے اور کہیں تو برتن بھی خطا ہوتے ہوتے بچے ورنہ۔۔۔!!!
آخرکار اعلان ہوا کہ مقابلے کا وقت ختم ہوچکا ہے، تمام سگھڑ طالبات اپنے اپنے کام چھوڑ دیں۔ اب کھانے کا وقت تھا۔ ٹیم ہیڈز اور ٹیم کی باقی تمام طالبات کا انتظار ختم ہوا اور سب کو ڈائننگ ہال میں آنے کی دعوت دی گئی۔ ڈائننگ ہال میں قدم رکھتے ہی کھانوں کی خوشبوئیں مہک اٹھیں اور تینوں ٹیبلز پر رنگا رنگ کھانے خوبصورت انداز میں سجے زبانِ حال سے طالبات کے سگھڑاپے کا اعلان کررہے تھے۔ دعوت کا شاندار اہتمام لگ رہا تھا۔ سب سے پہلے ٹیچرز کو کھانے کی دعوت دی گئی اور طالبات کو ہر ٹیم کی طالبات لے جانے لگیں اور مہمان نوازی کی وہ مثال قائم کی کہ کیا ہی کہنے۔
ہم تو اب تک یہی سمجھتے تھے کہ آلو اور دال تو عام سے کھانے ہیں، ان کا کوئی خاص ذائقہ کیسے ہوسکتا ہے۔ لیکن اس دن دال اور آلو کے ذائقوں نے تو گوشت کی ڈشز کو بھی مات دے دی۔ ابھی مقابلے کے نتائج کا اعلان ہونا باقی تھا، سب پُراشتیاق چہروں اور دھڑکتے دل کے ساتھ انتظامیہ کے فیصلے کے منتظر تھے۔ ٹیچرز کے سامنے امورِ خانہ داری کی مثال قائم کرکے ہر ٹیم کی طالبات یہی سمجھ رہی تھیں کہ بس اب تو کامیابی انہی کی ہے۔ لیکن مقابلہ بہرحال مقابلہ ہے، مقابلے میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے، کسی ایک ٹیم کو تو جیتنا تھا۔ چونکہ کھانوں میں سجاوٹ اور ذائقہ دونوں چیزیں ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، سجاوٹ تو سب کی دیکھنے کے قابل تھی، اب ذائقے کا فیصلہ انتظامیہ کو ہی کرنا تھی۔ انتظامیہ کے مشکل لمحات ختم ہوئے اور بالآخر پرنسپل صاحبہ نے نتائج کا اعلان کیا۔ مقابلے کا نتیجہ سب کی ہی سوچوں کے برعکس تھا کیونکہ طالبات نے تو سجاوٹ کو دیکھ کر کوئی اور ہی نتیجہ اخذ کررکھا تھا۔ نتیجے کے مطابق ’’اُم عائشہ‘‘ بہترین ذائقے کی وجہ سے آج کی فاتح ٹیم قرار پائی۔
’’اُم عائشہ‘‘ کی کامیابی کے ساتھ یہ خوبصورت دن ہمیں دنیا میں موجود نئے نئے ذائقوں سے روشناس کراکر بہت سی خوبصورت یادوں کا تحفہ دے کر رخصت ہوگیا۔