آج مجلہ کمیٹی کی طرف سے جامعۃ المحصنات کراچی کے تمام شعبہ جات (شعبہ Q.A، شعبہ تربیت، شعبہ تزئین و آرائش، شعبہ ہم نصابی سرگرمیاں، شعبہ امتحان، شعبہ مالیات، شعبہI.T، شعبہ پروموشن، شعبہ نصاب، شعبہ ریکارڈ) کو مدعو کیا گیا ہے۔ لہٰذا تمام شعبہ جات کی خوشی دیدنی ہے کہ آج ہمیں اپنی اپنی بپتا سنانے کا سنہری موقع مل رہا ہے۔ اس مجلس کی صدارت شعبہ Q.A کو سونپی گئی ہے، لہٰذا شعبہQ.A بڑے کروفر سے کرسئ صدارت پر براجمان ہے اور چاروں طرف طائرانہ نظر ڈالنا گویا اپنا فرض گردان رہا ہے۔کیونکہ Q.A دراصل۔۔۔ اوہو آپ Q.A سے کہیں قائداعظم تو نہیں سمجھ رہے؟ جی نہیں Q.A اصل میں Quality assurance ہے۔ جی تو ہم بات کررہے تھے کہ.A Qکیونکہ اسی بات کا متقاضی ہے کہ ہر طرف سے مکمل آگاہی رکھے تاکہ نظام کی بہتری میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ مثلاً:
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بر قرار
خوابیدہ اس شرر میں آتش کدے ہزار
چونکہ پروگرام کی اناؤنسمنٹ شعبہ تربیت کے سپرد کی گئی تھی۔ سب سے پہلے شعبہ تربیت نے اپنا ہی تعارف دینا پسند کیا کہ جامعہ میں طالبات کی تربیت کا فریضہ میرے ہی سپرد ہے، لہٰذا نصاب کے علاوہ طالبات کے اندر اخلاقی پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور منفی پہلوؤں کا سدباب کرنے کے لیے مختلف تربیتی و تزکیاتی پروگرامات مثلاً دروس، ماہر عالم و مفتی حضرات کے لیکچرز، ورکشاپس اور دیگر عملی پروجیکٹس کا اہتمام اسی شعبہ کی مر ہونِ منت ہے۔ غرض ہم طالبات کو دینی، فکری و نظریاتی لحاظ سے بلند مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں، گویا:
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابر کیسا رہوں گل باش ہے دامن میرا
تمام شعبہ جات: واہ واہ کیا جذبہ ہے (یک زبان ہوکر)
شعبہ تربیت نے اس محفل کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کرنے کے لیے ’’شعبہ ہم نصابی سرگرمیاں‘‘ کو دعوت دی۔ لہٰذا شعبہ ہم نصابی سر گرمیاں نے سورہ الم نشرح کی خوبصورت آواز میں تلاوت پیش کی۔
شعبہ تربیت: (تلاوت ختم ہونے کے بعد) جزاک اللہ ہم اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں اور شعبہ ہم نصابی سر گرمیاں سے تعارف لیتے ہیں۔ ہم آپ کی جامعہ میں ضرورت و اہمیت جاننا چاہتے ہیں۔
شعبہ ہم نصابی سرگرمیاں: دیکھیں اس حقیقت سے تو آپ بھی واقف ہوں گے کہ ’’صحت مند دماغ کے ساتھ صحت مند جسم کا ہونا لازمی امر ہے‘‘ لہٰذا ہم طالبات کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ جسمانی نشوونما بھی کرتے ہیں۔ خاص طور پر طالبات کو اس پُرفتن دور (جس میں میڈیا کی تلوار سروں پر منڈلا رہی ہے) میں صحیح آگہی اور درست سمت فراہم کرتے ہیں اور موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے لیے طالبات کی جسمانی نشوونما اور دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کے لئے (in door games) کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جبکہ ان کی ذہنی نشوونما کے لیے مطالعاتی، تجزیاتی و تحقیقی دوروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شعبہ تربیت اور ہم نصابی سرگرمیاں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لہٰذا شعبہ تربیت یہ کہنے پہ مجبور ہوگیا کہ ’’بار جو مجھ سے نہ اٹھا وہ اٹھایا تُو نے‘‘
شعبہ I.T : بے شک بے شک۔
شعبہ تربیت: اب ہم بڑھتے ہیں ایسے شعبے کی طرف جس کا نام سنتے ہی قابل شخصیات بھی خائف نظر آتی ہیں، جی ہاں آپ صحیح سمت پہنچے، ہم بات کررہے ہیں شعبہ امتحان کی۔
شعبہ امتحان بڑے وقار اور رعب دار آواز سے گویا ہوا: جی ہاں خوف دلانے کے لیے ہمارا نام ہی کافی ہے، لیکن جو طالبات سارا سال محنت کرتی ہیں انہیں خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، انہیں ہم یقین دلاتے ہیں کہ: کوئی قابل ہوتو ہم شان کئی دیتے ہیں، اصل میں ہمارے ذریعے سے ہی تو ’’پیمانہ بلند و پست‘‘ ممکن ہے، لہٰذا یہ کہنے پرمجبور ہیں کہ:
علم کی انتہا ہے یہ بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شعبہ تزئین و آرائش: کافی خطرناک نظر آتے ہیں آپ۔
شعبہ تربیت: اب ہم بڑھ رہے ہیں حیرت کے سمندر میں ڈوبنے کے لیے۔ آپ تو واقعی ڈر گئے، بھئی ہمارا مطلب ہے بڑھتے ہیں ایسے شعبے کی طرف جس نے انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے یعنی )I.TٰInformation technology)
شعبہ I.T : جی ہاں آپ نے بالکل بجا فرمایا، ہم نے واقعی انسانی عقل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے کہ جو کام مہینوں میں نہیں ہوپاتے تھے وہ ہماری بدولت لمحوں میں اختتام پذیر ہورہے ہیں، اور ہم یہ کہنا نہیں بھولیں گے کہ یہ عزت ہمیں اللہ رب العزت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ آج ہم میلوں دور اور سمندر پار روابط بڑھانے میں اگر کامیاب ہوئے ہیں توI.T کا نام نہ لینا حق تلفی ہوگی۔ طالبات کو دوسرے تمام علوم کے ساتھ ساتھ I.T کا علم دینا بھی نہایت اہم ہے۔ اور دورِ حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تو اس کی ضرورت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جامعہ نے الحمدللہ اس اہمیت و ضرورت کو سمجھا ہے۔ شعبہ I.T نے اپنی بات کا اختتام اس شعر سے کیا:
دکھا دوں گا جہاں کو جو مری آنکھوں نے دیکھا ہے
تجھے بھی صورتِ آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا
شعبہ تربیت: اب باری ہے شعبہ داخلہ کی، جی تو آپ کی ضرورت و اہمیت جاننا چاہتے ہیں۔
شعبہ داخلہ: جی جامعہ میں ہماری اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ہم اجازت نہ دیں تو کوئی طالبہ جامعہ میں داخل ہی نہ ہوسکے، اور ہماری ضرورت کا اندازہ تو آپ اس طرح کرسکتے ہیں کہ جیسے: ٹرین میں آرام دہ سفر کے لیے پہلے ٹکٹ خریدا جائے گا بصورتِ دیگر آپ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا اس سے پہلے رجسٹریشن کا مرحلہ آتا ہے، پھر انٹرویو لیا جاتا ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آپ اس پُرسکون ماحول میں آباد ہوسکتی ہیں یا نہیں۔ اور آخر میں انٹری ٹیسٹ جیسا قابلِ قدر مرحلہ پار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر سال کی ابتدا میں شعبہ داخلہ کی طرف سے یہ صدائیں آنا شروع ہوجاتی ہیں کہ:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
شعبہ تربیت: اب بڑھتے ہیں شعبہ پروموشن کی طرف، آپ سے گزارش ہے کہ جامعہ میں اپنی خدمات سے آگاہ کریں۔
شعبہ پروموشن: میرے خیال میں شعبہ داخلہ کے ساتھ ہمارا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی، کیونکہ داخلہ سے پہلے تو ہم ہی شہر کی مشہور شاہراہوں پر خوبصورت بینر اور اشتہار نصب کرواتے ہیں تاکہ جامعہ میں زیادہ سے زیادہ طالبات کی تعلیم ممکن الحصول ہوسکے۔ اس کے علاوہ ہم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی مسلسل نظر رکھتے ہیں تاکہ بروقت طالبات حالات سے آگاہ رہیں اور اگر کوئی متنازع یا اسلامی اصولوں کے خلاف کام ہورہا ہو تو طالبات کو قلمی جہاد کی طرف راغب کیا جانا ہم ہی سے مشروط ہے۔ اخبارات و رسائل میں طالبات کی جو مختلف تحریریں اور آرٹیکل شائع ہوتے ہیں ان کی نوک پلک ہم ہی سنوارتے ہیں، اس کے علاوہ طالبات کی دیگر مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ’’ بزم ادب‘‘ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
شعبہ نصاب: ماشاء اللہ، ماشاء اللہ
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
شعبہ تربیت: اب ہم متوجہ ہوا چاہتے ہیں اپنے سب سے خوبصورت شعبے کی طرف یعنی ’’ تزئین و آرائش‘‘۔ ہم نے سنا ہے جامعہ کی خوبصورتی آپ ہی سے برقرار ہے۔ کیا آپ اس کی وضاحت کرنا پسند کریں گے۔
شعبہ تزئین و آرائش: آپ نے بالکل درست فرمایا کہ جامعہ کی خوبصورتی ہم ہی سے ممکن ہے۔ آپ ضرور یہ دیکھتے ہوں گے کہ جامعہ کی دیواروں اور سافٹ بورڈز پر آویزاں خوبصورت چارٹس، مختلف اقوال اور دلوں کو موہ لینے والی شاندار تصاویر (جن میں جاندار کی تصویر شامل نہیں) ہماری ہی کاوش ہے۔ بعد ازاں ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہم نصابی سرگرمیاں شیڈول کے تحت چلیں تاکہ ان کو اپنے پروگرامات کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اس کے علاوہ جامعہ میں ہونے والی ہر ایکٹویٹی میں ہماری معاونت شاملِِ حال رہتی ہے، جبکہ جامعہ کی خوبصورتی اور دل کشی میں اضافہ کرنے کے لیے ’’صفائی ڈے‘‘ بھی منایا جاتا ہے۔ اب آپ یقیناً جان گئے ہوں گے کہ ہم خود بھی حسین رہنا پسند کرتے ہیں اور دوسروں کی خوبصورتی کا بھی دھیان رہتا ہے۔ لہٰذا یہ شعر تو ہمارے لیے ہی لکھا گیا ہے
میں حسین ہوں کہ سراپا گداز ہوں
کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں، یا نیاز ہوں
شعبہ تربیت: واہ واہ! کیا خوب کہی۔ اب باری ہے سب سے پسندیدہ ترین شعبے کی، جو مہینہ کی ابتدا میں سب کی نگاہوں کا مرکز ہوتا ہے، جی ہاں! میرا مطلب ہے شعبہ مالیات۔۔۔ نام ہی سے اندازہ ہورہا ہے کہ کتنی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے یہ شعبہ۔ شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:
قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے
شعبہ مالیات: (نہایت شائستہ انداز سے) جی ہاں آپ درست فرما رہے ہیں، دراصل شعبہ مالیات اپنے نام کی طرح کام میں بھی کافی بھاری بھرکم ہے، ہاسٹل سے لے کر کالج تک کے تمام مالی معاملات نپٹانا ہمارا کام ہے۔ تمام اشیاء کا اندراج اور پھر اس کا آڈٹ ایک محنت طلب کام ہوتا ہے۔ غرض ہر وقت ہی مصروفیت رہتی ہے، خاص کر مہینے کی ابتدا میں مصروفیت دوگنا ہوجاتی ہے۔
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا چلنا، مدام چلنا
کہیں سے شعبہ I.T کی صدا سنائی دی:
حسابِ زندگی کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
شعبہ تربیت: (مسکراتے ہوئے) واقعی کافی محنت طلب کام ہے ۔اب شعبہ مالیات کے ساتھ تشریف فرما ہیں شعبہ ریکارڈ حسبِ معمول فائلز اور کاغذات کا ڈھیر اٹھائے ہوئے ۔آپ سے جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی اس قدر مصروفیت کا راز کیا ہے؟
شعبہ ریکارڈ: (کافی مصروفیت کے انداز میں فائلز کو الٹتے پلٹتے ہوئے) جی ہاں مصروفیت کی وجہ در اصل یہ ہے کہ جامعہ کے تمام شعبہ جات اور طالبات کی فائلز،ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کا مکمل ریکارڈ رکھنا ہمارے ہی دل گردے کا کا م ہے۔’’ماشاء اللہ واقعی بہت بڑا دل گردہ پایا ہے آپ نے، کیا ہی بہتر ہو جب آپ جگر بھی بڑا کرلیں‘‘ شعبہ ہم نصابی سرگرمیاں نے صدا لگائی۔
شعبہ تربیت: واقعی اللہ نے آپ کو بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے، اس پر ضرور اللہ تعالی کا شکر ادا کریں۔ہم اپنے مکالمے کا اختتام شعبہ نصاب پر کرتے ہیں۔
شعبہ نصاب: ہم نصاب پر مکمل گرفت رکھتے ہیں، وقتاً فوقتاً نصاب کی نگرانی کرتے رہتے ہیں، کلاسز میں جاکر لیکچر چیک کرتے ہیں، نیزسبقی پلاننگ کی نوعیت اور طریقہ کار بھی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ جبکہ کلاسز کا ٹائم ٹیبل ترتیب دینا بھی اسی شعبے کی کاوش ہے۔ ہم اپنی نسلِ نو کی ترقی سے مایوس نہیں، ان شاء اللہ ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
شعبہ تربیت: الحمدللہ ہمارا مکالمہ اختتام کو پہنچا۔ اب میں دعوت دوں گا ’’صدر مجلس شعبہQ.A‘‘ کو کہ وہ اس مجلس سے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
شعبہ Q.A : (مخصوص انداز میں اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے) الحمدللہ ہم اللہ رب العزت کے نہایت مشکور ہیں کہ اس پاک ذات نے ہمیں اس محفل میں شریک ہونے کا موقع فراہم کیا۔ جہاں تک تمام شعبہ جات کی بات ہے تو میں اس کی مثال اس طرح پیش کروں گا کہ تمام شعبہ جات آسمان پر موجود ان ستاروں کے جھرمٹ کی مانند ہیں کہ جس سے زیادہ روشنی ہونے کا سامان پیدا ہورہا ہے۔ شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے:
ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
یہ ظاہر ہوا کہ انسان اکیلا وہ طاقت نہیں بن سکتا کہ جو باہم مل کر بن سکتا ہے گویا:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
یعنی۔۔۔
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
nn