کنونشن سینٹر اسلام آباد میں چوتھی اہلِ قلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں نوازشریف نے تالیوں کی گونج میں فرمایا کہ ’’وطنِ عزیز کو فرقہ پرستی، تنگ نظری اور انتہا پسندی جیسی بیماریوں سے نجات دلانے کے لیے ضربِ عضب کے ساتھ ساتھ ضربِ قلم کی بھی ضرورت ہے‘‘۔
حقیقت تو اتنی ہی ہے کہ ضربِ عضب ہو یا ضربِ قلم، خونِ جگر دونوں میں مطلوب ہے۔ ہم تو خوش قسمتی سے اس دین سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بنیاد ہی ’’اقراء‘‘ سے رکھ دی گئی۔ جس میں قلم کی آبرو اور سطروں کی قسم کھائی گئی، اور آخری الہامی کتاب میں ایک باب سورۃ القلم کے نام سے رہتی دنیا تک موجود رہے گا۔
دنیا کے انقلابوں کی تاریخ دیکھ لیں، سیف اور قلم دونوں نے یکساں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ کبھی قلم، بجائے خود تلوار کا کام کر گزرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تلوار کی طاقت نے دنیا میں کتنے نظریے دفن کردیے اور کتنے نئے نظریات کے لیے زمین ہموار کی۔ تاریخ سے ذرا سی گرد جھاڑیئے، کارل مارکس قلم کا شہسوار تھا، ٹالسٹائی اور چیخوف نے اپنے قلم کے سہارے دنیا کے ایک حصے کی تاریخ بدل دی۔۔۔ دنیا میں طبقاتی جنگوں کا آغاز لفظوں کی جنگ سے ہوا۔ لوگوں کو امیری اور غریبی کا احساس دلا کر انہیں طبقوں میں بانٹ دیا گیا اور ایک طبقے کو دوسرے کا دشمن ثابت کرکے اس کے خلاف بھڑکایا گیا۔ فرانس کے انقلاب میں روسوکے قلم کی کاٹ تلوار سے زیادہ کام کرگئی جس کو شرق و غرب میں محسوس کیا گیا۔ شیکسپیئر کے قلم کو ایک زمانہ خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جس نے اپنے قلم سے لوگوں کو اتحاد اور یگانگت کا درس دیا اور نفرتیں ختم کیں۔ امریکا کی تاریخ کا رخ موڑنے میں ٹامس پین کے قلم کی سیاہی نے لازوال کردار ادا کیا۔
حقیقت یہی ہے کہ جنگیں تلواروں سے نہیں جیتی جاسکتیں۔ فتحِ مکہ کا دن مکہ کی سرزمین کو فتح کرنے سے زیادہ اہلِ مکہ کے قلوب کی فتح تھی۔۔۔ جب اس موقع پر کہا گیا کہ الیوم۔ یوم الملحمہ۔ آج انتقام کا دن ہے، تو آپؐ رسولِ رحمت نے فرمایا: نہیں، الیوم، یوم المرحمۃ آج تو رحمت کا دن ہے۔ اور یہ انقلاب تلوار سے نہیں ذہنوں کی فتح سے نصیب ہوا تھا۔ اور کسی بھی معاشرے میں انقلاب اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک اذہان کو تبدیل نہ کردیا جائے۔
ادیب معاشرے کے سرجن ہوتے ہیں جو ذہنوں کی تبدیلی کا کام کرتے ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں ادب کی اہمیت رہی ہے کیونکہ ادب انسان کے لطیف احساسات کو اپیل کرتا ہے۔ انہیں سوچنے، جائزہ لینے اور تبدیل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ عرب دورِ جاہلیت میں جہاں جنگوں کے میدانوں میں اونٹ اور گھوڑے سامانِ حرب کے طور پر جاتے تھے وہیں جذبات کو مہمیز دینے کے لیے گانے بجانے والیاں بھی ساتھ جاتی تھیں۔ اشعار بھی انسانی جذبات کو ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسانؓ کو بہت محبوب رکھتے تھے کہ ان کے اشعار کفار کو لاجواب کردیتے تھے۔ خود برصغیر کی تاریخ میں علامہ اقبالؒ فکری انقلاب کے موجد تھے۔ ان کی مردِ مومن، خودی اور شاہین کی اصطلاحوں نے مسلمانوں کو قوتِ حیات کے ساتھ مقصدِ حیات سے روشناس کرایا۔ ان کی شعری کمک نے جنگِ آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا مودودیؒ کے قلم نے انگریزوں کی غلامی کے بعد مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی میں جانے سے بچا لیا۔ انہوں نے ان دل شکن حالات میں مسلمانوں کو حوصلہ و ہمت سے نوازا اور ان کے لیے نشاناتِ منزل واضح کیے۔ تاریخ میں گاہے بگاہے ایسا ہوتا رہا ہے کہ ادیبوں نے انسانیت کی انگلی تھام کر انہیں تباہی کے گڑھے سے بچا لیا۔
وزیراعظم کو ضربِ قلم کا احساس اُس وقت جاگا ہے جب اُن کے اقتدار کی کشتی پانامہ کے بھنور میں ڈگمگا رہی ہے۔ وزیراعظم نے فرمایا کہ اہلِ قلم ملک کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انتہا پسندی ہو یا دہشت گردی۔۔۔ اس کا دوسرا نام فکری افلاس ہے۔ کون نہیں جانتا کہ فکری افلاس سے نجات پانے کے لیے اولین ضرورت مدبرانہ اور دلیر قیادت کی ہوتی ہے۔ مالیاتی اسکینڈلز کا شکار قیادت کس طرح قوم کی فکری رہنمائی کی اہل ہوسکتی ہے! مالیاتی مسائل کی دلدل میں پھنسی ہوئی قیادت اہلِ قلم سے کیا توقعات وابستہ کرسکتی ہے! ادیب اور شاعر معاشرے کا دل ہوتے ہیں، وہ عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس ملک کے عوام کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیت کیا ہوتی ہے جہاں ملک کے وزیراعظم8 اور ان کے خاندان کا دامن ایک مالیاتی اسکینڈل میں داغدار ہو، وزیراعظم اٹھارہ کروڑ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے وکلا کو تبدیل کررہے ہوں، کبھی بیانات بدل رہے ہوں! اصل انتہا پسندی تو یہ ہے کہ اپنے مفادات کے دفاع کے لیے جو بھی جھوٹ بولنا پڑے مقتدر طبقہاس سے دریغ نہیں کرتا۔ اس معاشرے میں انسانی جذبات کو پاکیزگی، خلوص، وفا اور بھلائی کی طرف گامزن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ سماج کے حالات و واقعات ادیب کے قلم کی راہ خود متعین کرتے ہیں۔ اور ادب پروپیگنڈے کا ہتھیار نہیں ہے۔
بھلا سوچیں اگر میر تقی میرؔ ، غالب، حالی، میر درد، یا ہمارے دور کے ابنِ انشاء، پروین شاکر، اشفاق احمد، بانو قدسیہ کے سامنے رات دن پانامہ کا شور ہوتا، اخبار اٹھاؤ تو پانامہ، ٹی وی کھولو تو پانامہ، پارلیمنٹ میں پانامہ، عدلیہ میں پانامہ، پڑوسن سے گفتگو ہو تو پانامہ، ٹھیلے والے سے سبزی لیں تو پانامہ۔۔۔ تو مذکورہ قلم کاروں کی فکری پرواز جہاں جاکر ٹھیرتی تو شاید شعری اور افسانوی مجموعوں اور کتابوں کے نام کچھ اس طرح ہی ہوتے مثلاً ’’پانامہ کی ہوا چلی‘‘۔۔۔ ’’پانامہ کی سرگوشیاں‘‘۔۔۔ ’’ردائے پانامہ‘‘۔۔۔ ’’پانامہ راستے میں ہے‘‘۔۔۔ ’’پانامہ کے ساحل پر‘‘۔۔۔ ’’پانامہ شاخِ بریدہ‘‘۔۔۔’’ سنو تو فسانۂ پانامہ‘‘۔۔۔ ’’پانامہ گئے دن کی مسافتیں‘‘۔۔۔ ’’چراغِ شبِ پانامہ‘‘۔۔۔ اور ’’ہائے دردِ پانامہ‘‘ وغیرہ شامل ہوتے!
بہرحال طے یہی پایا ہے کہ دہشت گردی ہو یا انتہاپسندی، ان کو بالآخر ختم اب صرف ’’ضربوں‘‘ سے ہی ہونا ہے چاہے وہ ضربِ عضب ہو یا ضربِ قلم۔ قلم کار تاریخ کے ہر دور میں، ہر سماج میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ہماری ساتھی نسرین سحرش ایسے ہی لمحوں کا فسانہ سناتے ہوئے کہتی ہیں:
تھامتے قلم لیکن
کانپتے سے ہاتھوں کو
بے شمار جھریوں میں
ادھ چھپے سے چہرے کو
سیاہ گھٹا سے بالوں میں
پھیلتی سی چاندی کو
اور۔۔۔ ناک پہ سجی ہے جو
بے بسی کی عینک کو
دیکھ کر خیال آیا
گوکہ اس مسافت میں
ہم دور تک نکل آئے
اور کتابِ زیست کے بھی چند اوراق باقی ہیں
تو کیوں ناں آج اٹھ کے ہم
ان کو پھر سے دہرا لیں
کیا عجب زمانہ ہے
خوبصورت لمحوں کا
دلنشیں فسانہ ہے
اور یہ کتابِ زیست کا
کچھ آخری سا حصہ ہے
سوچ گہری آنکھوں میں
زرد زرد چہرہ ہے
ضبط کے سلیقے ہیں، آنسوؤں پہ پہرا ہے
سرنگوں سراپا ہے
دل نشیں جوانی پہ۔۔۔ ڈولتا بڑھاپا ہے
سب عکس دھندلے ہیں
زندگی کی راہوں میں
جو کھویا ہے یا پایا ہے
سب حساب لکھا ہے
ذکر ہر حقیقت کا، ہر سراب لکھا ہے
سوچتی ہوں اب کتابِ زیست کے حوالے سے
جو اوراق باقی ہیں
ان پہ آنے والا کل
اب نہ جانے کیا لکھے۔۔۔؟
ہاں مگر اک خواہش ہے
اس کتابِ زیست کا
باب آخری جو ہے
سبز روشنائی ہے
’’سرخ رو‘‘ لکھا جائے
آسمان والے سے۔ داد کی سند پائے