جسارت میگزین: سوشل ایکٹی وٹیز، ادبی مشاغل اور مصروفیات کے بارے میں کچھ بتایئے۔
سلمان صدیقی: مشاعروں میں شرکت، ادبی تقریبات کی نظامت، تنقیدی نشستوں میں شرکت، مار دھاڑ سے بھرپور انگریزی فلمیں دیکھنے کا شوق، پرانے دوستوں سے فون پر رابطے، تاریخی مقامات پر جانے اور ان کے بارے میں جاننے میں خصوصی دل چسپی ہے۔ مطالعہ میری زندگی کی سب سے اہم مصروفیت ہے۔
جسارت میگزین: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتایئے۔
سلمان صدیقی: میرا تعلق ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے یو پی کے ایک خاندان سے ہے۔ والد کا آبائی تعلق یو پی کے علاقے بدایوں سے تھا، جب کہ والدہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ میرے والد شیخ صدیقی اور والدہ سیّد خاندان سے ہیں۔ میرے والد نے سرکاری نوکری کرتے ہوئے زندگی گزاری۔ ان کے آمدن کم تھی، مگر پھر بھی انہوں نے پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کی پرورش احسن طریقے سے کی۔ علالت کے باعث وہ جواں عمری میں ہی انتقال کرگئے۔ اس وقت میری عمر 20 برس تھی اور میں بی ایس سی کا طالب علم تھا۔
جسارت میگزین: آپ کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی اور کب سے مشاعروں میں شریک ہو رہے ہیں؟
سلمان صدیقی: مجھے شروع ہی سے ادب سے لگاؤ تھا۔ ابتدا ہی سے میرا رجحان آرٹس اور فنونِ لطیفہ کی طرف تھا، مگر اس زمانے میں والدین بچوں کو اپنی مرضی کے مضامین پڑھانا چاہتے تھے اور اس کے فطری رجحان کے برعکس سائنس یا کامرس کے مضامین منتخب کرنے پر زور دیتے تھے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ میں سائنس کے مضامین پڑھ رہا تھا، لیکن میری دل چسپی شعرو ادب میں رہی اور میں نے کم عمری میں ہی کہانیاں اور افسانے پڑھنا شروع کردیے تھے، اس دوران میرا رجحان شاعری کی طرف بھی ہوگیا اور جب میں غالباً آٹھویں کلاس میں تھا تو میں نے اپنی پہلی نظم لکھی، جس کا عنوان تھا ’’نتیجہ‘‘ 1968میں لکھی یہ نظم اس طرح ہے:
اِک سال پورا گزرا، سر پہ امتحان آیا
کی ہم نے سخت محنت اور ساتھ ہی دُعا بھی
پھر جب نتیجہ نکلا، یہ ہم نے اس میں دیکھا
ہم پاس ہو گئے تھے، ہم پاس ہو گئے تھے
مگر تھوڑی بہت شعوری پختگی کے بعد میں نے سب سے پہلے افسانہ لکھا جو 1974میں ہفت روز اخبارِ جہاں میں شائع بھی ہوا۔ اس کے بعد میں نے کئی اور افسانے بھی لکھے، مگر وہ کہیں شائع نہیں ہوئے۔ بعدازاں، میرا رجحان پوری طرح شاعری کی طرف ہوگیا۔ 1977 میں ملازمت کے سلسلے میں پاکستان سے باہر چلا گیا، اس دوران پاکستان آمد کے موقع پر اکا دکا مشاعروں میں شریک ہوتا تھا، مگر 1987 میں مستقل پاکستان آنے کے بعد میں کثرت سے مشاعروں میں شریک ہونے لگا۔
جسارت میگزین: کیا آپ شاعری کے حوالے سے اپنے اساتذہ کے نام بتانا پسند کریں گے؟
سلمان صدیقی: شاعری میں باقاعدہ میرا کوئی اُستاد نہیں رہا۔ اس سلسلے میں میرا زیادہ علم کتابی ہے مگر مجھے شاعری کے کئی رموز سکھانے میں ناصر کاسگنجو ئی اور نگار صہبائی شامل ہیں۔
جسارت میگزین: کیا آپ نے کچھ شاگرد بنائے ہیں، ان کے نام بتانا پسند فرمائیں گے؟
سلمان صدیقی: میں شاعری میں خود کو اس مرتبے کا حامل نہیں سمجھتا کہ کسی کو اپنا شاگرد بناؤں، مگر جن نوجوان شعرا سے میری ذہنی قربت ہے اور جن کے ساتھ نشستیں رہی ہیں، ان کو اس سلسلے میں مخلصانہ مشورہ دینے اور مشورہ لینے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتا۔
جسارت میگزین: شاعری میں علم عروض کی اہمیت پر روشنی ڈالیں۔
سلمان صدیقی: عروض بنیادی طور پر ایک علم ہے، جو شاعری کی بُنت کے لیے ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا ضابطہ ہے، جو ایک منظوم کلام کو نثری بیانیے سے علیحدہ کرتا ہے اور یہیں سے شاعری میں اس کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ شاعری کی ایک اور شناخت اس کی غنائیت ہے۔ وزن، بحر، قافیے اور ردیف کی آمیزش سے شعر میں غنائیت کا لطف پیدا ہوتا ہے۔ شاعری میں خیال اظہار شاعری کا جزو اعظم ہے، اسے بظاہر عروض سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ شاعری کے ضابطے اور خیال اگرچہ دو الگ اکائیاں ہیں، مگر ان کے خلاّقانہ اور فنکارانہ آمیزش سے جتنی تخلیقی قوت ہوگی، فن کے اصولوں سے جتنی آگاہی ہوگی اور ان کی نئے انداز سے آمیزش پر جتنی قدرت ہوگی، اس سے بہتر تخلیقات کی اُمید اتنی ہی زیادہ ہوگی اور اس کی طرف سے خیال زیادہ خوب صورت انداز میں سامنے آئے گا۔ اگرچہ، اس عہد میں شعری ضابطوں کے حوالے سے دو مختلف الخیال گروہ اپنے اپنے نقطہ نظر پر زور دیتے رہتے ہیں۔ ایک کا نقطۂ نظر ہے کہ خیال کی نزاکت کو برقرار رکھنا ضروری ہے جب کہ دوسرے کا خیال ہے کہ فنّی ہدایت کی پاس داری زیادہ ضروری ہے۔ اب اسے آپ روایت سے بغاوت کا نام دیں یا مشقت اور تن آسانی کی کشمکش۔ پرانے لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ بقول صباؔ اکبر آبادی:
قیدِ فن کو توڑ کر جو بھی کہا جائے صباؔ
خواہ اس کا نام کچھ ہو، شاعری ہوتی نہیں
جسارت میگزین: آج کے زمانے میں تنقید کا معیار کیا ہے؟ کیا آج کے تنقید نگاراپنی ذمّے داریاں پوری کر رہے ہیں؟
سلمان صدیقی: ہمیں تنقید پر بات کرنے سے پہلے عام قاری کے لیے یہ واضح کرنا ہوگا کہ تنقید ہے کیا؟ عوامی زبان میں لفظ تنقید خامیاں بیان کرنے یا کیڑے نکالنے کے معنوں میں سمجھا اور بولا جاتا ہے، جب کہ ادب میں اس لفظ کے معنی ذرا مختلف ہیں۔ یہاں تنقید کا لفظ کسی شعری‘ نثری،‘ تحقیقی یا تجزیاتی پیشکش کو جانچنے، پرکھنے اور خوبیوں کے ساتھ اس کی کم زوریوں کی نشان دہی کے معنوں میں سمجھا اور برتا جاتا ہے، گویا تنقید کسی فن پارے میں خوبیوں کی تلاش اور خامیوں کی نشان دہی کا نام ہے۔ اچھا نقّاد اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنی زبان کے ادب، عالمی زبانوں کے ادب اور ادب کی مجموعی اور عالمی صورت حال پر بھی نظر رکھتا ہے اور ان کی مختلف جہات کو اپنی تنقیدی تحریروں کے ذریعے ادب کے قارئین کے علم میں لاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے ہاں تنقید کا معیار نہ صرف یہ کہ غیر تسلّی بخش ہے بلکہ ادب کی یہ جہت نظر انداز بھی ہو رہی ہے، نئے نقّاد بھی سامنے نہیں آرہے ہیں۔ شاعر بے شمار ہیں، نثر نگار بھی کسی حد تک موجود ہیں، مگر ان کے مقابلے میں ادب کے تجزیہ نگاروں کی تعداد برائے نام ہے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم محنت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ شاعری چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے بھی ہوجاتی ہے، مگر نثر لکھنے کے لیے جم کے بیٹھنے کی ضرورت ہے اور تنقید لکھنے کے لیے تو جم کے بیٹھنے کے علاوہ بہت توجّہ اور وسعت کے ساتھ مطالعے کی بھی ضرورت ہے، مگرایک اور بات تنقید نگار کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے اور وہ ہے صداقت۔ اس لیے کہ اگر تنقید صداقت کی تلاش ہے تو یہ تلاش صداقت کے ساتھ قابل قدر ہوگی۔ نقّاد کی حیثیت بے لوث رہنما کی ہے۔ بقول پروفیسر احتشام حسین نقّاد کو یہ سمجھ کر لکھنا چاہیے کہ وہ کسی کو کچھ سِکھا رہا ہے۔
جسارت میگزین: اُردو زبان و ادب کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کتنے اہم ہیں اور کیا موجودہ زمانے میں یہ دونوں الگ ادارے ہیں؟
سلمان صدیقی: اُردو زبان و ادب کا فروغ، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے بغیرممکن ہی نہیں، کسی قومی مسئلے پر ذہن بنانے، قوم کو تیار کرنے اور حکومت کو مجبور کرنے میں یہ دونوں شعبے جو کردار ادا کر سکتے ہیں، اس کی اثر پزیری کو تمام اہل نظر بہ خوبی جانتے ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں شعبے اپنے اپنے مفادات اور اپنے سرپرستوں کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق چیزوں کی اہمیت کو کم یا زیادہ کرکے پیش کرتے ہیں۔ میری دانست میں یہ دونوں شعبے آزاد نہیں ہیں اور صرف خانہ پری کی حد تک اُردو زبان کو استعمال کرتے ہیں۔
جسارت میگزین: حکومتی سطح پر اُردو زبان کی ترقی کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں، کیا وہ اپنا کام پوری ایمان داری سے کررہے ہیں؟
سلمان صدیقی: حکومتی سطح پر اُردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے بنائے جانے والے اداروں کا حال بالکل وہی ہے، جو دیگر سرکاری اداروں کا ہے۔ اہل کاروں کو صرف اپنی تنخواہ اور مراعات سے غرض ہے۔ حکومتیں اپنے حمایتیوں کو نوازنے کے لیے ان اداروں میں تقرریاں کرتی ہیں اور غلطی سے کوئی اہل آدمی تعینات کر بھی دیا جاتا ہے تو اسے حکومتِ وقت کی طرف سے قومی زبان کے فروغ اور اسے واقعتاً قومی زبان کے طور پر نافذ کرنے کے لائحہ عمل اور عملی کام کی آزادی سے محروم رکھ کر وقت گزار دیا جاتا ہے۔ دراصل، پاکستان کے انتظامی امور میں موجود انگریزی زبان کی غلامانہ ذہنیت رکھنے والے اُردو کو صرف رابطے کی زبان کے طور پر کافی سمجھتے ہیں، اسی میں ان کی بقا ہے۔ اگر اُردو حقیقی قومی زبان بن گئی، اسے روزگار، عدالت، سائنس، ٹیکنالوجی اور قومی دستاویزات کی زبان بنا دیا گیا تو نچلے طبقے سے نئی نسل ان کے سامنے کھڑی ہوگی اور معاملات میں دخیل ہوجائے گی اور عام آدمی کی امورِ مملکت میں دخل اندازی اس طبقے کو پسند نہیں ہے۔
جسارت میگزین:کراچی میں ہونے والے مشاعروں، تنقیدی نشستوں کی صورت حال پر کیا تبصرہ کریں گے؟
سلمان صدیقی: پاکستان بھر میں کراچی ادبی سرگرمیوں خصوصاً مشاعروں کے انعقاد اور تنقیدی نشستوں کے حوالے سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ روزانہ دسیوں گھریلو نشستوں کے علاوہ ادبی تنظیموں کے تحت مشاعرے بھی ہوتے ہیں اور تنقیدی نشستیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ کراچی کے بڑے عالمی مشاعرے بھی شہر کا مثبت تاثر اُجاگر کرتے ہیں۔ ہاں، شعری معیار اُتار چڑھاؤ کا شکار ملتا ہے۔ اکثر محفلوں میں لوگ قریبی شاعروں کو مدعو کرتے ہیں۔ تین کروڑ کی آبادی والے شہر کے سیکڑوں شاعروں کو ایک وقت میں مدعو کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے اچھے، بُرے ہر طرح کے شاعر مختلف محفلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ کہیں بہت اچھی شاعری سُننے کو ملتی ہے اور کہیں کم درجے کی۔ یہی حال تنقیدی نشستوں کا ہے۔ کہیں بہت اچھی فکر انگیز گفتگو سے فکر کو جلا ملتی ہے اور کہیں کم تر اور سرسری اظہار خیال سے طبیعت مکدّر ہوتی ہے۔ صاف اور واضح ہوتا ہے کہ لوگ مطالعے سے دور ہو رہے ہیں اور ان کی علمیت اخباری رپورٹوں اور فیس بک کی اطلاعات تک محدود ہیں۔ بہرحال، یہ سرگرمیاں مثبت ہیں، انہیں جاری رہنا چاہیے۔
جسارت میگزین: انسانی زندگی یا سماج پر شاعری کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، نیز آپ کا نظریہ ادب کیا ہے؟
سلمان صدیقی: میرا نظریۂ ادب زندگی کی سچی عکاسی ہے۔ عام آدمی اور خصوصاً ادب کے قاری کے لیے زندگی کا سماجی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی منظر نامہ پوری سچائی سے شاعری اور نثر میں سامنے لانے کی ذمّے داری شاعر اور ادیبوں ہی پر عائد ہے۔ یہی میرا ادبی نظریہ ہے۔ رہ گئی بات انسانی زندگی اور سماج پر شاعری کے اثرات کی تو، اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ شاعری لوگوں کو لطف و انبساط دینے اور ان کی ذات کا کتھاسس کرنے کے ساتھ ان کی ذہن سازی بھی کرتی ہے۔ اس کا اندازہ تحریک پاکستان میں علامہ اقبالؒ کے کلام کی اثر پزیری سے لگایئے اور اس بات سے بھی کہ ہمارے مذہبی حلقوں میں نعت اور منقبت خوانی کا فروغ اور لوگوں کی اس سے عقیدت میں گزشتہ عشروں میں کتنا اضافہ ہوا ہے اور مزید یہ کہ اکثر سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں میں اپنے اپنے سیاسی نغمے بجاتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد کیا ہے، ظاہر ہے ذہن سازی اور لوگوں کو اپنی حمایت پر مائل کرنا۔ شاعری کے بغیر یہ سب ممکن نہیں ہے۔
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
سلمان صدیقی: ترقی پسند تحریک کا ایک عہد تھا، جس میں اس نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا اور اُردو ادب پر اس کے گہرے اثرات پڑے اور بعداز عہد بھی اس کے اثرات اکثر ادیبوں کے ہاں نظر آتے ہیں، مگر 1936کے بعد سے فکری زاویے بہت سی کروٹیں لے چکے ہیں، نت نئے نظریات متعارف ہوئے ہیں، دنیا میں فکری اقدار تیزی سے بدل رہی ہیں، ادبی نظریات متنوع شکل اختیار کرگئے ہیں۔ ترقی پسند تحریک ادبی فکر میں گھل مل گئی ہے۔ ہمارے ادیبوں کو بھی تبدیل ہوتے نظریوں پر غور کرکے اپنی فکر کو اَپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے۔ ہاں، ترقی پسند تحریک کے سر۔۔۔اُردو شعر و ادب کو مریضانہ رومان پرستی سے نکالنے کا سہرا ہمیشہ رہے گا۔
جسارت میگزین: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تجربات ہمارے ادب میں کام یاب ہوئے؟
سلمان صدیقی: ادب میں جدیدیت کی اصطلاح ان جمالیاتی اور ثقافتی اقدار میں تبدیلی سے عبارت ہے، جو پہلی جنگ عظیم کے بعد رونما ہوئیں۔ اس میں موضوعیت اور تاثریت پر زور دیا گیا اور شعور ذات اور انعکاسِ ذات اور ادب کا محور قرار پائے۔ مابعد جدیدیت بھی کم و بیش انہی خطوط پر استوار ہے اور یہ فکر فنّی اعتبار سے چار عناصر پر مشتمل ہے: خود آگہی، حقیقت پسندی، اظہارِ ذات اور نسبت اور مابعد جدیدیت ادب میں درجہ بندیوں کو مسترد کرتی ہے۔ یہ اعلیٰ اور ادنیٰ ادب میں کوئی تفریق روا نہیں رکھتی۔ اس میں ریزہ خیالی، ابہام‘ معنویت کے اختلاف، ردتشکیل اور انسان گریز رویّوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس کی اب تک کوئی واضح تھیوری سامنے نہیں آئی ہے، اس لیے کہ یہ تھیوری پر یقین نہیں رکھتی۔ اب بات آتی ہے ہمارے ادب میں ان تجربات کی کام یابی کی۔ اس سلسلے میں میرا خیال یہ ہے کہ ہمارے ادب میں نظریات کے تجربے پوری طرح ابھی ہوئے ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا کام یابی اور ناکامی کی بات ابھی قبل از وقت ہے کہ ہماری روش اقبالؒ کے اس مصرعے کے مطابق ہے: ’’آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پر اڑنا‘‘ مگر میں سجھتا ہوں کہ ہمارے سماج میں ان نظریات کے اثرات غیرمحسوس طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں اور بہت جلد ہمارا ادب بھی انہیں واضح طور پر منعکس کرنے لگے گا۔
جسارت میگزین: اصناف سخن میں نثری نظم کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نثری نظم کام یاب ہوئی، کیا نثری نظم کا کوئی رو ل ماڈل ہمارے سامنے ہے؟
سلمان صدیقی: نثری نظم ایک تجرباتی صنف ہے، اسے شاعری کے عروضی پیمانوں سے انحراف کی ایک قسم کہہ سکتے ہیں۔ پابند شاعری کے حامی اسے تسلیم نہ بھی کریں تو بھی اس شاعری کے حامی اس صنف کو اپناتے رہیں گے، اس اندازِ شاعری کو مطعون نہیں کرنا چاہیے۔ کسی نئی صنف کی کام یابی یا ناکامی کا فیصلہ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اس کے لیے ابھی انتظار کرنا ہوگا۔ بقول شعر ’’جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے۔۔۔‘‘ میں ذاتی طور پر احمد ہمیش کو نثری نظم کا رول ماڈل سمجھتا ہوں۔
جسارت میگزین: آپ کی نظر میں اُردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟
سلمان صدیقی: اُردو زبان ایک زندہ اور امکانات سے بھرپور زبان ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم خود اپنے ہی ہاتھ سے اپنی یک جہتی کے اس درخت کی جڑ کھود رہے ہیں۔ دوسروں کی محتاجی سے بچنے اور آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ہر شعبے میں انقلابی اور عملی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔ ان شعبوں میں زبان کا معاملہ سب سے اہم ہے، جب کہ ہماری قومی زبان اپنے ہی ملک میں فروغ کے مضبوط اقدامات سے محروم ہے اور صرف اپنی ذاتی قوت کے بل پر رابطے کی زبان کی صورت میں یہاں زندہ ہے۔ پاکستان اُردو زبان کا آخری دفاعی حصار ہے۔ اگر یہاں اس کے فروغ کے لیے ٹھوس اقدامات نہ اُٹھائے گئے اور اسے رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی اور نظام کے ہر معاملے کی زبان نہ بنایا گیا تو اس کا مستقبل مخدوش ہے۔
جسارت میگزین: سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نفاذ اُردو کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں، عملی طور پر اردو کا نفاذ کیوں نہیں ہورہا؟
سلمان صدیقی: انگریزی پر اندھا دھند انحصار اور اُردو کو ہر معاملے کی زبان بنانے کے عملی اقدامات کا فقدان نفاذِ اُردو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سپریم کورٹ فیصلہ دینے کا اختیار رکھتی ہے، مگر فیصلے پر عمل درآمد کی ذمّے داری حکومت کی ہے۔
جسارت میگزین:کیا آپ بتائیں گے کہ قیام پاکستان نے آپ کی زندگی پر کیا اثرات مرتّب کیے؟
سلمان صدیقی: میں نے ایک آزاد ملک پاکستان میں آنکھ کھولی۔ قیام پاکستان میری پیدائش اور ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے کی بات ہے، اس لیے میں پاکستان کے قیام کی اپنی زندگی پر اثرات کی نہیں بلکہ اپنی زندگی پر پاکستانی ہونے کے اثرات کی بات کروں اور یہ اثرات عزّت، وقار اور اپنی پاکستانیت کے فخر سے بھی بڑھ کر ہیں۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں، اپنے وطن کی وجہ سے ہوں۔
جسارت میگزین: رثائی ادب کے بارے میں آپ کے کیا نظریات ہیں؟ برصغیر پاک و ہند میں رثائی ادب کی اہمیت پر روشنی بھی ڈالیے۔
سلمان صدیقی: رثائی ادب عقیدت کے اظہار کے زمرے میں آئے گا۔ واقعہ کربلا کی آفاقیت اور اس کے ابدی درس کو اجاگر کرنے کے لیے شعری اظہار کی یہ جہت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ زبان کی ساخت، اس کے شعری استعمال اور تلفّظ کی دُرستی اور اس کے تحفظ کے لیے بھی ادبی اظہار کا یہ زاویہ اُردو شعر و ادب کا اثاثہ ہے، مگر واقعہ کربلا کے حوالے سے غیرمستند واقعات کی جزئیات نگاری اور کچھ شاعروں کی طرف سے فرقہ وارانہ اور طنزیہ طرزِ اظہار نے رثائی ادب کو کسی خاص فرقے کے ادب ہونے کی طرف دھکیل دیا ہے۔
جسارت میگزین: کیا نعت کو اصناف سخن میں شامل کیا جاسکتا ہے؟
سلمان صدیقی: نعت نگاری صنف نہیں ہے۔ یہ بھی عقیدت کے اظہار کے ضمن میں شمار کی جائے گی۔ اسے شاعری کی بہت سی اصناف میں برتا جاتا ہے۔
جسارت میگزین: موجودہ زمانے میں نعت خواں خود ہی نعتیں لکھ رہے ہیں، جس میں لوگوں کے جذبات سے کھیلا جارہا ہے، فلمی دھنوں پر نعتیں لکھی جارہی ہیں، کیا اس طرح نعت کا تقدس پامال نہیں ہورہا؟ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
سلمان صدیقی: نعت نگاری اور نعت خوانی ایک مقدس سرگرمی ہے، مگر گزشتہ دو تین عشروں میں کچھ لوگوں نے عقیدت کے اس اظہار کو کاروباری شکل دے دی ہے۔ آپ نے درست کہا کہ فلمی نغموں کی دھنوں پر نعتیں لکھ کر لوگوں کے جذبات سے کھیلا اور اسے کیش کیا جارہا ہے۔ یہ امر قابلِ غور اور اصلاح کے لائق ہے، کیا اس طرح ہم قرآن اور نبی پاکؐ کی تعلیمات کا علم رکھنے والے عملی مسلمان تیار کررہے ہیں، بالکل نہیں۔ پاکستان کے مسلمانوں میں یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی، اس پر دانش وروں کو ضرور تحقیق کرنی چاہیے۔
جسارت میگزین: بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اُردو روبہ زوال ہے‘ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں، اگر اُردو ادب روبہ زوال ہے تو اس کی کیا وجوہ ہیں؟
سلمان صدیقی: اُردو ادب کے روبہ زوال ہونے کی بات لوگ نہیں کرتے، ہمارے دوست، شاعر و نقّاد سرور جاوید کرتے ہیں۔ عام لوگوں کو اس بات کا شعور ہے اور نہ فکر کہ ادب روبہ زوال ہے یا مائل بہ عروج۔ سرور جاوید کا یہ خیال اس لیے ہے کہ وہ مستند شاعر تو ہیں ہی، مگر انہیں نقّاد ہونے کا دعویٰ بھی ہے اور یہ دعویٰ اس لیے غلط نہیں ہے کہ مختلف محفلوں میں ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادبی منظر نامے پر ان کی نظر ہے اور وہ ایسی رائے دینے کے مجاز ہیں۔ ان کا تجزیہ جزوی طور پر دُرست ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اب نہ بڑے ادیب سامنے آرہے ہیں اور نہ بڑا ادب اور ایسا وقت زبانوں پر آتا ہے، جسے آپ عبوری دور کہہ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جو اچھا ادب اب تک لکھا جا چکا ہے وہی ہمارے ادبی سرمائے میں قابل قدر اثاثے کے طور پر موجود ہے اور کچھ نہ کچھ نئی اور اچھی تخلیقات بھی سامنے آرہی ہیں۔ اگرچہ، وہ موجود سرمائے سے اعلیٰ معیار کی نہیں ہیں، مگر سفر جاری ہے اور اُمید قائم ہے، لہٰذا اگر سرور جاوید یہ کہہ لیں کہ ادب جمود کا شکار ہے تو بھی ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ اپنی روبہ زوال والی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جسارت میگزین: آج کل کچھ ادبی تنظیمیں ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت چندہ لے کر صدارت اور مہمان خصوصی، مہمان اعزازی بنا لیتی ہیں، جو کہ ان مناصب کے حق دار نہیں ہوتے، آپ اس سلسلے میں کیا کہیں گے؟
سلمان صدیقی: میرا خیال ہے کہ اصل ادیب خود نمائی سے دور ہوتا ہے۔ وہ کسی تقریب کا صدر نہ بھی بنے تو بھی اس کے مرتبے میں کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اگر کچھ لوگ ’’چندہ‘‘ دے کر صدربنتے ہیں تو بننے دیجیے، کوئی اس طرح خوش ہوجاتا ہے اور اس بہانے ادیبوں کی ملاقاتیں ہوجاتی ہیں تو ہمارا آپ کا اس میں کیا جاتا ہے۔ بقول شاعر ’’تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے۔۔۔‘‘ ویسے ایسی صدارتوں سے ادبی مقام بنتا نہیں، بگڑتا ہے۔ واقفانِ حال سب جانتے ہیں۔
جسارت میگزین: وہ کیا اسباب ہیں، جن کی وجہ سے کتب بینی کا ادارہ کم زور ہورہا ہے؟
سلمان صدیقی: اس کے بنیادی اسباب گھر اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کی تربیت اور اس کی اہمیت کے درس کا فقدان ہے۔ لوگوں کا میڈیا پر انحصار اور لائبریریوں کے منظم قیام سے صرفِ نظر کے علاوہ کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی اس کا سبب ہیں۔
جسارت میگزین: ادب کے حوالے سے آپ کن شخصیات سے متاثر ہیں؟
سلمان صدیقی: کسی خاص شخصیت کا نام لینا میرے لیے مشکل ہے۔ میں بہت سی شخصیات کے ادبی کاموں کی بنا پر ان سے متاثر ہوں اور انہیں قابلِ قدر سمجھتا ہوں اور ادب میں ان کی خدمات کا معترف ہوں۔ شاعری، افسانے، تنقید اور تحقیق میں قابلِ ذکر ناموں کی ایک فہرست ہے، جن کی ادبی خدمات کا میں قائل ہوں۔
جسارت میگزین: آپ کی نظر میں قلم کاروں کی اہم مسائل کون سے ہیں یا آج کے قلم کار کن مسائل سے دوچار ہیں؟ آپ کے نزدیک یہ مسائل کس طرح حل ہوسکتے ہیں؟
سلمان صدیقی: ہمارے قلم کار کا سب سے اہم مسئلہ معاش ہے۔ منصفانہ پذیرائی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ادب میں بھی ذاتی تعلقات اور مصلحت کی کار فرمائی ہے، Self Projection کے کمال سے ناواقف بہت سے باکمال ادیب گم نامی کا شکار ہیں اور بھرتی کے لوگ منظر پر ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اہل ادیبوں کو بلا امتیاز یہ کم سے کم سہولت فراہم کرے کہ ان کی تخلیقات شائع ہوسکیں اور ان کے کاموں کے قابلِ اشاعت ہونے کا اندازہ لگانے کے لیے ایک غیر جانب دار کمیٹی دیانت دار لوگوں کی قائم کرے۔
جسارت میگزین: کسی بھی شاعر یا شاعرہ کا سنیارٹی کا تعیّن کس طرح کیا جانا چاہیے؟
سلمان صدیقی: ادبی منظر نامے پر ان کی موجودگی کا عرصہ اور معیارِ کلام۔
جسارت میگزین: کیا آپ قارئین جسارت کی آسانی کے لیے شاعر اور متشاعر کا فرق بتائیں گے؟
سلمان صدیقی: حقیقی شاعر اپنے کلام، شعری رویّے اور تخلیقی سفر کے ارتقا سے جانا جائے گا جب کہ متشاعر اپنے کلام کی ناہم واری، خود نمائی اور اپنے شاعر ہونے کو ظاہر کرنے کی کوشش سے پہچانا جائے گا، مگر متشاعر ایک طنزیہ اصطلاح ہے، جس کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ شاید یہ ایک محسوس کیے جانے والا معاملہ ہے، جو شاعر کو متشاعر سے الگ کرتا ہے۔ وضع دار اہل نظر اس فرق کو سمجھتے ہیں، مگر نام لینے سے اجتناب برتتے ہیں۔
جسارت میگزین: اُردو ادب میں متشاعروں کا سلسلہ کب شروع ہوا، کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے، آج کل کچھ مال دار متشاعر اور متشاعرات اپنے نام سے کتابیں شائع کرارہے ہیں اور تقاریب پذیرائی بھی۔ ہمارے بہت سے اہم لوگ ان تقاریب کی صدارت کرتے ہیں، تبصرہ کرتے ہیں جب کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ متشاعر ہیں۔ آپ اس صورت حال پر کیا تبصرہ فرمائیں گے؟
سلمان صدیقی: ہم ایک سرمایہ دارانہ نظام کا حصّہ ہیں اور اس نظام میں پیسا اکثر شہرت خریدنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نام و نمود کا حصول ایک بشری کم زوری ہے اور ادب ایک ایسا گھر ہے، جس کی دیواروں میں دروازے اور کھڑکیاں نہیں ہیں، جسے خواہش ہوتی ہے، بے دھڑک اندر چلا آتا ہے۔ نام کے ادیب قیمتی کتابیں اِدھر اُدھر سے سیدھی کروا کے شائع کرتے ہیں۔ ان کی پرتعیّش تقریبات منعقد ہوتی ہیں بلکہ اب تو کچھ نام نہاد شاعر اپنی حیثیت کے زعم میں مشاعروں میں خود کو سینئر شاعر کے طور پر شامل کروانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تقریبات میں ادب کے اہم لوگ صدارت اور شرکت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں۔ Quality Consciousuey انسانی کم زوری ہے، تعلقات بھی مجبور کرتے ہیں، لہٰذا وہ کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں کسی بھرتی کے ادیب کی کم زور کتاب کی تقریب میں اسے اہم نہ سمجھتے ہوئے بھی شریک تو ہوں گے، مگر وہی بات کہ اس طرح تقریب کرنے والے وقتی خوشی اور شہرت تو حاصل کرلیتے ہیں، مگر ادب میں ان کا کوئی مقام نہیں بنتا۔ ادب میں مقام کا معاملہ بہت پُراسرار ہے۔ یہ اہل نظر ادیبوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے اور باکمال ادیب ہی سخن فہموں اور معیار شناسوں کی گفتگو میں جگہ بنا پاتے ہیں۔
جسارت میگزین: کیا مشاعروں میں شریک شعرا اور شاعرات کو معاوضہ دینا چاہیے؟ کیا ان کے پک اینڈ ڈراپ کا انتظام کرنا چاہیے؟
سلمان صدیقی: مشاعروں میں کوشش کی جانی چاہیے کہ شاعروں کو معاوضہ بھی دیا جائے اور ان کی آمدورفت کے ذریعے کے علاوہ طعام کا بھی مناسب انتظام ہوسکے۔ فاصلے اور زندگی کی مصروفیات اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ کسی بھی تقریب میں بلانے والے کی مہربانی کہ اس نے مدعو کیا، مگر آنے والے کا زیادہ شکریہ کہ وہ تشریف لایا۔
جسارت میگزین: آپ مبتدی قلم کاروں کے بارے میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
سلمان صدیقی: نئے لکھنے والوں کو مطالعے پر توجہ تو دینی ہی چاہیے، مگر فن سیکھنے پر دھیان دینے کے ساتھ یہ اندازہ لگالینا چاہیے کہ ان میں اچھا شاعر بننے کی صلاحیت ہے یا اچھا سامع۔
جسارت میگزین: اُردو ادب میں گروہ بندی نے اُردو ادب کو کیا نقصان پہنچایا، اس کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ آپ اس پر کیا تبصرہ فرمائیں گے؟
سلمان صدیقی: ادبی گروہ بندیاں اتنی ہی پرانی ہیں، جتنی شاید ادب کی تاریخ۔ فوائد کے ساتھ یہ دُرست ہے کہ ان کے نقصانات بھی ہیں۔ گروہ بنا کر ادیبوں کی نہ صرف اجتماعی طاقت کم زور پڑتی ہے بلکہ وہ اپنے گروہ کے حلقے تک ہی محدود ہوجاتے ہیں اور دوسرے گروہوں کے اچھے ادیبوں کے خیالات اور ان کی صحبت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف گروہ بندی سے اگر صحت مند اختلافات جنم لیں تو مکالمے کے نئے در کھلتے ہیں، بات آگے بڑھتی ہے اور ادب کی تخلیقی سطح کے معیار میں اضافہ ہوتا ہے، مگر اس میں بھی اخلاص شرط ہے۔
جسارت میگزین: کیا مشاعرے اُردو ادب کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کررہے ہیں؟
سلمان صدیقی: میں شاعر کو خیالات کے تبادلے کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ شعرا اپنے محسوسات سے ساتھی شعرا اور سامعین کو آگاہ کرتے ہیں۔ آج اگرچہ الیکٹرانک میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، مگر مشاعرے کی افادیت اب بھی باقی ہے۔ یہ ایک تہذیبی سرگرمی ہے، کسی جدید آلے کی محتاجی سے نکل کر بالمشافہ کلام شاعر بہ زبانِ شاعر کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ اُردو زبان و ادب کے فروغ اور زندگی کے مسائل کے ابلاغ میں شاعری کا کردار ناقابل فراموش ہے۔
جسارت میگزین: آپ نے میٹرو ون ٹی وی پر کس حیثیت سے پروگرام مرتب کیے اور اب تک کتنے دانش وروں کے انٹرویوز کر چکے ہیں؟
سلمان صدیقی: میں نے میٹروون ٹی وی پر میزبان کی حیثیت سے ادبی پروگرام ’’سلسلہ تکلم کا‘‘ کم و بیش تین برس کیا اور قریباً دو سو ادیبوں، دانش وروں، شاعروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نام ور لوگوں کے انٹرویوز کیے۔ میں نے ان پروگراموں سے بہت کچھ سیکھا اور اس کے ذریعے میں مختلف شعبوں کے ماہرین کے قابلِ ذکر کاموں اور ان کے شعبوں کی باریکیوں سے بھی آگاہ ہوسکا۔
جسارت میگزین: آپ کے انٹرویوز کی کتاب کب تک شائع ہورہی ہے؟
سلمان صدیقی: میٹرو ون ٹی وی پر کیے جانے والے انٹرویوز کی کتاب شائع کرنے کے لیے کام جاری ہے۔
جسارت میگزین: آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی، ادکادمی ادبیات پاکستان کراچی کی ادبی کارکردگی پر روشنی ڈالیے۔
سلمان صدیقی: یہ دونوں ادارے جن کی ادبی کارکردگی کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے، بظاہر تو کچھ نہ کچھ پروگرام کرتے نظر آتے ہیں، مگر یہ پروگرام اس درجے کے نہیں ہیں، جن کی توقع ان اداروں سے ادب کے سنجیدہ لوگوں کو ہے۔ آرٹس کونسل کو رعایت اس لیے دی جاسکتی ہے کہ وہ کلی طور پر حکومتی ادارہ نہیں ہے۔ یہاں انتخابات کے نتیجے میں انتظامیہ سامنے آتی ہے اور پھرآرٹس کونسل صرف ادبی سرگرمیوں کے لیے نہیں ہے، مگر اس کی ادبی کارکردگی اکادمی ادبیات، کراچی سے بہر حال بہتر ہے۔ اکادمی میں ایک ہفتہ وار شعری نشست صبح کے اوقات میں منعقد ہوتی ہے، جو روزگار کی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے اور یہ وہ واحد سرگرمی ہے، جو ادارے کی طرف سے سامنے آتی ہے۔ کوئی بڑا سیمینار، مذاکرہ یا کوئی کانفرنس عرصے سے منعقد نہیں ہوئی ہے۔ تین کروڑ آبادی والے شہر قائد میں، جو پاکستان کی قومی زبان کو اپنی مادری زبان کا درجہ دینے والوں کا شہر ہے، ایک عمارت کے پچھواڑے میں چھوٹی سی جگہ دے کر اور وہاں کے اہل کاروں کو ایک چھوٹی سی ہفتہ وار شعری نشست کا اختیار اور فنڈ دینے سے ادارے کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا!!