جنگی حکمت عملی کے ماہر سن تزو (Sun Tzu) نے اپنی مشہور کتاب ’’دی آرٹ آف وار‘‘ میں لکھا ہے:
’’اعلیٰ ترین جنگی ہنر یہ ہے کہ لڑے بغیر ہی آپ دشمن کو زیر کرلیں۔‘‘
بہت سے لوگ پاکستان میں اس بات پر برافروختہ ہیں کہ بغیر ثبوت و شواہد کے جرمن حکام نے ایک پاکستانی پناہ گرین کو برلن حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔ مزید یہ کہ وہ اس بات پر بھی تنقید کررہے ہیں کہ یورپی میڈیا کے کچھ اداروں نے قبل از وقت ہی یہ فرض کرلیا کہ مسلمان پناہ گزین حملے میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
پاکستانی مشتبہ شخص نوید بلوچ کو سیکورٹی اہلکار رہا کرچکے ہیں۔ فوراً ہی اہلکاروں نے اپنا رخ ایک تیونسی پناہ گزین کی جانب کرلیا اور مبینہ طور پر 19دسمبر 2016ء کو کرسمس مارکیٹ، برلن میں ہونے والے حملے میں اس تیونسی شخص کو ملوث قرار دیا جارہا ہے۔ اس دہشت گرد حملے میں 12 لوگ مارے گئے تھے۔ میڈیا کے مطابق 23 دسمبر 2016ء کو حملے کے مرکزی مشتبہ ملزم قرار دئیے جانے والے انیس عامری کو اٹلی کی پولیس نے ایک مبینہ مقابلے میں ہلاک کردیا تھا۔ لیکن کچھ پاکستانیوں کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے امیج کو پہلے ہی بہت مسخ اور خراب کیا جا چکا ہے، عموماً جنوبی ایشیائی ممالک مذہبی انتہاپسندی، اقلیتوں کے خلاف تشدد اور دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے یورپ میں ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں، لیکن نوید بلوچ کی گرفتاری اور اس کے بارے میں میڈیا کی رپورٹوں نے پاکستان کی ریاست اور دہشت گردی کے تعلق کو مزید نمایاں کردیا ہے۔ کیا یورپی میڈیا دقیانوسی اور روایتی نقطہ نظر کو دوام بخش رہا ہے؟
کیوں یورپ میں ’دہشت گردی‘ مخصوص گروہوں، لوگوں اور ملکوں کے نام کا مترادف سمجھی جانے لگی ہے؟کیا صحافیوں کو دہشت گردانہ حملوں کی خبروں اور رپورٹنگ کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے؟