اندرونی سلامتی اور بیرونی محاذ سے وابستہ بہت سے موضوعات تیزی سے سیاسی بحث کا عنوان بنتے جارہے ہیں کہ جن پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو اس پر رائے دینی چاہیے، لیکن پارلیمنٹ اور ملک کی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ ملکی میڈیا اور سیاسی بحث پاناما کے کھونٹے سے بندھی ہوئی ہے اور سپریم کورٹ بھی اس کے محاصرے میں آئی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
اگلے ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ امریکہ کا نظم و نسق سنبھال رہی ہے اور اوباما حکومت جاتے جاتے متعصب قانون سازی کرکے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے گرد گھیرا تنگ کرچکی ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں مسلم الائیڈ فورسز کے لیے شاہ سلمان کے مشیر مقرر ہوچکے ہیں، جنہیں الائیڈ فورسز کے سربراہ کا درجہ بھی حاصل ہوگا۔ روس باقاعدہ سی پیک کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ تینوں موضوع ہمارے اندرونی معاملات، بیرونی محاذ اور معاشی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن ان تینوں میں سے کسی ایک پر بھی ملک کی سیاسی جماعتوں کی رائے سامنے آئی ہے اور نہ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوئی ہے۔ دعویٰ یہی ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں کا نظم و نسق عوام کے منتخب نمائندے پارلیمانی نظام کے ذریعے چلاتے ہیں، مگر مجال ہے کہ عوام کے نمائندوں کو ان تینوں اہم فیصلوں کی تفصیلات کا علم بھی ہو۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے جنرل راحیل کی تقرری پر وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کو سینیٹ میں بریفنگ دینے کا حکم دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلے کہا کہ جنرل راحیل کی تقرری حکومت کی منظوری سے ہوئی، پھر حکومتی بیان آیا کہ ہمیں کوئی علم نہیں، اب کہا جارہا ہے کہ یہ منصب سنبھالنے سے پہلے تین شرائط پیش کی گئی تھیں، جو پوری ہوئی ہیں تو منصب سنبھالا گیا ہے۔ وہ شرائط یہ ہیں کہ جنرل راحیل کسی کی کمان میں کام نہیں کریں گے، مسلم الائیڈ فورسز میں ایران کو بھی شامل کیا جائے گا اور سعودی حکومت جنرل راحیل کو مسلم اتحاد کے لیے کام کرنے کا کھلا موقع دے گی۔ یہ تفصیلات سینیٹ میں بریفنگ سے قبل ہی سامنے آئی ہیں۔ اگر یہی حقائق ہیں تو پھر سینیٹ کے لیے بریفنگ کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ پارلیمنٹ کے سامنے تو ابھی الفا پراجیکٹ کی تفصیلات بھی پیش نہیں ہوئیں جن کی بنیاد پر ملک کے ایٹمی پروگرام اور اس کے لیے مددگار اداروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ بھی اس معاملے میں خاموش ہے اور حکومت نے بھی اپنے لب سی رکھے ہیں۔ ہماری حکومت کی اہمیت، طاقت اور ساکھ امریکہ کے سامنے بالکل اس طرح پڑی ہوئی ہے جس طرح لاہور کے ایک ہسپتال کے وارڈ میں غریب خاتون نے بے بسی کے عالم میں جان دی ہے۔ واشنگٹن کے مقابل اسلام آباد کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں ہے اور نہ اس سے بہتر منظرکشی کی جاسکتی ہے۔
ملک کی پارلیمنٹ جہاں اس موضوع پر غور اور بحث ہونی چاہیے تھی وہاں اس بات پر غور ہورہا ہے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہونی چاہیے یا نہیں۔ ملک میں اب نئی عدالتوں کے قیام کی تجویز ہے کہ جن میں ججوں کے نام افشا نہیں کیے جائیں گے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعد پارلیمنٹ نے دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری دی تھی، اب ان کی مدت مکمل ہوجانے پر نئی قانون سازی کے لیے مسودہ تیار کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ کہتے ہیں کہ ’’اگر فوجی عدالتیں قائم نہیں رہتیں جو کچھ مشکل لگ رہا ہے تو ہم دوسرے راستے کو اختیار کریں گے جس میں ہماری عام عدالتیں ہی کام کریں گی مگر گواہوں، پراسیکیوٹر، پولیس اور ججوں کو زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے گا تاکہ انتہاپسندی سے متعلق مقدمات کی سماعت نہ رکے۔ فوجی عدالتیں ختم ہونے کے بعد وہاں جاری تمام مقدمات سول عدالتوں میں منتقل ہوجائیں گے‘‘۔ حکومت نئی قانون سازی اور خفیہ عدالتوں کے لیے اس برطانیہ سے مدد لے رہی ہے جس کی کھلی آنکھوں پر پٹی باندھ کر وہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے عدم شواہد کے فیڈر میں دودھ پی کر الطاف حسین کے خلاف کیس بند کرا دیا ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت اس لیے مکمل ہوئی کہ پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس اب ختم ہوچکا ہے۔ جس وقت یہ قانون بنایا گیا تھا اُس وقت کسی کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ اس قانون کی زد میں ڈاکٹر عاصم حسین جیسے لوگ بھی آسکتے ہیں۔ اب ان جیسوں کو بچانے کے لیے لفظ دہشت گردی کی تعریف ہی تبدیل کی جارہی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ ان کی اتحادی جماعتیں ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
ملک میں اہم ترین معاملہ سی پیک کا بھی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ روٹ دراصل کاشغر سے شروع ہوکر گوادر تک پہنچتا ہے، لیکن ایک بیلٹ ایک سڑک کے چینی منصوبے کے مطابق اس میں روس، افغانستان، ایران، ترکی اور یورپ بھی شامل ہیں۔ یہ جرمنی تک پہنچ کر ختم ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیے اس منصوبے میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس منصوبے میں سندھ اور خیبر پختون خوا میں لگنے والے منصوبوں کو شامل کرکے سی پیک کا حجم 46 ارب سے بڑھ کر 54 ارب ڈالر ہوگیا ہے اور مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔ نئے منصوبے میں سندھ کے کوئلے کے ذخائر سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔ خیبر پختون خوا میں اہم سڑک جو گلگت چترال سے ہوتی ہوئی چکدرہ تک آئے گی، یہ سڑک قراقرم ہائی وے کو ایک نیا روٹ دے گی جس سے گلگت، شندور، چترال اور رشکئی اور چکدرہ کی الائنمنٹ کوریڈور کے ساتھ ملے گی، اس سے اس پورے علاقے کو بہت فوائد حاصل ہوں گے۔ میرپور سے مظفرآباد اور وہاں سے مانسہرہ جانے والی سڑک بھی قراقرم ہائی وے سے جُڑ جائے گی، اور اس طرح کوریڈور سے کشمیر کا علاقہ منسلک ہوجائے گا۔ وزارتِ پلاننگ کی رپورٹ کے مطابق نئے منصوبے جن پر اتفاق ہوا ہے، کی ٹیکنیکل فزیبلٹی اسٹڈی جب مکمل ہوجائے گی تو پھر حتمی لاگت کا اندازہ ہوگا۔اورنج لائن منصوبہ پہلے سے منظور ہوچکا تھا، اس کو بھی سی پیک میں شامل کرلیا گیا۔ اس سے چاروں صوبوں کو اپنے دارالحکومتوں میں سفر کی سہولت ملے گی۔
سندھ میں کے ٹی بندرگاہ کی وزیراعظم نے منظوری دی ہے۔ سندھ میں سونے کی طرح موجود کوئلے کے ذخیرے ہیں جنہیں آج تک بروئے کار نہیں لایا جاسکا۔ کوئلے کے ان ذخیروں کی مائننگ ہورہی ہے، ان پر پاور پراجیکٹس لگائے جارہے ہیں۔ سی پیک منصوبہ خیبر پختون خوا، بلوچستان اور کشمیر سمیت ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں بھی انقلابی تبدیلی برپا کردے گا۔ وزیراعظم نے سندھ کے منصوبوں کی منظوری دی اور چینی قیادت سے ملاقات کرکے انہیں منوایا۔ اب سی پیک کے حوالے سے کسی صوبے کا کوئی اعتراض باقی نہیں۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ یہ منصوبہ جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے، گیم چینجر ثابت ہوگا۔ یہ کس طرح ہوگا؟ اس کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہیں۔
اس وقت ملک کی معیشت کا حال یہ ہے کہ حکومت روز ایک ارب 30 کروڑ کے نوٹ چھاپ رہی ہے جس سے ملکی قرضے میں 900 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور بجلی کا گردشی قرضہ 660 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے جس کی وجہ سے بجلی کمپنیوں نے پیداوار بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث آئل کمپنیوں نے بھی اپنی ترسیل بند کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جس کے باعث وزیراعظم کی جانب سے 20 بڑے شہروں میں شروع کیا گیا لوڈشیڈنگ فری سسٹم بھی بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ اسلام آباد میں بھی گھنٹوں لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو پیک سیزن میں بھی بحران پیدا ہوجائے گا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ گردشی قرضے کو کم کرنے کے بجائے صرف کچھ ادائیگیاں کرے تاکہ آئندہ الیکشن سے قبل بجلی بحران پر قابو پایا جاسکے، اور اگر نئی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو اسے بحران کا سامنا کرنا پڑے۔ وزیراعظم نے بجلی بنانے والی کمپنیوں کے موجودہ گردشی قرضے اور حکومتی عدم ادائیگیوں کے حوالے سے ایک اجلاس بھی طلب کیا ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اجلاس آف دی ریکارڈ ہوگا جس میں حکومت پر ادائیگیوں اور کمپنیوں کو مالی بحران سے نکالنے کے حوالے سے حکومت کوئی حل پیش کرے گی۔
nn