مفتی منیب الرحمن

737

 فرائیڈے اسپیشل: مسلمان فرقوں اور مسلکوں میں بٹنے ہوئے ہیں‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب اصل چیز دین نہیں فرقہ اور مسلک ہے ایسا کیوں ہے اور اس سے نجات کا راستہ کیا ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن: اصل تو دینا سلام ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان دین عداللہ اسلام۔ اللہ کے نزدیک مقبول اور پسندیدہ دین صرف اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا فمھیغ فھین یبغ یفبل۔۔۔ سو جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یعنی اسلام ہے یہ جو مسالک ہیں یہ اس کی انٹرپٹیشن ہیں تعبیر ہے تشریح ہے ہماری عدالتیں ہیں اور خاص طور پر جو اعلیٰ عدالتیں ہیں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں جو مقدمات آتے ہیں اور خاص طور پر وہ مقدمات جن کا آئین کی تعبیر وتشریح سے اس کی ایپلی کیشن سے تطبیق سے تعلق ہوتا ہے تو مختلف ماہرین آئین و قانون اپنی اپنی تعبیر بیان کرتے ہین ان کی آرا میں اختلاف ہوتا ہے اور بعض اوقات آئین کی تعبیر وتشریح میں ججوں میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ لیکن یہ کوئی نہیں کہتا یہ آئین کے د ائرے سے باہر چلا گیا اس نے آئین کو رد کردیا اسی طرح سے دین اسلام اصل ماخذقرآن و سنت ہے لیکن جب اس کی تعبیر کی جائے گی اطلاق کیا جائے گا اور ہر دور میں جن مسائل کا انسان کو سامنا ہوتا ہے اس پر قرآن و سنت کواپلائی کیا جائے گا تو اس تطبق یا تعبیر و تشریح میں جو فرق ہوتا ہے اس کو اسلام کی یا دین کی نفی پر محمول نہ کیا جائے ھپر یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک سمجھتا ہے کہ مثلا ہم کہتے ہیں اہلسنت و الجماعت یہ قرآن و سنت کی اصل حقیقی تعبیر ہے جب وہ اپنے مسلک کی بات کرتا ہے تو یہ نہیں ہے کہ اس کو قرآن کے مقابل لاکر کھڑا کردیتا ہے یا اس کو سنت کے مقابل لا کرکھڑا کریتا ہے بلکہ اس کے متوازی جو تشریحات و تعبیرات ہیں ان کے مقابل وہ ترجیح دیتا ہے چنانچہ آئمہ و مجتہدین جن کی طرف مذاہب منسوب ہیں جیسے امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت اور امام مالک بن انس اصبحی‘ امام محمد بن ادریس الشافعی ‘ امام احمد حنبلؒ تھے یہ بھی تعبیر و تشریح قرآن و سنت کی کرتے تھے اور ان آڑ میں اختلاف ہوتا تھا کہیں یہ صحیح اور غلط کا اختلاف تھا او رکہیں یہ راجع اور مرجوع کا ہے مثال کے طور پر آپ سے کوئی پوچھتا ہے مجھے صدر جانا ہے کسی روٹ سے جائیں۔ میں ایک راستہ بتاہوں کہ آپ راشد منہاس سے شاہراہ فیصل سے ہوتے ہوئے چلے جائیں یہ سیدھا راستہ ہے آپ کہتے ہیں کہ راستہ بہت لمبا ہوجائے گا۔ لیاقت آباد سے ہوتے ہوئے چلے جائین میں یہاں پر ٹریفک بہت زیادہ ہے رکاوٹیں آتی ہیں۔ کبھی راجع اور مرجوع کا تقابل ہوتا ہے باطل دوسری راء بھی نہیں ہے لیکن بہتر رائے یہ ہی اور آئمہ کا اختلاف ان ہی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے کہیں پردہ کہتے ہیں یہ غلط ہے یہ صحیح ہے ہمارے ہاں جو لبرل لوگ ہیں وہ براہ راست اسلام کی نفی تو نہیں کسکتے تو وہ اپنے لیے گریز کے راستے اختیار کرتے ہیں۔ ایک کہتا ہے میں کون سے اسلام کو مانوں ‘ فلاں کے اسلام کو مانوں‘ فلاں کی اسلام کو مانوں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ترقی پسند اور ادباء و شعرا جو تھے ان میں مکاتب فکر نہیں تھے۔ وکلا میں جماعتیں تنظیمیں نہیں ہوتیں۔ ایک دوسرے کے مقابل ہوتی ہیں اسی طرح سے سیاسی جماعتیں نہیں ہوتیں کوئی جماعت یہ کہتی ہے کہ پاکستان کے آئین کی نفی ہم کررہے ہیں۔ سب یہی دعویٰ کرتے ہیں ہم آئین کے دائرے میں کام کررہے ہیں لیکن ہمارا پروگرام ‘ ہمارا منشور‘ ہمارا آئین‘ ہماری فکر بہتر ہے دوسرے کی بہتر نہیں ہے۔ اسی تعبیر ‘ تشریح اور تطبیق کے اختلاف سے کبھی میں نے میڈیا پہ نہین سنا کہ 10جماعتیں یا 25ہیں میرا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن میں تو شاید 50 یا اس سے زائد جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اتنی جماعتیں چھوڑیں سیاست تو بے کار کام ہے ۔ اسی طرح سے صنعتکاروں کی فیڈریشن ہیں چیمبرز ہیں‘ یہ فریب نفس ہے کہ ہم اسلام کو براہ راست رد نہیں کرسکتے تو چلو اس طرح کریں کہ مولوی لڑتے ہیں ہر ایک نے اپنا اپنا اسلام بنا رکھا ہے تو کس کو مانے او رکس کو نہ مانیں تو بت کے سامنے سنجیدہ کریں یہ کہاں سے ہوگیا۔ جب آپ اپنے عقل کو استعمال کرکے ان تمام شعبوں میں کسی ایک کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر اس عقل کو جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے آپ دین میں بھی استعمال کریں۔ آپ دلیل کو دیکھیں آپ مکالمہ کریں۔ بہترین شعار یہ ہے یہ تو دین کو رد کرنے کا حیلہ ہے‘ حربہ ہے‘ شرو نفس ہے‘ فریب شیطان ہے جو یہ راستہ انسان کو دکھاتا ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ ہم دین اسلام کے مقابل کھڑے ہیں۔یا دین اسلام کی نفی کرکے کھڑے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:
لبرل اور سیکولر لوگوں کی تنقید اپنی جگہ وہ خاصی پس منظر میں تنقید کرتے ہیں لیکن عملی جو صورتحال ہے آپ بھی اس سے اتفاق کریں گے کہ صرف رائے اختلاف تک نہیں یہ معاشرے میں اپنے اپنے گروہ کے ساتھ وابستگی میں شدت ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن: بات آپ کی درست ہے آئیڈل ازم تو یہی ہے کہ سب اسلام کا نام لیں اور کچھ بھی نہ ہو‘ لیکن یہ حقائق ہیں جو ہمارے سامنے موجود ہیں اور محض خوبصورت خواہشات کی بنیاد پر اس کو رد نہیں کرسکتے تاہم ابھی ایوان صدر مین سیرت کانفرنس تھی میں نے کہا کہ پہلے تو سارے اہل مذہب کو ملامت کرتے تھے یہ آپس میں لڑتے ہیں یہ نفرت کرتے ہیں۔ بہت ساری خرابیاں بیان کرتے تھے لیکن اب روز اہل سیاست آپس میں جھگڑتے ہیں اہل مذہب کو تو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے انہوں نے ایک د وسرے کی توہین کرتے ہیں‘ تحقیر کرتے ہیں‘تذلیل کرتے ہیں طعن و تشنیع کرتے ہیں‘ الزامات لگاتے ہیں ھپر یہ ہمارا مینوفیکچرنگ فالٹ یا ذہنی نہاد کا بھی مسئلہ ہی یہ نہیں ہے کہ صرف مذہب ہیں بلکہ اور چیزوں میں بھی مثال کے طور پر مختلف جماعتیں ہیں وہ جانتے بوجھتے اپنے لیڈر کی غلط بات کو بھی صحیح ثابت کریں گے دوسرے کے صحیح کو بھی غلط ثابت کریں گے حالناکہ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم اسلام کی روشنی میں دیکھیں تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف نہیں ہونا چاہیے حزب اقتدار اور حزب احتساب ہونا چاہیے کہ حکومت کرنے کا اختیار جس کے پاس ہے وہ حکومت کرے گا لیکن دوسرے اس کا احتساب کریں یا پھر حزب حق اور حزب باطل ہونا چاہیے کہ اگر حکومت کا موقف صحیح ہے تو اس کی تائید کرنی چاہیے۔ کسی اور کارنر سے کوئی اچھی بات کہتا ہے تو اس کی تائید کرنی چاہیے اس طرح کی جذباتی تفریق ہمارے معاشرے میں درآئی ہے نقدذکر گئی ہے یہ ہونی نہیں چاہیے اپنی بات کو منوانے کا کلچر چھوڑ کر قائل کرتے جسے کنویسنگ کہتے ہیں اس کو اختیار کرنا چاہیے اور دلیل و استدلال کے کلچ رکو رائج کرانا چاہیے اگر ہم اپنی بات دلیل سے کہیں دوسرے خی دلیل یا موقف کو سنیں یہ جو آپس میں تصادم ہے یہ ختم ہوجائے گا پھر وہ وقت آسکتا ہے کہ میرے اور کے اندر اختلاف ہے تو ہم کسی بات پر جمع ہوجاتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: دین کی حقیقی روح پیدا کرنے کے لیے ایسے اقدامات ہوسکتے ہیں جن کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں آنے والے سوالات کے جوابات ملیں؟
مفتی منیب الرحمٰن:
کچھ چیزیں ایسی جو ایک تسلسل ہے ؟؟؟؟ پھر یہ ہوا کہ 9/11 کے بعد دنیا نی نئے سرے سے جنم لیا ہے کچھ کنسپشن ‘ پرسیشن یا مفروضات لوگوں نے قائم کرلیے ہیں آپ چاہے سو طریقوں سے قائل کریں جس کے ذہن میں بٹھادیا ہے کہ اسلام نفرت سیکھاتا ہے اور مسلمان شدت پسند ہوتا ہے‘ جذبات ہوتا ہے ہمیں ان چیزوں کا سامنا ہے مثال کے طور پر ہم اگر اپنے خطے ہی کو لیں یہ مسالک پہلے سے موجود تھے لیکن تصادم نہیں تھا‘ ٹکراؤ نہیں تھا تصادم سے مراد جنگ وجدل اور لڑائی اور مسلح تصادم کہتے ہیں۔ مناظر تھے۔ بحث تھی ‘ دلیل تی‘ ہر کوئی اپنی اپنی بات کہتا تھا یہ نئے دور کا فنامنا ہے پھر مسلم ممالک میں تصادم ہوا جیسے عراق ایران کا ٹکراؤ ہوا پھر ہمارے ملک میں پراکسی وار در آئی‘ کوئی کسی سے وسائل کشید کرے‘ کوئی دوسرے سے وسائل حاصل کرنے کو ان کا ترجمان ہوجائے‘ کوئی ان کا ترجمان ہوئے‘ یہ جو باہر کے ممالک کے اثرات ہیں وہ اپنا سرمایہ کسی نہ کسی طریقے سے یہاں منتقل کرکے اپنے زیر اثر گروہ اور تنظیمیں پیدا کرین اس کا راستہ بند ہونا چاہیے اس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ایران عراق جنگ سے پہلے یہاں تصادم نہیں تھا ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے تھے بہت کچھ برسوں میں جھگڑا ہوا تو دھکادے یا ڈنڈا مار گیا۔ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ بم دھماکے ہورہے ہیں‘ کلاشنکوف چل رہی ہے۔ یہ فنامنا بعد کا ہے یہی چیز اب ہم مشرق وسطیٰ میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم سچ بولیں تو لوگ ناراض ہوتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مشرق وسطیٰ میں ٹکراؤ چل رہا ہے اس کے مظاہر ہم نے یمن میں د یکھے اور دیکھ رہے ہیں شام میں دیکھے اور دیکھ رہے ہیں۔ عراق میں بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ کچھ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے ہم پر جبراً نظریات کو مسلط کرنا چاہا اور انہون نے اپنیف وجین لاکر اتاردیں کہ ہم امن دینے آئے ہیں۔ اس لیے میں ان سے سوال کرتا ہوں آپ کو امن کی سوغات دینے آئے تھے لیکن آپ بتایئے صدام کا عراق زیادہ پر امن تھا یا آج امریکہ اور یورپ کا عراق وہاں تو تقسیم در تقسیم ہوگئی ہے قذافی؟ یہ مانا کہ یہ لوگ امر تھے۔ طالم تھے‘ قاتل تھے‘ سفاک تھے جو بھی تھے لیکن قذافی کا لیبیا پرامن تھا یا امریکا کا لیبیا پرامن ہے تمام اسلامی ممالک کا حشر کردیا گیا ہے ٹکڑے کیے جارہے ہیں یہ جو بیرونی نفوذ ہے یہ طاقتیں مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو آپس میں لڑ مر کر بھی کسی مرحلے پر آکر معامالت سیٹل ہوجائیں گے لیکن جب تک بیرونی نفوذبیرونی ایجنڈا وہ فیصلہ کریں گے کہ ہمارے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے تو یہ انتشار جاری رہے گا اور جاری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:
امت مسلمہ کے جس بحران کا آپ نے ذکرکیا ہے اس میں کشمیر ‘ فلسطین‘ عراق ‘ شام اوربرما ہر جگہ مسلمان مشکلات کا شکار ہیں اس صورتحال مین سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ان کی بداعمالیوں کی سزا دے رہا ہے کچھ لوگ اسے آزمائش کہتے ہیں اس حالت سے نکلنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن: یہ جو فساد برپا ہے ہم اس کی نفی تو نہیں کرسکتے اس کا کوئی آئٹم اور کوالٹی کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ ہوتی ہے۔ قرآن نے بیا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ کہ لوگوں کی اپنی کارستانیوں کی وجہس ے بروبہر میں فساد برپا ہوگیا۔ ابتلا و آزمائش تو ہے کہیں ہماری اپنی کمزوریاں اور کوتاہیاں ہیں اور کہیں اغیار نے ہم پر یہ حالات مسلط کردیے ہیں کہ اگر امریکہ اور روس لڑ رہے ہیں تو دونوں مل کر مسلمانوں ہی کو مار رہے ہین یہ نہیں ہورہا کہ یہ آپس میں لڑ رہے ہوں لیکن شام میں ان کے اپنے اپنے پسندیدہ گروپ ہیں جو کچھ اس وقت ہورہا ہے وہ مسلمانوں کی سرزمین پر ہورہ اہے اور مسلمانوں میں عالمی سطح پر قیادت کا فقدان ہے۔ مسلمانوں میں آپس میں بے اعتمادی بدنظمی ہے‘ بے نظمی ہے عدم استحکام ہے ہم نہیں سوچ سکتے تھے خہ دبئی جہاں جلسوں کے کلچر ہی نہیں ہے وہاں مودی کو بلا کر ایک بڑا جلسہ کیا جائے اور شیخ محمد ان کے پہلو میں بیٹھے ہوں‘ ہم نہیں سوچ سکتے تھے کہ سعودی عرب مودی کو اعلیٰ ترین اعزاز دیں کہ جب کہ اس وقت وہی مودی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہو خود ہندوستان میں مسلمانوں کو اس مفروضے یہ کہ اس نے گائے ذبح کی ہے ان کو ذبح کیا جارہا ہو‘ یہ چییں موجود ہیں ہم آنکھیں بند بھی کرلیں تو حقائق تو موجود ہیں اسی طرح افغانستان میں پہلے کرزئی تھے اب اشرف غنی ہیں جب ہمیں وہ بھارت کی آغوش میں نظر آتے ہیں تو دکھ اور افسوس تو ہوتا ہے۔اگر جھگڑے ہیں تو آپس میں ازالہ کرو لیکن کوئی کسی کی آغوش میں جارہا ہے اور کوئی کسی کی آغوش میں جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتلا ہے آزمائش بھی ہے اب یہ ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہے یا اگر ہم کہیں کہ دشمن کا مسلط کردی ہے تو یہ کمزوری ہم نے ہی پیدا کی ہے بلکہ میں جماعت اسلامی کے دوستوں اور بعض ہماری تنظیمیں ہیں جسے دفاع پاکستان کونسل وغیرہ آئے دن نعرے لگائیں گے امریکہ مردہ باد ‘ فلاں مردہ باد میں کہتا ہوں کہ ہمیں اپنی ناکامیوں کی ذمے داری خود قبول کرنی چاہیے اگر ہم میں کوئی امریکہ کی دلالی کررہا ہے تو یہ بھی ہماری کمزوری ہے لیکن ہم اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈال کر خودبری الذمہ ہوجاتے ہیں یہ کلچر بند کرو کہ دیواروں پر نعرے لکھ کر اپنی ناکامیوں کو اون نہ کریں۔ جب تک کوئی قوم‘ ملت‘امت یا طبقہ اپنی ناکامیوں کی ذمے داری قبول نہیں کرے گا تو بتائیں کہ ان کو بستی سے نکل کر بلندی کی طرف جو رجعت ہے واپسی پلٹنا ہے وہ نصیب ہی نہیں ہوگا علامہ اقبال نے اس چیز کو تو بیان کیا۔
وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا
کاروان کے دل سے احساس زیادہ جاتا رہا
احساس سے زیادہ تو یہی ہے کہ ہم سیلف کلکولیشن کریں‘ سیلف اسسنمٹ کریں اپنے ضمیر میں جھانکیں جس طرح فرد کا ضمیر ہوتا ہے اس طرح ملت اور امت کا بھی کلکٹوکونیشن ایسی ہوتا ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ اپنی ذمے داریاں خود قبول کرو‘مردہ باد کہتا ہے تو اپنے آپ کو کہو جب اپنی مردنی کا احساس ہوگا تو آپ زندگی کے لیے تگ و دو کریں گے اپنی پستی کا احساس ہوگا تو آپ رفعت کے بارے میں سوچیں گے لیکن آیہ فرض کرلیں گے کہ امریکہ ذمے دار ہے پاکستان کے تحفظ کا امریکہ ذمے دار ہے ہمارے اتحاد کا امریکہ ذمے دار پاکستان یا اسلام کے نیشنل انٹرسٹ کو اپ ہولڈ کرنے کا تو ہمیں کرنی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ امریکہ تو اپنے نیشنل انٹرسٹ کو دیکھے ا ان کو انے مفاد کو دیکھنا ہے ان کا مفاد عارضی طور پر ہماری بقا میں ہے تو ہماری بقا کرے گا اگر ان کا مفاد ہے کہ ان کو ختم کرو تو وہ ختم کرنے کے لیے سوچے گا اس میں وہ ناکام ہو یا کامیاب ہو یہ الگ بات ہے اس لیے ایک مومن اور مسلم کو ایک فرد کی حیثیت سے اپنا جائز تجزیہ کرنا چاہیے اسی طرح ایک قوم کی حیثیت سے ایک ملت و امت کی حیثیت سے بھی ہمیں اس شعار کو اپنانا چاہیے جو ہم نہیں کررہے۔ میں نے کوئی مجلس نہیں دیکھیں جس میں بیٹھ کر اس پر غور کریں کہ ہم سے غلطیاں کہاں کہاں ہوئی ہیں‘ ناکامیاں کہاں کہاں ہوئی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: عالم اسلام یا امت کس طرح ابتلا و آزمائش سے باہر آسکتی ہے کیسے ان میں تبدیلی آسکتی ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
میرا نظریہ یہ بھی ہے کہ مثلاً ہم اپنی حکومت سے کہیں اپنا حال یہ ہے کہ جو بندہ کرسی پر بیٹھا ہے اور ملک کو چلار ہاے ہمیں پسند ہو یا نا پسند ہو اس کو ہم وزیراعظم ماننے کے لیے تیار بھی نہیں ہے اب ہم ان سے کیا کہیں کہ آپ ان مناقشوں سے فارغ ہوں اور آپ جائیں اور امت کے مسئلوں پر بھی کچھ کریں کوشش کریں کہ سعودی عرب اور ایران کو ساتھ بٹھائیں کیونکہ مناقشہ تو وہاں بھی چل رہا ہے۔ ہم اپنے انتشار کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہین۔ ہم جب کرپشن کو مٹانے کی بات کرتے ہیں یہ ایک پرسن اسپیس فائی ایجنڈا ہوتا ہے کہ آپ کی کرپشن ختم ہونی چاہیے اپنے آپ کو کوئی مخاطب ہی نہیں کرتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ترکی اور پاکستان مل کر نواز شریف اور ادوان مل کر ایک نشست ایران کے ساتھ کریں دوسری سعودی عرب کے ساتھ کریں پھر دیکھیں کہ دونوں میں مشترکات کیا ہوسکتے ہیں سعودی عرب کو ایران سے کیا شکایت اور گلے ہیں ایران کو سعودی عرب سے کیا شکایت اور گلے ہیں ان میں کوئی مقاربت کی صورت پیدا کی جائے۔ پہلے مرحلے میں اس تصادم کو ختم کیا جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو پانچ سال گزرے ہیں آپ نے دیکھا کہ ایک دن بھی چین سے حکومت گزری ہے۔ ہمارے آزاد میڈیا کو اپنی دکان کی رونق چاہیے۔ نہ ملی مفاد سے عرض ‘ نہ دینی مفاد سے غرض ‘ نہ ملکی اور قومی مفاد سے غرض۔ بس شوروغوغا ہے اور یہ کہ ہم اپنے گاہک وک اپنی سکرین سے کیسے جوڑے رکھ سکتے ہیں۔ پھر یہ کہ ایک ہوتا ہے فرد او رایک ہوتا ہے منصب۔ ایک منصب پر ایک فرد کو قوم نے بٹھالیا ہے تو مناصب کی تحقیر و تذلیل توہین تو نہ کرو ناں۔ ہم فرد او رمنصب میں فرق کو محسوس نہیں کرپاتے ہم مملکت اور ریاست میں فرق کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ امت میں ایسی قابل احترام شخصیات ہوتیں۔ اہل دانش ہوتے ‘ اہل فکر ہوتے وہ کوئی غیر سرکاری سطح پر جاتے او رایران سے مکالمہ کرکے سعودی عرب سے کرتے اس کو میں دانش کا افلاس کہوں قابل احترام شخصیات کا فقدان کہوں نہ ملکی سطح پر ایسی شخصیات ہیں جو سیاست دانوں کو بٹھائیں کہ مشترکہ ایجنڈے پر آجاؤ۔ لڑو لیکن لڑائی کی حدود ہونی چاہئیں قومی مفاد کے بھی کچھ مشترکات ہونے چاہئیں۔ اسی طرح سے امت کا مسئلہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ترکی اپنی پرانی شناخت کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں ترکی کا اہم کردار ہوگا آپ کا اس حوالے سے کیا خیال ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن: مجھے ایک دو بار ترکی جانے کا موقع ملا ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان نے ترکی کی گرتی ہوئی معیشت کو اٹھایا اور اپنی قوم میں ایک جذبہ پیدا کیا اس سے مجھے امید ہوچلی تھی کہ اسلام کی نشاۃ مقدر ہے اللہ کی بارگاہ میں یا مستقبل قریب میں ترکی میں اس کا پوٹینشل یا امکانات زیادہ ہیں ایک تو یہ کہ سینٹرل ایشیا تک بلکہ سنگ یانگ تک ترک اقوام ہیں لیکن ترکی کو خود اپنے اندر مسائل میں مبتلا کردیا گیا۔ اسی طرح بغاوت کو خرد کرنے کے بعد رجبا ردوان کی جو نئی شخصیت سامنے آئی ہے اچھی بات ہے لیکن ان کو پیکر عجز و انکسار بھی بننا چاہیے تھا اور دوبارہ اپنے معاشرے کے اجزا کو مجتمع کرنے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے کیونکہ صرف انتقامی جذبے سے سرشار ہوکر اپنے مسائل کو حل نہیں کرسکتے۔ آپ کی لیڈر شپ مسلم ہوگئی ہے لیکن لافانی تو کوئی بھی نہیں ہے دوسرا آپ کی جگہ آئے گا تو ہوسکتا ہے اس کو عوام کا اتنا اعتماد حاصل نہ ہو میرا خیال یہ ہے کہ ہمارے ہاں سے چند اصحاب فکر کو وہاں جاکر رجب طیب اردوان صاحب سے ملاقات کرنی چاہیے اور ان سے کہیں کہ اب تھوڑا سا خالی الذہن ہوکر دیکھیں کہ معاشرے کے جو متفرق اجزا ہیں انہیں کس طرح مجتمع کرسکتے ہیں میں ابھی یورپی یونین کے ممالک میں گیا تو مجھے بتایا گیا بھی دیانتی اور گولانٹ مذہبی طبقات یا مراکز یا ادارے چلارہے ہیں دیانتی سے مرا دیہ ہے کہ مذہبی پریزیڈنسی کو وہ دیانت سے تعبیر کرتے ہیں کچھ تو ان کے تابع چل رہے ہیں یعنی حکومت کے اور کچھ گولانٹ کہلاتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ چیزیں مشترک ہیں مثلاً یہ کہ میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ یو کے میں امریکہ میں جو پاکستانی ہیں وہ آپس میں مل کر اپنا سیاسی وزن پیدا کریں جیسا بھارتی رکھتے ہیں وہاں کی سیاست پر اثر انداز ہوں وہاں پاکستان کو نقصان پہنچانے والی پالیسیاں نہ بنیں لیکن ہمارے سیاست دان کیا کرتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کا دھڑا الگ ہونا چاہیے ق کا الگ ہونا چاہیے پی پی پی کا الگ پی ٹی آئی کا الگ ہونا چاہیے۔ نواز شریف جائیں تو پی ٹی آئی والے ان کے خلاف نعرے لگائیں وہ جائیں ن لیگ والے نعرے لگائیں میں نے گولانٹ اور دیانتی کی تقسیم دیکھی تو مجھے لگا کہ یہ تو ہمارا والا کام کررہے ہیں باہر ہمیں اپنے لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے ان کو مجتمع کریں تاکہ وہاں کی ریاست اور سیاست میں ان کا وزن ہو ان کی Say ہو ان کو اہمیت دی جائے۔ یو کے میں بھارتیوں سے پاکستانی زیادہ ہیں اور بڑی تعداد ہے لیکن وہ بھی بٹے ہوئے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ علماء کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طبقے سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اجتہاد کا دروازہ صدیوں سے بند کیا ہوا ہے اس کی وجہ سے امت جمود کا شکار ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں ایک جگہ کچھ اہل علم بیٹھے تھے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر نے مجھ سے کہا کہ سعودیہ والوں کو آپ سے بڑا گلہ ہے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں میدان میں آکر ان کی حمایت کروں میں نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ گلہ ہے ان سے انہوں نے ایک محدود طبقے کو قریب کرلیا اور باقی جو مسلمان ہیں ان سے تعلق توڑ لیا میں نے کہا کہ آپ بتائیں پاکستان اہل سنہ و الجماعت سے سعودی عرب نے کسی سطح پر کوئی انٹرکشن کیا میں نے ان سے کہا کہ وہ ہم سے مکالمہ کریں ہم تیار ہیں۔ آپ حرمین طیبین کے محافظ و خادم کہلاتے ہیں۔ کسٹوڈین کہلاتیہیں آپ امت کو مجتمع کرنے کی کوئی تدبیر کریں لیکن نہیں کرتے۔ آپ انتشار کو کم کرنے کی کوشش کریں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ساری خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ حکمران وسیع النظر ہونے چاہیں۔ یہ جو چینلوں پر کہا جارہا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند کردیا ہے تو ان کی مہربانی ہوگی کہ وہ بتادیں کہاں تالے لگے ہوئے ہیں۔ اجتہاد کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا۔ اجتہاد کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ جو مسئلہ یا نئی صورتحال درپیش ہوگئی ہے تو امت کے اہل فکر اور اہل علم اہل نظر ہیں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ان نئے مسائل کے حل نکالیں کبھی کبھی ابتدا میں اختلاف ہوتے ہیں پھر آخر کار ایک نقطے پر مجتمع ہوجاتے ہیں۔ اجتہاد ایک آن گوئنگ پراسس ہے۔ جاری عمل کا نام ہے یہ کبھی بھی بند نہیں ہوسکتا۔ فقہی مسائل میں بھی بند نہیں ہوسکتا‘ نئی تحقیقات ہمارے سامنے آتی ہین اور ہمارے ہاں فقہ میں ان کو حوادث النوازل کہتے ہیں کہ جب نئی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جس کا حل ہماری قدیم فقہی سرمائے میں نہین ہے جس طرح اعلیٰ عدالتیں کرتی ہیں جن کو ہم عدالتی نظام کہتے ہیں کہ بعض عدالتی نظائر سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں بعض اوقات کوئی راہ نمائی نہ ملے پھر وہ اپنا نیا اجتہاد کرتے ہیں نئی سوچ دیتے ہیں یہی ہماری فقہ میں بھی ہے اجتہاد کوئی توحید پر تو ہونا نہیں ہے اجتہاد تصور نبوت و رسالت پر بھی نہیں ہونا اجتہاد اس پر بھی نہیں ہونا کہ قرآن میں سے کسی کو قبول کرنا ہے کس کو رد کرنا ہے معاذ اللہ یا احادیث میں۔ اجتہاد اس کا نام ہے کہ ہم اپنے پیس مدہ مسائل کا حل کیسے نکالیں۔ اس لیے اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کھلا ہے ہاں بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ کس درجہ ہوئے بے توفیق فقیہاں حرم
یہ ہم سے نہیں ہوسکتا کہ اب یہ صورتحال ہوگئی ہے تو ہم قرآن کو بدل دیں ہم تو قرآن کی تعبیر کریں گے۔تشریح کریں گ ے حدیث کا انتباق کریں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: علماء ہمارے جدید دنیا کے سیاسی معاشی ‘ تمدنی مسائل کا حل وقت اور حالات کے مطابق پیش کررہے ہیں؟
مفتی منیب الرحمٰن:
بالکل کررہے ہیں اسلام نے بہت سی چیزوں کو اوپن چھوڑا ہے مثال کے طور پر جب جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو آپ عدالت کے سربراہ بھی تھے ‘ ریاست کے بھی سربراہ تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی آتی تھی آپ لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے بعد میں جب خلافت کا نظام قائم ہوا تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ۔۔۔ بنی اسرائیل کی سیاست کے جو معاملات تھے وہ انبیاء کرام انجام دیتے تھے ایک نبی وصال کرجاتا تو دوسرا نبی آتا۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ میرے بعد خلفا ہوں گے پھر خلافت کا نظام آیا خلفاء نے بھی مشاورت کا نظام قائم کیا اس کے بعد ملوکیت کے ادوار آگئے۔ اسلام مین حکومت کے مقاصد اور فرائض ہیں متعین ہیں جو نظام اس کو بہتر طور پر انجامد ے وہ ٹھیک ہے اس میں توسط ہے ہمارے ہاں بہت سے گروپ ہیں جیسے داعش ‘ القاعدہ ہیں وہ جمہوریت کو کفر کہتے ہیں لیکن ہم نے اسے کفر نہیں کہا لیکن ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوریت ہر لحاظ سے کامل اور مکمل نظام نہیں ہے۔ یہ مغرب والے بھی کہتے ہیں جمہوریت میں یہ خامیاں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی خامیوں کا ازالہ مور ڈیمو کریسی ہے۔ لیکن کوئی یہ کہے کہ جمہوریت کل کی نمائندگی کرتی ہے مثلاً کسی ملک میں شرح ووٹنگ 60 فیصد ہے 40 فیصد تو گھر بیٹھے ہیں۔ ان کی ر ائے تو نہیں آئی کسی ملک میں 50 فیصد ہے تو 50 فیصد کی رائے تو نہیں آئے بعض اوقات یہ شرح 25 ‘30 اور 35 فیصد ہوتی ہے اور اس میں بھی کسی کو 10 فیصد ملے کسی کو 15 فیصد ملے وہ حکام بن گیا ہم یہ فرض تو کرلیتے ہیں کہ وہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ سب کا نمائندہ ہے یہ ہمارے نظام کی ضرورت یا مجبوری ہے لیکن سب کا مینڈیٹ یا توثیق تو حاصل نہیں ہے۔ جس کو جمہوریت کاملہ مطلقہ ہم کہیں وہ تو روئے زمین پر نہیں ہے خود امریکہ میں بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ امریکہ میں 100 فیصد نے کسی ایک شخص کو ووٹ دیا بلکہ وہاں کی جمہوریت تو عجیب ہے مثلاً ایک ریاست الیکٹول کالج میں 50 فیصد ووٹ ہیں اور ووٹر 5کروڑ یا 7 کروڑ ہیں ان میں سے ایک کو 51 فیصد نے دے دیا تو ان کے سسٹم میں 49 فیصد زیرو ہوگیا جس کو 49 فیصد نے ووٹ نہیں دیا وہ کامیاب ہوگیا جیتنے والا کیسے حقیقی نمائندہ ہوسکتا ہے اس لیے یہ کہنا کہ جمہوریت مکمل نمائندگی کرتی ہے ایسا نہیں ہے اس کا متبادل جب تک نہیں ہے یہ چل رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اگر اس مسئلے پر اجتہاد کے لیے کوئی آتا ہے تو علماء کے پاس کا کیا حل ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن: میرے پاس حزب التحریر کے نوجوان آتے ہیں ان کی فکر یہ ہے کہ ہمیں نظام خلافت قائم کرنا ہے او رپورے عالم کے لیے قائم کرنا ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ بڑی اچھی فکر ہے آپ کی لیکن وہ خلیفہ کیسے چنیں گے۔ وہ آسمان سے اترے گایا دمشق کے مینار سے اترے گا کوئی نہ کوئی تو ہیت ہوگی جمہوریت تو ہوگئی کفر آپ نے 25 سال میں کتنے بندے بنائے ان سے کون سے انقلاب لائیں گے اس لیے جب تک کوئی اور متبادل موجود نہیں ہے تو ہم کہتے ہیں جو نظام ہے اس کو چلنے دو یہ ہمارا اجتہاد ہے۔ ڈاکٹر اسرار کی تنظیم نے اپنے پروگرام میں مجھے بلالیا ہماری تبلیغی جماعت ہو‘ دعوت اسلامی ہو ‘ تنظیم اسلامی ہے ان کی بنیادی اپروچ تو یہ ہے کہ بندوں کو ٹھیک کریں۔ یہ انتخابات اور جمہوریت فساد ہے میں نے کہا کہ یہ تھیک ہے آپ نے 50 سال میں کتنے بندے تیار کرلیے تاکہ میں حساب لگاؤں کہ آئندہ 25 ہزار سال یا 50 ہزار سال میں ہم اس قابل ہوں گے کہ غالب اکثریت کو ٹھیک کرلیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ شیطان ہماری انتظار میں بوریہ بستر باندھ کر سوجائے گا اس لیے آپ سب لوگوں کی اصلاح کی کوشش کریں لیکن جہاں پر ہمارے ملک کے فیصلے ہوتے ہیں اس کو آپ دوسروں کے ہاتھ میں دے دیں۔سو فیصد طلبہ میں آپ فریاد کرسکتے ہیں چلاسکتے ہیں ہمارا جو سیاسینظام ہے اس میں جو بندہ خدا ہے اس کی Say ہے جو باہر ہے وقعت نہیں چاہے ختنا ہی پارسا ہو ‘ کتنا ہی متقی ہو کتنا ہی صاحب علم ہو لیکن وزن اس کا ہے جو نظام خے اندر موجود ہے۔ جن لوگوں نے اس نظام کو باطل کہا ان کا اپنا تجربہ ہے کہ انہوں نے اب تک اس سے کیا حاصل کیا جو اصلاح کی کوشش کررہے اس کے لیے تو ہجور ہوں گے۔ وہ جب ایک خاص شعبہ میں لگے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں ہم تو اپنی بات کریں گے کہ لوگ ہمیں بے ضرر سمجھیں ہم رکاوٹ نہ بنیں ایسا حق کون سا ہے کہ جس کو باطل اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے جب آپ حق کا پیغام لے کر جائیں گے تو جس پر حق کی ضرورت پڑے گی وہ آپ کے راستے کی رکاوٹ بھی بنے گا اور آپ کو چیلنج بھی سمجھے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: کسی مسئلے پر اجتہاد کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘ علماء کریں گے یا اسلامی نظریاتی کونسل کرے گی؟
مفتی منیب الرحمٰن:
فیصلہ کرنے کا اختیار ان کے پاس ہے جو سسٹم یں بیٹھے ہیں ہم یہ کہیں گے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ بتایا ہے کہ اسلام کے مطابق ہے یہ ا سلام کے خلاف ہے تو آپ مانیں گے کیونکہ جمہوریت اپنی ساخت یا مائنڈ سیٹ اپنی نہاد یا اپنے پس منظر کے اعتبار سے تو سیکولر ہے وہ کہیں گے کہ عوام سے ووٹ لے کر ہم آئے ہیں یہ ہمیں ڈکٹیٹ کریں گے۔ چنانچہ الماریاں بھری ہوئی ہیں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی اور آئین میں لکھا ہے کہ دو سال میں پارلیمنٹ اس پر بحث کرے گی اور اس کے مطابق فیصلے کرے گی اگر کسی چیز کے بارے میں ریزویشن ہے تو ریفر کرے گی۔ وہ یہ کام ہی نہیں کررہے لیکن ہمارے پا س جبر کرنے کے لیے کوئی آلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی گروپ آکر کھڑا ہوجائے تو ہتے ہیں کہ نظام کو پیرالائز کرتے ہیں تصادم کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ تصادم کی نوبت نہ آنے دیں۔ ایک کانفرنس تھی اس میں صوبائی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو موجود تھے ہم نے کہا کہ ہم نے پریس کانفرنس کی ‘ بیان دیا‘ ہم نے فریاد کی‘ آپ نے نہیں سنی اب ہمارے پاس اس کے سوا کیا ہے کہ ہم ساری جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں آپ کے مقابل ایک سیدھی ساداسی بات ہے آپ کیوں اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں آپ اپنے بڑوں کو ہمارا پیغام پہنچائیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوگا۔ اس کے بعد یہ خبر آئی تو ہے کہ آصف علی زرداری نے سراج الحق صاحب کو فون کیا ہے کہ ہم اس کو بدلیں گے۔ سسٹم والے ہیں ان کو چاہیے کہ عوام کی جائز بات کو مانیں‘ اہل مذہب کی بھی جائز بات کو مانیں اور اڑیل پن کا مظاہرہ نہ کریں تاکہ نظام چلتا رہے۔ کسی بات کو نہیں مانیں گے تو پھر فساد آتا ہے۔ ڈیڈ لاک آتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اسلام کا بنیادی تقاضہ ہے کہ یہ بتایا جائے کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے اور یہ بتائیں کہ باطل کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے۔ سیدنا موسیٰ نے فرعون کو چیلنج کیا ابراہیم علیہ السلام نے جہاں یہ بتای اکہ توحید اور اس کے تقاضے کیا ہیں وہیں انہوں نے نمرود کو بھی چیلنج کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کو چیلنج کیا لیکن ہمارے زمانے میں علما حق تو بیان کردیتے ہیں لیکن وہ باطل کو چیلنج نہیں کرتے بلکہ باطل کا نام بھی نہیں لیتے مثلاً امریکہ یورپ عصر حاضر کی نمایاں ترین علامتیں ہیں؟
مفتی منیب الرحمٰن:
پتا نہیں آپ سے کس نے کہہ دیا کہ علما یہ نہیں کرتے۔ ہر عالم کو یہ چاہیے کہ اپنے عہد کے باطل کو باطل کہے اور اپنے عہد کے حق کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہیے حق کیا ہے جو قران و سنت کے مطابق ہو ایک بات یہ بھی سمجھ لیں کہ ہمارا جو لبرل میڈیا ہے وہ یہ سوچ لیتا ہے کہ علماء کے اختلافات ہیں یہ جس کے حوالے سے پہلے بات ہوئی۔ ایک پرنسل لا ہے اور ایک کامن لا ہے پرنسل لا میں مثلاً نماز ہاتھ لینے پر باندھ کر پڑھیں یا نہ باندھ کر پڑھیں اس کا ہمارے سسٹم سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ یہ اک نے ایک روش اختیار کر رکھی ہے اس اجتہاد کو تسلیم کر رکھا ہے ریاست سے جن معاملات کا تعلق ہے وہ ہیں کامن لا کے بارے میں کان لا کے بارے میں آپ کو بڑے اختلافات نظر نہیں آئیں گے یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات بالعموم متفقہ ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ حیلے بہانے کے لیے ہوتا ہے۔ ریاست کو یہ بات نہیں طے کرنی کہ آپ ہاتھ اوپر باندھ کر نماز پڑھیں یا نیچے باندھ کر پڑھیں ریاست کو یہ طے نہین کرنا کہ آپ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھیں یا نہ پڑھیں یا آپ امین بالجیر کہیں یا نہ کہیں یا رفع یدین کریں یہ نہ کریں یہ لوگ اپنے اپنے طریقے کے مطابق کرتے ہیں۔ ریاست سے متعلق جو معاملات ہیں وہ کامن لا کے ہیں جو عام معاشرے کے لیے جائز و ناجائز ‘ حلال و حرام کے ہیں اس میں کوئی بڑے اختلافات نہیں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
آپ اقبال کی اس تنقید کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
مفتی منیب الرحمٰن:
میرے دور میں علامہ اقبال ہوتے تو میں ضرور ان کے پاس جاتا اور اپنے دور کے جو صاحبان نگاہ تھے ان کو اقبال نے مانا بھی ہے مجدد الف ثانی کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور غالباً پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کو بھی وہ مانتے تھے بات یہ ہے کہ ہماری قوم اپنے مزاج کے اعتبار سے منافقانہ روش رکھتی ہے۔ اقتدار کو اہل مذہب کو نہیں دیں گے اور ناکامیوں کا سوال اہل مذہب سے کریں گے حالانکہ یہ سوال ان سے کرنا چاہیے جن کے پاس اقتدار ہے۔ اقبال کو گلہ نہیں کرنا چاہیں کیونکہ اگر انہوں نے تصور پاکستان پیش کیا تھا تو ایک طبقے نے ان کی مخالف کی تھی بڑے مذہبی طبقے نے اس کی حمایت کی تھی ان میں ہمارے روحانی مراکز کے لوگ بھی تھے ہمارے مدرسہ و مسجد کے لوگ بھی تھے اس لیے جب فیصلے کا وقت آیا تو انہوں نے حمایت کی اور حمایت کے لیے کھڑے ہوئے ساتھ دیا اور حضہ نہیں مانگا بلکہ اپنا وزن الگ وطن کے مطالبے میں ڈالا۔ اسی اقبال نے کہا ہے۔
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمئی اصرار
یہ بابا جو مجدد الف ثانی مدرسے کی پیدوار تھے اور کوئی کھڑا ہوا جہانگیر کے سامنے اس لیے علامہ اقبال کو بھی سلام کرنا پڑا اور تحسین کرنی پڑی تو مجدد کو کرنی پڑی۔ اس لیے صاحب فکر بھی تھے ‘ زندگی بھی تھی ‘محبت بھی تھی ‘معرفت بھی تھی ‘نگاہ بھی تھی ‘حکمت بھی تھی۔ آج کل کی جیلوں سے لوگ ڈرتے ہیں ذرا اس دور کا تصور کریں کہ ایک مطلق بادشاہ بنا ہوا ہے اور اس کے اشارہ ابرو سے لوگوں کی جانیں جاسکتی ہیں اس کے سامنے کھڑے ہونا کوئی آسان بات ہے اس لیے ہر دور میں اہل اللہ موجود رہے ہیں۔ پاکستان میں ختم نبوت کی تحریک آئی اس تحریک کے لیے سب اکٹھے ہوئے اب بھی اگر وقت آئے گا تو لوگ اکٹھے ہوں گے میں نہین کہتا کہ سوفیصد معاشرہ کسی ایک سانچے میں تو نہیں ڈھل سکتا لیکن غالب اکثریت آپ کو اچھی ملے گی۔
فرائیڈے اسپیشل: دین کا بنیادی تصور دو چیزوں پر ہے تقویٰ اور علم لیکن ہمارے معاشرے میں دونوں چیزوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے معاشرے کا سکہ رائج الوقت دولت‘ شہرت او رطاق تہے اس کا کیا سبب ہے اور ا س سے نجات کیسے مل سکتی ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آثار قیامت کے بارے میں بتایا تھا کہ کس کس طرح کے حالات آئیں گے ان میں سے ایک یہ تھا کہ معاشرے میں کسی کی تکریم ‘ احترام ‘ عزت اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ آپ کو کتنا نقصان پہنچاسکتا ہے۔ اس کے شر سے ‘ اس کے فساد سے یا اس کی دہشت سے اس کید اداگیری سے‘ اس کی بدمعاشی سے بچنے کے لیے لوگ عزت کریں تو کیا ہمار امعاشرہ اس دور سے نہیں گزرا۔اس طرح فرمایا کہ گانے بجانے والوں کا آلات لہو و لعب کا دور دورا ہوجائے گا۔ فرمایا شراب نوشی بدکاری عام ہوجائے گی‘ ہمارے ہاں کوئی گانے والا انڈی اکا مرجائے تو ہمارا میڈیا آسمان سر پر اٹھالے گا کبھی ہمارے میڈیا نے صاحب علم کی تکریم کی ‘ کبھی کسی صاح: علم کے اٹھ جانے پر اتنا خراج تحسین پیش کیا‘ مجموعی قومی مزاج میں خیر کا غلبہ نظر نہیں آتا ہونا تو یہ چاہیے کہ صاح: علم اور صاحب تقویٰ کی تکریم ہو ان کو لوگ علم ‘ کردار اور تقوے کی وجہ سے آگے بھیجیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اس سے نجات کی صورت یہ ہے کہ اہل دین متحد ہوں مجتمع ہوں لوگوں کو تعلیم دیں آپس میں وحدت پیدا کریں شاید بتدریج بہتری آجائے۔
فرائیڈے اسپیشل: معاشرے میں ایک طرف تو مذہبیت بڑھ رہی ہے دوسری طرف جھوٹ‘ منافقت‘ دھوکا‘ بے ایمانی‘ انسان کی تذلیل‘ لاقانونیت‘ بدکرداری بھی بڑھتی جارہی ہیں ایسا کیوں ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
اسے آپ یوں تو تعبیر کرسکتے ہیں کہ معاشرے میں مذہبی رجحانات مین اضافہ وہرہا ہے یہ آپ نہیں کہہ سکتے کہ غالب آچکے ہیں آپ مجھے بتائیں کہ پنج وقتہ نماز میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو جمعہ میں ہوتے ہیں اور ہر جمعہ وہ لوگ ہوتے ہ یں جو عید میں ہوتے ہیں کیا عید میں بھی سو فیصد لوگ ہوتے ہیں سارے لوگ اگر آجائیں تو مساجد میں گجہ نہ رہے ابھی بھی اصلاح کی بڑی گنجائش موجود ہے۔د وسرا یہ ہے کہ ہماری دعوتی اور تبلیغی جماعتیں ہیں ان کو چند نکات تک محدود ہونے کے بجائے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے امربالمعروف آسان ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ آیئے نماز پڑھیں۔ آپ آگئے تو الحمدللہ‘ ماشاء اللہ۔
فقیرانہ آئے صدا کر چلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے۔
لیکن شراب خانے سے پکڑ کر لانا یہ ذرا مشکل کام ہے نہی عن المنکر کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے اور جمعہ کے اجتماعات میں بھی منکرات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اس کی کمی ہے منکرات والے ذرا طاقتور بھی ہوتے ہیں ان کو چیلنج کرنا ضرور ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو عبادات میں موجود ہیں نماز‘ روزہ‘ حج وغیرہ کر بھی رہے ہیں ساتھ میں ان برائیوں میں مبتلا ہیں جن کا ذکر آچکا ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
ہماری فلموں یا ڈراموں میں دکھاتے تھے ابھی چوری کررہا ہے پھر دکھایا کہ مصلح بچھایا اور نماز پڑھ رہا ہے اس سے پوچھا یہ کیا تو اس نے جواب دیا وہ میرا پیشہ ہے یہ میرا فرض ہے اس دوئی نے بھی خربا کیا میں پاکستان چیمبرز آف کامرس کے استقبال رمضان کے پروگرام میں گیا میں نی کہا کہ لوگ طعن کرتے ہیں کہ جتنے ہمارے صنعتکار ہیں اکثریت اچھے لوگ ہین نمازیں پڑھتے ہیں‘ عمرے کرتے ہیں‘ حج پر جاتے ہیں لیکن جتنے بے حیائی کے اشتہارات ہیں ان ہی کے ہیں رمضان میں بھی ٹی وی پروگراموں کو اسپانسر کریں گے تو یہ نہییں کریں گے کہ مذہبی آگاہی کا پروگرام کرو ہم اس کو اسپانسر کریں گے جس میں ہلہ گلہ ہوگا جس میں اچھل کود ہوگی بے اعتدالی ہوگی اس کو اسپانسر کریں گے یہ عمل تضاد ہے اس عملی تضاد و نفاق سے نکلنا ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے معاشرے میں وعظ اور تلقین کا کام بڑے پیمانے پر ہورہا ہے لاکھوں علما ہر جمعہ میں خطاب کرتے ہیں لیکن ان باتوں کا اثر معاشرے میں نظر نہیں آتا۔ ایک فکر یہ ہے کہ علماء کے الفاظ کی تاثیر ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
علما میں بھی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ علمائے بنی اسرائیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تم لوگوں کو نیکی کا حخم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہوحالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ ایک تو یہ ہے کہ تضاد سے تاثیر نہیں ہوتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا تھ اکہ اے اللہ میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ علم نفع رساں ہونا چاہیے تاثر بھی ہے لوگ آتے ہیں میں نہیں کہتا کہ انقلاب برپا ہوگیا ہے لیکن جب سے آزاد میڈیا آیا ہے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ممبر کا ایکسس زیادہ ہی اب الیکٹرونک میڈیا کی ایکسس بڑھ گئی ہے وہ جو خرابیاں پیدا کرتے ہیں ان کی رسائی پوری دنیا تک ہے ممبر سے جو بولے گا ان کی رسائی ان تک ہے جو سامنے بیٹھے گا وہ چند سو ہیں یا چند ہزار ہیں۔ میڈیا غالب طور پر ماڈریشن کا لبرلزم کا ‘ آزادی کا ‘ بے راہ روی کا ‘کا داعی ہے کیونکہ ان چیزوں کے فروغ پانے سے اس کا کاروبار فروغ پاتا ہے میڈیا کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے میں میڈیا مالکان سے کہتا ہوں کہ وہ خود ضابطہ اخلاق وضع کریں ان کو بھی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے امریکہ کا دورہ کیا ہے آپ وہاں سے کیا تاثر لے کر آئے ہیں؟
مفتی منیب الرحمٰن:
امریکہ کا متعدد مرتبہ دورہ کرنے کا موقع ملا ہے بعض مواقع پر ان کے کانگریس مین اور اسٹیٹ ڈییارٹمنٹ کے لوگوں سے بھی تبادلہ خیال ہوا ہے ہم ان سے کہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں آپ نے مفروضات قائم کیے ہیں جب تک آپ ان کو نہیں نکالیں گے نہ آپ صحیح تجزیہ کرسکیں گے نہ آپ نتیجے پر پہنچ سکیں گے۔ پاکستان کے سلسلے میں انہوں نے یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ دینی مدارس کا نصاب عسکریت اور انتہا پسندی پیدا کرتا ہے ان کو ہم نے بتایا کہ یہ جو نصاب ہمارے دینی مدارس میں رائج ہے یہ دو ڈھائی سو سال سے ہے اس نے کبھی بھی نہ دہشت گرد پیدا کیے‘ نہ عسکریت پسند پیدا کیے‘ نہ معاشرے میں ان کی وجہ سے کوئی تصادم ہوا۔ اس دوران میں تحریک آزادی چلی ‘ پاکستان قائم ہوا مدارس کا کوئی منفی کردار اس میں کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ صورتحال جہاد افغانستان کے بعد ہوئیا ور جہاد افغانستان کے موقع پر دنیا بھر سے جو افغانستان آئے ان کو لانے میں امریکہ بھی تھا‘ یورپ اور سعودی عرب بھی تھا یہ ساری ریاستیں اور ممالک تھے کیونکہ اس وقت ان کا مفاد تھا کہ روس کو شکست دی جائے۔ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو ان کی ذمے داری تھی جہاں دنیا بھر سے لاکر بٹھادیا گیا ان کو اسلحہ بھی دیا جدید ٹیکنک بھی دی ریسورسز دیے اب ان کی ریاستیں ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں آپ افغاسنتان سے جانے سے پہُے یہاں باقاعدہ نظم قائم کرتے ان لوگوں کو ریاست کی دفاعی فورس میں جذب کرتے تویہ مصروف ہوجاتے آپ ان سب کو ہمارے حوالے کرکے چلے گئے یہ پوسٹ افغان جہاد کے مسائل ہیں۔ اس جن کو آپ نے بوتل سے نکال تو دیا لیکن بند کرنے کا منتر آپ کے پاس نہیں ہے۔9/11 کے بعد ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی۔ ہمیں نہیں معلوم صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے لیکن جو الزام لگاتے ہیں ان میں کوئی پاکستانی نہیں ہے افغانی کوئی نہیں ہے لیکن آپ یلغار کردیتے ہیں پاکستان اور افغانستان پر اور پورے ملک کو تاراج کردیتے ہیں اس کے بعد کے اثرات اس سے بھی مختلف نکلے پھر میں نی و ہاں ایک لیکچر بھی دیا کہ ایک ہوتا ہے انڈیوجول کونش ایس او رایک ہوتا کلکٹوکونشیس ایک ہوتی ہی یکلکٹوویل میں کہا کہ کسی قوم کی کلکٹوول کو ریفکٹ ہوتی ہے اس کی پارلیمنٹ سے کانگریس سے منتخب اداروں سے لیکن کسی قوم ی کلکٹووزدم اس قوم کی دانشوروں سے ایفلکٹ ہوتی ہے کسی قوم کی یکلکٹوکونشیس اس کے اہل فکر و نظر سے ظاہر ہوتی ہے مثلا لارڈ برٹن رسل نے جب ویتنام میں امریکہ یلغار کررہا تھا انہوں نے ایک نجی عالمی عدالت قائم کرخے امریکہ کو وار کرائم کا مجرم قرار دیا او رایک ردعمل پیدا ہوا اس طرح سے میں مغرب کے اہل دانش سے یہ کہتا ہوں خہ کوی ان کو بتائے کہ ا مریکہ اور یورپ جو امن دینے آئے تھے ملینر کے حساب سےُ وگوں کی زندگیوں سے محروم کردیا گیا۔ ملک تباہ کردیے املاک تباہ کردیں‘ مجموعی نقصان کا تخمینہ آج تک نہیں لگا اپ نے کیا دیا اس کا ماحاصل کیا ہے کسی پالیسی کے نتیجے میں نفع کے بجائے نقصان زیادہ ہے تو اس کو ری وزٹ کرنا چاہیے امریکہ اور اہل مغرب کیونکہ طاقت کے نشے میں مسحور ہیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ازالے یہ تیار نہیں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی اس گفتگو کا جواب انہوں نے کیا دیا؟
مفتی منیب الرحمٰن:
ہمیں براہ راست کوئی جواب نہیں دیتے ادھر ادھر کی باتیں کرتی ہیں وہاں کسی اجتماعی ضمیر یا کونشیس کے آثار ہمیں نہیں ملتے۔
دوسر اہم ان سے کہتے ہیں کہ امریکہ میں تو جرم کرے تو وہ فرد کا جرم ہے ایک کورین عیسائی نے ایک اسکول میں 45 بچوں کو مار دیا کسی نے نہیں کہا یہ کورین کا جرم ہے کسی نے نہیں کہا کہ عیسائیت کا جرم ہے یہ ایک فرد کا جرم ہوگیا لیکن اگر کوئی مسلمان جرم کرے تو یہ مذہب کا جرم ہوگا جس پس منظر سے تعلق رکھتا ہو گا اس ملک کو بھی ملوث کردیں گے یہ جو امتیازی سلوک ان کے ذہنوں میں آگیا ہے مسلمانوں کے خلاف اس کی وجہ سے یہ فساد رکنے میں نہیں آرہا۔
فرائیڈے اسپیشل: امریکی دانشور نے سیموئل ہنگ ٹن نے تہذیبوں کا تصادم کا جو نظریہ دیا تھا اس نظریہ کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
مفتی منیب الرحمٰن: ہنگ ٹنگ ٹن نے تو کہا تھا لیکن مغرب والے اس کی نفی کرتے ہیں۔ جارج بش کی زبان سے بے اختیار کروسیڈ کیسے نکل گیا تھا اس کی زبان سے بے اختیار صلیبی جنگ نکل آنااس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مائنڈ سیٹ میں یہ بات موجود ہے او رنکلی نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: مغربی دنیا کے غلبے کی وجوہ کیا ہیں اس کے باوجود کہ وہ باطل کی پرستش کرتی ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن:
مغربی دیا کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے خیر و شر کرنے کے فیصلے کا اختیار حاصل ہے یعنی ہم اللہ تعالیٰ سے راہنمائی نہیں لیں گے ہم اپنی اجتماعی دانش سے فیصلہ کریں گے کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے۔ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے چنانچہ لزبین ‘ گے‘ ٹرانس جنیڈ۔ اس طرح کی چیزیں ہیں۔ اس کے باوجود کہ ڈالر پر لکھا ہے In gad we trust انہوں نے گاڈ کو اپنے نظام سے خارج کردیا ہے لہٰذا اس فیصلے کے نتائج پوری دنیا بھگت رہی ہے اب رہا آپ کا سوال کہ وہ باطل پر ہیں تو غالب کیوں ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو غلبے کی بشارت دی ہے وانتم الاعلون ان کنتم مونین تم ایمان اور اس کے تقاضوں پر کاربند رہون گے تو غالب رہو گے یہ کہیں نہیں کہا کہ تم کلمہ پڑھ لیا ہے تو دنیا پر راج کرو گے لہٰذا اخروی نجات کے لیے ایمان ‘ عقائد اور اعمال کی صحت و اخلاقیات کی صحت معاملات کی صحت ضروری ہے۔ دنیا میں امامت کا منصب پر فاء زہونے کے لیے میرٹ اور ڈی میرٹ اپنے ہیں جب مسلمان امیرٹس پر پورا ترے تو دنیا پر غالب تھے جب ان میرٹس سے نیچے آگئے ان سے دنیاوی امامت کا منصب چھن گیا لہٰذا دنیا میں مسلمانوں کو اپنی فٹنس کو ثابت کرنا ہوگا حق کو غالب کرنا ہے تو مسلمانوں کو علمی میدان میں فنی میدان میں عقلی میدان میں فکری میدان میں اور پر جمعیت اور اجتماعیت اور وحدت کے اعتبار سے اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوگا ورنہ امامت دنیاوی کا منصب کسی کو تحفے میں نہیں دیا گیا اس لیے اگر تاریخ عالم کا ہم مطالعہ کریں تو مختلف تہذیبوں کے عروج کے ادوار بھی ملتے ہین ان کے زوال کے ادوار بھی ملتے ہیں کسی سے اللہ کا یہ وعدہ نہیں ہے کہ ہمیشہ وہ غالب رہے گا وہ میرٹس کو کھودے گا تو ایک وقت آئے گا کہ اس سے سب کچھ چھن جائے گا اس لیے ہم اہل مغرب سے کہتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے جب قدر کا فیصلہ آجاتا ہے اور وہ آئے گا۔

حصہ