عروج و زوال کی داستانوں کا جب جب اور جہاں جہاں بھی ذکر آئے گا، خواہ وہ عام مجلس ہو یا تاریخ کے اوراق۔۔۔ مسلمانوں کی داستانِ مد و جزرکا ذکر ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ ہر قوم عروج بھی حاصل کرتی ہے اور زوال بھی اس کے مقدر میں لازماً آتا ہے، لیکن داستانِ اسلام ان سب سے بہت مختلف و منفرد مقام رکھتی ہے
اسلامی سلطنت بھی بلاشبہ اپنی 23 سالہ خلافت کے بعد اپنی اسلامی تعلیمات کے خدوخال کو برقرار نہ رکھ سکی اور خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی، لیکن اس کے باوجود بھی ایسے مسلمان سلاطین پیدا ہوئے جو اسلامی تعلیمات اور خدا خوفی سے اتنے سرشار تھے کہ انھوں نے اپنے طرزِ حکومت اور نظام عدل و انصاف کو اللہ کے احکامات کے اتنے نزدیک تر رکھا کہ ان کی سلطنت میں آجانے والے اسلام سے اور حکمرانوں کے نظام عدل و انصاف سے متاثر ہوکر جوق در جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہوتے چلے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا دورِ خلافت جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے، وہ تو کبھی لوٹ کر نہیں آسکا لیکن یہ واحد ملت، قوم اور تہذیب ہے جو تمام تر زوال کے باوجود بھی نہ تو ختم ہوئی اور نہ ہی اس میں شامل ہونے والوں کا سلسلہ کسی بھی دور میں میں رک سکا یا روکا جاسکا، اور نہ ہی کبھی ایسا دیکھنے میں آیا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں چلنا بند ہوگئی ہوں۔
عروج کو زوال، فاتحوں کو شکست، کامیابیوں کو ناکامیاں اور غالبوں کو مغلوبیت۔۔۔ یہ سب نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا آتا رہا ہے جو قوم کی رہنمائی کرتا رہا ہے۔ برصغیر ہند و پاک میں بھی اللہ نے شاید مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اسی لیے پیدا کیا تھا کہ وہ اس خطے کے مسلمانوں کو اسلام کی اصل روح اور اسلام کے صحیح خدوخال سے روشناس کرا سکیں۔ لوگوں تک اسلام کی صحیح حقیقت پہنچانے کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا۔ اپنی تقریروں اور تحریروں سے انھوں نے اسلامی تعلیمات کی جو شمع روشن کی وہ ایک طویل عرصے تک مسلمانوں کو راستہ دکھاتی رہے گی۔
نہ تو ان کی تقریروں کا کوئی شمار ہے اور نہ ہی تحریروں کا۔ لاتعداد تحریریں تو ایسی ہیں جو کتابوں کی شکل حاصل کیے ہوئے ہیں، اور بے شمار ایسی کتابیں ہیں جو اہلِ علم و ذوق نے آپؒ کے خطبات، سوالات و جوابات اور بہت سارے رسالوں میں لکھے گئے مضامین کو ترتیب دے کر شائع کیں۔ ان کی یہ کاوشیں ایک جانب کارِ ثواب بنیں اور دوسری جانب بے شمار انسانوں کی رہنمائی کا ذریعہ۔ اسی قسم کی ایک کامیاب کوشش جناب ’’حفیظ الرحمن احسن ؔ ‘‘ صاحب کی ہے۔ وہ مولاناؒ کے بہت سارے اداریوں کو جمع کرکے ایک کتابی شکل دینے میں کامیاب ہوئے۔ جناب حفیظ الرحمن احسن ؔ اپنی اس کتاب میں کچھ یوں تحریر فرماتے ہیں:105
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’اسلام کا سرچشمہ قوت‘‘ پاکستان بننے سے بہت پہلے کی تحریروں پر مشتمل ہے، لیکن جو جو خرابیاں اُس وقت مسلمانانِ انڈو پاک میں پائی جاتی تھیں، قریب قریب ویسی ہی ساری برائیاں اِس وقت کے موجودہ پاکستان کے مسلمانوں میں موجود ہیں، بلکہ دیکھا جائے تو پوری دنیا کے مسلمانوں میں انھی خرابیوں سے ملتی جلتی وہ تمام کمزوریاں موجود ہیں جو اُس دور میں ہوا کرتی تھیں۔
مولاناؒ نے اس کتاب میں نہ صرف ان برائیوں کا تذکرہ فرمایا ہے جو اُس وقت کے مسلمانانِ ہند میں موجود تھیں، ساتھ ہی ساتھ ان برائیوں کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان سے بچاؤ اور چھٹکارے کا حل بھی بیان کرکے گویا قوم کو بیچ منجدھار میں لا کر نہیں چھوڑ دیا، بلکہ نیّا پار لگانے کے طریقوں کی بھی وضاحت فرما کر قوم کی ٹھیک ٹھیک رہنمائی بھی کردی۔
روزِ ازل سے کفر اس بات کے لیے سرگرداں رہا ہے کہ اللہ کے بندوں کو راہِ راست سے کس طرح بھٹکایا جا سکتا ہے۔ ابلیس نے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور یہی متکبرانہ اور گستاخانہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اُس کے بندوں کو جہاں جہاں بھی اور جیسے جیسے بھی موقع ملا، بہکائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جو میرے بندے ہیں وہ کبھی بھی تیرے بہکائے میں نہیں آئیں گے۔ اسی بات کو اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
اس زمانے میں اسلام سے بھٹکانے کے لیے مسیحی مبلغین نے جو تحریکیں چلائیں وہ پسے ہوئے مسلمانوں کو مختلف قسم کے لالچ دے کر انھیں مذہب سے یا تو بدظن کرنے کی تھیں یا پھر ان کو دین سے پھیرنے اور عیسائی بنانے کی ترغیب دینے جیسی مہمات پر مشتمل تھیں تاکہ اس وقت کی فرنگی حکومت کو ہندوستان کے اندر ایسے غلام مل جائیں جو ان کے اقتدار کی طوالت کا سبب بن سکیں۔
اس کام کے لیے بڑے بڑے مشنری ادارے تشکیل دیئے گئے جو مسیحی مبلغین کی شکل میں مسلمانوں کے درمیان مسیحیت کی تبلیغ کرتے تھے اور مسلمانوں کے ذہنوں کو اسلام سے بغاوت پر اکساتے تھے۔ اور اس طرح بھوک، جہالت، اور علمی کم مائیگی کا شکار مسلمان ان کے جھانسے میں آکر ارتداد کا شکار ہوجایا کرتے تھے۔
مولاناؒ کے نزدیک ان خرابیوں کے تین بڑے اسباب تھے یعنی جہالت، افلاس اور مشنری مدارس کی کثرت۔
اگر ہم آج کل کے ماحول کا تجزیہ کریں تو حالات بہت زیادہ مختلف نظر نہیں آتے۔ جہالت عام ہے، اسلامی ممالک بے شمار وسائل رکھنے کے باوجود اعلیٰ دینی و دنیوی مدارس کے قیام کے سلسلے میں مسلسل عدم توجہی کا شکار ہیں۔ مجموعی اقتصادی صورت حال کے سبب مسلمان زبوں حال ہوتے جارہے ہیں۔ تبلیغ کا کام غیرمؤثر ہوجانے اور مسلمان طالبانِ علم دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہونے کی وجہ سے دین سے بے بہرہ ہوجانے جیسے خدشات کا شکار بھی ہیں اور شکار ہوتے بھی جارہے ہیں۔ گویا اِس جدید دور کے حالات بھی گزشتہ دور سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے اور مسلمانانِ پاکستان اور مسلمانانِ عالم میں آگہی اور بیداری پیدا کی جائے۔
مولاناؒ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ جاہل ہے اور شریعتِ اسلام سے اس کی ناواقفیت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ کلمہ گوئی کی حدود سے بھی خارج ہوگیا ہے، بلکہ عرفِ عام میں یہ کہنا چاہیے کہ نام کا مسلمان بھی نہیں رہا۔۔۔ اسے ہر مذہب کے لوگ آسانی کے ساتھ اسلام سے پھیر سکتے ہیں۔‘‘
غربت اور افلاس کے ذکر میں وہ جو بات کہتے ہیں، یہ ہے کہ کسی بھی غریب کو دولت مند مبلغین بآسانی کسی بھی قسم کا مالی لالچ دے کر بہکا سکتے ہیں۔
مسلمانوں میں اعلیٰ دینی مدرسوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نہ ہونے کے سبب ایک جانب تو مسلمان طالب علم اسلام سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں اور دوسری جانب اعلیٰ دنیوی مدارس اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان یورپ اور امریکہ جانے اور تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، اور ان کی یہ مجبوری اس بات کا سبب بن سکتی ہے کہ وہ دین سے اور بھی دور ہوجائیں اور یورپی و امریکانہ ذہنیت کے مالک بن جائیں۔
ان تمام حملوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان تینوں شعبوں میں مضبوط، مربوط اور منظم طریقوں سے کام کریں تاکہ ابلیس نما انسان اور ماحول، مسلمانوں کو راہِ راست سے بھٹکانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
مولاناؒ نے اس کتاب میں اس بات پر بھی بہت خوبصورت انداز میں بحث کی ہے کہ اسلام بزور شمشیر نہیں بلکہ اچھے سلوک، اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے کردار کو ڈھال کر، نہایت عادلانہ اور مبنی بر انصاف نظام کے نفاذ کی وجہ سے پھیلا ہے اور اپنی بہترین حکمتِ تبلیغ کی وجہ سے دنیا میں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پھیلتا جارہا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر اسلام بزور شمشیر پھیلتا تو بزور شمشیر مٹا بھی دیا جا چکا ہوتا۔ اس کے برعکس اس کو جب جب اور جہاں جہاں طاقت کے ذریعے مٹانے اور ختم کرنے کی کوشش کی گئی یہ اور بھی شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا، اور باطل کا یہ دعویٰ کہ اسلام طاقت کے ذریعے دنیا میں عام کیا گیا ہے، ہمیشہ باطل ہی ثابت ہوا۔
اس کتاب میں باطل کی کسی بھی قسم کی کامیابی کو اُس کے مذہب کو درست اور اچھا ہونے کی وجہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ اگر باطل کسی جگہ غالب ہو بھی گیا ہے اور اس کو جز وقتی کامیابی مل بھی گئی ہے تو اس کی وجہ باطل کا اچھا ہونا نہیں بلکہ مسلمانوں کا بہر لحاظ کمزور ہوجانا، اسلام سے دور ہوجانا، جہالت، مفلسی اور اقتصادی بدحالی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر مسلمان ان خرابیوں، کمزوریوں کو دور کرلیں اور غفلت کی نیند سے بیدار ہوجائیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ باطل ان پر غالب آسکے۔
خرابیوں کو دور کرنے اور باطل کے سامنے اپنے آپ کو سیسہ پلائی دیوار بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر مذہبی شعور کو اجاگر کریں جس کے لیے مؤثر تبلیغ کا طریقۂ کار ترتیب دیں جو عارضی کے بجائے مستقل بنیادوں پر استوار ہو۔ ایسے مدارس قائم کیے جائیں جن میں شریعت کے تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم دی جائے۔ طبی مراکز قائم کیے جائیں اور مفلسوں و ناداروں کے لیے ایسے ادارے ہوں جو ان کو غربت کی وجہ سے غلط ہاتھوں میں جانے سے روک سکیں اور ان کے طعام و قیام کا مناسب بندوبست کرسکیں۔
یہ بات تقسیم ہند سے بہت پہلے کی تھی لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے مولانا کے خوابوں کو اس طرح عملی شکل دی کہ الخدمت کے تحت رفاہی ادارے قائم کیے گئے، ہسپتال بنائے بھی گئے اور بے شمار ڈاکٹروں کو اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی کیا گیاکہ وہ کم سے کم اجرت لے کر مریضوں کا علاج کریں۔ زکوٰۃ، صدقات، خیرات کے ذریعے مفلسوں و ناداروں کی خدمت کی جانے لگی، بیٹھک اسکولوں کے نظام کے تحت غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جانے لگا، اور ایسے افراد جو کسی حد تک تعلیمی اخراجات برداشت کرسکتے ہوں ان کے لیے کم پیسوں میں نہایت اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ ’’عثمان پبلک اسکولز‘‘ کے نظام کو بنایا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسے شعبے قائم کیے گئے جو کئی کئی پہلوؤں سے عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
اس کتاب میں جو بات مسلمانوں اور خاص طور سے پاکستانی مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم میں جو جو بھی کمزوریاں اور کوتاہیاں ہیں وہ کوئی اور آکر دور نہیں کرے گا، انھیں ہمیں ہی دور کرنا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’پس ہماری قوم کے اربابِ حل و عقد، وقت کی نزاکتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کرتے ہیں تو انھیں تمام دوسرے ملحوظات کو نظرانداز کرکے سب سے پہلے تنظیم قوائے ملّی کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور جلد سے جلد اس طوائف الملوکی کا خاتمہ کردینا چاہیے جو اس وقت ہماری تمام قومی تحریکوں میں جاری و ساری ہے۔‘‘
تبلیغ کو مولانا وہ راستہ قرار دیتے ہیں جس کو مؤثر اور مربوط طریقے اور خلوصِ دل کے ساتھ اختیار کیا جائے تو دین کو پوری دنیا میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ یہی وہ کام ہے جس کے لیے انسان کو اس دنیا میں اتارا گیا۔ جیسا کہ سورۃ آل عمران میں کہا گیا ہے کہ ’’تم ہی بہترین امت ہو جسے انسانوں کی اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
دراصل یہی وہ کام ہے جسے ہر مسلمان پر قیامت تک کے لیے فرض کردیا گیا ہے، اور جب تک وہ اس کام کو جاری و ساری رکھے گا اسلام کو دنیا میں عام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
nn