(لَیْسَ مِنّا(پروفیسر عبدالحمید ڈار

260

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت عرب کے مشہور شہر مکہ میں ہوئی۔ اُس وقت عرب کی اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی حالت بڑی دگرگوں تھی۔ معاشی اعتبار سے یہ لوگ پسماندگی اور زبوں حالی کا شکار تھے۔ معاشرہ مختلف قبائل میں بٹا ہوا تھا۔ ہر قبیلہ اپنے حدودِکار میں خودمختار تھا۔ کوئی مرکزی نظام موجود نہ تھا جو ان کو منضبط کرکے ایک وحدت بنادیتا۔ بلکہ اکثر و بیشتر ان قبائل کے درمیان جنگ و جدل کا بازار گرم رہتا جو افرادی قوت اور وسائل کو جلا کر خاکستر کردیتا۔ مشرکانہ عقائد کی خرابیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی غالب اکثریت معاشرتی برائیوں میں لت پت تھی۔ شراب اور جوا ان کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ فحاشی، بدکاری اور گانے بجانے سے انہیں خاص رغبت تھی۔ بعض شقی القلب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے اور اس میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ الغرض عرب معاشرہ مجموعی طور پر پستی اور زوال کی طرف گامزن تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اس متعفن ماحول میں گزارا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو اس ماحول کی خرافات سے پاک و صاف رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حسنِ اخلاق و کردار کی بنا پر معاشرے میں بڑی محترم و معزز شخصیت سمجھا جاتا تھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرِ مبارک چالیس سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کی صلاح و فلاح اور انہیں ذلت و زوال سے نکال کر کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنے کے لیے منصبِ نبوت پر مامور فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمِ خداوندی سے اس فریضے کی انجام دہی میں اپنے تمام اوقات اور صلاحیتیں لگا دیں۔ اس نیک کام کی قدر افزائی کے بجائے چند سعید روحوں کے سوا پوری قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوتی مشن کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑی ہوگئی۔ آپؐ کو سخت ذہنی و جسمانی اذیتیں پہنچائی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ ہجرت بھی کرنی پڑی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کارِ نبوت کی انجام دہی میں مسلسل سرگرم عمل رہے۔ کفارِ مکہ نے مدینہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چین نہ لینے دیا۔
یہاں بدر و اُحد اور احزاب کے معرکے پیش آئے جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخروئی عطا فرمائی اور بالآخر فتحِ مکہ، جنگِ حنین اور معرکۂ خیبر میں کامیابی کے ساتھ مسلح کشمکش کا یہ دور اس انداز میں ختم ہوا کہ اسلام جزیرۃ العرب کا غالب دین بن گیا۔ اس کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق ایک ایسا معاشرہ ظہور میں آگیا جس میں ہر شخص کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شب و روز کی محنت اور تربیت سے لوگوں کے خیر و شر کے پیمانے بدل گئے۔ وہ جو راہزن تھے انسانوں کے رہبر بن گئے۔ وہ بھلائی کے جویا اور بدی سے نفور (نفرت کرنے والے) ہوگئے۔ جنت کا حصول اور دوزخ کے عذاب سے بچاؤ ان کی زندگی کا مقصود بن گیا۔ امیر اور غریب اور پست و بالا کا امتیاز جاتا رہا۔ سب اخوت و مساوات کا پیکر بن گئے۔ عزت و وقار کا معیار مال و دولت یا حسب و نسب کے بجائے نیکی و تقویٰ قرار پایا۔ قانون کی مکمل حکمرانی قائم ہوگئی۔ انصاف کی میزان میں بڑے چھوٹے سب برابر ہوگئے۔ یوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیہم سعی و جہد سے مکمل طور پر ایک پُرامن اور پُرسکون معاشرہ وجود میں آگیا اور لوگوں کو بلا خوف و خطر اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور پروان چڑھانے کی سازگار فضا میسر آگئی۔
امن و آشتی اور راحت و آرام سے معمور اس معاشرے کو معرضِ ظہور میں لانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے پورے 23 سال تک انتھک محنت کی اور انہیں اس راہ میں ان گنت جانی و مالی قربانیاں دینی پڑیں۔ اب اگر کوئی شقی القلب اس خوشگوار فضا کو کسی نفسانی اشتعال کی وجہ سے سیف و سناں (تلوار اور نیزہ) کی اَنی سے درہم برہم کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابِ رسولؐ کی محنتوں اور قربانیوں پر پانی پھیرنے پر اتر آئے تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے جسدِ امت سے کاٹ کر پھینکا جائے اور اس سے خیرِ امت سے نسبت کا اعزاز چھین لیا جائے۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘۔ (النساء۔ 93)
’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا‘‘۔ (المائدہ۔ 32)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کردینا (یا اس سے جنگ کرنا) کفر ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن بحوالہ بخاری۔ کتاب الایمان)
’’ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن سورۃ الحجرات، بحوالہ مسلم و ترمذی)
’’سنو، دیکھو میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ تم مسلمان ہوکر آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو‘‘۔ (راہِ عمل، بحوالہ بخاری۔ راوی ابن عمرؓ)
افسوس کہ ایک مسلمان کے قتل کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے واضح ارشادات کے باوجود یہ جرم ایک وبا کی طرح عام ہے۔ ہماری جیلیں قاتلوں سے بھری پڑی ہیں اور پھانسیوں کے پھندے لٹک رہے ہیں۔ باہمی عداوتوں نے زندگی کا امن و سکون غارت کررکھا ہے اور لاطائل مقدمات کی بھرمار نے اموال اور قوتوں کو جلا کر خاکستر کردیا ہے۔ اب انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ جماعتوں اور جتھوں کی شکل میں قتل و غارت کا بازار گرم کردینے کا رواج چل نکلا ہے۔ اللہ پاک اس فتنے سے ہر صاحبِ ایمان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)

حصہ