میں اگر کبھی اپنے اساتذ�ۂ کرام کو ذہن میں لاؤں اور سوچوں کہ اسکول کے زمانے سے یونی ورسٹی کی تعلیم تک وہ کون سا استاد ہے جس نے میری فکر کی تشکیل میں ذرا سا بھی حصّہ لیا ہو، جس کی رہ نمائی سے مجھے روشنی ملی ہو، جس نے میرے لکھنے پڑھنے خصوصاً لکھنے کے شوق میں میری مدد کی ہو اور پھر عملی زندگی میں بھی جس کی شفقت اور سرپرستی سے میرے مستقبل کی راہیں استوار اور ہموار ہوئی ہوں، تو ایک ہی نام ہے، بہت محترم نام جن کا شمار میں اپنے محسن استاد کے طور پر کرتا رہوں گا۔ اُستادِ محترم جناب پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ۔
محترم متین صاحب سے کس طور پر میرا تعارف ہوا، یہ تو ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود یاد نہیں آتا، البتہ ایک واقعہ جس کی یاد مٹائے نہیں مٹتی بلکہ جب بھی یہ یاد ازخود ذہن میں چلی آتی ہے تو محبت اور احسان و شکر گزاری کے احساس سے سر جھک جاتا ہے۔ وہ یاد، وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دن میں متین صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ اُن دنوں وہ شعبۂ صحافت میں غالباً لیکچرار اور میں آنرز سالِ اوّل کا طالب علم تھا۔
شعبہ ہمارا آرٹس لابی کے قریب آرٹس فیکلٹی کا پہلا ہی شعبہ تھا۔ عجیب بکھرا بکھرا سا۔ کسی فرنچ آرکیٹکٹ کے ڈیزائن کیے ہوئے کلاس روم، سامنے ہرا بھرا لان، ایک عدد سیمینار لائبریری، ایک سائیکلو اسٹائل مشین۔۔۔ بس یہی کُل سامان و سرمایہ تھا شعبے کا۔ اساتذہ کے کمرے دُور شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے بعد آتے تھے۔ وہیں راہداری کے آخر میں ایک بڑا سا کمرہ جسے پارٹیشن کرکے دو حصّوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ ایک حصّے میں متین صاحب بیٹھتے تھے۔ مناسب سا قد، بڑا سا چہرہ جس میں سب سے قابل توجہ ان کی چھوٹی چھوٹی سی آنکھیں تھیں، کچھ سوچتی ہوئی، مگر ان آنکھوں میں بلکہ نگاہوں میں گہرائی تھی، کسی کو دیکھتے تو بہت غور سے، جیسے نگاہیں مخاطب کو چیرتی ہوئی اندر تک اتر جائیں گی۔ عجب نہیں کہ انھیں اس کا احساس ہو، جبھی گہرے سبز رنگ کا چشمہ اُن دنوں لگایا کرتے تھے جسے بعد میں ترک کردیا۔ تو میں اس دن کا واقعہ عرض کررہا تھا جب وہ پہلی بار اپنے علم اور معلومات سے، اپنے دلائل اور منطقی ذہن سے میرے ذہن پر، میری سوچ پر اثرانداز ہوئے اور وہ بھی اس طرح کہ میرے خیالات کا رُخ ہی بدل گیا۔ اصل میں اُس زمانے میں یہ خاکسار بھی ان ہی نوجوانوں کی طرح تھا جنہیں اپنی تہذیب، اپنی تاریخ، اپنے اجتماعی ماضی کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور نہ ان سے آگاہی کی کو ئی جستجو ہی ہوتی ہے۔ میں ادب اور وہ بھی افسانے اور کہانیوں میں زیادہ تر دل چسپی رکھتا تھا۔ خود میں نے کچھ ٹوٹے پھوٹے افسانے لکھ رکھے تھے۔ نسیم حجازی کے ناولوں سے اسلامی تاریخ کی بابت فقط اتنی ہی معلومات تھیں جتنی کسی تاریخی ناول سے ہوسکتی ہیں۔ دوسرے پسندیدہ مصنف جن کی طلسمی دنیا، خیالی دنیا میں خوش باش رہتا تھا، ابنِ صفی تھے۔ جن کے کردار کرنل فریدی، کیپٹن حمید اور عمران گویا اپنے ہی رفیق اور ساتھی تھے۔ یاد ہے اسکول ہی کے زمانے میں ایک رمضان المبارک تو ایساگزرا کہ ساری رات ابنِ صفی کے کسی ناول کے ساتھ گزرتی تھی۔ بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پڑھنے لکھنے سے وابستہ تو تھا لیکن پاکستان اور تحریک پاکستان سے واقفیت اتنی خام تھی کہ قائداعظم کی بابت بھی گستاخانہ خیالات رکھتا تھا اور اس کے اظہار میں بھی کوئی باک نہ تھا۔ تو اس دن جس کا تذکرہ ہے، میں نے ان ہی خیالات کا متین صاحب کے سامنے بے باکی سے اظہار کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ متین صاحب کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ پھر بھی انھوں نے مجھے روکا ٹوکا نہیں۔ میری بات مکمل ہوگئی تو انھوں نے قائداعظم کے بارے میں مجھ سے کچھ سوالات کیے، چوں کہ میں نے قائداعظم کے متعلق اُس وقت تک کچھ پڑھا ہی نہ تھا، جانتا بھی نہ تھا لیکن وہ جو ہماری قومی عادت ہے کہ سنی سنائی باتوں، افواہوں پر یقین کرلینا اور نہایت دھڑلے بلکہ نہایت ڈھٹائی اور بے حیائی سے اس کا اظہار ہی نہ کرنا، اپنے مؤقف پر ڈٹ جانا، اور اصل حقیقت کو جاننے کے لیے نہ کتابوں سے رجوع کرنا اور نہ کسی اہلِ علم سے اس کی تصدیق یا تردید ہی کی ضرورت محسوس کرنا۔ تو وہ عادت مجھ میں بھی تھی۔ ایک مرتبہ اسی طرح مولانا مودودی کی بابت کچھ دشنام طرازی کررہا تھا تو والد صاحب نے گرفت کی تھی اور نہایت نرمی سے سمجھایا تھا کہ کسی کے بارے میں رائے قائم کرو تو علم کی بنیاد پر کرو۔ تو مولانا کی ’’دینیات‘‘پڑھ کر ان کے حوالے سے تو ذہن صاف ہوگیا تھا۔ لیکن والد مرحوم و مغفور کی نصیحت کی روشنی میں دوسری قومی شخصیات کی بابت اپنے خیالات کی اصلاح کی ضرورت سے غافل ہوگیا۔ اور مولانا کے بعد اب قائداعظم کی باری تھی جنھیں دوسرے ہرزہ سرا حضرات کی طرح یہ خاکسار بھی انگریزوں کا ایجنٹ، تقسیم ہندوستان کا ذمہ دار اور پاکستان پر حکومت کرنے کی خواہش کے زیراثر آخری حد تک جانے والا، محض ایک اچھا عمدہ بیرسٹر یا وکیل سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس روز بھی اپنے ان ہی سنے سنائے خیالات کا اظہار کرچکا اور استاد محترم کے پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے سے قاصر رہا تو یاد آیا کہ والد صاحب یہ نصیحت تو لڑکپن میں کر ہی چکے تھے تو اس نصیحت کو کیوں بھول گیا۔ اب سوچتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ آدمی، شاید ہر آدمی کے ساتھ ایک عارضہ جس سے وہ خود بھی بے خبر ہی ہوتا ہے، نسیان کا ہے، بھول جانے کا۔ ہم انسان بھول جاتے ہیں، نصیحت کا تو اثر عموماً لیتے ہی نہیں اور بہ قول کسے اسے سن کر آگے بڑھا دینے میں عافیت جانتے ہیں، بلکہ اس کا سب سے اچھا استعمال یہی ہے کہ سن کر اور پڑھ کر دوسروں کو سنادو یا موبائل پر اس ہدایت کے ساتھ ایس ایم ایس کردو کہ آپ بھی اسے آگے بڑھائیں۔ رہا معاملہ نصیحت پر عمل کا، تو یہ بھی دوسروں ہی کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا یہ احسان، یہ کرم کیا کم ہے کہ ہم دوسروں کو ایک اچھی بات، کوئی حدیث، قرآن کی کوئی آیت پہنچا رہے ہیں، معاشرے میں پھیلارہے ہیں۔ رہا معاملہ عمل کا، تو جتنا عمل کرنا تھا ان پر برگزیدہ ہستیاں عمل کرگئیں، ہمیں عمل سے کیا تعلق! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب شفاعت فرما ہی دیں گے تو عمل وغیرہ کے کھکھیڑ میں کوئی کیوں پڑے! تو یہ سب کچھ نتیجہ ہے بھول جانے کا اپنی حقیقت اپنی اوقات کو، اپنی بے خبری، جہالت اور غفلت سے عدم آگہی کا، اور سب سے بڑھ کر ان احسانات کو فراموش کردینے کا جو کسی نے ہم پر کیے۔ تو چوں کہ اُس وقت تک یہ نغمہ کہ ’’اے قائداعظم تیر ا احسان ہے احسان‘‘ بھی ریڈیو اور ٹی وی سے نشر نہیں ہوا تھا تو بھلا کیسے پتا چلتا مجھے کہ قائداعظم کا کوئی احسان بھی مجھ پر یا میری قوم پر ہے۔ اس احسان ناشناسی اور ناشکرے پن کا ایک مظاہرہ، نہایت وحشت ناک اور بے رحمی و درندگی کا مظاہرہ سابق مشرقی پاکستان میں دیکھ آیا تھا۔ اور اب بھی اپنی قوم کی اکثریت کی طرح مجھ ناچیز کی بھی آنکھیں نہیں کھلی تھیں۔ دیکھ کر بھی نہ دیکھنا، دکھ اور اذیت اٹھا کر بھی کسی عبرت انگیز سانحے سے نہ سیکھنا۔۔۔یہ بھی ہمارا قومی مزاج ہے اور ہماری ساری مصیبتوں اور پریشاں خیالیوں کا اگر کوئی سبب ہے تو یہی ہے۔۔۔ غفلت اور بے حسی۔ بے حسی بھی غفلت ہی سے پیدا ہوتی ہے اور غفلت نتیجہ ہے کم علمی اور اس سے بڑھ کر جہالت کا۔
جہل کی تعریف شاید یہ ہے کہ نہ جان کر بھی جاننے کا دعویٰ اپنے اندر رکھنا۔ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔ اور اگر کوئی علاج ہے تو فقط یہ کہ آدمی کے اندر سچ کو ماننے اور حق کو پہچاننے کی کوئی معمولی، ہلکی سی رمق بھی موجود ہو۔ جن کے دلوں کے دروازے پر بھاری تانے پڑ جاتے ہیں، ان کی بات نہیں لیکن الحمدللہ کے میرے معاملے میں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی تھی۔ لہٰذا استاد محترم کے سوالات نے مجھے ایسے چونکا یا جیسے کوئی سوتے میں اچانک جاگ پڑے۔ آنکھ یکایک کھل جائے اور وہ سوچنے پر مجبور ہو کہ میں کہاں ہوں؟ صبح ہے یا شام کا سماں ہے؟ کب سویا تھا ؟ اور یہ یک بیک آنکھ کیوں اور کیسے کھل گئی۔ تو میں جاگا تو معلوم ہوا کہ قائداعظم کی بابت تو اب تک غفلت کی تاریکی ہی میں سویا پڑا تھا۔استاد محترم متین صاحب نے جگایا، تاریخی واقعات کے حوالے دے کر، ہر وہ اعتراض جو میں نے قائداعظم پر کیا تھا، اس کے جواب میں جو کچھ اپنے علم اور مطالعے سے مجھے سوچنے کے لیے غذا فراہم کی، سچ تو یہ ہے کہ آج بھی قائداعظم کے بارے میں اپنی قوم کے اچھے خاصے لکھے پڑھے افراد کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو استاد محترم ہی کے دلائل کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتا ہوں جو ہر شک و شبہے کو دور کرنے، الجھے ہوئے خام ذہن کو صاف کرنے کے لیے کافی و شافی ہوتے ہیں۔ ان دلائل کو دہرانے بیٹھوں گا تو بات لمبی ہوجائے گی لیکن ایک آدھ مثال دینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ استاد محترم نے مجھے سمجھایا کہ دیکھو بھئی مسلمانوں کے چار بڑے رہ نما آزادی سے قبل گزرے ہیں: سرسید، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور قائداعظم۔ تُم ان چاروں رہ نماؤں کی زندگیوں کا ان کے حالات کا مطالعہ کروگے تو دیکھو گے کہ چاروں میں ایک قدر مشترک ہے کہ چاروں اپنی فکری یا سیاسی زندگی کی ابتدا پر ہندو مسلم اتحاد کے حامی رہے۔ مثلاً سر سید نے فرمایا ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی ایک آنکھ ہندو اور دوسری آنکھ مسلمان ہے۔ اگر اس دلہن کی ایک آنکھ کو بھی نقصان پہنچا تو یہ دلہن بھینگی ہوجائے گی۔ مگر یہی سر سید ہندی اردو تنازع جو متعصب ہندوؤں کی جانب سے کھڑا کیا گیا اور وہ زبان یعنی اردو جسے دونوں قوموں نے مل کر ایجاد کیا تھا اور جو ہندو مسلم اتحاد کا پُل تھا اسے انگریزوں کے اقتدار میں آنے کے بعد انگریزوں کے اقتدار میں آنے کے بعد انگریزوں نے ترک کرنے اور ہندی کو اس کی جگہ دلانے کے لیے فساد برپا کیا، جس کے بعد یہی سر سید تھے جنھوں نے یہ اعلان کیا کہ اب ہندو مسلم اتحاد ممکن نہیں۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ اب دونوں قوموں میں فاصلے بڑھتے جائیں گے خصوصاًجیسے جیسے تعلیم پھیلے گی دونوں قوموں میں بُعد اور دوری میں بھی کمی نہیں اضافہ ہی ہوگا۔دوسرے لیڈر مسلمانوں کے محمد علی جوہر تھے جو تحریک خلافت کے قائد اور گاندھی جی کے ایسے عقیدت مند تھے کہ خود پیچھے ہٹ گئے اور خلافت تحریک کی قیادت گاندھی جی کو سونپ دی۔ مارے عقیدت کے ایک جمعہ دلی کی جامع مسجد میں منبر پہ لا کے گاندھی جی کو بٹھادیا کہ نمازیوں سے خطاب فرمائیں لیکن ان ہی گاندھی جی نے تشدد کے ایک واقعے کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کے لیڈروں سے کسی مشورے کے بغیر ہی اچانک تحریک خلافت کو خاتمے کا اعلان کردیا، جس سے مایوس ہوکر مولانا جوہر بھی اسی نتیجے پر پہنچے جس پر سر سید پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ خود حکیم الامت علامہ اقبال کی شاعرانہ زندگی اور اس کے ارتقاء پر غور کرو تو دیکھو گے کہ ان کی شاعری کی ابتدا وطنیت کے جذبے سے ہوتی ہے۔’’اے ہمالہ اے فصیل کشورِ ہندوستان‘‘والی نظم ہو یا ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘لیکن مسلسل مطالعے مشاہدے اور کانگریس اور اس کے ہندو لیڈروں کے معاملات پر غور و فکر کے بعد بھی انھوں نے وطنیت کے خیال کو ترک کر مسلمانوں کے لیے اُمتِ واحدہ کا تصّور پیش کیا اور خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔کچھ یہی معاملہ خود قائداعظم کے ساتھ ہوا کہ لندن سے واپس آکر جب سیاست میں آئے تو کانگریس ہی میں شمولیت اختیار کی لیکن چھ سات برس کے اندر ہی اندر وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ تنگِ نظر ہندو ذہن میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ چناں چہ وہ بھی کانگریس سے علیحدہ ہوئے اور مسلم لیگ کی بعد از خرابی بسیارِ قیادت سنبھالی بلکہ سنبھالنے پر مجبور ہوئے۔ استاد محترم نے جو یہ دلائل دیے تو میری حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ یہ باتیں کب معلوم تھیں اور معلوم ہوتی بھی تو کیسے۔ کبھی کچھ پڑھا ہوتا، جاننے کی جستجو کی ہوتی۔ پھر اس موضوع پر جو پڑھنے اور جاننے کی جو تگ و دو میں نے کی وہ آج تک جاری ہے۔ ’’پاکستان ماضی اور حال‘‘جو ہمارے شعبے کے نصاب کا ایک مضمون ہے، ہمیشہ نہایت شوق سے یہ مضمون لیتا اور پڑھاتا رہا۔ صرف اس خیال سے کہ جس طرح استاد محترم متین صاحب مجھے اس موضوع پر اندھیرے سے نکال کے روشنی میں لے آئے، میں بھی اپنے طلبہ کی یہی ٰخدمت انجام دوں۔
متین صاحب شعبے میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے علاوہ ’’جسارت‘‘اخبار کے لیے اداریہ نویسی بھی کرتے تھے۔ یہ اداریے مسائل حاضرہ پر نہایت تجزیاتی، مدلل اور اسلوبِ تحریر کے اعتبار سے لائق مطالعہ اور ہوش مندانہ۔ بھٹو حکومت کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں کا پول جس جؤات مندی سے ان اداریوں میں کھولا جاتا تھا، اس سے خود بھٹو مرحوم کا پیمان�ۂ صبر لبریز ہوجاتا تھا۔ چناں چہ ایڈیٹر ’’جسارت‘‘ ان ہی اداریوں کی پاداش میں جیل جاکر قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں، اخبار الگ بند ہوا۔ یہ بات قریبی حلقوں کے سوا بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ اداریے محمد صلاح الدین نہیں، متین الرحمن مرتضیٰ لکھتے ہیں۔ جسارت (اور بعد میں تکبیر ) کے اداریوں پر اس کے ایڈیٹر کا امیج بنتا رہا ا ور متین صاحب گم نام ہی رہے۔ لیکن اس کا کوئی قلق کبھی ان کے دل میں پیدا ہی نہ ہوا۔ سازشی عناصر اس پہلو کی طرف اشارہ کر کے جب بھی متین صاحب کو ایڈیٹر جسارت سے بدگمان ا ور برگشتہ کرنا چاہتے، متین صاحب کا جواب یہ ہوتا تھا
’’بھئی اگر ان اداریوں کا کریڈٹ میرے بجائے محمد صلاح الدین کو دیا جاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اس لیے کہ صلاح الدین صاحب خود بہت اچھا لکھتے ہیں‘‘
دونوں کی دوستی مثالی تھی۔ ’’جسارت‘‘جماعت اسلامی کا ترجمان تھا۔ لیکن ہر دو حضرات نے اخبار کی پالیسی خصوصاً بھٹو کے عہد ستم میں ایسی رکھی کہ ’’جسارت‘‘اپوزیشن کی آواز بن گیا۔ اس کے پہلے صفحے پر خان عبدالولی خان ایئر مارشل (ر) اصغر خان، شیر باز مزاری اور اپوزیشن کے دیگر رہ نماؤں کے بیانات سرخیوں اور شہ سرخیوں میں چھپتے رہے۔ جن لیڈروں کو حکومت کے خوف و احتیاط سے دوسرے اخباروں کے خبری صفحات پر جگہ نہ ملتی، ان کے بیانات ’’جسارت‘‘میں نمایاں کرکے چھاپ دیے جاتے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخبار کی سرکولیشن تقریباً ۷۵ ہزر تک پہنچ گئی۔ اس زمانے میں ’’جنگ‘‘کے سوا اتنی سرکولیشن مشکل ہی سے کسی اخبار کی تھی۔ اپوزیشن کے رہ نماؤں کے بیانات پر اداریے بھی قلم بند کیے جاتے رہے۔
ایک واقعہ جو مجھے متین صاحب ہی نے سنایا جس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اخبار کی ادارتی پالیسی ’’جماعتی اخبار‘‘ہونے کے باوجود کتنی آزاد تھی۔ ہوا یہ کہ ۷۰ ء کے انتخابات کے زمانے میں مولانا مودودی نے امیر جماعت کی حیثیت سے بیان دیا کہ جماعت اسلامی انتخابات جیت کر قوم و ملک کو اسلامی آئین دے گی۔ متین صاحب نے مولانا کے اس بیان کو اپنے اداریے کا موضوع بنایا اور اس پر کڑی گرفت کی۔ اداریہ نویس کا مؤقف تھا کہ اسلامی آئین دینا قوم کے منتخب نمائندوں کی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ مولانا اگر یہ بیان دیتے کہ تمام دینی اور مذہبی جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوکر ایک اسلامی آئین پارلیمنٹ سے نافذ کرائیں گی تو یہ زیادہ قرین حقیقت بات ہوتی اور اس سے اختلافات ابھرنے کا اندیشہ بھی جاتا رہتا۔ وغیرہ۔ اگلے روز اخبار چھپ کر آیا تو جماعت کے حلقوں میں کہرام سا مچ گیا۔ اس لیے کہ یہ تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ خود جماعت کے اخبار میں بانی اور امیر جماعت کے کسی بیان کا پوسٹ مارٹم بھی ہوسکتا ہے۔ بہت تنقید ہوئی، بہت انگلیاں اٹھیں۔ وہ تو خدا کا کرنا یہ ہوا کہ جس دن اخبار چھپ کر آیا، مولانا نے اداریہ پڑھ کر فوراً ہی اخبارات کو ایک وضاحتی بیان میں اپنے پرانے مؤقف سے رجوع کرلیا، اس بات میں ذرا مبالغہ نہیں کہ مولانا کی آنکھیں بند ہوتے ہی جنرل ضیاء کے دور میں یہ اندیشہ سچ ثابت ہوا۔ محمد صلاح الدین کی’’جسارت‘‘کی انتظامیہ سے جو تنازع پیدا ہوا اس کی وجہ بھی متین صاحب کا ایک اداریہ تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا اعلان کیا جس کا پیپلز پارٹی اور بعض دوسری جماعتوں نے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ان ہی دنوں ترکی کی فوجی حکومت نے بھی ترکی میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں کی سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصّہ لینے کا اعلان کیا۔ متین صاحب نے اپنے ادرایے میں ترکی کے سیاست دانوں کے اس فیصلے کو دُو ررسِ اور دانش مندانہ قرار دیا اور اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے کو سیاسی بالغ نظری سے عاری، کوتاہ اندیشی اور جذباتی فیصلہ ٹھہرا کہ اس پر کڑی تنقید کی۔ اداریے کی اشاعت نے اخبار کے منیجنگ ڈائریکٹر کو سخت مشتعل کیا اور انھوں نے متین صاحب کو اس اداریے پر سرزنش کرتے ہوئے اس مؤقف سے رجوع کرنے کا مطالبہ کیا۔ متین صاحب اپنی لکھنے لکھانے کی آزادی کے معاملہ میں نہایت حساس تھے، انھوں نے یہ کہہ کر اپنے مؤقف سے دست بردار ہونے سے انکار کردیا کہ کیا آپ مجھے کان پر قلم رکھ کر لکھنے والا کوئی ایسا منشی سمجھتے ہیں کہ آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی لکھ دوں گا۔ میں و ہی لکھو ں گا جسے اپنی عقل اور ضمیر کی روشنی میں سچ سمجھوں گا۔ آپ کو پھر ایسا ہی کوئی اداریہ نویس تلاش کرنا چاہیے جو آپ کے کہے پر لکھے۔ مجھ سے تو یہ نہ ہوسکے گا۔ منیجنگ ڈائریکٹر صاحب جلد طیش میں آجایا کرتے تھے، بعد میں ٹھنڈے بھی پڑ جاتے تھے۔ لیکن اس معاملے میں بعد میں بھی ان کا غصّہ ٹھنڈا اس لیے نہ پڑا کہ لاوا پہلے سے پک رہا تھا۔ جنرل ضیاء کی اسلامی قانون سازی اور اسلامی اقدامات کی جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت حامی تھی خصوصاً امیر جماعت میاں طفیل محمد تو جنرل ضیاء کی حمایت کے معاملے میں اتنے ہی جذباتی تھے جتنی جذباتی کراچی جماعت کی قیادت جنرل ضیاء کی مخالفت کے حوالے سے تھی۔کراچی جماعت کا مؤقف یہ تھا کہ جنرل ضیا کا مارشل لا جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں، لہٰذا بحالی جمہوریت کے لیے جماعت کو پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ چوں کہ اداریے میں جو مؤقف اختیار کیا گیا تھا اس کی ضرب پیپلز پارٹی پر پڑتی تھی اس لیے جب متین صاحب نے اپنے اداریے سے رجوع کرنے سے صاف انکار کردیا تو مینیجنگ ڈائریکٹر صاحب نے فرمایا:
’’کیا اب ’’جسارت‘‘کی پالیسی آپ لوگ (صلاح الدین اور متین صاحبان) بنائیں گے؟ کیا یہ فیصلہ آپ حضرات کریں گے کہ جماعت کو کسی سیاسی معاملے میں کیا پوزیشن لینی ہے‘‘۔
جب یہ بحث و تکرار کسی نتیجے پر نہ پہنچی تو ایم ڈی اخبار نے اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کیا اور متین صاحب سے کہہ دیا کہ وہ اس ذمّہ داری سے خود کو فارغ سمجھیں۔ یہ اطلاع صلاح الدین صاحب تک پہنچی تو انھوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اداریے کی اشاعت کی ذمّہ داری ایڈیٹر کی ہوتی ہے اور چوں کہ اداریہ بہ حیثیت ایڈیٹر میری اجازت سے شائع ہوا ہے تو اس کی ذمّہ داری قبول کرتے ہوئے میں بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوتاہوں۔ اس زمانے میں بھٹو حکومت کے مظالم سہنے کی وجہ سے محمد صلاح الدین کی جرأت و بے باکی نے ان کی شہرت کو ملک گیر بنادیا تھا اور صلاح الدین و جسارت لازم و ملزوم سے ہوگئے تھے۔ لہٰذا ان کے استعفیٰ دینے سے ادارہ اچانک بحران کا شکار ہوگیا۔ اندرون خانہ صلح صفائی کی کوششیں ہوتی رہیں۔ میں اسی اخبار سے وابستہ تھا اور اس وفد کا بھی حصّہ تھا جو ایڈیٹر اور منیجنگ ڈائریکٹر کے مابین اختلافات ختم کرانے کے لیے غیر رسمی طور پر کام کررہی تھی۔ آخرِکار وفد کو ناکامی کا مُُنہ دیکھنا پڑا۔ہر دو حضرات کی علیحدگی عمل میں آئی چناں چہ جیسے ہی صلاح الدین صاحب کا استعفیٰ منظو ر ہوا، میں نے بھی فوراً ہی اپنا استعفیٰ لکھ کر بھجوادیا۔ اس لیے کہ میں اس اخبار سے متین صاحب کے اصرار و پیش کش پر وابستہ ہوا تھا۔ ’’نوائے وقت‘‘کراچی سے نکلا تو میں نے ابتدا میں وہاں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہمایوں ادیب جو اس کے پہلے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے، لاہور سے آئے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے انٹرویو کے لیے پیش ہوا۔ دو دن چکر لگانے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ کسی نامعلوم سبب سے وہ مجھے رکھنا نہیں چاہتے۔ اپنی مطبوعہ تحریروں کا پلندہ اٹھائے دفتر ’’نوائے وقت‘‘سے مایوس نکل کر گرومندر کے اسٹاپ پہ کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے تویاد آیا کہ استاد محترم متین صاحب کئی بار ’’جسارت‘‘اخبار سے وابستگی کی کھلی آفر کرچکے ہیں اور میں بعض وجوہ سے وہاں جانے سے گریزاں تھا۔ بس اسٹاپ پہ ان باتوں کو سوچتے ہوئے خیال آیاکہ میں اس اخبار میں ملازمت کا خواہاں ہوں جو میری ناقدری پر تلا ہوا ہے اور جہاں قدر ہورہی ہے جس اخبار کے دروازے مجھ پر کھلے ہوئے ہیں وہاں جانے سے میں انکاری ہوں۔ مگر کیوں؟ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دفتر جسارت پہنچانے والی بس سامنے آکھڑی ہوئی۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چھلانگ مار کر بس پر سوار ہوگیا۔ دفتر’’جسارت‘‘کی سیڑھیاں چڑھ کر اندر پہنچا تو ایک کمرے میں استاد محترم کو اداریہ لکھنے میں مصروف پایا۔ انھوں نے سراٹھاکے استفہامیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔
عرض کیا:’’بہ سلسلہ ملازمت حاضر ہوا ہوں‘‘۔
یہ سن کے خوش ہوئے۔ اداریے کا قلم کاغذ پر رکھا اور میرا ہاتھ تھام کے ایڈیٹر جسارت کے کمرے میں لے گئے۔ صلاح الدین صاحب پہلے سے واقف تھے کہ رسالہ عقاب کے لیے ان کا ایک عدد انٹرویو کرچکا تھا۔ متین صاحب نے یہ کہتے ہوئے ایڈیٹر صاحب کی خدمت میں پیش کردیا۔
’’لیجیے۔ صاحب زادے آگئے ہیں‘‘
اس فقرے سے قیاس کیا کہ خاکسار کی تقرّری کی بابت ہر دو حضرات میں پہلے سے کوئی بات چیت ہوتی رہی ہے۔ یوں میں ’’جسارت‘‘سے منسلک ہوگیا اور استاد محترم کی یہ کرم نوازی نہایت ’’بابرکت‘‘ثابت ہوئی کہ ’’جسارت‘‘میں صلاح الدین صاحب کی ادارت میں کام کرنے کی مکمل آزادی رہی اور تقریباً اکثر شعبوں میں کام کرکے بہت سیکھا۔ یہ بھی جانا کہ صحافت کے طلبہ کو اپنے کیریر کے آغاز میں کسی بڑے اخبار کے بجائے کسی چھوٹے ادارے کو ترجیح دینا چاہیے۔ بڑے اخبار میں کام کرنے اور کام سیکھنے کی آزادی کے وہ مواقع بہر حال نہیں ملتے جو چھوٹے اخبار میں باآسانی مُیسّر آتے ہیں۔
متین صاحب نے جس طرح ’’جسارت‘‘میں آگے چل کر پُر آشوب دن دیکھے، ’’جسارت‘‘سے ان کی وابستگی نے شعبے میں بھی بہ حیثیت استاد ان کی غیر جانب داری کو سیاسی طلبہ اور سیاسی اساتذہ میں مشکوک بنائے رکھاجس کا اظہار انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد میرے انٹرویو میں کیا۔ لیکن وہ طلبہ جن کے ذہن اور ضمیر کو بیمار زدہ سیاست نے مسموم نہ کیا تھا، انھوں نے متین صاحب کے علم اور دیانت و امانت کی ہمیشہ قدر کی اور ان سے نہایت ادب اور تعظیم سے پیش آئے۔ بلاشبہ وہ شعبے کے دو ایک اچھے اساتذہ میں سے تھے جو طلبہ کو صحافت کے ادب آداب اور تکنیک سکھانے کی اہلیت و مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے طلبا و طالبات کو اعلیٰ صحافتی اقدار سے روشناس کرانے کے علاوہ ان میں کردار کی خوبیاں پیدا کرنے کی بھی کوششیں کیں۔ وہ اکثر مسائل کو خواہ وہ تعلیم کے ہوں یا سیاست کے، اخلاقی پیمانوں پر پرکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ ہمارے دانش ور ملک کو درپیش سیاسی اور اقتصادی بحران کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اخلاقی بحران جو اکثر بحرانوں کی جڑ بنیاد ہے، اس کا تذکرہ نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ شعبے کے ان دنوں مشیر امور طلبہ تھے اور اس حیثیت میں وہ طلبا و طالبات کو اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ہر سرگرمی کی اجازت دیتے تھے لیکن جب بھی کچھ طلبہ جو اپنے والدین کی غفلت اور عدم تربیّت کی وجہ سے اخلاقیات کے کسی بھی تصّور سے قطعی بے بہرہ ہوتے تھے۔ متین صاحب کی اس اخلاقی پالیسی کو روک ٹوک اور بے جا قدغن سمجھ کر بیزار رہتے اور اس کو ’’جماعتی تنگ نظری‘‘سے تعبیر کرتے۔
چناں چہ ایسے ہی کسی واقعے میں جب ’’مادر پدر آزاد‘‘کچھ طلبہ نے ان کے کسی ایسے ہی مؤقف کو ماننے سے انکار کیا تو متین صاحب مشیر امور طلبہ کی ذمّہ داری سے استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ رہے۔
مجھے یاد ہے کہ اس صورت حال کا علم ہوا تو میں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کے حق میں مُہم چلائی۔ شعبے کے سنجیدہ طلبہ میں تو پہلے ہی سے ان کا احترام، پایا جاتا تھا۔ انھوں نے ہمارا ساتھ دیا اور یوں ہم متین صاحب کو مناکر دوبارہ مشیر امور طلبہ کا منصب سنبھالنے پر رضامند کرنے میں کامیاب رہے۔
میں ان سے یوں بھی قریب تھاکہ جمعّیت کے اخبار ’’تحریک‘‘اور یونین کے رسالے ’’الجامعہ‘‘کے لیے جب بھی اداریہ لکھتا تو نظر ثانی اور اصلاح کے لیے ان کی خدمت میں ضرور پیش کرتا تھا۔ وہ کہیں کوئی لفظ کاٹ کر موزوں لفظ لکھ دیتے۔ کبھی کسی تعلیمی مسئلے کی بابت کسی دلیل کی کمی پاتے تو زبانی بتادیتے جس کا میں بعد میں اداریے میں اضافہ کردیتا تھا۔ ایک مرتبہ خواتین یونی ورسٹی کے جواز پر کہ جمعیت کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ یونی ورسٹی قائم کی جائے۔ میں نے ایک اداریہ لکھنے کے لیے ان سے اس موضوع پر اپنا ذہن صاف کرنے کے لیے تبادلۂ خیال کیا۔ وہ بھی خواتین یونی ورسٹی کے حامی تھے، لہٰذا وہ اس کے حق میں خاصی دیر تک نہایت مدلّل گفتگو کرتے رہے۔ میں نے ان کے بتائے ہوئے پوائنٹس ذہن میں محفوظ کرلیے لیکن جب اداریہ لکھ کر ان کے پاس لے گیا تو وہ پڑھ کر اک ذرامتعجب ہوئے۔ پھر پوچھا:
’’یہ معلومات تمھیں کہاں سے ملیں؟‘‘
اس لیے پوچھا کہ اداریے میں ان کے دلائل رقم کرنے کے بجائے میں نے استاد محترم پروفیسر ز کریا ساجد جو فرانس اور امریکا میں طویل عرصہ مقیم رہ کر تشریف لائے تھے، ان سے مل کر یہ معلوم کرلیا تھا کہ کیا مغرب کے ان تعلیم یافتہ ملکوں میں لڑکیوں کے لیے الگ یونی ورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں، یا ساری تعلیم مخلوط اداروں میں دی جاتی ہے او ر ساجد صاحب نے یہ بتا کر مجھے حیران کردیا تھا کہ وہاں اعلیٰ تعلیم دینے کے لیے لڑکیوں کے علیحدہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ انھوں نے ان اداروں کے نام بھی گنوادیے۔ ظاہر ہے جب یہ معلومات ملیں تو اداریے کے دلائل مجرّد اور اصولی و نظریاتی ہونے کے بجائے ٹھوس حقائق پر قائم ہوگئے۔ جب میں نے متین صاحب کے استفسار پر حقیقت حال سے انھیں آگاہ کیا تو وہ خوش ہوئے۔ زبان سے تو کچھ نہ کہا لیکن انداز سے محسوس ہوگیا کہ انھیں اداریہ لکھنے کے لیے میری ’’مشقت‘‘اچھی لگی۔
حضرت عمرؓ کا قول مبارک ہے کہ کسی آدمی کو پہچاننا ہو تو اس کے ساتھ دستر خوان میں شریک ہو، اس کے ہمراہ سفر کرو یا پھر
(باقی صفحہ 41پر)