صوفی بزرگ وبلند پایہ شاعر عبدالصمد تاجیؔ

448

صوفی بزرگ وبلند پایہ شاعر عبدالصمد تاجیؔ
درد و غم کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاقت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں
(مذاق ؔ بدایونی)
حوالہ: ’’نغمۂ عنادل‘‘ ص 563
1909 ء حیدرآباد دکن
یہ قدرتی امر ہے کہ انسان کبھی چند، کبھی کچھ اور کبھی تمام خوبیوں میں اپنے اسلاف کا پرتو ہوتا ہے اور اسی لیے وہ ان سے ایک نسبت کا مظہر کہلایا جاتا ہے۔
چونکہ سعادت و شقاوت، نور وظلمت، طاعت و عصیاں فطرتِ انسانی میں بطور جبلت ودیعت کی گئی ہیں، پس جب دنیاوی راحتوں اور فانی آسائشوں نے نفوسِ انسانی کو سیدھے راستے سے بھٹکاکر غلط راہوں پر ڈال دیا اور یہ جبلتیں نفسِ انسانی میں ہیجان برپا کرکے نورِ ایماں کی پاکیزہ فضاؤں میں اندھیرے کا باعث بن کر ہر طرف چھانے لگیں تو احیائے دینِ مبین کے لیے اللہ عزوجل نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر فضائے عالم کو نورِ ایماں کی روشنی سے منور فرمایا اور بعدِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ نے صلحا وعرفاء، اقطاب و ابدال کو اپنے پاکیزہ انفاس و اعمال سے ان خرابیوں اور فتنہ سامانیوں کو دور کرنے کے لیے پیدا فرمایا۔
یہ امر حقیقت ہے کہ یہی برگزیدہ بندے مبلغینِ دین کہلائے۔ یہ اصحابِ صالح سیرتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیّن پیکر تھے جنہوں نے فقر و درویشی، حسنِ اخلاق اور پاکیزہ کردار کے باعث لوگوں کے دلوں پر اس طرح حکمرانی کی کہ ارادت مندوں نے بلاپس و پیش انہی صالحین کی اتباع کو اپناکر اپنی زندگی کی راہوں کو استوار کرلیا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ نظر آئے جہاں ان صالحین نے روشنی نہ پھیلائی ہو۔ اور یہ انعام ربانی ہے کہ ان کا فیض آج بھی اسی طرح جاری ہے جیسا کہ ان کی حیاتِ ظاہری میں تھا۔
صالحین کی اس قطار میں ہمارے جدِ بزرگوار، عرفانیت کے پیکر حضرت مولانا محمد دلدار علی المعروف مذاقؔ میاںؒ صاحب بدایوانی بھی شامل ہیں۔ آپ کا تذکرہ مختلف کتابوں میں موجود ہے۔ 1235 ہجری آپ کا سنِ ولادت ہے۔ مادہ تاریخ ولادت ’’معرفتِ کردگار‘‘ ہے۔ والدہ گرامی کی طرف سے سلسلۂ نسب 29 واسطوں سے حضرت امام حسینؓ بن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے۔ اور والدِ گرامی کی جانب سے 23 واسطوں سے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے۔ عربی، فارسی، خوش نویسی، ذوقِ معرفت، راہِ سلوک و طریقت کے آداب و رموز کی ابتدائی تعلیم اپنے نانا سید عبدالعلی نقویؒ سے حاصل کی۔ بعدہٗ ملا غفران اخونؒ فقیہ محدث رامپوری سے ’’شرح وقایہََ اور ’’آخر ہدایہ‘‘ کی تعلیم حاصل کی۔ تحصیلِ علوم ظاہری اور تکمیل تربیتِ باطنی کے بعد سید عبدالعلی نقویؒ صاحب نے اپنے دادا پیر حضرت قطبِ آفاق سید شاہ عبدالرزاقؒ کی کلاہ مبارک اور سندِ اجازت بطور خلافت عطا فرمائی۔ آپ کے والدِ محترم کے حقیقی چچا علامہ شاہ نصیرالدینؒ بن مولانا قاضی محمد ابوللیثؒ نے سلسلۂ اویسیہ، قادریہ، رسول نمائیہ کی اجازت مرحمت فرمائی، جبکہ والد گرامی قدر جناب حافظ نثار علیؒ صاحب کو ان کے والد ’’ملا قطب الدینؒ ‘‘ صاحب سے، ان کو ان کے شیخ ’’شاہ حسن علیؒ ‘‘ صاحب سے، اور ان کو حضرت مولانا فخرالدین محب النبی چشتی دہلویؒ سے چشتیہ، نظامیہ، کمالیہ، مخریہ سلسلے کی نعمتیں بھی حاصل تھیں جو آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت مولانا دلدار علی المعروف مذاقؔ میاںؒ صاحب کو عطا فرمائیں۔ اسی طرح اُس وقت کے دیگر بزرگانِ دین مولانا حافظ سید شاہ فضل غوث ساقیؔ میاںؒ ، حضرت شاہ حافظ نصیرؒ گوالیاری، حافظ عبدالصمد ؒ صاحب مراد آبادی، حضرت سید فتح علی میاں جیلانی ؒ اور سرسید احمد خان کی والدہ کے حقیقی چچا حضرت خواجہ نجیب الدین ؒ المعروف بہ سید شاہ فدا حسین عرف تھکا شاہ کی جانب سے بھی اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے، اس ضمن میں آپ کی ولادت بھی ایک کرامت ہے۔
آپ کے نانا مولوی سید عبدالعلی نقویؒ جو اپنے عہد کے جیّد عالم اور سلسلۂ قادریہ رزاقیہ کے صاحبِ نسبت بزرگ تھے اور حضرت شاہ نجات اللہ کرسویؒ کے مرید و خلیفہ تھے، نے فرمایا کہ ’’حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ نے مجھے خواب میں بشارت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایک فرزندِ ارجمند عطا کرے گا جو بڑے مرتبے کا حامل ہوگا۔ ایسی صورت شباہت ہوگی اور یہ نام ہوگا‘‘۔ بالآخر جب سید صاحب کے چھوٹے صاحبزادے پیدا ہوئے تو ان کو دیکھ کر آپ نے فرمایا ’’یہ وہ بیٹا نہیں ہے‘‘۔ چنانچہ ان کا نام سید دولت علیؒ رکھا گیا۔ تقریباً دو سال بعد سید عبدالعلی ؒ کی صاحبزادی سیدہ عمدۃ النسا کے ہاں ولادتِ سعید مذاقؔ میاں کی صورت میں ہوئی۔ آپ نے دیکھ کر فرمایا ’’یہی وہ فرزند ہے‘‘ اور حسب الحکم حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ آپ کا نام دلدار علی رکھا اور اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ اس کو دودھ پلاؤ یہ ہمارا بیٹا ہے۔ اس طرح مذاقؔ میاں کی پرورش آپ کے ماموں سید دولت علیؒ صاحب کے ساتھ بیٹوں کی طرح ہوئی۔
ہر اک ولی کو ہی دلدارِ علی ہیں محبوب
بشارتِ علی حیدرؓ ہیں یہ مذاق نہیں
(سید شکیل ہاشمی)
حضرت محمد دلدار علی المعروف مذاقؔ میاں شعری ذوق کے حامل تھے۔ بڑے بڑے اساتذہ آپ کے ہمعصر تھے۔ 1253ھ میں پہلی بار خاقانیِ ہند شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کی خدمت میں حاضر ہوکر فی البدیہہ قطعہ عرض کیا:
کیا کروں عرضِ اشتیاق اپنا
شعر کہنا غرض تھا شاق اپنا
ذوق تھا یہ تیرے تلمذ کا
کہ تخلص کیا مذاقؔ اپنا
(مذاقؔ )
قطعہ سن کر استاد ذوقؔ نے سینے سے لگالیا۔ بطور تبرک چند اشعار پیش کررہا ہوں، ان اشعار پر ہمعصر شعرائے کرام کی آرا کتابوں میں محفوظ ہیں۔ آپ کا شعری دیوان ’’کلام دلدار علی مذاقؔ ‘‘1880 ء میں وکٹوریہ پریس بدایوں سے شائع ہوا، طبع دوم 1964 ء عزیز آرٹ پریس ڈھاکا۔
کیا نعت مصطفیؐ کی ہو کیا مدحِ مرتضیٰؓ
صلِ علیٰ نبی و سلام علیٰ علی
۔۔۔۔۔۔
عشقِ خالِ بتاں سے ہوگی نجات
کیونکہ نکتہ نواز ہے اللہ
۔۔۔۔۔۔
مذاقؔ ساقیِ کوثر مجھے سنبھالیں گے
نشے میں بگڑی طبیعت میری اگر بن کر
۔۔۔۔۔۔
حباب موج سے ٹوٹا جو آشنا ہو کر
وہ آبِ بحر بقا ہو گیا فنا ہو کر
۔۔۔۔۔۔
مرتے ہیں ہر دم لبِ جاں بخش پر
ہم کو تو مرنے کی بھی فرصت نہیں
۔۔۔۔۔۔
دن کے دن مل لو خدا جانے پھر آئیں نہ آئیں
رات کی رات ہیں مہمانِ سحر جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
تم آکے پہلو میں بیٹھے کہ دردِ دل اٹھا
ہمارے جی کا مرض ہو گئے دوا ہو کر
ان اشعار پر میر مہدی مجروحؔ ، منشی امیر احمد مینائی، خورشید نفیس لکھنوی، اسد اللہ خان غالبؔ ، مومنؔ ، ناسخؔ لکھنوی، نظام الدین ممنونؔ دہلوی اور فصیح الملک مرزا داغؔ دہلوی کے تبصرے کتب میں موجود ہیں۔
حکیم مومن خان مومن نے اپنے مکان پر مذاقؔ میاں سے شعر سنانے کی فرمائش کی۔ آپ نے درج ذیل اشعار سنائے:
آج آتے ہیں وہ کچھ آنکھوں میں فرماتے ہوئے
سحر اور اعجاز اک پردے میں دکھلاتے ہوئے
دشتِ وحشت تنگ پایا جی میں آتا ہے یہی
وادیِ دل میں پھریں زنجیر کھڑکاتے ہوئے
اس شعر پر مومنؔ نے فرمایا’’یہ استادانہ کلام ہے۔‘‘
راہِ غربت میں غذا تُو ہم غریبوں کی نہ پوچھ
جاتے ہیں منزل بمنزل ٹھوکریں کھاتے ہوئے
برصغیر میں سہرا لکھنے کی ابتدا 1854ء سے کچھ قبل ہوئی۔ پہلے مرزا غالبؔ اور اس کے بعد استاد ذوقؔ نے شہزادہ جواں بخت کی شادی کے موقع پر سہرے لکھے، اسی دور میں مذاقؔ میاں نے بھی سہرا لکھا جو اپنی انفرادیت کی وجہ سے مقبول ہوا۔
آپ نے مناقب، قصائد، سلام، خمسہ جات، مسدس، مثنوی اور غزلیات بھی لکھیں، مگر چونکہ میلانِ طبیعت تصوف اور درویشی کی طرف زیادہ مائل تھا اسی لیے غزلیہ شاعری کو نہ صرف ترک کیا بلکہ کافی کلام دریا برد کردیا اور خود کو صرف ’’حمد و نعت‘‘ تک محدود کرلیا۔
حضرت سید دلدار علی مذاقؔ بدیوانیؒ کا وصال 10 ربیع الثانی 1312ھ مطابق اکتوبر 1894ء کو ہوا۔ مزار پُرانوار بدایوں میں مرجع خلایق ہے۔ حضرت سید دلدار علی مذاقؔ میاں بدایوانی کا روحانی فیض آج بھی جاری ہے۔ آپ نے اپنے صاحبزادے جناب ایثار علی شاہؒ المعروف مولوی میاں 1304ھ کو اجازت و خلافت عطا فرمائی، انہوں نے 1379ھ میں وصال فرمایا اور سجادگی چھوٹے صاحبزادے مولوی محمد اسرار علی شایق المذاقی عرف ’’چھوٹے میاں‘‘ کے حصے میں آئی، اور تقسیم ہند کے بعد جناب ایثار علی شاہ نے پاکستان آکر قمر ابرار کے والد الحاج محمد ابرار علی جو آپ سے ہی بیعت تھے، کو بھی مسندِ اجازت سے سرفراز فرمایا۔ آپ کا وصال 3 رمضان المبارک 1434ھ کو کراچی میں ہوا۔ عیسیٰ نگری (ملک پلانٹ) سے متصل قبرستان میں مزار پُرانوار مرجع خلایق ہے۔ آپ ؒ نے اپنی حیات ہی میں حضرت قمر ابرار مودود علی صدیقی چشی نظامی کو مجاز اجازت بیعت فرمایا۔
حضرت مولانا شاہ محمد دلدار علی المعروف مذاقؔ میاںؒ کا عرس مبارک 10 اور 11 ربیع الثانی کو بڑے اہتمام سے فرماتے تھے، جس طرح ’’درگاہِ عالیہ مذاقیہ‘‘ بدایوں شریف میں ہوتا ہے۔ ہر شریکِ محفل اس شعر کا آئینہ ہوتا ہے:
مذاقؔ جام معرفت سے میں رہوں سرشار
نہ اُترے ساقیِ کوثر کے میکدے کا نشہ
اب یہ تقریبات قمرابرار صاحب کے غریب خانے پر جاری و ساری ہیں۔ (حضرت کا شعری دیوان) تیسرے ایڈیشن پر کام جاری ہے۔
چمن کہ تاقیامت گل اور بہار بادہ
nn

حصہ