بہت عرصہ پیشتر شاعر نے کہا تھا
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
بازی گری اور دھوکا دہی تک تو بات شاید کس حد تک قابل برداشت تھی مگر اب لوگ گوئبلز کے فلسفہ کو حرز جان بنائے ہوئے ہیں کہ جھوٹ بولو اور جی بھر کے بولو اور اس تسلسل سے بولو کہ وہ سچ پر غالب آ جائے، خصوصاً جب سے جدید ذرائع ابلاغ نے معلومات کی فراہمی کے کام پر اپنا تسلط جمایا ہے تو سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا محال ہو گیا ہے۔ پوری دنیا اس وقت دہشت گردی کے عفریت کی لپیٹ میں ہے اور امریکہ کی قیادت میں مشرق و غرب کے تمام ممالک اس کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں مگر دہشت گردی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے، دنیا کے کسی ایک خطے میں اسے کسی حد تک قابو کیا جاتا ہے تو یہ دوسری جانب سر نکال لیتی ہے۔ ابھی چند روز قبل دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سرخیل امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے واشنگٹن میں اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد تنظیم داعش نے انسانیت کے خلاف جنگ مسلط کر رکھی ہے، ان کا کہنا تھا کہ داعش نے طاقت کے ذریعے مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر ہم اس کی یہ کوشش نا کام بنا دیں گے اور آئندہ ایک سال میں داعش کو کچل کر رکھ دیا جائے گا۔‘‘
جناب جان کیری کی تشویش بھی اپنی جگہ بہت برحق اور بجا ہے اور ان کے ایک سال کے اندر اندر دہشت گردوں کو تہس نہس کر کے رکھ دینے کے عزائم بھی یقیناًقابل ستائش ہیں مگر بعض لوگ نہ جانے کیوں ان کی باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور الٹا انہیں ہی دہشت گردوں کی سرپرستی کا مجرم گردان رہے ہیں۔ پہلے ترک صدر طیب اردوان نے الزام عائد کیا کہ امریکہ ’’داعش‘‘ کی حمایت کر رہا ہے، ایک جانب اس نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے مگر دوسری جانب اس کی طرف سے ایک بڑے دہشت گرد گروپ کی حمایت کی جا رہی ہے ایسے میں یہ جنگ کیونکر کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے؟ ترک صدر کے اس الزام کی تائید روسی صدر پیوٹن نے ان الفاظ میں کی کہ امریکہ سمیت چالیس ممالک ’داعش‘ کی مدد اور فنڈنگ کر رہے ہیں۔۔۔ !!!
بات یہی تک رہتی تو کہا جا سکتا تھا کہ ترکی اور روس کے یہ دونوں امریکہ کے خلاف اپنے اندرونی بغض کے سبب یہ الزام تراشی کر رہے ہیں جس سے وہ بین الاقوامی سیاسی اور سفارتی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر جب کوئی گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھانے پر اتر آئے تو پھر کیا کیا جائے۔۔۔ ؟؟؟ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ گزشتہ اختتام ہفتہ امریکہ میں فلو ریڈا کے ہوائی اڈے پر ایک شخص نے اندھا دھند فائرنگ کر کے پانچ افراد کو ہلاک کر دیا۔۔۔ یہ سیدھی سیدھی دہشت گردی کی کارروائی تھی اور یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی امر مائع نہیں تھا کہ یہ ناہنجار دہشت گرد کوئی انتہا پسند ، بنیاد پرست مسلمان ہی ہو گا۔۔۔ مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ فائرنگ کرنے والا یہ شخص پکڑا گیا۔۔۔ گرفتاری کے بعد اس اٹھائیس سالہ نوجوان اسٹیبان سانتیاگو سے جو کچھ برآمد ہوا اس میں اس کا امریکی فوجی شناختی کارڈ اور ایک تصویر بھی شامل ہے جس میں وہ ’داعش‘ کے مخصوص انداز میں ایک انگلی کے اشارے سے سلیوٹ بھی کر رہا ہے، بتایا گیا ہے کہ اس کا تعلق نیوجرسی سے ہے تاہم اس کا موجودہ پتہ فلوریڈا کے علاقے نیپلز کا درج ہے۔۔۔ وہ 2007ء سے 2016ء تک پیورٹو رائس نیشنل گارڈ میں کام کرتا رہا اس دوران اس نے 2010ء اور 2011 ء میں عراق میں بھی فوجی خدمات انجام دیں۔ گزشتہ برس ’ریڈی ریزرو‘ میں منتقل کئے جانے سے قبل سانیتاگو کو نصف درجن میڈلز بھی عطا کئے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ حالیہ واردات سے قبل وہ الاسکا سے فلوریڈا آیا تھا اور دوران پرواز جہاز میں اس کا دوسرے مسافروں سے جھگڑا ہوا تھا۔ سفر کے اختتام پر لاؤنج میں پہنچ کر اس نے بیت الخلاء میں جاکر پستول لوڈ کیا اور باہر آ کر لوگوں کے سروں کا نشانہ لے کر گولیاں چلانا شروع کر دیں اور اس کام سے فارغ ہو کر اس نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔۔۔!!!
یہ واضح طور پر دہشت گردی کی واردات ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ملزم نہ تو خود مسلمان ہے اور نہ اس کا تعلق کسی مسلمان ملک سے ہے اس لیے اب اسے ’’دہشت گرد‘‘ کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ امریکی ذرائع ابلاغ اسے نفسیاتی مریض قرار دینے اور معاملہ کو دبانے کی بڑی حد تک کامیاب کوششیں کر رہے ہیں۔۔۔ اس ضمن میں اس کی ایک ’’انٹی‘‘ کے حوالے سے یہ بات سامنے لائی گئی ہے کہ عراق میں ڈیوٹی سے واپسی پر سانتیا گو پہلے سے ایک مختلف شخص محسوس ہوتا تھا وہ پریشان رہنا اور بے ربط باتیں کرتا تھا اس دوران اس نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا۔۔۔ اس کیفیت میں وہ ایف بی آئی کے زیر نگرانی بھی رہا اور مقامی میڈیکل سنٹر میں اس کا طبی بھی کرایا گیا اور وہ دو ہفتے ہسپتال بھی رہا۔ اس کو الگ کمرہ دیا گیا اس کے دماغ میں کوئی مسئلہ تھا اور کچھ عجیب چیزیں اس نے سننا شروع کر دی تھیں۔۔۔ یوں لگتا تھا کہ عراق سے واپسی پر وہ اپنا دماغ کھو چکا ہے۔ اس کا اصرار تھا کہ اس نے عراق میں کئی چیزیں دیکھی ہیں۔۔۔ گویا یہ تقریباً طے ہے کہ سانتیاگو ذہنی مریض ہے اور ’’دہشت گرد، نہیں کیونکہ اس میں دہشت گرد کی بنیادی شرط مسلمان ہونا موجود نہیں۔۔۔ اسی لیے امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اس واقعہ پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اس گہرے صدمے میں ہوں اور فلوریڈا کے ہوائی اڈے پر فائرنگ کے اس واقعہ کے محرکات پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔۔۔ !!!
ان ساری تفصیلات سے یہ چیز تو تقریباً طے محسوس ہوتی ہے کہ سانتیاگو دہشت گرد نہیں مگر اس کا کیا کیا جائے کہ خود سانتیاگو نے جو انکشاف کئے ہیں وہ نہایت خوفناک ہیں اور ان سے بہت سے نئے حقائق دنیا کے سامنے آئے ہیں۔ سانتیاگو نے بتایا ہے کہ امریکی ایجنسی سی آئی اے مجھے ’داعش‘ کے ساتھ مل کر لڑنے پر مجبور کرتی رہی، جہادی ویڈیوز دیکھنے کے لیے بھی مجھ پر دباؤ ڈالا جاتا رہا اور سی آئی اے کے اس ناقابل یقین کردار کے بارے میں میں نے ایف بی آئی کو بھی بتایا تھا مگر کسی نے میری بات پر توجہ نہیں دی۔ سانتیاگو کے اس اعترافی بیان کے بعد امریکہ، دہشت گردی، سی آئی اے اور داعش کے تعلق کے حوالے سے ترک و روسی صدر اور بہت سے دیگر ناقدین کے الزامات کی صداقت میں کسی مزید ثبوت کی کیا کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔۔۔ ؟؟؟
’’داعش‘‘ اس وقت دنیا بھر میں دہشت اور ہیبت کی علامت بنی ہوئی ہے، اس کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بھی سنتیاگو کے بیان کی تائید کرتی اور امریکہ اور دہشت گردی کے تعلق کو نہایت خوبصورتی سے واضح کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک خاص صورت حال سے قبل ’’القاعدہ‘‘ اور اس کے قائد ’’اسامہ بن لادن‘‘ کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔۔۔ جہاد افغانستان سوویت یونین کی توسیع پسندی کے خلاف کم و بیش ایک عشرہ تک جاری رہا مگر اس دوران کسی نے ’’القاعدہ‘‘ کا نام تک نہیں سنا، پھر اچانک مغربی ذرائع ابلاغ سے ’القاعدہ‘ کی ایک گردان شروع ہوئی جس کی جگالی دیگر چھوٹے بڑے ممالک کے ذرائع ابلاغ بھی کرنے لگے اور پھر ’’القاعدہ‘‘ اور اسامہ بن لادن‘ کا نام دنیا بھر میں گونجنے لگا۔۔۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ’’داعش‘‘ کی بھی ہے چند سال پہلے تک دنیا اس کے وجود سے ناواقف تھی پھر ڈیڑھ دو سال قبل مغربی ذرائع ابلاغ ہی سے پہلے پہل یہ نام سننے میں آیا۔۔۔!!!
’’داعش‘‘ جس کا انگریزی نام ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ ہے جو پاکستان کی عالمگیر شہرت کی حامل انٹیلی جنس ایجنسی ’’آئی ایس آئی‘‘ سے بہت مشابہت رکھتا ہے، معلوم نہیں یہ مشابہت محض اتفاق ہے یا اس کی پشت پر مغربی ذہنوں میں ’’آئی ایس آئی‘‘ کے خلاف پایا جانے والا مخصوص بغض اور عناد کار فرما ہے بہرحال امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ کہ ان کے علاوہ کسی بھی مسئلہ میں معلومات کی فراہمی کا کوئی ذریعہ تمام تر وسائل کے باوجود کسی مسلمان ملک کے پاس موجود نہیں چنانچہ ہمارے لیے مغرب اور امریکہ کا بتلایا ہوا ہر ہر حرف مستند قرار پاتا ہے، اور انہی مغربی ذرائع ابلاغ کی اطلاع یہ ہے کہ ’’داعش‘‘ سے مراد دولت اسلامیہ عراق و الشام ہے اور اسی کا انگریزی ترجمہ آئی ایس آئی ایس (ISIS) ہے جو اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISLAMIC STATE OF IRAQ AND SYRIA) کا مخفف ہے۔
’’داعش‘‘ کی تاریخ یا پس منظر کچھ یوں بتایا جاتا ہے کہ یہ دراصل ’’القاعدہ‘‘ ہی کی ایک نئی شکل ہے جس کا آغاز اس طرح ہوا کہ 1999ء میں اردن سے تعلق رکھنے والے ابو مصعب الزرقاوی نے ’’توحید والجہاد‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تاہم اس تنظیم کے قیام کو ابھی ایک سال ہی پورا ہوا تھا کہ ابو مصعب الزرقاوی نے ’’القاعدہ‘‘ کے قائد اسامہ بن لادن سے متاثر ہو کر ان سے بیعت کر لی اور اپنی تنظیم کو ’القاعدہ‘ میں مدغم کر دیا اور اسامہ بن لادن نے ’القاعدہ‘ کی عراق شاخ کی ذمہ داری الزرقاوی کے سپرد کر دی تاہم دونوں کے مابین اس وقت اختلافات پیدا ہو گئے جب الزرقاوی کی زیر قیادت تنظیم نے مزارات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی مزارات پر حملوں کو درست نہیں سمجھتے تھے، فریقین میں یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ دونوں کے راستے جدا ہو گئے۔۔۔ کچھ عرصہ بعد الزرقاوی کا انتقال ہو گیا تو ان کی جگہ ابو عمر البغدادی نے تنظیم کی باگ ڈور سنبھال لی تاہم جلدی ہی عراق پر قابض امریکی فوجیوں نے ابو عمر البغدادی کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا دیا تو ابوبکر البغدادی کو تنظیم کی قیادت سونپ دی گئی جس نے 24 جون 2014 ء کو اپنی ریاست ’’دولت اسلامیہ عراق والشام‘‘ (داعش) کے قیام اور دنیا بھر میں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا، یوں دنیا نے پہلی بار ’’داعش‘‘ اور اس کے خلیفہ ابو بکر البغدادی کا نام سنا۔۔۔!!!
یہاں یہ تذکرہ کرنا غیر متعلق اور دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ہونے کے دعویدار یہ ابوبکر البغدادی صاحب 2010ء تک امریکہ کی قید میں تھے، پھر شاید ان کی برین واشنگ مکمل ہو گئی یا امریکی حکمرانوں کی تحقیق و تفتیش کے بعد یہ ثابت ہوا کہ جس شخص کو ہم نے سالہا سال سے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے یہ تو بے گناہ اور معصوم ہے، ہم نے بلاوجہ انہیں مصائب اور اذیتوں سے گزارا چنانچہ اپنے کئے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ نے 2010ء میں انہیں رہا کر دیا اور چونکہ ان کی بے گناہی ثابت ہو چکی تھی اس لیے معمولی معمولی باتوں پر عام لوگوں کی جاسوسی اور سخت نگرانی کرنے والے امریکی حکام نے ’ابوبکر البغدادی‘ نامی ان صاحب کو بالکل آزاد کر دیا اور کسی بھی قسم کی نگرانی ضروری نہیں سمجھی مگر البغدادی صاحب نے اس آزادی اور قید سے رہائی کے احسان کا بدلہ یوں چکایا کہ امریکہ کی ’’دشمن‘‘ ’’دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنی ’’سحر انگیز شخصیت‘‘ کا کمال دکھاتے ہوئے سالہا سال کی امریکی قید سے رہائی کے چند ہی سال بعد پندرہ ہزار حامیوں کی ایک فوج تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی اور پھر اس چھوٹی سی فوج نے عراق اور شام کی باقاعدہ تربیت یافتہ دس لاکھ فوج کو مصیبت میں مبتلا کر دیا اور ایک بڑے علاقہ پر تسلط جما کر وہاں کے وسائل خصوصاً تیل اور گیس کے ذخائر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ کمال یہ ہے کہ ’’داعش‘‘ تیل و گیس کے اپنے زیر قبضہ ذخائر سے اربوں ڈالر کا تیل نکال کر معلوم نہیں کیونکر، کسے اور کیسے فروخت کرتی ہے اور پھر ساری دنیا کے مخالف ہونے کے باوجود نامعلوم کہاں سے اس رقم سے جدید ترین اسلحہ بھی خرید لیتی ہے اور ’’مہذب‘‘ دنیا کے خلاف یہ اسلحہ استعمال بھی کرتی ہے مگر امریکہ سمیت سارے بڑے ممالک اپنے تمام تر مادی وسائل، جدید ترین اسلحہ، بہترین تربیت یافتہ مسلح افواج، اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل جاسوس اداروں اور تنظیموں کی موجودگی کے باوجود بے بسی سے یہ سارا تماشا دیکھنے پر مجبور ہیں ’’داعش‘‘ کو تیل نکالنے سے روک پاتے ہیں نہ اس کی فروخت اور نہ ہی جدید اسلحہ کی خرید اور اس کے استعمال میں کوئی ’’رکاوٹ‘‘ کھڑی کر پاتے ہیں چنانچہ’’داعش‘‘ دنیا بھر کے لیے عظیم خطرہ اور چیلنج بن چکی ہے اور بڑے ممالک اس کی روک تھام کے لیے پاکستان اور اس کی طرح کے دیگر ممالک کو خوفزدہ کرنے اور دباؤ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے۔۔۔ !!!